شدت پسندی سے نمٹنے کا موثر ذریعہ
وطن عزیز میں تعلیم کے دوہرے نظام نے بھی علم و تعلیم کے انحطاط میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ تعلیم شدت پسند ذہنیت سے نمٹنے کا موثر ذریعہ ہے۔
نیویارک میں سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن سے ملاقات میں، جو عالمی تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے بھی ہیں' صدر نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا اور انھیں بتایا کہ پاکستان یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے لیے پُرعزم ہے۔
گورڈن براؤن نے صدر زرداری کو اقوام متحدہ کے منصوبے ''تعلیم سب سے پہلے'' کے مقاصد کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ وہ اس سلسلے میں جلد پاکستان کا دورہ کرینگے۔ صدر نے ان کے دورے کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان کے دورے سے تعلیمی شعبے میں عالمی برادری کے ساتھ پاکستان کے تعاون کو مزید فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ فروغ تعلیم کے بارے میں صدر مملکت کا یہ بیان یقینا حوصلہ افزاء ہے اور اگر اقوام متحدہ بھی پاکستان میں فروغ تعلیم میں دلچسپی لے رہی ہے تو یہ اور بھی زیادہ خوش آیند بات ہے لیکن اس حوالے سے جس بنیادی چیز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
وہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان تعلیم کے فروغ میں کس حد تک دلچسپی لے رہی ہے بالخصوص جب ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے لیے قومی بجٹ کا اس قدر قلیل حصہ رکھا گیا ہے جس کا ذکر کرتے خجالت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں شروع سے ہی اس شعبے کو افسوس ناک طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نجی شعبے میں قائم ہونے والے تعلیمی اداروں نے تعلیم کو ایک نہایت منفعت بخش کاروبارِ بنا لیا ہے۔ ادھر سرکاری تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی حالت دن بدن خراب ہورہی ہے۔
وطن عزیز میں تعلیم کے دوہرے نظام نے بھی علم و تعلیم کے انحطاط میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تعلیم کے صحیح معنوں میں فروغ کے لیے یہ لازم ہے کہ ابتدائی سطح کی تعلیم اگر بالکل مفت نہیں تو کم ازکم اتنی سستی ضرور ہو۔ علاوہ ازیں جو نظام تعلیم نوآبادیاتی آقاؤں نے مقامی آبادی سے صرف کلرک حاصل کرنے کے لیے دو سو سال قبل نافذ کیا تھا وہ تھوڑی بہت تبدیل شدہ شکل میں اب تک برقرار ہے۔ آج بھی جو گریجویٹ فارغ التحصیل ہو کر نکل رہے ہیں ان کی استعداد بھی کسی طور قابل رشک نہیں کہی جا سکتی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ تمام ایجادات اور اختراعات صرف مغرب میں ہی ہو رہی ہیں اور ہمارا تمام تر دار ومدار انھی پر ہے جنھیں عمومی تناظر میں ہم اپنا دشمن گردانتے ہیں۔ اپنے یہاں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا تو درکنار یہاں جو تقلیدی صناعی ہوتی ہے اس میں ''کوالٹی کنٹرول'' کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اندرون ملک بنائی جانے والی بیشتر اشیاء ناقص نکلتی ہیں اور صارفین کو مجبوراً غیرملکی چیزیں خریدنا پڑتی ہیں جو نسبتاً قابل بھروسہ ہوتی ہیں اور حقیقت میں یہ سب تعلیم وتربیت کے نقائص کا نتیجہ ہے۔
ملکی سطح پر ہماری پسماندگی کا بھی یہی راز ہے۔ عوام الناس کی صلاحیتوں میں کوئی کمی نہیں لیکن ناتراشیدہ ہیرے، جواہرات کے خزینے خرابوں میں گم رہتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی جوہر شناس کی نظر ان میں سے کسی پر پڑ جائے تو وہ شہرت وعظمت کے آسمان پر جگمانے لگتا ہے، مگر ایسا شاذ ونادر ہی ہوتاہے جب کہ اگر تعلیم وتربیت وطن عزیز کے ہر شہری کا مقدر بنا دی جائے تو ہمارا ملک یقینی طور پر عظمت کی شاہراہوں پر گامزن ہو سکتا ہے۔ صدر مملکت نے درست کہا ہے کہ تعلیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے دوردراز کے محروم علاقوں میں شدت پسند ذہنیت جنم لیتی ہے جس کا علاج تعلیم کی فراہمی ہے۔ حکومت کے کارپردازوں کو چاہیے کہ وہ صدر مملکت کے پیغام کے معنی کو سمجھیں اور تعلیمی پالیسی کو حقیقت سے ہم آہنگ کریں۔
نیویارک میں سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن سے ملاقات میں، جو عالمی تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے بھی ہیں' صدر نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا اور انھیں بتایا کہ پاکستان یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے لیے پُرعزم ہے۔
گورڈن براؤن نے صدر زرداری کو اقوام متحدہ کے منصوبے ''تعلیم سب سے پہلے'' کے مقاصد کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ وہ اس سلسلے میں جلد پاکستان کا دورہ کرینگے۔ صدر نے ان کے دورے کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان کے دورے سے تعلیمی شعبے میں عالمی برادری کے ساتھ پاکستان کے تعاون کو مزید فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ فروغ تعلیم کے بارے میں صدر مملکت کا یہ بیان یقینا حوصلہ افزاء ہے اور اگر اقوام متحدہ بھی پاکستان میں فروغ تعلیم میں دلچسپی لے رہی ہے تو یہ اور بھی زیادہ خوش آیند بات ہے لیکن اس حوالے سے جس بنیادی چیز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
وہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان تعلیم کے فروغ میں کس حد تک دلچسپی لے رہی ہے بالخصوص جب ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے لیے قومی بجٹ کا اس قدر قلیل حصہ رکھا گیا ہے جس کا ذکر کرتے خجالت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں شروع سے ہی اس شعبے کو افسوس ناک طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نجی شعبے میں قائم ہونے والے تعلیمی اداروں نے تعلیم کو ایک نہایت منفعت بخش کاروبارِ بنا لیا ہے۔ ادھر سرکاری تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی حالت دن بدن خراب ہورہی ہے۔
وطن عزیز میں تعلیم کے دوہرے نظام نے بھی علم و تعلیم کے انحطاط میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تعلیم کے صحیح معنوں میں فروغ کے لیے یہ لازم ہے کہ ابتدائی سطح کی تعلیم اگر بالکل مفت نہیں تو کم ازکم اتنی سستی ضرور ہو۔ علاوہ ازیں جو نظام تعلیم نوآبادیاتی آقاؤں نے مقامی آبادی سے صرف کلرک حاصل کرنے کے لیے دو سو سال قبل نافذ کیا تھا وہ تھوڑی بہت تبدیل شدہ شکل میں اب تک برقرار ہے۔ آج بھی جو گریجویٹ فارغ التحصیل ہو کر نکل رہے ہیں ان کی استعداد بھی کسی طور قابل رشک نہیں کہی جا سکتی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ تمام ایجادات اور اختراعات صرف مغرب میں ہی ہو رہی ہیں اور ہمارا تمام تر دار ومدار انھی پر ہے جنھیں عمومی تناظر میں ہم اپنا دشمن گردانتے ہیں۔ اپنے یہاں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا تو درکنار یہاں جو تقلیدی صناعی ہوتی ہے اس میں ''کوالٹی کنٹرول'' کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اندرون ملک بنائی جانے والی بیشتر اشیاء ناقص نکلتی ہیں اور صارفین کو مجبوراً غیرملکی چیزیں خریدنا پڑتی ہیں جو نسبتاً قابل بھروسہ ہوتی ہیں اور حقیقت میں یہ سب تعلیم وتربیت کے نقائص کا نتیجہ ہے۔
ملکی سطح پر ہماری پسماندگی کا بھی یہی راز ہے۔ عوام الناس کی صلاحیتوں میں کوئی کمی نہیں لیکن ناتراشیدہ ہیرے، جواہرات کے خزینے خرابوں میں گم رہتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی جوہر شناس کی نظر ان میں سے کسی پر پڑ جائے تو وہ شہرت وعظمت کے آسمان پر جگمانے لگتا ہے، مگر ایسا شاذ ونادر ہی ہوتاہے جب کہ اگر تعلیم وتربیت وطن عزیز کے ہر شہری کا مقدر بنا دی جائے تو ہمارا ملک یقینی طور پر عظمت کی شاہراہوں پر گامزن ہو سکتا ہے۔ صدر مملکت نے درست کہا ہے کہ تعلیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے دوردراز کے محروم علاقوں میں شدت پسند ذہنیت جنم لیتی ہے جس کا علاج تعلیم کی فراہمی ہے۔ حکومت کے کارپردازوں کو چاہیے کہ وہ صدر مملکت کے پیغام کے معنی کو سمجھیں اور تعلیمی پالیسی کو حقیقت سے ہم آہنگ کریں۔