31 اکتوبر دلخراش تاریخ …کوثر علی صدیقی

گھر کی کفالت کرنے والوں کو اگر ظالم چھین لیں تو ان کے گھروں پر قیامت صرف ایک دن نہیں ہوا کرتی۔

MIRPUR:
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو ایک ہی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، جو آگے چل کر مختلف رجحانات میں بدل جاتی ہے اور شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جو عام حالات میں تشدد پسندی کا رجحان رکھتا ہو، لیکن پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوا کرتیں، لہٰذا مختلف ادوار میں انسان کی ذہنی فکرات و تخیلات نے مختلف سانحات و حادثات کو جنم دیا، ان میں سیکڑوں ایسے واقعات بھی ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور یہ سب ظلم و ستم کی داستانیں بپا کرنے والی کوئی اور مخلوق نہیں بلکہ حضرت انسان ہی تھے۔

دور جہالت ہو یا دور جدید تمام تجزیوں سے یہی ثابت ہے کہ انسان غصے کی حالت میں پاگل پن کی آخری حدود کو چھو لیتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ غصہ ہمیشہ حماقت سے شروع ہوکر ندامت پر ختم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے سانحات انسانی ذہن کی مرہون منت ہیں، جس میں لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئی ہیں۔

اس کے باوجود کہ دنیا بھر میں بہت ہی سخت قوانین بنائے گئے ہیں تاکہ اس قسم کے سانحات کا سدباب ہوسکے لیکن بے سود۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل اور طاقت کے نشے میں چور ظالم حکمرانوں نے کمزور اور نہتے عوام کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس کے علاوہ اس جیسے درجنوں جرائم ہیں جو ہمارے ملک پاکستان میں ماضی میں بھی رونما ہوئے ہیں اور آج بھی جاری ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی ایسے بے شمار سانحات رونما ہوئے ہیں جن کی گتھیاں آج تک نہیں سلجھائی جاسکیں لیکن آخر یہ کس کی ذمے داری تھی؟ اس ملک پر موروثی سیاست کرنے والے سیاستدانوں کی یا ان اداروں کی جن پر ماہانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں؟

یہ مختصر سا جائزہ میں قارئین کے گوش گزار اس لیے کر رہا ہوں کہ ماضی میں جو کچھ ہوچکا ہے شاید عوام کا شعور بیدار ہونے کے بعد مستقبل میں ایسا نہ ہو۔ لیکن اگر اب بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا اور من مانی کے ذریعے درندگی کا ثبوت دیا گیا تو ملکی قوانین مذاق بن کر رہ جائیں گے اور حالات قابو سے باہر ہونے کا مقصد جمہوریہ پاکستان کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔ ظلم و ستم کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ 1965 اور 1972 میں اردو بولنے والوں کا قتل عام ہو یا 1986 کا سانحہ ہو یا 1988 میں حیدرآباد پکا قلعہ میں معصوم شہریوں کی شہادت کا، 31 اکتوبر سانحہ سہراب گوٹھ یا کوئی اور سانحہ، غرض سانحہ پر سانحہ رونما کرکے حق پرست کارکنان و عوام کو بے دردی سے شہید کیا جاتا رہا۔


31 اکتوبر 1986 کو ایک ایسا ہی دردناک سانحہ پیش آیا جب حیدرآباد میں ہونے والے ایم کیو ایم کے جلسے میں شرکت کے لیے جانے والے حق پرست عوام کے پرامن جلوس پر سہراب گوٹھ کے قریب بے دردی کے ساتھ بلاجواز گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی اور مظلوم عوام کو نشانہ بنایا گیا، جس میں درجنوں حق پرست ہمدرد اور کارکنوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تھا کہ 8 اگست 1986 کو ایم کیو ایم کا پہلا جلسہ جو کراچی کے مشہور سیاسی گراؤنڈ نشتر پارک میں ہوا تھا اور اس میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس بات کی دلیل تھا کہ حق پرست عوام کی ایک بڑی قوت قائد تحریک الطاف حسین پر اعتماد کا اظہار کررہی ہے اور عوام ایک پلیٹ فارم پر متحد ہورہے ہیں۔ ان حالات سے گھبرا کر اور ایم کیو ایم کی مقبولیت سے خائف ہوکر اس وقت کی جابر حکومت نے اپنے کرائے کے پٹھوؤں سے یہ شرمناک فعل سرانجام دیا۔

31 اکتوبر کو ایم کیو ایم کے بڑے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے جو کہ حیدرآباد میں منعقد کیا گیا تھا، جلسے میں جانے والے قافلے پر سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کروائی اور قتل و غارتگری کا بازار گرم کردیا لیکن اس کے باوجود حق پرست عوام نے حیدرآباد کے جلسے کو کامیاب بنایا۔ 31 اکتوبر کو سانحہ سہراب گوٹھ میں شہید ہونے والے درجنوں ایم کیو ایم کے ہمدرد، کارکنان و عزیز اقارب آج بھی اپنے پیاروں کے غم میں خون کے آنسو رونے پر مجبور ہیں، کیونکہ کوئی بھی شخص جو گھر سے ہشاش بشاش باہر نکلے اور گھر واپسی پر اس کا جنازہ آئے تو دل رکھنے والے سوچیں کہ اس کے گھر والوں کا کیا حال ہوگا؟ ماں کی ممتا انمول ہے اس کا غم دنیا کی کوئی بھی دولت بھلا نہیں سکتی، بہنوں کی محبت اور ان کا غم اپنی جگہ لیکن معصوم بچوں کی آہیں سسکیاں، بابا کے غم کو بھلا نہیں سکتیں۔ گھر کی کفالت کرنے والوں کو اگر ظالم چھین لیں تو ان کے گھروں پر قیامت صرف ایک دن نہیں ہوا کرتی۔

31 اکتوبر سانحہ سہراب گوٹھ اور تمام تحریکی شہداؤں کو سلام تحسین پیش کرتا ہوں جن کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ آج ایم کیو ایم سے متحدہ قومی موومنٹ کے اس کٹھن سفر میں شہداؤں نے فرعونی طاقتوں کے سامنے اپنا سر کٹا کر حق پرستی کی وہ شمع روشن کی ہے جس کی روشنی سارے پاکستان میں عوام کو حق پرستی کی نوید سنارہی ہے۔ ان شہداء کا لہو ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ہم پاکستانی عوام اپنی ذاتیات، انا پرستی، زبان کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر قومی یکجہتی کو فروغ دیں اور اس ملک کے ظالم و جابروں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیں کیونکہ یہ مفاد پرست عناصر حق پرستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

آج ہمیں جتنی بھی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ سب شہیدوں کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے کہ انھوں نے اپنی جانیں قربان کرکے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ سچی تحریک کے لیے کام کرنے والے ساتھی اپنی جانیں قربان کرکے ہی تحریک کو جلا بخشتے ہیں، اگر شہدائے حق تحریک کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہ کرتے تو یہ کامیابیاں جو آج ہمیں ملی ہیں وہ ناممکن تھیں، کیونکہ اس دور کو اگر یاد کیا جائے تو لوگ اپنے سایے سے بھی ڈرتے تھے لیکن آفرین ہے ان شہدائے حق کو جنھوں نے اپنے لہو سے اس تحریک کی آبیاری کے لیے تمام حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ کو قربان کردیا۔ آئیے! ہم سب مل کر سانحہ سہراب گوٹھ اور تمام شہدا کو خراج تحسین پیش کریں اور یہ عہد کریں کہ تحریک کی کامیابی کے لیے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
Load Next Story