ایک اور جبرالٹر
اس وقت گیند عدالت عظمی کے کورٹ میں ہے لیکن اس سے کسی کو زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں
امیّہ سلطنت کے خلیفہ الولید اول نے شمالی افریقہ کے مسلمان گورنر موسیٰ بن نُصیر کو اسپین کی فتح کے لیے بھیجا۔ طارق بن زیاد نے 9 اپریل 711ء میں مراکش کو عبور کر کے یورپی سرزمین پر قدم رکھ دیا۔ موسیٰ بن نُصیر نے 5 ہزار مزید سپاہی اس کی مدد کے لیے بھیج دیے۔ موسیٰ کے سپاہیوں کی زیادہ تعداد حال ہی میں اسلام قبول کرنے والوں پر مشتمل تھی۔ طارق بن زیاد اپنے سات ہزار سپاہیوں کے ساتھ آئی بیریا کے جزیرہ نما کی ایک چٹان پر اترا۔
جس کا نام بعد ازاں جبل الطارق رکھ دیا گیا، یعنی طارق کا پہاڑ۔ اسے انگریزی میں جبرالٹر کہتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ روایت بھی مشہور ہے کہ طارق نے ساحل پر اتر کر اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا اور یہ سوال کرنے والوں کو کہ اب ہماری واپسی کیسے ہو گی جواب دیا کہ ہم واپسی کی نیت سے یہاں نہیں آئے، یا تو ہم اپنا مقصد حاصل کریں گے یا یہیں پر ختم ہو جائیں گے۔ تین مہینے بعد 19 جولائی 711ء کو اس کی 12 ہزار نفری پر مشتمل فوج نے بادشاہ روڈرک کو شکست دے دی، حالانکہ اس کی فوجوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد تھی۔ بعد ازاں طارق کی فوج نے ہسپانیہ کے مزید اندر داخل ہو کر ٹولیڈو اور گوواڈا لجارا Guadalajara پر قبضہ کر لیا جب کہ اس کی فوج کے دوسرے ڈویژنوں نے قرطبہ' غرناطہ اور دیگر قلعوں کو زیرنگیں کر لیا۔
طارق کی فوجیں ''لڑو یا مر جاؤ'' کے اصول پر عمل کرتی تھیں جنہوں نے اسپین کے بیشتر علاقے کو فتح کر لیا۔ مسلمانوں کا قبضہ تقریباً پانچ سو سال تک برقرار رہا۔ 13 ویں صدی میں یہ ریاستیں ایک ایک کر کے عیسائیوں کے قبضے میں جاتی رہیں جب کہ 2 صدیاں بعد 2 جنوری 1492ء کو اسپین پر مسلمانوں کا قبضہ بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلمان اور یہودی تقریباً 7 سو سال تک آپس میں مکمل امن و امان اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے رہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان دونوں کو عیسائیوں نے ظلم و استبداد کا شکار بنا کر اسپین سے مکمل طور پر خارج کر دیا۔ میرا بہت اچھا دوست فرینک نیومین اسپین میں موری ایرا کی چوٹی پر واقع خوبصورت بنگلے میں بیٹھ کر بحیرہ روم (Mediterranean) کا نظارہ کرتا ہے اور پرانے زمانے کے قصے دہراتا ہے۔
گروپ کیپٹن سلطان ایم حالی نے لکھا ہے کہ آپریشن جبرالٹر کے خفیہ نام سے جولائی اگست 1965ء میں کنٹرول لائن پر جو اچانک حملہ کیا گیا تھا وہ بڑا جرات مندانہ تو یقیناً تھا لیکن پیشہ ورانہ اعتبار سے وہ خام تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کے سیکڑوں فوجی اور نوجوان بے مقصد قربان ہو گئے۔ وہ سب بے نام قبروں میں تہہ خاک آسودہ ہیں۔ سلطان حالی کہتے ہیں کہ رضاکاروں میں زیادہ تر غیر تربیت یافتہ تھے اور ان کے پاس مناسب اسلحہ اور ہتھیار بھی نہیں تھے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو 1999ء کے کارگل معرکہ سے بچا جاسکتا تھا اور ہمارے سیکڑوں کی تعداد میں بہادر نوجوان اب بھی زندہ ہوتے جو کارگل اور اس کے ارد گرد کی پہاڑی گھاٹیوں پر آسودہ خاک ہیں۔ بنیادی طور پر اس آپریشن کی منصوبہ بندی 1950ء کے عشرے میں کی گئی تھی اور اس کو ''آپریشن بدر'' کا خفیہ نام دیا گیا تھا لیکن اس کے ذمے داروں کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا۔
طاہر القادری نے عمران خان کو چھوڑ دیا اب وہ شہر میں اکیلے ہی کھڑے ہیں لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کے لیڈر وزیر اعظم نواز شریف کا استعفیٰ لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس احتجاج کا بنیادی مقصد نظام کی تبدیلی تھا۔ میاں صاحب اس صورت حال سے نکلنے کے لیے آصف زرداری کا تعاون حاصل کر رہے ہیں۔ اب آپ جاوید ہاشمی کی اچانک یوٹرن اور قادری کی فوری واپسی کو بھی ذہن میں رکھیں۔ قادری صاحب کی طرف سے ڈیل نہ کرنے کے دعوے اس اعتبار سے زیادہ قابل اعتبار نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا معاملہ حل نہیں کرایا۔ مسلم لیگ ن نے ملتان میں جاوید ہاشمی کی جو انتخابی مدد کی ہے وہ محض دکھاوا تھا جب کہ سرگودھا اور گجرات میں یکے بعد دیگرے نکلنے والی عمران خان کی ریلیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ اپنی تحریک کا تسلسل قائم رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ پنجاب میں ان کی تحریک خاصی مقبول ہو چکی ہے جس میں کہ پیپلز پارٹی کے زوال کا بھی عمل دخل ہے۔ اے این پی بھی کراچی میں سخت مشکل میں ہے۔
حتیٰ کہ ایم کیو ایم کو بھی پی ٹی آئی کے مقابلے میں انتخاب جیتنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ اگر نبیل گبول ایم کیو ایم چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں تو پی پی پی کے بہت سے دیگر اراکین بھی ان کی پیروی کریں گے بالخصوص لیاری اور ملیر کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے۔ 21 نومبر کو عمران خان لاڑکانہ میں جلسہ کر کے دیہی سندھ میں اپنی پوزیشن کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں۔
اس وقت گیند عدالت عظمی کے کورٹ میں ہے لیکن اس سے کسی کو زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ سپریم کورٹ کا این آر او پر فیصلہ بہت سے قانونی پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے کیونکہ این آر او کے تحت بہت سے لوٹ مار کرنے والوں کو چھوٹ دے دی گئی تھی۔ وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جاتا ہے یا نہیں فی الحال یہ معاملہ زیادہ قابل غور نہیں تاہم اعلیٰ عدلیہ کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اس بات کا ضرور احساس رکھنا چاہیے کہ عوام الناس کی سطح پر بے اطمینانی میں اضافہ ہو رہا ہے اور گراس روٹ کی سطح پر انصاف کا پہنچنا خاصا مشکل لگتا ہے۔ سینٹ کے انتخابات مارچ 2015ء میں ہونے والے ہیں۔
عمران خان کو کوشش کرنی چاہیے کہ سینٹ کے انتخابات بھی براہ راست ووٹنگ سے ہوں اور اس مقصد کے لیے انتخابی قوانین میں جو تبدیلیاں مناسب خیال کی جائیں کی جانی چاہئیں۔ شاہراہ دستور پر اکیلا رہ جانے سے طاہر القادری کے انخلا کے بعد عمران کو فائدہ ہونا چاہیے۔ عمران خان کے پاس بھی اپنی کشتیاں جلانے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ گویا عمران کے سامنے جبرالٹر کا ایک نیا معرکہ ان کا منتظر ہے لیکن کیا یہ جبرالٹر بھی طارق بن زیاد کے 711ء کے جبرالٹر جیسا ہی کامیاب ہو گا یا اس کی مثال 1965ء اور 1999ء والی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ ممکن ہے کہ تیسری مرتبہ عمران خان اور پاکستان دونوں کامیاب ہوجائیں۔
جس کا نام بعد ازاں جبل الطارق رکھ دیا گیا، یعنی طارق کا پہاڑ۔ اسے انگریزی میں جبرالٹر کہتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ روایت بھی مشہور ہے کہ طارق نے ساحل پر اتر کر اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا اور یہ سوال کرنے والوں کو کہ اب ہماری واپسی کیسے ہو گی جواب دیا کہ ہم واپسی کی نیت سے یہاں نہیں آئے، یا تو ہم اپنا مقصد حاصل کریں گے یا یہیں پر ختم ہو جائیں گے۔ تین مہینے بعد 19 جولائی 711ء کو اس کی 12 ہزار نفری پر مشتمل فوج نے بادشاہ روڈرک کو شکست دے دی، حالانکہ اس کی فوجوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد تھی۔ بعد ازاں طارق کی فوج نے ہسپانیہ کے مزید اندر داخل ہو کر ٹولیڈو اور گوواڈا لجارا Guadalajara پر قبضہ کر لیا جب کہ اس کی فوج کے دوسرے ڈویژنوں نے قرطبہ' غرناطہ اور دیگر قلعوں کو زیرنگیں کر لیا۔
طارق کی فوجیں ''لڑو یا مر جاؤ'' کے اصول پر عمل کرتی تھیں جنہوں نے اسپین کے بیشتر علاقے کو فتح کر لیا۔ مسلمانوں کا قبضہ تقریباً پانچ سو سال تک برقرار رہا۔ 13 ویں صدی میں یہ ریاستیں ایک ایک کر کے عیسائیوں کے قبضے میں جاتی رہیں جب کہ 2 صدیاں بعد 2 جنوری 1492ء کو اسپین پر مسلمانوں کا قبضہ بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلمان اور یہودی تقریباً 7 سو سال تک آپس میں مکمل امن و امان اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے رہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان دونوں کو عیسائیوں نے ظلم و استبداد کا شکار بنا کر اسپین سے مکمل طور پر خارج کر دیا۔ میرا بہت اچھا دوست فرینک نیومین اسپین میں موری ایرا کی چوٹی پر واقع خوبصورت بنگلے میں بیٹھ کر بحیرہ روم (Mediterranean) کا نظارہ کرتا ہے اور پرانے زمانے کے قصے دہراتا ہے۔
گروپ کیپٹن سلطان ایم حالی نے لکھا ہے کہ آپریشن جبرالٹر کے خفیہ نام سے جولائی اگست 1965ء میں کنٹرول لائن پر جو اچانک حملہ کیا گیا تھا وہ بڑا جرات مندانہ تو یقیناً تھا لیکن پیشہ ورانہ اعتبار سے وہ خام تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کے سیکڑوں فوجی اور نوجوان بے مقصد قربان ہو گئے۔ وہ سب بے نام قبروں میں تہہ خاک آسودہ ہیں۔ سلطان حالی کہتے ہیں کہ رضاکاروں میں زیادہ تر غیر تربیت یافتہ تھے اور ان کے پاس مناسب اسلحہ اور ہتھیار بھی نہیں تھے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو 1999ء کے کارگل معرکہ سے بچا جاسکتا تھا اور ہمارے سیکڑوں کی تعداد میں بہادر نوجوان اب بھی زندہ ہوتے جو کارگل اور اس کے ارد گرد کی پہاڑی گھاٹیوں پر آسودہ خاک ہیں۔ بنیادی طور پر اس آپریشن کی منصوبہ بندی 1950ء کے عشرے میں کی گئی تھی اور اس کو ''آپریشن بدر'' کا خفیہ نام دیا گیا تھا لیکن اس کے ذمے داروں کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا۔
طاہر القادری نے عمران خان کو چھوڑ دیا اب وہ شہر میں اکیلے ہی کھڑے ہیں لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کے لیڈر وزیر اعظم نواز شریف کا استعفیٰ لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس احتجاج کا بنیادی مقصد نظام کی تبدیلی تھا۔ میاں صاحب اس صورت حال سے نکلنے کے لیے آصف زرداری کا تعاون حاصل کر رہے ہیں۔ اب آپ جاوید ہاشمی کی اچانک یوٹرن اور قادری کی فوری واپسی کو بھی ذہن میں رکھیں۔ قادری صاحب کی طرف سے ڈیل نہ کرنے کے دعوے اس اعتبار سے زیادہ قابل اعتبار نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا معاملہ حل نہیں کرایا۔ مسلم لیگ ن نے ملتان میں جاوید ہاشمی کی جو انتخابی مدد کی ہے وہ محض دکھاوا تھا جب کہ سرگودھا اور گجرات میں یکے بعد دیگرے نکلنے والی عمران خان کی ریلیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ اپنی تحریک کا تسلسل قائم رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ پنجاب میں ان کی تحریک خاصی مقبول ہو چکی ہے جس میں کہ پیپلز پارٹی کے زوال کا بھی عمل دخل ہے۔ اے این پی بھی کراچی میں سخت مشکل میں ہے۔
حتیٰ کہ ایم کیو ایم کو بھی پی ٹی آئی کے مقابلے میں انتخاب جیتنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ اگر نبیل گبول ایم کیو ایم چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں تو پی پی پی کے بہت سے دیگر اراکین بھی ان کی پیروی کریں گے بالخصوص لیاری اور ملیر کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے۔ 21 نومبر کو عمران خان لاڑکانہ میں جلسہ کر کے دیہی سندھ میں اپنی پوزیشن کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں۔
اس وقت گیند عدالت عظمی کے کورٹ میں ہے لیکن اس سے کسی کو زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ سپریم کورٹ کا این آر او پر فیصلہ بہت سے قانونی پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے کیونکہ این آر او کے تحت بہت سے لوٹ مار کرنے والوں کو چھوٹ دے دی گئی تھی۔ وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جاتا ہے یا نہیں فی الحال یہ معاملہ زیادہ قابل غور نہیں تاہم اعلیٰ عدلیہ کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اس بات کا ضرور احساس رکھنا چاہیے کہ عوام الناس کی سطح پر بے اطمینانی میں اضافہ ہو رہا ہے اور گراس روٹ کی سطح پر انصاف کا پہنچنا خاصا مشکل لگتا ہے۔ سینٹ کے انتخابات مارچ 2015ء میں ہونے والے ہیں۔
عمران خان کو کوشش کرنی چاہیے کہ سینٹ کے انتخابات بھی براہ راست ووٹنگ سے ہوں اور اس مقصد کے لیے انتخابی قوانین میں جو تبدیلیاں مناسب خیال کی جائیں کی جانی چاہئیں۔ شاہراہ دستور پر اکیلا رہ جانے سے طاہر القادری کے انخلا کے بعد عمران کو فائدہ ہونا چاہیے۔ عمران خان کے پاس بھی اپنی کشتیاں جلانے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ گویا عمران کے سامنے جبرالٹر کا ایک نیا معرکہ ان کا منتظر ہے لیکن کیا یہ جبرالٹر بھی طارق بن زیاد کے 711ء کے جبرالٹر جیسا ہی کامیاب ہو گا یا اس کی مثال 1965ء اور 1999ء والی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ ممکن ہے کہ تیسری مرتبہ عمران خان اور پاکستان دونوں کامیاب ہوجائیں۔