ہاتھی اس کی مانتے ہیں
17 سالہ نرملا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہاتھیوں سے باتیں کرتی ہے اور ہاتھی اس کی بات کو سنتے اور سمجھتے ہیں
بھارت کی 17 سالہ نڈر لڑکی نرملا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہاتھیوں سے باتیں کرتی ہے۔ ہاتھی اس کی بات کو سنتے اور سمجھتے ہیں اور اس کا کہنا بھی مانتے ہیں۔ نرملا اس وقت اسکول میں پڑھ رہی ہے، لیکن اس نے عہد کیا ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہاتھیوں کے ساتھ دوستی کرے گی، دنیا سے انہیں معدوم ہونے سے بچائے گی، جب کہ ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ انہی ہاتھیوں نے اس کے باپ کی جان لی تھی، لیکن نرملا نے نہ تو ان عظیم الجثہ جانوروں سے اپنے باپ کی موت کا بدلہ لیا اور نہ مستقبل میں ایسا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔
اس کے بجائے وہ ان ہاتھیوں کی سب سے بڑی محافظ بن کر سامنے آئی ہے۔ نرملا کا باپ مارینو شروع سے ہی یہ کام کرتا تھا۔ وہ ہاتھیوں کو انسانی بستیوں سے بھگانے میں ماہر تھا۔ اس نے اپنی بیٹی (نرملا) کو بچپن سے اس عظیم الجثہ جانور سے باتیں کرنا سکھایا تھا۔ یہ لوگ رڑکیلا (انڈیا) کے قریب واقع دیہات میں رہتے ہیں۔ نرملا کا کہنا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس کوئی ایسی پراسرار یا جادوئی قوت ہے جس کی وجہ سے ہاتھی میرے سامنے آکر میرے غلام بن جاتے ہیں جس کے بعد وہ میری بات سنتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔
لیکن نومبر میں مشتعل ہاتھیوں کے ایک غول نے نرملا کے پچاس سالہ پتاجی مارینو پر حملہ کردیا جس میں وہ مارے گئے۔ نرملا نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پتاجی کو مرتے دیکھا تھا، مگر وہ انہیں بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکی، جب ہاتھیوں کا غول وہاں سے چلا گیا تو نرملا بھاگ کر اپنے پتاجی کے پاس پہنچی، مگر اس وقت تک وہ دم توڑ چکے تھے۔
اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نرملا ہاتھیوں کی جانی دشمن ہوجاتی اور ان کی نسل کو تباہ کرنے کا عزم کرتی، مگر اس نے ایسا نہ کیا، بلکہ آنے والے وقت میں وہ ہاتھیوں کی سب سے بڑی دوست بن کر سامنے آئی اور اس نے یہ عہد کیا کہ ان معصوم جانوروں کو پوچرز (ہاتھی دانت کے لیے اس کی جان لینے والے ظالموں) سے بچائے گی۔ابھی تو نرملا اسکول میں پڑھ رہی ہے، لیکن وہ یہ عہد کرچکی ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی پوری زندگی ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے وقف کردے گی۔
اس وقت انڈیا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگ ہی اس کم عمر اور نڈر لڑکی کی تعریف کررہے ہیں جو اپنے خطے میں وہ واحد لڑکی ہے جو تن تنہا ایک ہی وقت میں 17 وحشی ہاتھیوں کو کنٹرول کرسکتی ہے۔ اس کے سامنے پہنچ کر یہ خوف ناک جانور موم ہوجاتے ہیں۔ انڈیا میں روڑکیلا کے قریب واقع دیہات کے جنگلوں میں یہ ہاتھی ہر وقت گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور بڑی تباہی مچاتے ہیں۔
واضح رہے کہ روڑکیلا مشرقی انڈیا میں واقع ہے۔ نرملا کے گاؤں میں ابتدا ہی سے ہاتھی جنگلوں اور آبادیوں میں گھس جاتے ہیں اور بڑی مچاتے رہے ہیں۔ اس موقع پر اس کے پتاجی مقامی افراد کے ایک گروپ کے ساتھ انہیں کنٹرول کرنے جاتے تھے۔ نرملا بھی ان کے ساتھ ہوتی تھی۔ اس طرح اس نے کم عمری سے ہی یہ دیکھا تھا کہ اس کے پتاجی ہاتھیوں کو کس طرح قابو کرکے بستیوں سے دور لے جاتے ہیں۔ اس طرح انجانے میں نرملا نے یہ فن سیکھ بھی لیا تھا۔
متعدد لوگوں نے نرملا کو ہاتھیوں سے باتیں کرتے دیکھا تو اس کی اس غیرمعمولی صلاحیت پر حیران رہ گئے۔ نرملا بچی ہونے کے باوجود نہ جانے ان بپھرے ہوئے ہاتھیوں کو کیسے قابو کرلیتی ہے، کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کے اشارے پر خونخوار ہاتھی کسی بچے کی طرح سر جھکاکر جنگل میں چلے جاتے ہیں۔گذشتہ سال نرملا پورے انڈیا میں اس وقت مشہور ہوئی جب اس نے ایک خطرناک موقع پر اکٹھے 11 مشتعل ہاتھیوں کو نہ صرف قابو کیا، بلکہ انہیں جنگل کی طرف جانے کا حکم بھی دیا اور ہاتھیوں نے اس کا حکم مان لیا۔
اس کے صرف چند ماہ بعد نرملا نے 17ہاتھیوں کو جنگل کی راہ دکھائی جو سب بڑے خطرناک موڈ میں تھے اور اس کی بستی کو ختم کرنے کے ارادے سے آئے تھے۔ لوگ اس دبلی پتلی سی لڑکی کی ہمت پر حیران ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہاتھیوں سے کس زبان میں باتیں کرتی ہے، کون سے اشارے دیتی ہے کہ وہ اس کی بات کو سمجھ لیتے ہیں اور حکم کا درجہ دیتے ہوئے چپ چاپ چلے جاتے ہیں۔
ایک موقع پر نرملا نے کہا:''میں اپنے علاقے میں جو کام کررہی ہوں، یہ کام نہ تو کوئی عورت کرنا چاہتی ہے اور نہ اتنی ہمت رکھتی ہے۔ لیکن میں ارادہ کرچکی ہوں کہ یہی کام کروں گی، چاہے اس میں میری جان کیوں نہ چلی جائے۔ میری ہمت اور جرأت کی وجہ سے لوگوں نے مجھے 'ہاتھیوں سے باتیں کرنے والی لڑکی' کا خطاب دے دیا ہے۔ یہ سبھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس یقینی طور پر کوئی جادوئی طاقت ہے جو مجھے دیوتاؤں نے خوش ہوکر تحفے میں دی ہے اور وہی جادوئی طاقت مجھ سے یہ سب کام کروارہی ہے۔ ''
نرملا کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کام نہ تو کوئی کھیل ہے اور نہ ہی مذاق۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے پتاجی کو ہاتھیوں کے پیروں تلے مرتے دیکھا ہے۔ پھر بھی میں نے ان سے بدلہ نہیں لیا اور نہ کبھی لوں گی، کیوں کہ یہ شان دار جانور ہماری زمین کا حسن ہے اور میں اس حسن کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گی چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
جب نرملا سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اسے ہاتھیوں سے ڈر نہیں لگتا تو اس نے جواب دیا:''ایسا نہیں ہے، میں بھی انسان ہوں، ایک کمزور سی لڑکی ہوں۔ جب میں ان کے بالکل قریب پہنچتی ہوں تو ایک دم نروس ہوجاتی ہوں۔ لیکن پھر ہمت کرکے آگے بڑھتی ہوں اور اپنا کام مکمل کرلیتی ہوں تو اس کے بعد بہت خوش ہوتی ہوں کہ خدا نے میری لاج رکھ لی۔ میرا خیال ہے کہ میرا خدا اس کام میں میری مدد کرتا ہے ورنہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے۔''
دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں نرملا کی عمر کے بچے ہاتھیوں کو قریب سے دیکھنے کے لیے چڑیا گھر جاتے ہیں، مگر نرملا اس عمر میں اس گاؤں میں رہتی ہے جہاں ہاتھیوں کے غول کے بستیوں میں گھسنے کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ یہ ہاتھی اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کرڈالتے ہیں، اس کے باوجود لوگ اس گاؤں سے کسی دوسرے محفوظ مقام پر نہیں جاتے، بلکہ اس خطرے کے ساتھ اپنی زمین پر ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نرملا بھی اپنی فیملی کے ساتھ اسی گاؤں میں اپنی ماں جی سلومی اور چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتی ہے۔
اس کا کہنا ہے:''میرے پتاجی دیکھا کرتے تھے کہ جب بھی ہاتھیوں کے غول ہماری بستی میں گھستے تھے تو وہ ہر چیز کو تباہ کرڈالتے تھے، یہاں تک کہ ان کے کچے مکان اور جھونپڑیوں کو بھی نیست و نابود کردیا کرتے تھے۔ اس بستی کے لوگ بہت غریب ہیں۔ وہ روز روز اپنے گھر تعمیر نہیں کرسکتے اور نہ یہاں سے کہیں اور منتقل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے میرے پتاجی نے انہیں سمجھایا کہ ہاتھیوں سے گھبراکر اپنا گھر نہ چھوڑو، بلکہ ان سے مقابلہ کرو، انہیں اپنی بستی میں گھسنے سے روکو، ایک وقت آئے گا کہ وہ خود ہی یہاں آنا چھوڑ دیں گے۔
پھر پتاجی نے گاؤں کے بہادر نوجوانوں پر مشتمل ایک گروپ تیار کیا جس کا کام ان ہاتھیوں سے مقابلہ کرنا اور انہیں بستی میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔ اس کے بعد جب بھی ہاتھیوں کے غول کسی بستی کا رخ کرتے، نوجوانوں کے اس گروپ کو مدد کے لیے طلب کرلیا جاتا تھا۔ میں نے بھی اس گروپ میں شامل ہونے کی ضد کی، پہلے تو پتاجی نہ مانے، مگر جب میں مسلسل ضد کرتی رہی تو آخرکار انہوں مجھے اس گروپ میں شامل کرلیا، اس وقت میری عمر 13سال تھی۔ شروع میں تو وحشی ہاتھیوں کو دیکھ کر مجھے ڈر لگا، لیکن جب میں ان کے قریب پہنچی تو میرا سارا خوف جاتا رہا اور پھر میں نے ہاتھیوں کو دور لے جانے کا کام شروع کردیا۔ اس کے بعد میں پتاجی کے ساتھ ہر مہم پر جانے لگی، کیوں کہ انہیں میری صلاحیت کا اندازہ ہوچکا تھا۔''
گذشتہ سال اگرچہ نرملا کا ایک پیر زخمی ہوگیا تھا، مگر پھر بھی اس نے وحشی ہاتھیوں کو اپنی بستی سے باہر نکال کر ہی دم لیا۔نرملا کی خود سمجھ میں نہیں آتا کہ ہاتھی اس کی بات کیسے مان لیتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے طور پر ہاتھیوں کی آنکھوں میں بڑے پیار سے دیکھتی ہے جیسے ایک انسان دوسرے انسان کو دیکھتا ہے، پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ اس بستی میں گھسنا کوئی اچھی بات نہیں، یہاں پرامن لوگ رہتے ہیں، انہیں نقصان پہنچے گا، اس لیے مہربانی کرکے واپس جنگل میں چلے جاؤ۔ اس موقع پر اس کا لب و لہجہ بہت پیارا ہوتا ہے اور ہاتھی اس کے سحر میں کھوجاتے ہیں۔
پھر وہ ایک جلتی ہوئی مشعل ہاتھ میں اٹھاتی ہے اور ہاتھیوں کی آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوئے انہیں وہاں سے جانے کا حکم دیتی ہے تو وہ اس کی بات مان لیتے ہیں۔زخمی ہونے کے بعد نرملا کو کئی ہفتے تک اسپتال میں رہنا پڑا تو اس کا میڈیکل بل بھی بڑھتا چلا گیا جسے بعد میں حکومت نے ادا کیا۔ صرف تین ماہ بعد ہی نرملا اور اس کے پتاجی کو پھر بلایا گیا، کیوں کہ ہاتھیوں کا ایک غول ایک چھوٹے گاؤں کے نزدیک ایک کھیت میں گھس گیا تھا۔ اس موقع پر نرملا اپنے پتاجی کے ساتھ اس مشن پر گئی جو اس کا پتاجی کے ساتھ آخری مشن ثابت ہوا۔ اسی مشن میں اس کے پتا جی دنیا سے چلے گئے۔
اس حوالے سے نرملا نے بتایا:''اس وقت میں اسکول میں تھی کہ فاریسٹ مینیجر نے میرے پتاجی سے رابطہ کیا اور مدد مانگی۔ اگلے ہی لمحے ہماری پرنسپل میری کلاس میں پہنچیں اور مجھ سے کہا کہ میں میری فیملی کو میری فوری ضرورت ہے۔ میں تیزی سے گھر پہنچی تو پتاجی میرے منتظر تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ17 ہاتھیوں کا ایک غول قریبی بستی میں گھس گیا ہے، انہیں نکالنے کے لیے ہمیں فوراً وہاں جانا ہوگا۔ میں نے جلدی سے اپنی وردی پہنی، کھانے پینے کی کچھ چیزیں اٹھائیں اور پتاجی کے ساتھ روانہ ہوگئی۔ جب ہم مطلوبہ مقام پر پہنچے تو یہ منظر دیکھا کہ ہاتھی کھیت میں گھسے ہوئے تھے اور بہت غصے میں دکھائی دے رہے تھے۔
جس کی وجہ یہ تھی کہ مقامی لوگ ان پر مسلسل پتھر اور لکڑیاں پھینک رہے تھے۔ ہماری ٹیم نے ان لوگوں کو روکا اور اپنا کام شروع کردیا۔ پہلے ہم لوگ اس کھیت میں دور دور تک پھیل گئے، تاکہ ہاتھی ایک جگہ جمع نہ سکیں، اس کے بعد ہم نے انہیں پیار سے دور لے جانے کا مشکل کام شروع کیا۔ اسی لمحے کسی نے چیخ کر کہا:ارے! یہ تو مررہا ہے۔ میں بھاگ کر پہنچی تو دیکھا کہ وہ میرے پتاجی تھے۔ وہ زمین پر پڑے ہوئے تھے اور ایک بڑا ہاتھی ان پر پیر رکھے ہوئے تھا۔
ویسے میں ہاتھیوں سے نفرت نہیں کرتی، مگر اس منظر نے مجھے دکھی کردیا، کیوں کہ میرے پتاجی صرف اس مشتعل ہاتھی کی وجہ سے مجھے سے جدا ہوئے تھے۔ ہاتھی واقعی غصے میں تھا، مگر میں نے خود کو کنٹرول کیا اور اس کی آنکھوں میں براہ راست دیکھنا شروع کیا، چند لمحوں بعد ہی ہاتھی مڑا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ میں لپک کر پتاجی کے پاس پہنچی، مگر وہ مرچکے تھے۔ میں جب کبھی ہاتھیوں کو بستی سے نکالنے کے مشن پر جاتی تھی تو اس سے پہلے خصوصی دعا پڑھتی تھی، مگر اس روز خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔''
نرملا کے پتاجی کی موت کے بعد انڈیا کی حکومت نے اس فیملی کو دو لاکھ روپے کا چیک دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ جب نرملا اپنی تعلیم مکمل کرلے گی تو اس کو فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک گارڈ کی سرکاری ملازمت مل جائے گی۔ اس ڈیپارٹمنٹ کا کام جانوروں کو پوچرز سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔
یہ اعلان سننے کے بعد نرملا نے کہا:''میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس اعلان پر خوشی کا اظہار کروں یا نہ کروں، کیوں کہ یہ ملازمت مجھے پتاجی کی موت کی وجہ سے ملے گی۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو مجھے یہ ملازمت کبھی نہ ملتی، ہاں اگر وہ زندہ ہوتے تو میرے اس کارنامے پر فخر ضرور کرتے اور مجھے شاباشی بھی دیتے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے پتاجی کی آتما آسمانوں میں ضرور خوش ہورہی ہوگی۔''
اس کے بجائے وہ ان ہاتھیوں کی سب سے بڑی محافظ بن کر سامنے آئی ہے۔ نرملا کا باپ مارینو شروع سے ہی یہ کام کرتا تھا۔ وہ ہاتھیوں کو انسانی بستیوں سے بھگانے میں ماہر تھا۔ اس نے اپنی بیٹی (نرملا) کو بچپن سے اس عظیم الجثہ جانور سے باتیں کرنا سکھایا تھا۔ یہ لوگ رڑکیلا (انڈیا) کے قریب واقع دیہات میں رہتے ہیں۔ نرملا کا کہنا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس کوئی ایسی پراسرار یا جادوئی قوت ہے جس کی وجہ سے ہاتھی میرے سامنے آکر میرے غلام بن جاتے ہیں جس کے بعد وہ میری بات سنتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔
لیکن نومبر میں مشتعل ہاتھیوں کے ایک غول نے نرملا کے پچاس سالہ پتاجی مارینو پر حملہ کردیا جس میں وہ مارے گئے۔ نرملا نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پتاجی کو مرتے دیکھا تھا، مگر وہ انہیں بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکی، جب ہاتھیوں کا غول وہاں سے چلا گیا تو نرملا بھاگ کر اپنے پتاجی کے پاس پہنچی، مگر اس وقت تک وہ دم توڑ چکے تھے۔
اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نرملا ہاتھیوں کی جانی دشمن ہوجاتی اور ان کی نسل کو تباہ کرنے کا عزم کرتی، مگر اس نے ایسا نہ کیا، بلکہ آنے والے وقت میں وہ ہاتھیوں کی سب سے بڑی دوست بن کر سامنے آئی اور اس نے یہ عہد کیا کہ ان معصوم جانوروں کو پوچرز (ہاتھی دانت کے لیے اس کی جان لینے والے ظالموں) سے بچائے گی۔ابھی تو نرملا اسکول میں پڑھ رہی ہے، لیکن وہ یہ عہد کرچکی ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی پوری زندگی ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے وقف کردے گی۔
اس وقت انڈیا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگ ہی اس کم عمر اور نڈر لڑکی کی تعریف کررہے ہیں جو اپنے خطے میں وہ واحد لڑکی ہے جو تن تنہا ایک ہی وقت میں 17 وحشی ہاتھیوں کو کنٹرول کرسکتی ہے۔ اس کے سامنے پہنچ کر یہ خوف ناک جانور موم ہوجاتے ہیں۔ انڈیا میں روڑکیلا کے قریب واقع دیہات کے جنگلوں میں یہ ہاتھی ہر وقت گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور بڑی تباہی مچاتے ہیں۔
واضح رہے کہ روڑکیلا مشرقی انڈیا میں واقع ہے۔ نرملا کے گاؤں میں ابتدا ہی سے ہاتھی جنگلوں اور آبادیوں میں گھس جاتے ہیں اور بڑی مچاتے رہے ہیں۔ اس موقع پر اس کے پتاجی مقامی افراد کے ایک گروپ کے ساتھ انہیں کنٹرول کرنے جاتے تھے۔ نرملا بھی ان کے ساتھ ہوتی تھی۔ اس طرح اس نے کم عمری سے ہی یہ دیکھا تھا کہ اس کے پتاجی ہاتھیوں کو کس طرح قابو کرکے بستیوں سے دور لے جاتے ہیں۔ اس طرح انجانے میں نرملا نے یہ فن سیکھ بھی لیا تھا۔
متعدد لوگوں نے نرملا کو ہاتھیوں سے باتیں کرتے دیکھا تو اس کی اس غیرمعمولی صلاحیت پر حیران رہ گئے۔ نرملا بچی ہونے کے باوجود نہ جانے ان بپھرے ہوئے ہاتھیوں کو کیسے قابو کرلیتی ہے، کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کے اشارے پر خونخوار ہاتھی کسی بچے کی طرح سر جھکاکر جنگل میں چلے جاتے ہیں۔گذشتہ سال نرملا پورے انڈیا میں اس وقت مشہور ہوئی جب اس نے ایک خطرناک موقع پر اکٹھے 11 مشتعل ہاتھیوں کو نہ صرف قابو کیا، بلکہ انہیں جنگل کی طرف جانے کا حکم بھی دیا اور ہاتھیوں نے اس کا حکم مان لیا۔
اس کے صرف چند ماہ بعد نرملا نے 17ہاتھیوں کو جنگل کی راہ دکھائی جو سب بڑے خطرناک موڈ میں تھے اور اس کی بستی کو ختم کرنے کے ارادے سے آئے تھے۔ لوگ اس دبلی پتلی سی لڑکی کی ہمت پر حیران ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہاتھیوں سے کس زبان میں باتیں کرتی ہے، کون سے اشارے دیتی ہے کہ وہ اس کی بات کو سمجھ لیتے ہیں اور حکم کا درجہ دیتے ہوئے چپ چاپ چلے جاتے ہیں۔
ایک موقع پر نرملا نے کہا:''میں اپنے علاقے میں جو کام کررہی ہوں، یہ کام نہ تو کوئی عورت کرنا چاہتی ہے اور نہ اتنی ہمت رکھتی ہے۔ لیکن میں ارادہ کرچکی ہوں کہ یہی کام کروں گی، چاہے اس میں میری جان کیوں نہ چلی جائے۔ میری ہمت اور جرأت کی وجہ سے لوگوں نے مجھے 'ہاتھیوں سے باتیں کرنے والی لڑکی' کا خطاب دے دیا ہے۔ یہ سبھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس یقینی طور پر کوئی جادوئی طاقت ہے جو مجھے دیوتاؤں نے خوش ہوکر تحفے میں دی ہے اور وہی جادوئی طاقت مجھ سے یہ سب کام کروارہی ہے۔ ''
نرملا کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کام نہ تو کوئی کھیل ہے اور نہ ہی مذاق۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے پتاجی کو ہاتھیوں کے پیروں تلے مرتے دیکھا ہے۔ پھر بھی میں نے ان سے بدلہ نہیں لیا اور نہ کبھی لوں گی، کیوں کہ یہ شان دار جانور ہماری زمین کا حسن ہے اور میں اس حسن کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گی چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
جب نرملا سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اسے ہاتھیوں سے ڈر نہیں لگتا تو اس نے جواب دیا:''ایسا نہیں ہے، میں بھی انسان ہوں، ایک کمزور سی لڑکی ہوں۔ جب میں ان کے بالکل قریب پہنچتی ہوں تو ایک دم نروس ہوجاتی ہوں۔ لیکن پھر ہمت کرکے آگے بڑھتی ہوں اور اپنا کام مکمل کرلیتی ہوں تو اس کے بعد بہت خوش ہوتی ہوں کہ خدا نے میری لاج رکھ لی۔ میرا خیال ہے کہ میرا خدا اس کام میں میری مدد کرتا ہے ورنہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے۔''
دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں نرملا کی عمر کے بچے ہاتھیوں کو قریب سے دیکھنے کے لیے چڑیا گھر جاتے ہیں، مگر نرملا اس عمر میں اس گاؤں میں رہتی ہے جہاں ہاتھیوں کے غول کے بستیوں میں گھسنے کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ یہ ہاتھی اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کرڈالتے ہیں، اس کے باوجود لوگ اس گاؤں سے کسی دوسرے محفوظ مقام پر نہیں جاتے، بلکہ اس خطرے کے ساتھ اپنی زمین پر ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نرملا بھی اپنی فیملی کے ساتھ اسی گاؤں میں اپنی ماں جی سلومی اور چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتی ہے۔
اس کا کہنا ہے:''میرے پتاجی دیکھا کرتے تھے کہ جب بھی ہاتھیوں کے غول ہماری بستی میں گھستے تھے تو وہ ہر چیز کو تباہ کرڈالتے تھے، یہاں تک کہ ان کے کچے مکان اور جھونپڑیوں کو بھی نیست و نابود کردیا کرتے تھے۔ اس بستی کے لوگ بہت غریب ہیں۔ وہ روز روز اپنے گھر تعمیر نہیں کرسکتے اور نہ یہاں سے کہیں اور منتقل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے میرے پتاجی نے انہیں سمجھایا کہ ہاتھیوں سے گھبراکر اپنا گھر نہ چھوڑو، بلکہ ان سے مقابلہ کرو، انہیں اپنی بستی میں گھسنے سے روکو، ایک وقت آئے گا کہ وہ خود ہی یہاں آنا چھوڑ دیں گے۔
پھر پتاجی نے گاؤں کے بہادر نوجوانوں پر مشتمل ایک گروپ تیار کیا جس کا کام ان ہاتھیوں سے مقابلہ کرنا اور انہیں بستی میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔ اس کے بعد جب بھی ہاتھیوں کے غول کسی بستی کا رخ کرتے، نوجوانوں کے اس گروپ کو مدد کے لیے طلب کرلیا جاتا تھا۔ میں نے بھی اس گروپ میں شامل ہونے کی ضد کی، پہلے تو پتاجی نہ مانے، مگر جب میں مسلسل ضد کرتی رہی تو آخرکار انہوں مجھے اس گروپ میں شامل کرلیا، اس وقت میری عمر 13سال تھی۔ شروع میں تو وحشی ہاتھیوں کو دیکھ کر مجھے ڈر لگا، لیکن جب میں ان کے قریب پہنچی تو میرا سارا خوف جاتا رہا اور پھر میں نے ہاتھیوں کو دور لے جانے کا کام شروع کردیا۔ اس کے بعد میں پتاجی کے ساتھ ہر مہم پر جانے لگی، کیوں کہ انہیں میری صلاحیت کا اندازہ ہوچکا تھا۔''
گذشتہ سال اگرچہ نرملا کا ایک پیر زخمی ہوگیا تھا، مگر پھر بھی اس نے وحشی ہاتھیوں کو اپنی بستی سے باہر نکال کر ہی دم لیا۔نرملا کی خود سمجھ میں نہیں آتا کہ ہاتھی اس کی بات کیسے مان لیتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے طور پر ہاتھیوں کی آنکھوں میں بڑے پیار سے دیکھتی ہے جیسے ایک انسان دوسرے انسان کو دیکھتا ہے، پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ اس بستی میں گھسنا کوئی اچھی بات نہیں، یہاں پرامن لوگ رہتے ہیں، انہیں نقصان پہنچے گا، اس لیے مہربانی کرکے واپس جنگل میں چلے جاؤ۔ اس موقع پر اس کا لب و لہجہ بہت پیارا ہوتا ہے اور ہاتھی اس کے سحر میں کھوجاتے ہیں۔
پھر وہ ایک جلتی ہوئی مشعل ہاتھ میں اٹھاتی ہے اور ہاتھیوں کی آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوئے انہیں وہاں سے جانے کا حکم دیتی ہے تو وہ اس کی بات مان لیتے ہیں۔زخمی ہونے کے بعد نرملا کو کئی ہفتے تک اسپتال میں رہنا پڑا تو اس کا میڈیکل بل بھی بڑھتا چلا گیا جسے بعد میں حکومت نے ادا کیا۔ صرف تین ماہ بعد ہی نرملا اور اس کے پتاجی کو پھر بلایا گیا، کیوں کہ ہاتھیوں کا ایک غول ایک چھوٹے گاؤں کے نزدیک ایک کھیت میں گھس گیا تھا۔ اس موقع پر نرملا اپنے پتاجی کے ساتھ اس مشن پر گئی جو اس کا پتاجی کے ساتھ آخری مشن ثابت ہوا۔ اسی مشن میں اس کے پتا جی دنیا سے چلے گئے۔
اس حوالے سے نرملا نے بتایا:''اس وقت میں اسکول میں تھی کہ فاریسٹ مینیجر نے میرے پتاجی سے رابطہ کیا اور مدد مانگی۔ اگلے ہی لمحے ہماری پرنسپل میری کلاس میں پہنچیں اور مجھ سے کہا کہ میں میری فیملی کو میری فوری ضرورت ہے۔ میں تیزی سے گھر پہنچی تو پتاجی میرے منتظر تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ17 ہاتھیوں کا ایک غول قریبی بستی میں گھس گیا ہے، انہیں نکالنے کے لیے ہمیں فوراً وہاں جانا ہوگا۔ میں نے جلدی سے اپنی وردی پہنی، کھانے پینے کی کچھ چیزیں اٹھائیں اور پتاجی کے ساتھ روانہ ہوگئی۔ جب ہم مطلوبہ مقام پر پہنچے تو یہ منظر دیکھا کہ ہاتھی کھیت میں گھسے ہوئے تھے اور بہت غصے میں دکھائی دے رہے تھے۔
جس کی وجہ یہ تھی کہ مقامی لوگ ان پر مسلسل پتھر اور لکڑیاں پھینک رہے تھے۔ ہماری ٹیم نے ان لوگوں کو روکا اور اپنا کام شروع کردیا۔ پہلے ہم لوگ اس کھیت میں دور دور تک پھیل گئے، تاکہ ہاتھی ایک جگہ جمع نہ سکیں، اس کے بعد ہم نے انہیں پیار سے دور لے جانے کا مشکل کام شروع کیا۔ اسی لمحے کسی نے چیخ کر کہا:ارے! یہ تو مررہا ہے۔ میں بھاگ کر پہنچی تو دیکھا کہ وہ میرے پتاجی تھے۔ وہ زمین پر پڑے ہوئے تھے اور ایک بڑا ہاتھی ان پر پیر رکھے ہوئے تھا۔
ویسے میں ہاتھیوں سے نفرت نہیں کرتی، مگر اس منظر نے مجھے دکھی کردیا، کیوں کہ میرے پتاجی صرف اس مشتعل ہاتھی کی وجہ سے مجھے سے جدا ہوئے تھے۔ ہاتھی واقعی غصے میں تھا، مگر میں نے خود کو کنٹرول کیا اور اس کی آنکھوں میں براہ راست دیکھنا شروع کیا، چند لمحوں بعد ہی ہاتھی مڑا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ میں لپک کر پتاجی کے پاس پہنچی، مگر وہ مرچکے تھے۔ میں جب کبھی ہاتھیوں کو بستی سے نکالنے کے مشن پر جاتی تھی تو اس سے پہلے خصوصی دعا پڑھتی تھی، مگر اس روز خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔''
نرملا کے پتاجی کی موت کے بعد انڈیا کی حکومت نے اس فیملی کو دو لاکھ روپے کا چیک دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ جب نرملا اپنی تعلیم مکمل کرلے گی تو اس کو فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک گارڈ کی سرکاری ملازمت مل جائے گی۔ اس ڈیپارٹمنٹ کا کام جانوروں کو پوچرز سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔
یہ اعلان سننے کے بعد نرملا نے کہا:''میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس اعلان پر خوشی کا اظہار کروں یا نہ کروں، کیوں کہ یہ ملازمت مجھے پتاجی کی موت کی وجہ سے ملے گی۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو مجھے یہ ملازمت کبھی نہ ملتی، ہاں اگر وہ زندہ ہوتے تو میرے اس کارنامے پر فخر ضرور کرتے اور مجھے شاباشی بھی دیتے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے پتاجی کی آتما آسمانوں میں ضرور خوش ہورہی ہوگی۔''