مکافات عمل
پاکستان میں جس قسم کا بہترین جمہوری نظام رائج ہے نہ جانے کیوں بد ترین شہنشاہیت بھی اس سے بھلی لگتی ہے۔
میرے اسکول فیلوز میں سے ایک محترم علم دین صاحب ہیں، بے وقوفی کی حد تک سچے اور صاف گو۔ تعلق اسی طبقے سے ہے جہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کرلینا بھی کسی میدان مارلینے سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ بعد ازاں رزق حلال پہ صبر و شکر کرتے، ازدواجی زندگی کی اونچ نیچ سے نبرد آزما ہوتے ہوتے زندگی کی شام ہوجاتی ہے۔
آج جب کہ علم دین ماشاء اﷲ نانا، دادا بن چکے ہیں زمانہ طالب علمی کا ان کا بھولا پن اور اپنے معصومانہ سوالوں سے لوگوں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کردینے کی عادت جوں کی توں برقرار ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی علم دین نے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے یا اونچے عہدوں پر فائز ہونے کا گھسا پٹا ڈائیلاگ میرے سامنے بولا ہو اور میں ان سے اس قسم کی کمینگی کی توقع بھی نہیں رکھتا تھا جو ہم لوگوں میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔
آج تک سفارشی جیسے لفظ سے علم دین کی ناواقفیت کبھی کبھی مجھے رشک و حسد میں مبتلا کردیتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں معرکے مارتے ہوئے علم دین کے بچے جامعہ کراچی اور جامعہ این ای ڈی سے فارغ التحصیل ہوئے اور آج سب کے سب ملک کی اہم قومی ذمے داریوں سے نبرد آزما ہیں۔ کبھی کسی نے کام سے زیادہ پروٹوکول کو اہمیت نہیں دی۔ علم دین تو پہلے کی طرح مست ملنگ ہیں البتہ زوجہ محترمہ یعنی ہماری بھابھی صاحبہ نے مسئلہ پکڑ لیا ہے بچوں کی کامیابیوں پر سجدہ شکر بجا لاتے نہیں تھکتیں کبھی کبھی باتوں سے پشیمانی کا اظہار بھی ہوجاتا ہے کہ خواہ مخواہ بچوں کو پینٹ شرٹ اور ٹائی میں کسی نامی گرامی انگلش میڈیم اسکول میں جانے کی بجائے شلوار قمیض میں سرکاری اسکول جاتے دیکھ کر دکھی اور شرمندہ سی رہیں۔ عقدہ دیر میں کھلا کہ حصول علم کے لیے ذہن، شوق و لگن کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ مہنگی پر تعیش اور غیر ضروری رکھ رکھاؤ کو اہمیت دینے والی درسگاہوں کی کہ جس نے پاکستان میں بڑھتے ہوئے طبقاتی فرق میں جلتی پہ تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔
کہتے ہیں بد ترین جمہوریت شہنشاہیت سے بہرحال بہتر ہوتی ہے مگر جب بھی میں برطانیہ کی شہنشاہیت اور پاکستانی جمہوریت کا موازنہ کرنے بیٹھتا ہوں تو جواب کچھ مثبت نہیں ملتا۔ پاکستان میں جس قسم کا بہترین جمہوری نظام رائج ہے نہ جانے کیوں بد ترین شہنشاہیت بھی اس سے بھلی لگتی ہے۔ جمہوریت کی پٹڑی سے اتر جانے کے خوف نے عوام کو ہی پٹڑی سے اتار دیا ہے۔ دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے ہر پانچ سال بعد انتخاب کے نام سے ایک تہوار منایاجاتا ہے عوام کی اہمیت کے غبارے میں نئے سرے سے ہوا بھری جاتی ہے عوام پھول کے کپا ہوجاتے ہیں اور جوق در جوق انتخابی رسومات ادا کرتے ہیں۔
خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ آیندہ پانچ سال میں ان کے تمام دلدر دور ہوجائیں گے یہ جانے بنا کہ انھوں نے جس بادل پہ مہر لگائی ہے وہ ان کے لیے ابر رحمت کی بجائے سیلاب کی صورت میں ابر زحمت بن جائے گا۔ جس چھتری پہ مہر لگائی ہے طوفان بادو باراں اسے اس طرح الٹ کر رکھ دے گا کہ اس کو قابو میں رکھنا وبال جان بن جائے گا اور جس کشتی پر مہر لگائی ہے اسی میں پہلے ہی سے سوراخ ہیں۔ مداری کھیل کھیلتے رہتے ہیں پانچ سال تک ان کا منہ بند رکھنے کے لیے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کو ان کا جرم بنا دینے کے لیے۔ زیادہ خوش فہمی اچھی نہیں ہوتی خانہ پری کی اہمیت نہ پہلے کبھی تھی نہ اب ہوگی۔ دربار کی رونقیں بحال رکھنے کے لیے درباریوں کا انتخاب تو پہلے ہی ہوچکا ہوتا ہے۔ اب درباریوں کا کام ہے کہ باہمی مفاد کے پیش نظر یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق شہنشاہ کے نام کا رسماً اعلان کریں۔
آگے شہنشاہ معظم کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ درباریوں میں سے جسے چاہیں جتنے چاہیں وزیر باتدبیر مقرر فرما دیں۔ سولہا سال سے ملک میں مروجہ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں یہیں درباری ہوتے ہیں جو اپنے شکاریوں ،سرکاری وغیر سرکاری کی مدد سے حکومت کی رٹ بحال رکھتے ہیں۔ شکاریوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہے ہر آنے والی حکومت الیکشن سے پہلے اور دوران الیکشن انجام دی جانے والی خدمات کے اعتراف میں غیر سرکاری شکاریوں کو سات خون معاف کرکے من مانی تعداد میں سرکاری شکاریوں کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے اور یہ ہے امن و امان بحال رکھنے کا صحیح تریکا (طریقہ) خیر چھوڑیں اس کا برسبیل تذکرہ یونہی ذکر نکل آیا جمہوریت کا دل سوختہ جو ٹھہرا بہانے ڈھونڈھتا رہتا ہے، پھپھولے پھوڑنے کے ۔ بعد میں معافی مانگنی پڑے گی سو ابھی مانگے لیتا ہوں۔ میری توبہ میرے باپ کی توبہ جو اب کبھی اسی موضوع کو چھیڑنے کا سوچا بھی۔
بات ہورہی تھی میاں علم دین کی۔ بچوں نے قویٰ مضمحل ہوتے دیکھ کر حال ہی میں چار پہیوں کا ایک جہاز بمع پائلٹ کے باپ کی نذر کیا ہے سو میاں علم دین کو بھی ہری ہری سوجھ رہی تھی۔ کہنے لگے آؤ تمہیں نیو کراچی کی سیر کرواتا ہوں۔ گویا نیو کراچی نا ہوا نیو دہلی ہوگیا۔ میں نے کہا توبہ کرو یار وہ بھی کوئی سیر کرنے کی جگہ ہے۔ بولے چلو تو سہی وہاں اپنے ایک اسکول فیلو سے تمہیں ملواؤںگا۔ نام نہیں بتاؤںگا۔ پہچاننا تمہیں خود پڑے گا۔ سسپنس پیدا کرنے میں تو وہ اسکول کے زمانے سے ہی ماہر تھے۔ سو میں ان کی مہارت کا شکار ہوگیا۔ سفر کا اختتام نیو کراچی میں واقع ایک اولڈ ایج پیپلز ہوم پر ہوا ۔
اکلوتے دروازے سے جسے آپ داخلی بھی کہہ سکتے ہیں اور خارجی بھی ہم بڑے سے ہال میں داخل ہوئے۔ ہال کے چاروں اطراف میں بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ کوئی چار چھ دس بائی بارہ (10+12) کے کمرے بنے ہوئے تھے۔ تمام کے دروازے اور کھڑکیاں ہال میں کھلتی تھیں ۔ بیرونی دیواروں میں روشنی و ہوا کے گزر کے لیے روزن دیوار نامی چیز بھی ناپید تھی ۔ لے دے کر بس وہی اکلوتا دروازہ باہر کی طرف کھلتا تھا جہاں سے ہمارا داخلہ ممکن ہوا تھا ۔ اب یہ ہوا کہ مرضی پہ منحصر ہے آئے یا جائے ۔ کمروں اور ہال میں جا بجا سنگل بیڈ کے سائز کے فوم کے گدے پڑے ہوئے تھے ۔
اس پر براجمان ہر ذی روح کی کل کائنات علم دین مجھے انھیں میں سے ایک گدے پر رونق افروز سر کے بالوں سے بے نیاز خشخشی ڈاڑھی والی ایک ایسی مخلوق کے پاس لے گئے جو گدے پر ٹیک لگائے خلا میں نظریں گاڑے نہ جانے کیا ڈھونڈنے کی کوشش کررہی تھی۔ ان سے کچھ فاصلے پر رک کر مجھے علم دین نے بتایا کہ یہ ایک ڈاکٹر صاحب کے والد بزرگوار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک مختصر عرصے کے لیے یہاں چھوڑ گئے ہیں کہ جلد ہی وہ پانچواں بیڈ روم بنوا لیں گے تو بزرگوار کو واپس لے جائیں گے ۔
میں نے تسلی کے دو بول بولنے کے لیے اس کی طرف بڑھنا چاہا تو علم دین نے مجھے روک دیا کہ وہ بات بات پر فلک شگاف قہقہے لگانے والا اب ہر بات پر پھوٹ پھوٹ کے رو پڑتا ہے ۔ پوچھا آخر یہ ہے کون ۔ کہنے لگے بتادوں میں نے جھنجھلاکے کہا اب بتا بھی چکو ۔ کہنے لگے غور سے دیکھو یہ ہے آغا صاحب ۔ اور گویا میرے پیروں میں سے جان ہی نکل گئی ہو۔ کہاں گیا اس کا سرخ و سفید کشمیری رنگ و روپ، ہر الجھے معاملے کو سلجھانے میں اس کی چستیاں پھرتیاں ہر سنجیدہ بات کو قہقہوں میں اڑا دینے کی اس کی عادت، ہر با اختیار مشہور و معروف صاحب ثروت شخصیات سے قرابت داری نکال لینے کی صلاحیت، مجھے یاد ہے وہ اچھا طالب علم نہ ہونے کے باوجود بھی اساتذہ کی ناک کا بال بنا ہوتا تھا ۔
اس کے اکلوتے بیٹے کو جب میرٹ پر میڈیکل میں داخلہ نہ مل سکا تو اس کے لیے بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل کے حصول کے لیے اس نے کیا کیا نہ کیا تھا۔ بیٹے کو داخلہ مل گیا اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقے کے ایک حقیقی فرزند کو داخلے سے محروم کردیاگیا۔ آج وہی آغا نہ صرف ہمیں بلکہ خود کو بھی پہچاننے میں دشواری محسوس کر رہا تھا ۔ شاید اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں۔ دوسرا تجربہ یہ ہوا مجھے کہ اولڈ ایج پیپلز ہوم کے متعلق جو محل میرے ذہن نے تعمیر کررکھے تھے سب کے سب دھڑام سے زمین پہ آرہے کہاں کی وہ خوش فہمی کہ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو ۔ اپنے تمام تر تجربوں کے نچوڑ کو مثبت انداز میں نئی نسل تک منتقل کرنے کی خواہش ۔ آخری سانس تک ابھی تو میں جوان ہوں گنگناتے رہنے کی امنگ کو قائم و دائم رکھنے کی ''آرزو'' سب کچھ اس غیر سرکاری جیل یاترا کے بعد ملیامیٹ ہوگیا ۔
کہنے کو رہ ہی کیا گیا تھا ماسوائے اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے ۔ مزید ٹھہرنا بس میں نہ تھا سو واپسی کی درخواست کی قبولیت کی گھڑی تھی شاید کہ قبول بھی ہوگئی۔ قبل اس کے ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ محترم علم دین سے ملاقات کے بعد اس طرح روتے بسورتے بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپسی ہوئی ہو۔ ورنہ میں ہمیشہ ان سے ملاقات کے بعد خود سے باتیں کرتے اور زیر لب مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوا کرتا تھا اور میری ان حرکات کو دیکھ کر بیگم کو میرے فاتر العقل ہونے کے خدشات کو مزید تقویت ملتی تھی۔ شاید اسی لیے بھی میری میاں علم دین سے ملاقاتوں پہ ان کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار ہوتا تھا۔ بہرحال یار زندہ صحبت باقی۔
آج جب کہ علم دین ماشاء اﷲ نانا، دادا بن چکے ہیں زمانہ طالب علمی کا ان کا بھولا پن اور اپنے معصومانہ سوالوں سے لوگوں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کردینے کی عادت جوں کی توں برقرار ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی علم دین نے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے یا اونچے عہدوں پر فائز ہونے کا گھسا پٹا ڈائیلاگ میرے سامنے بولا ہو اور میں ان سے اس قسم کی کمینگی کی توقع بھی نہیں رکھتا تھا جو ہم لوگوں میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔
آج تک سفارشی جیسے لفظ سے علم دین کی ناواقفیت کبھی کبھی مجھے رشک و حسد میں مبتلا کردیتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں معرکے مارتے ہوئے علم دین کے بچے جامعہ کراچی اور جامعہ این ای ڈی سے فارغ التحصیل ہوئے اور آج سب کے سب ملک کی اہم قومی ذمے داریوں سے نبرد آزما ہیں۔ کبھی کسی نے کام سے زیادہ پروٹوکول کو اہمیت نہیں دی۔ علم دین تو پہلے کی طرح مست ملنگ ہیں البتہ زوجہ محترمہ یعنی ہماری بھابھی صاحبہ نے مسئلہ پکڑ لیا ہے بچوں کی کامیابیوں پر سجدہ شکر بجا لاتے نہیں تھکتیں کبھی کبھی باتوں سے پشیمانی کا اظہار بھی ہوجاتا ہے کہ خواہ مخواہ بچوں کو پینٹ شرٹ اور ٹائی میں کسی نامی گرامی انگلش میڈیم اسکول میں جانے کی بجائے شلوار قمیض میں سرکاری اسکول جاتے دیکھ کر دکھی اور شرمندہ سی رہیں۔ عقدہ دیر میں کھلا کہ حصول علم کے لیے ذہن، شوق و لگن کی زیادہ ضرورت ہے نہ کہ مہنگی پر تعیش اور غیر ضروری رکھ رکھاؤ کو اہمیت دینے والی درسگاہوں کی کہ جس نے پاکستان میں بڑھتے ہوئے طبقاتی فرق میں جلتی پہ تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔
کہتے ہیں بد ترین جمہوریت شہنشاہیت سے بہرحال بہتر ہوتی ہے مگر جب بھی میں برطانیہ کی شہنشاہیت اور پاکستانی جمہوریت کا موازنہ کرنے بیٹھتا ہوں تو جواب کچھ مثبت نہیں ملتا۔ پاکستان میں جس قسم کا بہترین جمہوری نظام رائج ہے نہ جانے کیوں بد ترین شہنشاہیت بھی اس سے بھلی لگتی ہے۔ جمہوریت کی پٹڑی سے اتر جانے کے خوف نے عوام کو ہی پٹڑی سے اتار دیا ہے۔ دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے ہر پانچ سال بعد انتخاب کے نام سے ایک تہوار منایاجاتا ہے عوام کی اہمیت کے غبارے میں نئے سرے سے ہوا بھری جاتی ہے عوام پھول کے کپا ہوجاتے ہیں اور جوق در جوق انتخابی رسومات ادا کرتے ہیں۔
خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ آیندہ پانچ سال میں ان کے تمام دلدر دور ہوجائیں گے یہ جانے بنا کہ انھوں نے جس بادل پہ مہر لگائی ہے وہ ان کے لیے ابر رحمت کی بجائے سیلاب کی صورت میں ابر زحمت بن جائے گا۔ جس چھتری پہ مہر لگائی ہے طوفان بادو باراں اسے اس طرح الٹ کر رکھ دے گا کہ اس کو قابو میں رکھنا وبال جان بن جائے گا اور جس کشتی پر مہر لگائی ہے اسی میں پہلے ہی سے سوراخ ہیں۔ مداری کھیل کھیلتے رہتے ہیں پانچ سال تک ان کا منہ بند رکھنے کے لیے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کو ان کا جرم بنا دینے کے لیے۔ زیادہ خوش فہمی اچھی نہیں ہوتی خانہ پری کی اہمیت نہ پہلے کبھی تھی نہ اب ہوگی۔ دربار کی رونقیں بحال رکھنے کے لیے درباریوں کا انتخاب تو پہلے ہی ہوچکا ہوتا ہے۔ اب درباریوں کا کام ہے کہ باہمی مفاد کے پیش نظر یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق شہنشاہ کے نام کا رسماً اعلان کریں۔
آگے شہنشاہ معظم کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ درباریوں میں سے جسے چاہیں جتنے چاہیں وزیر باتدبیر مقرر فرما دیں۔ سولہا سال سے ملک میں مروجہ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں یہیں درباری ہوتے ہیں جو اپنے شکاریوں ،سرکاری وغیر سرکاری کی مدد سے حکومت کی رٹ بحال رکھتے ہیں۔ شکاریوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہے ہر آنے والی حکومت الیکشن سے پہلے اور دوران الیکشن انجام دی جانے والی خدمات کے اعتراف میں غیر سرکاری شکاریوں کو سات خون معاف کرکے من مانی تعداد میں سرکاری شکاریوں کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے اور یہ ہے امن و امان بحال رکھنے کا صحیح تریکا (طریقہ) خیر چھوڑیں اس کا برسبیل تذکرہ یونہی ذکر نکل آیا جمہوریت کا دل سوختہ جو ٹھہرا بہانے ڈھونڈھتا رہتا ہے، پھپھولے پھوڑنے کے ۔ بعد میں معافی مانگنی پڑے گی سو ابھی مانگے لیتا ہوں۔ میری توبہ میرے باپ کی توبہ جو اب کبھی اسی موضوع کو چھیڑنے کا سوچا بھی۔
بات ہورہی تھی میاں علم دین کی۔ بچوں نے قویٰ مضمحل ہوتے دیکھ کر حال ہی میں چار پہیوں کا ایک جہاز بمع پائلٹ کے باپ کی نذر کیا ہے سو میاں علم دین کو بھی ہری ہری سوجھ رہی تھی۔ کہنے لگے آؤ تمہیں نیو کراچی کی سیر کرواتا ہوں۔ گویا نیو کراچی نا ہوا نیو دہلی ہوگیا۔ میں نے کہا توبہ کرو یار وہ بھی کوئی سیر کرنے کی جگہ ہے۔ بولے چلو تو سہی وہاں اپنے ایک اسکول فیلو سے تمہیں ملواؤںگا۔ نام نہیں بتاؤںگا۔ پہچاننا تمہیں خود پڑے گا۔ سسپنس پیدا کرنے میں تو وہ اسکول کے زمانے سے ہی ماہر تھے۔ سو میں ان کی مہارت کا شکار ہوگیا۔ سفر کا اختتام نیو کراچی میں واقع ایک اولڈ ایج پیپلز ہوم پر ہوا ۔
اکلوتے دروازے سے جسے آپ داخلی بھی کہہ سکتے ہیں اور خارجی بھی ہم بڑے سے ہال میں داخل ہوئے۔ ہال کے چاروں اطراف میں بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ کوئی چار چھ دس بائی بارہ (10+12) کے کمرے بنے ہوئے تھے۔ تمام کے دروازے اور کھڑکیاں ہال میں کھلتی تھیں ۔ بیرونی دیواروں میں روشنی و ہوا کے گزر کے لیے روزن دیوار نامی چیز بھی ناپید تھی ۔ لے دے کر بس وہی اکلوتا دروازہ باہر کی طرف کھلتا تھا جہاں سے ہمارا داخلہ ممکن ہوا تھا ۔ اب یہ ہوا کہ مرضی پہ منحصر ہے آئے یا جائے ۔ کمروں اور ہال میں جا بجا سنگل بیڈ کے سائز کے فوم کے گدے پڑے ہوئے تھے ۔
اس پر براجمان ہر ذی روح کی کل کائنات علم دین مجھے انھیں میں سے ایک گدے پر رونق افروز سر کے بالوں سے بے نیاز خشخشی ڈاڑھی والی ایک ایسی مخلوق کے پاس لے گئے جو گدے پر ٹیک لگائے خلا میں نظریں گاڑے نہ جانے کیا ڈھونڈنے کی کوشش کررہی تھی۔ ان سے کچھ فاصلے پر رک کر مجھے علم دین نے بتایا کہ یہ ایک ڈاکٹر صاحب کے والد بزرگوار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک مختصر عرصے کے لیے یہاں چھوڑ گئے ہیں کہ جلد ہی وہ پانچواں بیڈ روم بنوا لیں گے تو بزرگوار کو واپس لے جائیں گے ۔
میں نے تسلی کے دو بول بولنے کے لیے اس کی طرف بڑھنا چاہا تو علم دین نے مجھے روک دیا کہ وہ بات بات پر فلک شگاف قہقہے لگانے والا اب ہر بات پر پھوٹ پھوٹ کے رو پڑتا ہے ۔ پوچھا آخر یہ ہے کون ۔ کہنے لگے بتادوں میں نے جھنجھلاکے کہا اب بتا بھی چکو ۔ کہنے لگے غور سے دیکھو یہ ہے آغا صاحب ۔ اور گویا میرے پیروں میں سے جان ہی نکل گئی ہو۔ کہاں گیا اس کا سرخ و سفید کشمیری رنگ و روپ، ہر الجھے معاملے کو سلجھانے میں اس کی چستیاں پھرتیاں ہر سنجیدہ بات کو قہقہوں میں اڑا دینے کی اس کی عادت، ہر با اختیار مشہور و معروف صاحب ثروت شخصیات سے قرابت داری نکال لینے کی صلاحیت، مجھے یاد ہے وہ اچھا طالب علم نہ ہونے کے باوجود بھی اساتذہ کی ناک کا بال بنا ہوتا تھا ۔
اس کے اکلوتے بیٹے کو جب میرٹ پر میڈیکل میں داخلہ نہ مل سکا تو اس کے لیے بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل کے حصول کے لیے اس نے کیا کیا نہ کیا تھا۔ بیٹے کو داخلہ مل گیا اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقے کے ایک حقیقی فرزند کو داخلے سے محروم کردیاگیا۔ آج وہی آغا نہ صرف ہمیں بلکہ خود کو بھی پہچاننے میں دشواری محسوس کر رہا تھا ۔ شاید اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں۔ دوسرا تجربہ یہ ہوا مجھے کہ اولڈ ایج پیپلز ہوم کے متعلق جو محل میرے ذہن نے تعمیر کررکھے تھے سب کے سب دھڑام سے زمین پہ آرہے کہاں کی وہ خوش فہمی کہ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو ۔ اپنے تمام تر تجربوں کے نچوڑ کو مثبت انداز میں نئی نسل تک منتقل کرنے کی خواہش ۔ آخری سانس تک ابھی تو میں جوان ہوں گنگناتے رہنے کی امنگ کو قائم و دائم رکھنے کی ''آرزو'' سب کچھ اس غیر سرکاری جیل یاترا کے بعد ملیامیٹ ہوگیا ۔
کہنے کو رہ ہی کیا گیا تھا ماسوائے اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے ۔ مزید ٹھہرنا بس میں نہ تھا سو واپسی کی درخواست کی قبولیت کی گھڑی تھی شاید کہ قبول بھی ہوگئی۔ قبل اس کے ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ محترم علم دین سے ملاقات کے بعد اس طرح روتے بسورتے بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپسی ہوئی ہو۔ ورنہ میں ہمیشہ ان سے ملاقات کے بعد خود سے باتیں کرتے اور زیر لب مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوا کرتا تھا اور میری ان حرکات کو دیکھ کر بیگم کو میرے فاتر العقل ہونے کے خدشات کو مزید تقویت ملتی تھی۔ شاید اسی لیے بھی میری میاں علم دین سے ملاقاتوں پہ ان کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار ہوتا تھا۔ بہرحال یار زندہ صحبت باقی۔