ہمارے ہیں حسینؓ
بیسویں صدی کے نصف آخرمیں آشوب عصرکے حوالے سےسلام کی صنف میں غم حسینؓ کےساتھ ساتھ مناجات کاایک رنگ بھی شامل ہونےلگا۔
لاہور:
شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ دیں پناہ است حسینؓ
سر داد، نداد دست در دست یزیذ
حقّا کہ بنائے لاالہ است حسینؓ
راہ حق میں جان کا نذرانہ دینے والے انسان بلا شبہ انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں لیکن ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے پیچھے روشنی کا ایک ایسا دائرہ چھوڑ جاتے ہیں جس کے محیط میں ان کے بعد آنے والے سارے زمانے ایک سلسلۂ نور کا روپ دھار لیتے ہیں ایک ایسا سلسلہ جس کے ہر طرف ان ھی کا نام نامی چمکتا اور دمکتا دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنی قوم، وقت اور عقیدے کی حدوں سے اوپر اٹھ کر تمام عالم کے انسانوں کے لیے ایک زندہ استعارہ اور علامت بن جاتے ہیں۔
تقریباً چودہ سو برس پہلے اسی طرح کا ایک زندہ اور بھر پور استعارہ نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کی شکل میں امت مسلمہ کو بالخصوص اور عالم انسانیت کو بالعموم عطا ہوا تھا تاریخ عالم اگرچہ انسانی المیوں سے بھری پڑی ہے لیکن اس کے صفحات میں کربلا جیسی کسی دوسری داستان کا ذکر نہیں ملتا کہ جس کے ذکر سے ان گزری ہوئی چودہ صدیوں کا ہر لمحہ معمور اور بھر پور ہے۔ یہ واحد واقعہ ہے جس نے نہ صرف ایک ادبی ضعف یعنی مرثیہ کو جنم دیا بلکہ اس کی وساطت سے ایسا عظیم اور منفرد ادب بھی سامنے آیا جس کی مثال عالمی ادب میں ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکے گی۔
مرثائی ادب یوں تو مسلمان اکثریت والے تمام علاقوں کی مختلف زبانوں میں موجود ہے لیکن اردو میں جیسے اور جتنے باکمال مرثیہ نگاروں نے اس صنف ادب کو ذریعہ اظہار بنایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز کے زمانے کو اس کا سنہری دور قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس دور کے سخن ور واقعی زمینوں کو آسمان سے ملانے پر قادر تھے۔ ''سلام'' کا تعلق بھی اسی مرثائی ادب سے ہے۔ شبلی نعمانی اپنی مشہور زمانہ تصنیف ''موازنۂ انیس و دبیر'' میں سلام کے باب میں لکھتے ہیں کہ
''عام مرثیہ گویوں نے اپنے مضمون کی نوعیت کے لحاظ سے مسدس کا طریقہ اختیار کیا لیکن غزل کی لے اس قدر کانوں میں رچ چکی تھی کہ ان لوگوں کو بھی اس انداز میں کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا تھا۔ اس بنا پر انھوں نے غزل کی طرز پر سلام ایجاد کیا۔ سلام کی بحریں وہی غزل کی ہوتی ہیں۔ سلام کی خوبی یہ ہے کہ طرح شگفتہ اور نئی، بندش سادہ اور صاف، مضمون درد انگیز اور پر تاثیر ہو۔ میر انیس کے سلاموں میں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں۔ نمونہ ملاحظہ ہو۔
صبر کرتے تھے سلامی شہِ والا کیا کیا
اہل کیں دیتے تھے مظلوم کو ایذا کیا کیا
شاہ فرماتے تھے پانی نہیں ملتا، لیکن
سامنے آنکھوں کے لہراتا ہے دریا، کیا کیا
سرِ شبیر سے کہتے تھے یہ رو رو سجاد
رنج دیتے ہیں مجھے راہ میں اعدا کیا کیا
طوق و زنجیر سنبھالوں کہ مہار اونٹوں کی
کام اتنے ہیں کروں میں تن تنہا کیا کیا
دیکھ کر فوج حسینی کو، عدد کہتے تھے
ساتھ لائے ہیں جواں سیّدِ والا کیا کیا
خط لیے لاشۂ اصغر پہ یہ کہتے تھے امام
دیکھو بیٹا تمہیں صغرا نے ہے لکھا کیا کیا
مرثیہ خوانی بیانِ واقات کربلا کے ساتھ ساتھ ایک آرٹ بھی تھی۔ ایک ادبی صنف کے حوالے سے اس کے کچھ اپنے تقاضے تھے اور ایک مخصوص انداز کی محفل میں پڑھے جانے کے باعث اس کے کچھ ایسے لوازمات بھی متعین ہو گئے جن کی وجہ سے اعتراضات کا ایک نیا باب کھل گیا کہ مرثیہ گو حضرات نے اس واقعے کو اتنا زیادہ مقامی رنگ دے دیا ہے جیسے کہ اس کا محل وقوع کربلا نہیں بلکہ لکھنؤ تھا۔ بادی النظر میں یہ تاثر کوئی اتنا غلط نہیں لگتا لیکن اگر اس دور اور اس کی فضا کو سامنے رکھا جائے جس میں یہ انداز رائج ہوا تو بہت سے اعتراضات خود بخود رفع ہو جاتے ہیں۔
سلام کی ابتدا تو جیسے مولانا شبلی نعمانی نے فرمایا، غزل کی ہئیت کے اثر اور مقبولیت کی وجہ سے ہوتی تھی لیکن آگے چل کر نہ صرف غزل میں اس کے حوالے سے بالکل مختلف اور منفرد استعاروں نے راہ پالی بلکہ نظم رباعی اور آزاد نظم کی ہئیتیں بھی استعمال میں آنے لگیں۔ اختر حسین جعفری جدید مرثائی ادب میں اپنے مخصوص انداز اور پیرایہ اظہار کی وجہ سے ایک اہم نام کی حیثیت رکھتے ہیں پہلے ان کا غزل کی ہئیت میں لکھا ہوا ایک سلام دیکھتے ہیں اور اس کے بعد میں اپنا ایک آزاد نظم کے قالب میں ڈھالا ہوا سلام پیش کرتا ہوں۔
مجلس شہ میں نئی سطرِ معانی پڑھیے
سخن اس پر ہو تو کیوں نظم پرانی پڑھیے
کس کا اقرار سر ِنوک سناں، شہ نے کیا
بات کیا تھی جو تہِ تیغ، نہ مانی، پڑھیے
چہرۂ احمدؐ مرسل کو بہ تفصیل پڑھیں
اسی تفصیل میں اکبر کی جوانی پڑھیے
جمع میں کرتا ہوں جلتے ہوئے خیموں کے حروف
آپ اس شام بیاباں کی کہانی پڑھیے
بیسویں صدی کے نصف آخر میں آشوب عصر کے حوالے سے سلام کی صنف میں غم حسینؓ کے ساتھ ساتھ مناجات کا ایک رنگ بھی شامل ہونے لگا جس کی اصل غائت جناب امام کی عظیم قربانی سے ہمت اور حوصلے کی کشید تھی کہ اس کے بغیر اس چاروں طرف سے گھیرا کرتے آشوبِ وقت سے نکلنے کا اور کوئی راستہ نہ تھا۔ جناب امام عالی مقام کا یزید کی بیعت سے انکار اور موت کو مردانہ وار آگے بڑھ کر گلے لگانے کا یہ انداز ایسا انوکھا اور زندگی سے بھر پور تھا کہ اس کی روشنی صدیوں کا سفر طے کر کے آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے نوحہ گری اور عزم و ہمت کا یہ امتزاج ہی دراصل وہ منفرد سنگ میل ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی ہر قوم ''ہمارے ہیں حسینؓ'' کا اقرار اور اظہار کرتی نظر آتی ہے۔
میں نوحہ گر ہوں
میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں
میں آنے والی رُتوں کے دامن میں
عورتوں کی اُداس بانہوں کو دیکھتا ہوں
اور ان کے مردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں
زمیں کے گولے پہ زرد، کالے، تمام نقطے
لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں
نئی زمینوں کے خواب لے کر
مسافر ان تباہ یادوں کے ریگزاروں میں چل رہے ہیں
میں نوحہ گر ہوں مسافروں کا
جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں
میں ہوش والوں کی بدحواسی کا نواحہ گر ہوں
حسینؓ، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں
ہمارے آگے بھی کربلا ہے
ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے
نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا
تیرے سفر کی جراحتوں سے
ملا ہے مجھ کو مقام میرا
حسینؓ، تجھ کو سلام میرا
حسینؓ! تجھ کو سلام میرا
شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ دیں پناہ است حسینؓ
سر داد، نداد دست در دست یزیذ
حقّا کہ بنائے لاالہ است حسینؓ
راہ حق میں جان کا نذرانہ دینے والے انسان بلا شبہ انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں لیکن ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے پیچھے روشنی کا ایک ایسا دائرہ چھوڑ جاتے ہیں جس کے محیط میں ان کے بعد آنے والے سارے زمانے ایک سلسلۂ نور کا روپ دھار لیتے ہیں ایک ایسا سلسلہ جس کے ہر طرف ان ھی کا نام نامی چمکتا اور دمکتا دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنی قوم، وقت اور عقیدے کی حدوں سے اوپر اٹھ کر تمام عالم کے انسانوں کے لیے ایک زندہ استعارہ اور علامت بن جاتے ہیں۔
تقریباً چودہ سو برس پہلے اسی طرح کا ایک زندہ اور بھر پور استعارہ نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کی شکل میں امت مسلمہ کو بالخصوص اور عالم انسانیت کو بالعموم عطا ہوا تھا تاریخ عالم اگرچہ انسانی المیوں سے بھری پڑی ہے لیکن اس کے صفحات میں کربلا جیسی کسی دوسری داستان کا ذکر نہیں ملتا کہ جس کے ذکر سے ان گزری ہوئی چودہ صدیوں کا ہر لمحہ معمور اور بھر پور ہے۔ یہ واحد واقعہ ہے جس نے نہ صرف ایک ادبی ضعف یعنی مرثیہ کو جنم دیا بلکہ اس کی وساطت سے ایسا عظیم اور منفرد ادب بھی سامنے آیا جس کی مثال عالمی ادب میں ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکے گی۔
مرثائی ادب یوں تو مسلمان اکثریت والے تمام علاقوں کی مختلف زبانوں میں موجود ہے لیکن اردو میں جیسے اور جتنے باکمال مرثیہ نگاروں نے اس صنف ادب کو ذریعہ اظہار بنایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز کے زمانے کو اس کا سنہری دور قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس دور کے سخن ور واقعی زمینوں کو آسمان سے ملانے پر قادر تھے۔ ''سلام'' کا تعلق بھی اسی مرثائی ادب سے ہے۔ شبلی نعمانی اپنی مشہور زمانہ تصنیف ''موازنۂ انیس و دبیر'' میں سلام کے باب میں لکھتے ہیں کہ
''عام مرثیہ گویوں نے اپنے مضمون کی نوعیت کے لحاظ سے مسدس کا طریقہ اختیار کیا لیکن غزل کی لے اس قدر کانوں میں رچ چکی تھی کہ ان لوگوں کو بھی اس انداز میں کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا تھا۔ اس بنا پر انھوں نے غزل کی طرز پر سلام ایجاد کیا۔ سلام کی بحریں وہی غزل کی ہوتی ہیں۔ سلام کی خوبی یہ ہے کہ طرح شگفتہ اور نئی، بندش سادہ اور صاف، مضمون درد انگیز اور پر تاثیر ہو۔ میر انیس کے سلاموں میں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں۔ نمونہ ملاحظہ ہو۔
صبر کرتے تھے سلامی شہِ والا کیا کیا
اہل کیں دیتے تھے مظلوم کو ایذا کیا کیا
شاہ فرماتے تھے پانی نہیں ملتا، لیکن
سامنے آنکھوں کے لہراتا ہے دریا، کیا کیا
سرِ شبیر سے کہتے تھے یہ رو رو سجاد
رنج دیتے ہیں مجھے راہ میں اعدا کیا کیا
طوق و زنجیر سنبھالوں کہ مہار اونٹوں کی
کام اتنے ہیں کروں میں تن تنہا کیا کیا
دیکھ کر فوج حسینی کو، عدد کہتے تھے
ساتھ لائے ہیں جواں سیّدِ والا کیا کیا
خط لیے لاشۂ اصغر پہ یہ کہتے تھے امام
دیکھو بیٹا تمہیں صغرا نے ہے لکھا کیا کیا
مرثیہ خوانی بیانِ واقات کربلا کے ساتھ ساتھ ایک آرٹ بھی تھی۔ ایک ادبی صنف کے حوالے سے اس کے کچھ اپنے تقاضے تھے اور ایک مخصوص انداز کی محفل میں پڑھے جانے کے باعث اس کے کچھ ایسے لوازمات بھی متعین ہو گئے جن کی وجہ سے اعتراضات کا ایک نیا باب کھل گیا کہ مرثیہ گو حضرات نے اس واقعے کو اتنا زیادہ مقامی رنگ دے دیا ہے جیسے کہ اس کا محل وقوع کربلا نہیں بلکہ لکھنؤ تھا۔ بادی النظر میں یہ تاثر کوئی اتنا غلط نہیں لگتا لیکن اگر اس دور اور اس کی فضا کو سامنے رکھا جائے جس میں یہ انداز رائج ہوا تو بہت سے اعتراضات خود بخود رفع ہو جاتے ہیں۔
سلام کی ابتدا تو جیسے مولانا شبلی نعمانی نے فرمایا، غزل کی ہئیت کے اثر اور مقبولیت کی وجہ سے ہوتی تھی لیکن آگے چل کر نہ صرف غزل میں اس کے حوالے سے بالکل مختلف اور منفرد استعاروں نے راہ پالی بلکہ نظم رباعی اور آزاد نظم کی ہئیتیں بھی استعمال میں آنے لگیں۔ اختر حسین جعفری جدید مرثائی ادب میں اپنے مخصوص انداز اور پیرایہ اظہار کی وجہ سے ایک اہم نام کی حیثیت رکھتے ہیں پہلے ان کا غزل کی ہئیت میں لکھا ہوا ایک سلام دیکھتے ہیں اور اس کے بعد میں اپنا ایک آزاد نظم کے قالب میں ڈھالا ہوا سلام پیش کرتا ہوں۔
مجلس شہ میں نئی سطرِ معانی پڑھیے
سخن اس پر ہو تو کیوں نظم پرانی پڑھیے
کس کا اقرار سر ِنوک سناں، شہ نے کیا
بات کیا تھی جو تہِ تیغ، نہ مانی، پڑھیے
چہرۂ احمدؐ مرسل کو بہ تفصیل پڑھیں
اسی تفصیل میں اکبر کی جوانی پڑھیے
جمع میں کرتا ہوں جلتے ہوئے خیموں کے حروف
آپ اس شام بیاباں کی کہانی پڑھیے
بیسویں صدی کے نصف آخر میں آشوب عصر کے حوالے سے سلام کی صنف میں غم حسینؓ کے ساتھ ساتھ مناجات کا ایک رنگ بھی شامل ہونے لگا جس کی اصل غائت جناب امام کی عظیم قربانی سے ہمت اور حوصلے کی کشید تھی کہ اس کے بغیر اس چاروں طرف سے گھیرا کرتے آشوبِ وقت سے نکلنے کا اور کوئی راستہ نہ تھا۔ جناب امام عالی مقام کا یزید کی بیعت سے انکار اور موت کو مردانہ وار آگے بڑھ کر گلے لگانے کا یہ انداز ایسا انوکھا اور زندگی سے بھر پور تھا کہ اس کی روشنی صدیوں کا سفر طے کر کے آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے نوحہ گری اور عزم و ہمت کا یہ امتزاج ہی دراصل وہ منفرد سنگ میل ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی ہر قوم ''ہمارے ہیں حسینؓ'' کا اقرار اور اظہار کرتی نظر آتی ہے۔
میں نوحہ گر ہوں
میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں
میں آنے والی رُتوں کے دامن میں
عورتوں کی اُداس بانہوں کو دیکھتا ہوں
اور ان کے مردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں
زمیں کے گولے پہ زرد، کالے، تمام نقطے
لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں
نئی زمینوں کے خواب لے کر
مسافر ان تباہ یادوں کے ریگزاروں میں چل رہے ہیں
میں نوحہ گر ہوں مسافروں کا
جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں
میں ہوش والوں کی بدحواسی کا نواحہ گر ہوں
حسینؓ، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں
ہمارے آگے بھی کربلا ہے
ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے
نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا
تیرے سفر کی جراحتوں سے
ملا ہے مجھ کو مقام میرا
حسینؓ، تجھ کو سلام میرا
حسینؓ! تجھ کو سلام میرا