سمندری طوفان اور احتیاطی تدابیر
دنیا بھر میں اس طرح کی آفات سے نپٹنے کے لیے باقاعدہ محکمے ہیں اور ان کے پاس تمام تر جدید سازوسامان موجود ہوتا ہے۔
پاکستان کی ساحلی پٹی خاصی طویل ہے، سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقے سمندرکے کنارے آباد ہیں جس میں پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اور گنجان آباد شہرکراچی بھی شامل ہے ۔سمندری طوفان ''نیلوفر'' پاکستان کے ساحلی علاقوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور آنے والے دو سے تین دن اس حوالے سے انتہائی اہم ہیں،طوفان نے اگر کراچی کا رخ کیا تو سمندر میں 8 سے10فٹ اونچی لہریں پیدا ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق طوفان کا رخ شمال مشرق کی جانب سندھ کے زیریںعلاقوں ننگرپارکرمٹھی، چھوراور عمرکوٹ کی جانب ہوگا تاہم اس کی شدت کم ہوجائے گی اور بالاخر یہ ہواکے شدیدکم دباؤ میں تبدیل ہو کر موسلادھار بارش کا سبب بنے گا ۔ سمندر میں مدوجزر ، طوفانوں کا بننا اور اٹھانا ایک قدرتی امر ہے،جنھیں روکا تو نہیں جاسکتا لیکن احتیاطی تدابیر اختیارکرکے نقصانات کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے ۔
دنیا بھر میں اس طرح کی آفات سے نپٹنے کے لیے باقاعدہ محکمے ہیں اور ان کے پاس تمام تر جدید سازوسامان موجود ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سوائے ماہی گیروں کو خبردار کرنے اور کراچی کے ساحل سمندر پر لوگوں کے آنے پر پابندی اور ٹھیلے اور کنٹینیں بند کروا کر حکومت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کراچی والے طوفان سے محفوظ ہوگئے ہیں اور سرکاری فائلوں میں خانہ پری بھی کردی گئی ہے ۔ لیکن زمینی حقائق بڑے تلخ ہیں، پہلے بھی جو طوفان آئے ہیں ان سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے، سندھ ہو یا بلوچستان اس کے باسیوں کو شدید نقصانات اٹھانے پڑے ہیں سمندری طوفانوں اور بارشوں سے، مکانات اور مال ومویشی اور انسانی جانوں کا ضیاع کئی بار ہوچکا ہے ۔
کراچی سے لے کر بلوچستان کے علاقے جیونی تک 600 کلومیٹر طویل ترین ساحلی پٹی ہے ۔اورماڑہ، گوادر اور پسنی بھی اسی ساحلی پٹی پر آتے ہیں ، کیا ان پسماندہ علاقوں کے باسیوں کے بچاؤ کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ یا پھر انھیں ایک بار بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے،طوفانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے منصوبہ بندی بہتر حکمت عملی اور انتظامی میکنزم کا فقدان ایک سوالیہ نشان ہے سرکاری محکموں کی کارکردگی پر ۔دوسری جانب عوام میں اس حوالے شعوروآگاہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت احتیاطی تدابیر اختیارکرسکیں ۔
دنیا بھر میں اس طرح کی آفات سے نپٹنے کے لیے باقاعدہ محکمے ہیں اور ان کے پاس تمام تر جدید سازوسامان موجود ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سوائے ماہی گیروں کو خبردار کرنے اور کراچی کے ساحل سمندر پر لوگوں کے آنے پر پابندی اور ٹھیلے اور کنٹینیں بند کروا کر حکومت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کراچی والے طوفان سے محفوظ ہوگئے ہیں اور سرکاری فائلوں میں خانہ پری بھی کردی گئی ہے ۔ لیکن زمینی حقائق بڑے تلخ ہیں، پہلے بھی جو طوفان آئے ہیں ان سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے، سندھ ہو یا بلوچستان اس کے باسیوں کو شدید نقصانات اٹھانے پڑے ہیں سمندری طوفانوں اور بارشوں سے، مکانات اور مال ومویشی اور انسانی جانوں کا ضیاع کئی بار ہوچکا ہے ۔
کراچی سے لے کر بلوچستان کے علاقے جیونی تک 600 کلومیٹر طویل ترین ساحلی پٹی ہے ۔اورماڑہ، گوادر اور پسنی بھی اسی ساحلی پٹی پر آتے ہیں ، کیا ان پسماندہ علاقوں کے باسیوں کے بچاؤ کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ یا پھر انھیں ایک بار بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے،طوفانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے منصوبہ بندی بہتر حکمت عملی اور انتظامی میکنزم کا فقدان ایک سوالیہ نشان ہے سرکاری محکموں کی کارکردگی پر ۔دوسری جانب عوام میں اس حوالے شعوروآگاہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت احتیاطی تدابیر اختیارکرسکیں ۔