ہوشیار باش ٹریفک جام سے انسان مر سکتا ہے
ٹریفک جام کی وجہ سے خاص طور سے خواتین کو دل کا دورہ پڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے
پاکستان کا سب سے بڑا اور کمائو شہر کراچی ٹریفک کے مسلسل بڑھتے ہوئے مسائل کا اس طرح شکار ہے کہ سڑکوں کی کشادگی، فلائی اوورز کی تعمیر اور ٹریفک قوانین میں تبدیلیاں بھی اس اضافے کو روک نہیں پا رہیں۔ جانوروں کی مدد سے کھینچی جانے والے گاڑیاں بھی ٹریفک کے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
حکومت سندھ کی جانب سے کراچی میں ٹریفک فری منصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے سے صدر اور اطراف کے علاقوں میں شدید ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے علاقے صدر ایمپریس مارکیٹ اور اطراف کو ٹریفک فری کرکے عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے23 مارچ 2014 میں ٹریفک فری صدر منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا۔ جس کے تحت ایمپریس مارکیٹ اور اس کے اطراف کی سٹرکوں سے پتھارے ہٹانا، بسوں کے روٹ کو متبادل راستہ فراہم کرنا اور ایمپریس مارکیٹ کی تزین و آرائش کرنا تھا۔
اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا اور کچھ دن اس کی خبریں اخبارات کی سرخیاں اور مختلف ٹی وی چینلز کی زینت بنتی رہیں۔ لیکن پھر وہی ہوا جو اس سے پہلے شروع ہونے والے منصوبوں کا ہوتا رہا ہے، یعنی شور و غوغا اور پھر خاموشی۔ اب بھی پریڈی اسٹریٹ سے ایمپریس مارکیٹ پر پتھارے اور ٹریفک جام معمول ہے جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عوام کے دیگر مطالبات میں اس کا بھی اضافہ ہوگیا ہے کہ حکومت ٹریفک فری صدر منصوبے پر عمل درآمد کرکے ان کو اس مسئلے سے جلد از جلد نجات دلائے۔
شہر میں اذیت ناک ٹریفک جام میں متعدد سڑکوں اور شاہراہوں پر لاکھوں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں، شہری بے حال ہوجاتے ہیں، گاڑیوں کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے، متعدد مقامات پر ایمبولینسز بھی ٹریفک جام میں پھنسی رہتی اور ان میں حادثات کے شکار زخمی تڑپتے رہتے اور بعض واقعات میں ان کی موت اسپتال جانے سے پہلے ہی واقع ہو جاتی ہے۔ ٹریفک پولیس اہل کار شہریوں کو سٹی وارڈنز کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہ جانے کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ نئے فلائی اوورز کی تعمیرات اور سی این جی کے لیے لمبی قطاریں بھی شہر بھر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم کردیتی ہیں۔
یوں تو پورا شہر ہی اس کی زد میں ہے لیکن شہید ملت روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ، سرور شہید روڈ، دین محمد وفائی روڈ، ایوان صدر روڈ، کلب روڈ، شاہراہ فیصل، صدر، ایمپریس مارکیٹ، عبداﷲ ہارون روڈ، ریگل، برنس روڈ، فاطمہ جناح روڈ، ایم اے جناح روڈ، نیو ایم اے جناح روڈ، لیاقت آباد، غریب آباد، یونیورسٹی روڈ، اسٹیڈیم روڈ، نارتھ ناظم آباد، شاہراہ پاکستان ، ملیر، کورنگی ، لانڈھی ، کلفٹن اور دہلی کالونی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور لاکھوں گاڑیاں ٹریفک جام میں پھنسی رہتی ہیں۔
شہر قائد میں پارکنگ اور تجاوزات بھی ٹریفک جام کا باعث ہیں۔ ٹریفک کی روانی کو متاثر کرنے میں تجاوزات اور اہم تجارتی علاقوں میں پارکنگ کی مناسب جگہ نہ ہونا بھی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے جس کے باعث شہریوں کو ٹریفک جام جیسے مسائل سے ہر روز گزرنا پڑتا ہے۔ کراچی ٹریفک پولیس کے ایک اعلیٰ اہل کار کا کہنا ہے کہ کراچی ایک میگا سٹی ہے تاہم حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کررہی، شہر میں یومیہ کی بنیاد پر سیکڑوں گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے لیکن شہر کی سڑکوں کی چوڑائی وہی پچیس سال پہلے والی گاڑیوں کی مناسبت سے ہے۔
اس کے علاوہ شاہراہوں پر تجاوزات کی بھی بھر مار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک پولیس کا کام ٹریفک کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے تجاوزات ختم کرنا ضلعی حکومت کا کام ہے۔ دو کروڑ سے زاید آبادی والے شہر کراچی میں ٹریفک پولیس کی نفری پہلے ہی کم ہے، اس میں وی آئی پی ڈیوٹی سمیت دیگر انتظامات بھی کرنے ہوتے ہیں، یکم جنوری 2014 کو شہر کے سب سے بڑے تجارتی مرکز صدر کو ٹریفک فری زون کرنا تھا لیکن اب اکتوبر کا مہینہ ختم ہونے والا ہے، تجاوزات کو ختم کیا جاتا ہے اور دوسرے روز ہی ان سڑکوں پر تجاوزات کی پھر سے بھرمار ہوجاتی ہے۔
سابقہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی جانب سے بنائے گئے پارکنگ پلازا کو اب تک ضلعی حکومت فعال کرنے میں ناکام ہے، بڑی مارکیٹوں میں بنائے گئے پارکنگ فلور پر اب دکانیں اور گودام قائم ہیں، شہر کی اہم شاہراہوں پر قائم کمرشل اداروں کی جانب سے بھی گاڑیاں پارک کرنے کے حوالے سے کوئی مناسب انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بعض اوقات ٹریفک جام اور حادثات کا سبب ڈرائیورز کی جانب سے ٹریفک قوانین کی عدم آگاہی اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا نہ ہونا بھی ہے۔
وی آئی پی موومنٹ کے سبب بھی عوام ٹریفک جام میں پھنسے رہتے اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہیں۔ وی آئی پی موومنٹ کے سبب شہر کے مختلف علاقوں جن میں خاص طور پر شارع فیصل، گلشن اقبال، حسن اسکوائر، نیو ایم اے جناح روڈ، لسبیلہ، پٹیل پاڑہ، گرومندر، نمائش چورنگی، سولجر بازار، گارڈن، ایم اے جناح روڈ، زیب النساء اسٹریٹ، پریس کلب، فوارہ چوک، گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، پی آئی ڈی سی، آئی سی آئی پل، میری ویدر ٹاور، کلفٹن، پنجاب چورنگی، آئی آئی چندریگر روڈ اور اطراف کی سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام رہنا معمول ہے۔ جس سے شہریوں کو شدید مشکلات اور ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا اور بیشتر شاہراہوں پر شہری بے سرو سامانی کی حالت میں پھنسے رہتے ہیں۔
شہر قائد میں پانی کی کم یابی، بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ، ٹارگیٹ کلنگ، راہ زنی، ڈکیتی اور پولیس کے ناروا سلوک کے خلاف شہری احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر مظاہرے کرتے اور دھرنا دیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بھی ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوتی ہے اور کسی سڑک کے بند ہونے سے متبادل سڑک پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ بیرون شہر جانے والی بسوں کے غیر قانونی اڈے بھی ٹریفک کی روانی میں خلل کا باعث ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ ابتدا میں ہم نے بتایا تھا کہ ٹریفک جام سے انسان مرسکتا ہے تو اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ٹریفک جام ہونے سے صرف آپ کے موڈ ہی پر برا اثر نہیں پڑتا، بلکہ ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ اس سے انسان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
''برلن جرمنی کے ایک انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی اس تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو ٹریفک جام میں پھنس جاتے ہیں، ان کو ایک گھنٹے کے دوران دل کا دورہ پڑنے کا امکان عام انسانوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ طبی ماہرین جنہوں نے کثیر تعداد میں دل کے دورے والے واقعات کا جائزہ اور تجزیہ کیا ہے، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہر بارہ میں سے ایک موت ٹریفک جام کے سبب ہوئی۔
ٹریفک جام کی وجہ سے خاص طور سے خواتین کو دل کا دورہ پڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ساٹھ سال کی عمر سے زیادہ کے افراد بھی ٹریفک جام سے متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ طے کیا جانا باقی ہے کہ ٹریفک جام کے دوران دل کا دورہ پڑنے کا سبب آلودگی ہے یا ذہنی دباؤ۔
اس تحقیق کے دوران 691 افراد کے انٹرویو کیے گئے، جنہیں دل کا دورہ پڑا تھا۔ مریضوں سے کہا گیا تھا کہ وہ دورہ پڑنے سے چار دن پہلے کے مشاغل اور سرگرمیوں کا بالخصوص ذکر کریں۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ انسان کس طرح کی گاڑی میں سوار ہے۔ اس کا براہ راست تعلق ٹریفک جام ہے''۔
حکومت وقت کو چاہیے کہ جدید خطوط اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے ٹریفک جام کے مسئلے کو فی الفور حل کرے۔
حکومت سندھ کی جانب سے کراچی میں ٹریفک فری منصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے سے صدر اور اطراف کے علاقوں میں شدید ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے علاقے صدر ایمپریس مارکیٹ اور اطراف کو ٹریفک فری کرکے عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے23 مارچ 2014 میں ٹریفک فری صدر منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا۔ جس کے تحت ایمپریس مارکیٹ اور اس کے اطراف کی سٹرکوں سے پتھارے ہٹانا، بسوں کے روٹ کو متبادل راستہ فراہم کرنا اور ایمپریس مارکیٹ کی تزین و آرائش کرنا تھا۔
اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا اور کچھ دن اس کی خبریں اخبارات کی سرخیاں اور مختلف ٹی وی چینلز کی زینت بنتی رہیں۔ لیکن پھر وہی ہوا جو اس سے پہلے شروع ہونے والے منصوبوں کا ہوتا رہا ہے، یعنی شور و غوغا اور پھر خاموشی۔ اب بھی پریڈی اسٹریٹ سے ایمپریس مارکیٹ پر پتھارے اور ٹریفک جام معمول ہے جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عوام کے دیگر مطالبات میں اس کا بھی اضافہ ہوگیا ہے کہ حکومت ٹریفک فری صدر منصوبے پر عمل درآمد کرکے ان کو اس مسئلے سے جلد از جلد نجات دلائے۔
شہر میں اذیت ناک ٹریفک جام میں متعدد سڑکوں اور شاہراہوں پر لاکھوں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں، شہری بے حال ہوجاتے ہیں، گاڑیوں کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے، متعدد مقامات پر ایمبولینسز بھی ٹریفک جام میں پھنسی رہتی اور ان میں حادثات کے شکار زخمی تڑپتے رہتے اور بعض واقعات میں ان کی موت اسپتال جانے سے پہلے ہی واقع ہو جاتی ہے۔ ٹریفک پولیس اہل کار شہریوں کو سٹی وارڈنز کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہ جانے کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ نئے فلائی اوورز کی تعمیرات اور سی این جی کے لیے لمبی قطاریں بھی شہر بھر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم کردیتی ہیں۔
یوں تو پورا شہر ہی اس کی زد میں ہے لیکن شہید ملت روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ، سرور شہید روڈ، دین محمد وفائی روڈ، ایوان صدر روڈ، کلب روڈ، شاہراہ فیصل، صدر، ایمپریس مارکیٹ، عبداﷲ ہارون روڈ، ریگل، برنس روڈ، فاطمہ جناح روڈ، ایم اے جناح روڈ، نیو ایم اے جناح روڈ، لیاقت آباد، غریب آباد، یونیورسٹی روڈ، اسٹیڈیم روڈ، نارتھ ناظم آباد، شاہراہ پاکستان ، ملیر، کورنگی ، لانڈھی ، کلفٹن اور دہلی کالونی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور لاکھوں گاڑیاں ٹریفک جام میں پھنسی رہتی ہیں۔
شہر قائد میں پارکنگ اور تجاوزات بھی ٹریفک جام کا باعث ہیں۔ ٹریفک کی روانی کو متاثر کرنے میں تجاوزات اور اہم تجارتی علاقوں میں پارکنگ کی مناسب جگہ نہ ہونا بھی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے جس کے باعث شہریوں کو ٹریفک جام جیسے مسائل سے ہر روز گزرنا پڑتا ہے۔ کراچی ٹریفک پولیس کے ایک اعلیٰ اہل کار کا کہنا ہے کہ کراچی ایک میگا سٹی ہے تاہم حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کررہی، شہر میں یومیہ کی بنیاد پر سیکڑوں گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے لیکن شہر کی سڑکوں کی چوڑائی وہی پچیس سال پہلے والی گاڑیوں کی مناسبت سے ہے۔
اس کے علاوہ شاہراہوں پر تجاوزات کی بھی بھر مار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک پولیس کا کام ٹریفک کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے تجاوزات ختم کرنا ضلعی حکومت کا کام ہے۔ دو کروڑ سے زاید آبادی والے شہر کراچی میں ٹریفک پولیس کی نفری پہلے ہی کم ہے، اس میں وی آئی پی ڈیوٹی سمیت دیگر انتظامات بھی کرنے ہوتے ہیں، یکم جنوری 2014 کو شہر کے سب سے بڑے تجارتی مرکز صدر کو ٹریفک فری زون کرنا تھا لیکن اب اکتوبر کا مہینہ ختم ہونے والا ہے، تجاوزات کو ختم کیا جاتا ہے اور دوسرے روز ہی ان سڑکوں پر تجاوزات کی پھر سے بھرمار ہوجاتی ہے۔
سابقہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی جانب سے بنائے گئے پارکنگ پلازا کو اب تک ضلعی حکومت فعال کرنے میں ناکام ہے، بڑی مارکیٹوں میں بنائے گئے پارکنگ فلور پر اب دکانیں اور گودام قائم ہیں، شہر کی اہم شاہراہوں پر قائم کمرشل اداروں کی جانب سے بھی گاڑیاں پارک کرنے کے حوالے سے کوئی مناسب انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بعض اوقات ٹریفک جام اور حادثات کا سبب ڈرائیورز کی جانب سے ٹریفک قوانین کی عدم آگاہی اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا نہ ہونا بھی ہے۔
وی آئی پی موومنٹ کے سبب بھی عوام ٹریفک جام میں پھنسے رہتے اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہیں۔ وی آئی پی موومنٹ کے سبب شہر کے مختلف علاقوں جن میں خاص طور پر شارع فیصل، گلشن اقبال، حسن اسکوائر، نیو ایم اے جناح روڈ، لسبیلہ، پٹیل پاڑہ، گرومندر، نمائش چورنگی، سولجر بازار، گارڈن، ایم اے جناح روڈ، زیب النساء اسٹریٹ، پریس کلب، فوارہ چوک، گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، پی آئی ڈی سی، آئی سی آئی پل، میری ویدر ٹاور، کلفٹن، پنجاب چورنگی، آئی آئی چندریگر روڈ اور اطراف کی سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام رہنا معمول ہے۔ جس سے شہریوں کو شدید مشکلات اور ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا اور بیشتر شاہراہوں پر شہری بے سرو سامانی کی حالت میں پھنسے رہتے ہیں۔
شہر قائد میں پانی کی کم یابی، بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ، ٹارگیٹ کلنگ، راہ زنی، ڈکیتی اور پولیس کے ناروا سلوک کے خلاف شہری احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر مظاہرے کرتے اور دھرنا دیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بھی ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوتی ہے اور کسی سڑک کے بند ہونے سے متبادل سڑک پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ بیرون شہر جانے والی بسوں کے غیر قانونی اڈے بھی ٹریفک کی روانی میں خلل کا باعث ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ ابتدا میں ہم نے بتایا تھا کہ ٹریفک جام سے انسان مرسکتا ہے تو اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ٹریفک جام ہونے سے صرف آپ کے موڈ ہی پر برا اثر نہیں پڑتا، بلکہ ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ اس سے انسان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
''برلن جرمنی کے ایک انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی اس تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو ٹریفک جام میں پھنس جاتے ہیں، ان کو ایک گھنٹے کے دوران دل کا دورہ پڑنے کا امکان عام انسانوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ طبی ماہرین جنہوں نے کثیر تعداد میں دل کے دورے والے واقعات کا جائزہ اور تجزیہ کیا ہے، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہر بارہ میں سے ایک موت ٹریفک جام کے سبب ہوئی۔
ٹریفک جام کی وجہ سے خاص طور سے خواتین کو دل کا دورہ پڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ساٹھ سال کی عمر سے زیادہ کے افراد بھی ٹریفک جام سے متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ طے کیا جانا باقی ہے کہ ٹریفک جام کے دوران دل کا دورہ پڑنے کا سبب آلودگی ہے یا ذہنی دباؤ۔
اس تحقیق کے دوران 691 افراد کے انٹرویو کیے گئے، جنہیں دل کا دورہ پڑا تھا۔ مریضوں سے کہا گیا تھا کہ وہ دورہ پڑنے سے چار دن پہلے کے مشاغل اور سرگرمیوں کا بالخصوص ذکر کریں۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ انسان کس طرح کی گاڑی میں سوار ہے۔ اس کا براہ راست تعلق ٹریفک جام ہے''۔
حکومت وقت کو چاہیے کہ جدید خطوط اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے ٹریفک جام کے مسئلے کو فی الفور حل کرے۔