حسن کی تلاش میں
امریکا کے بحری ساحل پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں۔ اس کے رکے ہوئے پانی کے بہاؤ میں اس کے حسن کی عکاسی ہوتی ہے۔
SWAT:
حسن کے حوالے سے اردو زبان کے عظیم انقلابی اور رومانوی مصنف کرشن چندر کا وہ افسانہ اس وقت صرف میرے ذہن میں ہے اگر ہاتھ میں ہوتا تو اس کے حوالے سے میں اپنے اس کالم کا آغاز کرتا مگر اس وقت میری اسٹڈی ٹیبل پر اس ملک کی عظیم دانشور اور عوامی محبوب رہ نما ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں سے تحریر ہونے والا وہ خط کتابی صورت میں موجود ہے جو انھوں نے کال کوٹھڑی میں اپنی سب سے پیاری بیٹی کے لیے تحریر کیا تھا۔ اس خط میں انھوں نے لکھا تھا کہ ''دنیا تو بہت خوب صورت ہے ایک خوب صورت شے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسرت وشادمانی کا باعث ہوا کرتی ہے۔
سطح مرتفع کی خوب صورتی ہے۔ پھولوں اور جنگلات کا حسن ہے۔نیلے سمندروں اور بل کھاتے ہوئے دریائوں کا حسن ہے۔ سب سے بڑھ کر تو مرد اور عورت کا اپنا حسن ہے جو اللہ تعالی کی مکمل تخلیق ہے۔ میں شیلی کے وجودیت کے نظریے کی حمایت کرتا ہوں حسن ہر جگہ ہے۔ ایک مکمل تباہی والی جنگ میں بھی حسن کو بالکل ملیامیٹ کردینا ممکن نہیں ہوگا۔ حسن اس قدر زیادہ حسن ہے کہ وہ بالکل ختم نہیں ہو سکتا۔ اس قید تنہائی کے بارہ مہینوں میں میں نے ماضی کا کوئی ناخوشگوار منظر مشکل سے ہی یاد کیا ہے۔ جب میں اس قید خانے کی دیواروں کو گھنٹوں تک دیکھتا رہتا ہوں تو ماضی کے بہت سارے واقعات میرے ذہن میں آتے ہیں۔
ماضی کے کچھ مناظر ازسرنو نظروں کے سامنے آئے ہیں جو کبھی بھی میری نظروں کے سامنے دوبارہ نہیں آتے۔ اگر میں یہاں مقید نہ کیا جاتا، میں نے بار بار اپنے بچپن کے زمانے کو جو میں نے گڑھی خدابخش میں گذارا تھا ان برسوں کو جو میں نے بمبئی میں اسکول میں گذارے اور ان آب و تاب والے برسوں کو جو میں نے بریک لے اور آکسفورڈ میں گذارے یاد کیا ہے۔ آگرہ کے تاج محل کی شاہانہ شان و شوکت بار بار میرے ذہن میں آتی ہے اسی طرح مجھے وہ پرسکون دن یاد آتے ہیں جو میں نے سرینگر، گلمرگ اور پہلگام میں گذارے تھے۔ وادی کشمیر حیرت انگیز طور پر خوب صورت ہے۔
اپنے طور پر یورپ کا حسن عدیم نظیر ہے۔ کوئی شخص بھی اس طمانیت قلب کو نہیں بھول سکتا جو کرائیسٹ چرچ کے سبزہ زاروں میں چہل قدمی کرکے حاصل ہوتی ہے اور نہیں کوئی فرد کیلیفورنیا میں ساحل سمندر پر کارمل کی طلسماتی کشش کوفراموش کر سکتا ہے۔ '' اس خط میں ذوالفقار علی بھٹو نے حسن کے حوالے سے یہ بھی لکھا تھا کہ یورپ آب و تاب والا اور محبت کیے جانے کے قابل ہے۔ وہ کئی بار چہرے کو خوب صورت اور پرکشش بنانے کے باوجود اب بھی دلکش اور خوب صورت ہے۔
امریکا کے بحری ساحل پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں۔ اس کے رکے ہوئے پانی کے بہاؤ میں اس کے حسن کی عکاسی ہوتی ہے۔ فضائی اصطلاح میں تو ساری دنیا خوب صورت ہے۔ طبعیاتی معنی میں، میں نے شاذ ونادر ہی اس سے زیادہ مناظر کی خوب صورتی دیکھی ہے جیسی کہ میں نے کیلیفورنیا اور ٹیکساس میں دیکھی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ طاقت ور معاشرہ یا ملک کی اندھی قوت اس خوب صورتی کو ایسی بری شکل میں تبدیل کررہی ہے جیسی کہ ڈوریل گرے کی تصویر ہے۔ ''
میں نے ذوالفقار علی بھٹو کے یہ الفاظ صرف اس لیے نقل نہیں کیے کہ میں انھیں اس اداس ملک کا سب سے بڑا دانشور ثابت کرنا چاہتا ہوں بلکہ مجھے ذوالفقار علی بھٹوکے معرفت حسن کے اس نظریے کو بیان کرنا ہے جو کبھی یکساں نہیں رہا۔ جس طرح یونان کے مفکرین کہا کرتے تھے کہ کوئی چیز بھی مستقل نہیں اسی طرح حسن کا تصور بھی ایک مستقل معیار کا مالک نہیں رہا۔ اگر ہم نشاط ثانیہ کے دور میں تخلیق ہونے والی مصوری کی عظیم تخلیقات کو نظر میں رکھیں تو ہمیں حسن کے معیارات اس دور میں وہ نہیں دکھائی دیں گے جو آج ہیں۔
اگر ہم برصغیر کے حوالے سے دیکھیں تو اجنتا اور ایلوارا میں تراشے ہوئے مجسمے ہمیں حسن کا ایک مختلف روپ دکھاتے۔ اگر ہم اس کے بعد مغلیہ دور میں پنپنے والے آرٹ کو اپنی آنکھوں میں بسائیں تو ہمیں اس دور کے مصوروں کی محبوب تخلیقات اس طرح نظر آئیں گی جس طرح موجودہ دور میں اپنی فگر کو بہتر بنانے کے فکر میں مبتلا خواتین۔ اس وقت دبلی اور پتلی لڑکیاں حسین اور جمیل سمجھی جاتی ہیں۔ جب کہ تاریخ میں اتنا دبلا پن کسی طور پر حسن کا مظہر نہیں ہوا کرتا تھا۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ محبت ایک مستقل جذبہ ہے لیکن خوب صورتی اپنے معیارات کو تبدیل کیوں کرتی ہے؟
کیا اس کا سبب یہ ہے کہ خوب صورتی موجودگی کی صورت نہیں بلکہ غیر موجودگی کی مورت ہے؟ خوب صورتی حاصل ہونے والی حقیقت نہیں بلکہ اس جستجو میں پنہاں حقیقت کا نام ہے جو اس دور کے ہاتھ نہیں لگتی؟ شاید سچائی کچھ اس طرح ہی ہے۔ اس دور میں سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ لوگ اب بھوک کی وجہ سے دبلے پتلے نہیں۔ فوڈ انڈسٹری کا پھیلاؤ اس قدر ہوگیا ہے کہ انسانوں کو ضرورت سے زیادہ ملنے لگا ہے اور ذائقے کی وجہ سے لوگ اتنا کھا رہے ہیں کہ وہ اپنے قد کے حوالے سے اپنے وزن میں زیادہ مقدار حاصل کررہے ہیں۔
اس طرح کل جب لوگ بھوک کی وجہ سے دبلے تھے اور صرف بارعایت طبقات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات خوش خوراکی کی وجہ سے موٹے تازے دکھائی دیتے تھے تب لوگوں کے ذہنوں میں حسن کا معیار وہ خوشحالی ہوا کرتی تھی جو ان کے جسموں سے پھوٹ پھوٹ کر باہر نکلتی تھی مگر اس دور میں دبلا پتلا ہونا صرف طبی سائنس کے حوالے سے ایک اچھی بات نہیں بلکہ اس میں اپنے آپ پر کھانے اور پینے کے حوالے سے ضبط کرنے والا پہلو بھی ہمیں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ مگر بات پھر لوٹ آتی ہے کرشن چندر کے اس افسانے پر جو میرے ہاتھ میں تو نہیں مگر ذہن میں کچھ اس طرح ہے کہ اس کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ حسن جیومنٹری اور ٹگنامنٹری نہیں۔
حسن ناپ اور تول کا نظام نہیں اگر فطرت میں بقول ذوالفقارعلی بھٹو صرف ہموار ہی نہیں بلکہ غیر ہموار ریگستان بھی حسین ہوا کرتے ہیں تو پھر ماضی میں صرف موٹی اور موجودہ صرف پتلی لڑکیاں نہیں ہونی چاہیئیں۔ حسن صرف گورے رنگ اور تنے ہوئے انگ کا نام نہیں۔ حسن صرف وہ نہیں جو ہم پر فیشن انڈسٹری مسلط کرتی ہے۔ خوب صورتی فقط وہ نہیں جوصرف میڈیا پر پیش کی جاتی ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو پوری دنیا کے مرد اپنے آس پاس عورتوں کی طرف دیکھتے بھی نہیں اور بالی ووڈ کی چند ہی اداکارائوں کے عشق میں پاگل بنے پھرتے۔ جس طرح شیخ ایاز نے لکھا تھا ''ہر عورت مومل ہوتی ہے اور ہر مرد رانو ہوتا ہے'' یعنی ہر عورت ہیروئن اور ہر مرد ہیرو ہوتا ہے اسی طرح ہم حسن کے حوالے سے اپنی اپنی چاہت کے راستے پر چلتے ہیں۔ حسن کوئی اچھی لگنے والی الگ حقیقت کا نام نہیں۔ جو ہمیں اچھا لگتا ہے، جس سے ہم پیار کرتے ہیں، وہ ہی حسین ہوا کرتا ہے۔
حسن وہ نہیں جو ہمارے سامنے آتا ہے بلکہ حسن وہ ہے جس کی ہم تلاش کرتے ہیں اور جس کو ہم دریافت کرتے ہیں ایک ایسی عورت میں جو بظاہر جوانی کی بہاریں نہ معلوم کہاں لٹا کر آئی اور ہمیں پت جھڑ کے ابتدائی دنوں میں اس طرح ملی کہ ہمارے دل نے کہا ''تو کہاں چلی گئی تھی؟'' حسن ایک ایسا احساس ہے جو دل کو دل کے ساتھ ریشم کی ڈوری سے باندھ دیتا ہے۔ حسن کے تلاش میں ہم بہت بھٹکتے ہیں بہت زیادہ چلتے ہیں اور زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں کسی سے محبت ہوجاتی ہے اور ہم پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ ہمیں حسن کی نہیں بلکہ محبت کی تلاش تھی۔ جو محبوب ہوتا ہے وہ ہی حسین ہوتا ہے۔
حسن کے حوالے سے اردو زبان کے عظیم انقلابی اور رومانوی مصنف کرشن چندر کا وہ افسانہ اس وقت صرف میرے ذہن میں ہے اگر ہاتھ میں ہوتا تو اس کے حوالے سے میں اپنے اس کالم کا آغاز کرتا مگر اس وقت میری اسٹڈی ٹیبل پر اس ملک کی عظیم دانشور اور عوامی محبوب رہ نما ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں سے تحریر ہونے والا وہ خط کتابی صورت میں موجود ہے جو انھوں نے کال کوٹھڑی میں اپنی سب سے پیاری بیٹی کے لیے تحریر کیا تھا۔ اس خط میں انھوں نے لکھا تھا کہ ''دنیا تو بہت خوب صورت ہے ایک خوب صورت شے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسرت وشادمانی کا باعث ہوا کرتی ہے۔
سطح مرتفع کی خوب صورتی ہے۔ پھولوں اور جنگلات کا حسن ہے۔نیلے سمندروں اور بل کھاتے ہوئے دریائوں کا حسن ہے۔ سب سے بڑھ کر تو مرد اور عورت کا اپنا حسن ہے جو اللہ تعالی کی مکمل تخلیق ہے۔ میں شیلی کے وجودیت کے نظریے کی حمایت کرتا ہوں حسن ہر جگہ ہے۔ ایک مکمل تباہی والی جنگ میں بھی حسن کو بالکل ملیامیٹ کردینا ممکن نہیں ہوگا۔ حسن اس قدر زیادہ حسن ہے کہ وہ بالکل ختم نہیں ہو سکتا۔ اس قید تنہائی کے بارہ مہینوں میں میں نے ماضی کا کوئی ناخوشگوار منظر مشکل سے ہی یاد کیا ہے۔ جب میں اس قید خانے کی دیواروں کو گھنٹوں تک دیکھتا رہتا ہوں تو ماضی کے بہت سارے واقعات میرے ذہن میں آتے ہیں۔
ماضی کے کچھ مناظر ازسرنو نظروں کے سامنے آئے ہیں جو کبھی بھی میری نظروں کے سامنے دوبارہ نہیں آتے۔ اگر میں یہاں مقید نہ کیا جاتا، میں نے بار بار اپنے بچپن کے زمانے کو جو میں نے گڑھی خدابخش میں گذارا تھا ان برسوں کو جو میں نے بمبئی میں اسکول میں گذارے اور ان آب و تاب والے برسوں کو جو میں نے بریک لے اور آکسفورڈ میں گذارے یاد کیا ہے۔ آگرہ کے تاج محل کی شاہانہ شان و شوکت بار بار میرے ذہن میں آتی ہے اسی طرح مجھے وہ پرسکون دن یاد آتے ہیں جو میں نے سرینگر، گلمرگ اور پہلگام میں گذارے تھے۔ وادی کشمیر حیرت انگیز طور پر خوب صورت ہے۔
اپنے طور پر یورپ کا حسن عدیم نظیر ہے۔ کوئی شخص بھی اس طمانیت قلب کو نہیں بھول سکتا جو کرائیسٹ چرچ کے سبزہ زاروں میں چہل قدمی کرکے حاصل ہوتی ہے اور نہیں کوئی فرد کیلیفورنیا میں ساحل سمندر پر کارمل کی طلسماتی کشش کوفراموش کر سکتا ہے۔ '' اس خط میں ذوالفقار علی بھٹو نے حسن کے حوالے سے یہ بھی لکھا تھا کہ یورپ آب و تاب والا اور محبت کیے جانے کے قابل ہے۔ وہ کئی بار چہرے کو خوب صورت اور پرکشش بنانے کے باوجود اب بھی دلکش اور خوب صورت ہے۔
امریکا کے بحری ساحل پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں۔ اس کے رکے ہوئے پانی کے بہاؤ میں اس کے حسن کی عکاسی ہوتی ہے۔ فضائی اصطلاح میں تو ساری دنیا خوب صورت ہے۔ طبعیاتی معنی میں، میں نے شاذ ونادر ہی اس سے زیادہ مناظر کی خوب صورتی دیکھی ہے جیسی کہ میں نے کیلیفورنیا اور ٹیکساس میں دیکھی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ طاقت ور معاشرہ یا ملک کی اندھی قوت اس خوب صورتی کو ایسی بری شکل میں تبدیل کررہی ہے جیسی کہ ڈوریل گرے کی تصویر ہے۔ ''
میں نے ذوالفقار علی بھٹو کے یہ الفاظ صرف اس لیے نقل نہیں کیے کہ میں انھیں اس اداس ملک کا سب سے بڑا دانشور ثابت کرنا چاہتا ہوں بلکہ مجھے ذوالفقار علی بھٹوکے معرفت حسن کے اس نظریے کو بیان کرنا ہے جو کبھی یکساں نہیں رہا۔ جس طرح یونان کے مفکرین کہا کرتے تھے کہ کوئی چیز بھی مستقل نہیں اسی طرح حسن کا تصور بھی ایک مستقل معیار کا مالک نہیں رہا۔ اگر ہم نشاط ثانیہ کے دور میں تخلیق ہونے والی مصوری کی عظیم تخلیقات کو نظر میں رکھیں تو ہمیں حسن کے معیارات اس دور میں وہ نہیں دکھائی دیں گے جو آج ہیں۔
اگر ہم برصغیر کے حوالے سے دیکھیں تو اجنتا اور ایلوارا میں تراشے ہوئے مجسمے ہمیں حسن کا ایک مختلف روپ دکھاتے۔ اگر ہم اس کے بعد مغلیہ دور میں پنپنے والے آرٹ کو اپنی آنکھوں میں بسائیں تو ہمیں اس دور کے مصوروں کی محبوب تخلیقات اس طرح نظر آئیں گی جس طرح موجودہ دور میں اپنی فگر کو بہتر بنانے کے فکر میں مبتلا خواتین۔ اس وقت دبلی اور پتلی لڑکیاں حسین اور جمیل سمجھی جاتی ہیں۔ جب کہ تاریخ میں اتنا دبلا پن کسی طور پر حسن کا مظہر نہیں ہوا کرتا تھا۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ محبت ایک مستقل جذبہ ہے لیکن خوب صورتی اپنے معیارات کو تبدیل کیوں کرتی ہے؟
کیا اس کا سبب یہ ہے کہ خوب صورتی موجودگی کی صورت نہیں بلکہ غیر موجودگی کی مورت ہے؟ خوب صورتی حاصل ہونے والی حقیقت نہیں بلکہ اس جستجو میں پنہاں حقیقت کا نام ہے جو اس دور کے ہاتھ نہیں لگتی؟ شاید سچائی کچھ اس طرح ہی ہے۔ اس دور میں سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ لوگ اب بھوک کی وجہ سے دبلے پتلے نہیں۔ فوڈ انڈسٹری کا پھیلاؤ اس قدر ہوگیا ہے کہ انسانوں کو ضرورت سے زیادہ ملنے لگا ہے اور ذائقے کی وجہ سے لوگ اتنا کھا رہے ہیں کہ وہ اپنے قد کے حوالے سے اپنے وزن میں زیادہ مقدار حاصل کررہے ہیں۔
اس طرح کل جب لوگ بھوک کی وجہ سے دبلے تھے اور صرف بارعایت طبقات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات خوش خوراکی کی وجہ سے موٹے تازے دکھائی دیتے تھے تب لوگوں کے ذہنوں میں حسن کا معیار وہ خوشحالی ہوا کرتی تھی جو ان کے جسموں سے پھوٹ پھوٹ کر باہر نکلتی تھی مگر اس دور میں دبلا پتلا ہونا صرف طبی سائنس کے حوالے سے ایک اچھی بات نہیں بلکہ اس میں اپنے آپ پر کھانے اور پینے کے حوالے سے ضبط کرنے والا پہلو بھی ہمیں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ مگر بات پھر لوٹ آتی ہے کرشن چندر کے اس افسانے پر جو میرے ہاتھ میں تو نہیں مگر ذہن میں کچھ اس طرح ہے کہ اس کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ حسن جیومنٹری اور ٹگنامنٹری نہیں۔
حسن ناپ اور تول کا نظام نہیں اگر فطرت میں بقول ذوالفقارعلی بھٹو صرف ہموار ہی نہیں بلکہ غیر ہموار ریگستان بھی حسین ہوا کرتے ہیں تو پھر ماضی میں صرف موٹی اور موجودہ صرف پتلی لڑکیاں نہیں ہونی چاہیئیں۔ حسن صرف گورے رنگ اور تنے ہوئے انگ کا نام نہیں۔ حسن صرف وہ نہیں جو ہم پر فیشن انڈسٹری مسلط کرتی ہے۔ خوب صورتی فقط وہ نہیں جوصرف میڈیا پر پیش کی جاتی ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو پوری دنیا کے مرد اپنے آس پاس عورتوں کی طرف دیکھتے بھی نہیں اور بالی ووڈ کی چند ہی اداکارائوں کے عشق میں پاگل بنے پھرتے۔ جس طرح شیخ ایاز نے لکھا تھا ''ہر عورت مومل ہوتی ہے اور ہر مرد رانو ہوتا ہے'' یعنی ہر عورت ہیروئن اور ہر مرد ہیرو ہوتا ہے اسی طرح ہم حسن کے حوالے سے اپنی اپنی چاہت کے راستے پر چلتے ہیں۔ حسن کوئی اچھی لگنے والی الگ حقیقت کا نام نہیں۔ جو ہمیں اچھا لگتا ہے، جس سے ہم پیار کرتے ہیں، وہ ہی حسین ہوا کرتا ہے۔
حسن وہ نہیں جو ہمارے سامنے آتا ہے بلکہ حسن وہ ہے جس کی ہم تلاش کرتے ہیں اور جس کو ہم دریافت کرتے ہیں ایک ایسی عورت میں جو بظاہر جوانی کی بہاریں نہ معلوم کہاں لٹا کر آئی اور ہمیں پت جھڑ کے ابتدائی دنوں میں اس طرح ملی کہ ہمارے دل نے کہا ''تو کہاں چلی گئی تھی؟'' حسن ایک ایسا احساس ہے جو دل کو دل کے ساتھ ریشم کی ڈوری سے باندھ دیتا ہے۔ حسن کے تلاش میں ہم بہت بھٹکتے ہیں بہت زیادہ چلتے ہیں اور زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں کسی سے محبت ہوجاتی ہے اور ہم پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ ہمیں حسن کی نہیں بلکہ محبت کی تلاش تھی۔ جو محبوب ہوتا ہے وہ ہی حسین ہوتا ہے۔