یا رب العزت
ایئرپورٹ پر صدر ایوب خاں سے وزیروں سفیروں جرنیلوں کی موجودگی میں سب کی نظروں کے سامنے...
میرے گھر کی ایک بڑی میز طویل عرصے تک ایک شہر سے دوسرے شہر تبادلوں کے دوران ساتھ ساتھ سفر میں رہی لیکن اس کی ایک دراز کی چابی کھو چکی تھی، اس لیے وہ مقفل رہی اور کبھی اسے کھول کر دیکھنے کا موقع نہ ملا۔
چند روز قبل ایک چابیوں کے گچھے میں سے نکال کر کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دراز کی چابی گم نہیں ہوئی تھی نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ دراز کھلی تو معلوم ہوا، اس میں تو وہ گیارہ خاص فوٹو تھیں جو اکثر ایک محکمے یا شہر سے دوسرے میں تبادلے کے بعد الوداعی ڈنر کے ساتھ گروپ فوٹو بنا کرتی اور یادگار کے طور پر رخصت ہونے والے کو بطور خاص پیش کی جاتی تھیں۔
کئی تصاویر تو فریم کرا لی جاتیں اور بہت سی ویسے ہی رکھ لی جاتیں۔ ان گروپ فوٹوز میں سے ایک میں نے الگ کر لی کیوں کہ یہ الوداعی گروپ فوٹو ایک کالم کا تقاضا کرتی تھی۔ راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کے اس گروپ فوٹو میں سینئر افسر کرسیوں پر بیٹھے تھے جن کے سینٹر میں میرے پہلے ڈپٹی کمشنر میجر اشرف صاحب متمکن تھے۔ ان کے دائیں طرف والی کرسی پر پوسٹ آئوٹ ہو کر جانے والے مجسٹریٹ حلیم شیر تھے اور کرسیوں کے پیچھے نوجوان مجسٹریٹ کھڑے تھے اور میں انھی میں تھا۔ مذکورہ دو شخصیات ہی اس کالم کے لکھے جانے کی بنیاد ہیں۔
اب میرے ذہن کے پردے پر راولپنڈی کا چکلالہ ایئرپورٹ آتا ہے۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خاں ایک غیر ملکی دورے سے واپس آ رہے ہیں، ملکی و دیگر وی آئی پی شخصیات ریڈ کارپٹ پر استقبالیہ قطار میں کھڑی ہیں۔
ہوائی جہاز اتر کر ٹیکسی کرتا ہوا استقبالی قطار سے کچھ فاصلے پر رکتا ہے۔ ملٹری سیکریٹری جہاز کی سیڑھی پر نمودار ہو کر ڈپٹی کمشنر میجر اشرف کو جو ایک سائیڈ پر کھڑے ہیں اشارے سے بلاتا ہے۔ ایوب خاں جہاز سے اتر کر ڈپٹی کمشنر کو ہمراہ لے کر استقبالی قطار سے پرے جہاز کی سائیڈ پر جا کھڑے ہوتے اور ان سے چار پانچ منٹ تک باتیں کرتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ہاتھ باندھے صدر کی بات سن کر ''یس سر یس سر'' والی گردن ہلاتا جاتا ہے۔ سارے ملک کی وی آئی پی شخصیات صدر کا ڈپٹی کمشنر میجر اشرف کے ساتھ باہمی ربط و اعتماد کا منظر دیکھتی رہتی ہیں۔ میں بھی ایئرپورٹ ڈیوٹی پر حاضر یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ اب صدر استقبالیہ قطار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ڈپٹی کمشنر چاروں طرف طائرانہ بلکہ فاتحانہ نظر ڈالتے ہوئے وی آئی پی لائونج کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔
میرا عزیز ترین دوست مسٹر توقیر حسین انھی دنوں فارن آفس ٹریننگ سے فارغ ہوتا ہے اور اس کی پہلی فارن پوسٹنگ انڈیا ہو جاتی ہے۔ وہ مجرد ہے اور ڈپٹی کمشنر اسے پسند کرتے ہیں لیکن خود اسے انڈیا پوسٹنگ پسند نہیں آئی۔ ڈی سی صاحب اس کی خواہش پر اس کا تبادلہ محض ایک ٹیلیفون کال پر کینیڈا کرا دیتے ہیں اور وہ اسی ملک میں گھر بھی بسا لیتا ہے۔
اب آئیے گروپ فوٹو کے مطابق پوسٹ آئوٹ ہونے والی شخصیت کی طرف جو سفارش سے راولپنڈی تو تعینات ہوئی لیکن سات آٹھ ماہ کے اندر مرضی کی پوسٹنگ کروا کے کہیں اور چلی گئی لیکن اس کی راولپنڈی تعیناتی پر جو میرے ساتھ UNPRECIDENTED سلوک ہوا وہ بھی ریکارڈ کی بات ہے۔ مذکورہ مجسٹریٹ نے ضلعی انتظامیہ میں آ کر پسند کا کمرۂ عدالت تو لیا ہی تھا، اب ڈی سی سے مطالبہ کیا کہ سرکاری رہائش گاہ بھی دی جائے۔ کوئی سرکاری مکان خالی نہ تھا۔ تین ماہ قبل مجھے سرکاری مکان الاٹ ہوا تھا اور میں اس میں شفٹ ہو چکا تھا۔
ایئرپورٹ پر صدر ایوب خاں سے وزیروں سفیروں جرنیلوں کی موجودگی میں سب کی نظروں کے سامنے Exclusive ملاقات کے بعد سے ڈی سی صاحب کا انداز جابرانہ و متکبرانہ رعونت بھرا اور لہجہ بڑا درشت ہو چکا تھا۔ انھوں نے ایک روز کمال کا غیر معمولی آفس آرڈر جاری کیا کہ میں اپنی سرکاری رہائش گاہ فی الفور خالی کر کے نئے آنے والے مذکورہ مجسٹریٹ کے حوالے کر دوں۔ جس نے بھی اس مارشلائی حکم نامے کا سنا حیران ہوا لیکن میں تو پریشان بھی ہوا اور ایک احتجاجی نوٹ لکھ کر ڈی سی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کہ میں تو اس مکان میں رہائش پذیر ہوں میری الاٹمنٹ کس اصول پر منسوخ کی جا رہی ہے۔
انھوں نے غصہ سے کمشنر ایم ایچ شاہ کو فون کیا کہ ایک مجسٹریٹ نافرمان ہے میں آپ کی منظوری سے اسے گوجر خاں ٹرانسفر کر رہا ہوں اور پھر مجھے کہا کہ گوجر خاں میں سید سرفراز شاہ اسسٹنٹ کمشنر تمہارے لیے رہائش کا انتظام کر دے گا۔ انھی دنوں ایک شب کمشنر ہائوس جگمگ جگمگ کر رہا تھا ان کے ہاں بارات اتری تھی اور تحائف تھے کہ انھیں سنبھالنے میں ملازموں کو مشکل پڑ رہی تھی۔ اس تقریب شادی کا چرچا بڑے ایوانوں تک پہنچا۔
الاٹ شدہ مکان زبردستی خالی کرا کے ضلع میں تبدیل ہو کر آنے والے نئے اور برابر کے گریڈ والے افسر کو الاٹ کرنا تو ایک بات تھی لیکن اس زیادتی پر احتجاج کرنے کی پاداش میں ایک سرکاری ملازم کو سزا کے طور پر یوں مکان چھین کر تبدیل بھی کر دینا رعونت اور تکبر کی انتہا تھی۔ تین چار مہینے کے بعد میرا ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کی راولپنڈی میں بلائی گئی میٹنگ میں آنا ہوا۔ میٹنگ کے بعد ڈی سی صاحب نے مجھے روک لیا اور رعونت سے لبریز لہجے میں پوچھا گوجر خاں میں تمہیں سرکاری مکان تو مل گیا ہو گا کیا تم وہاں خوش ہو۔
میں نے جواب دیا کہ جناب میں نے آپ سے گوجر خاں ٹرانسفر کے لیے کوئی درخواست تو نہیں کی تھی۔ جس پر خوشی کا اظہار کروں۔ لہجے میں نرمی پیدا کر کے بولے کیا راولپنڈی واپس آنا چاہتے ہو۔ میں نے جواب دہرایا کہ سر میرا تبادلہ میری خواہش پر نہیں ہوا تھا۔ دوسرے دن میرے راولپنڈی واپسی کے آرڈر ہو گئے۔
فیلڈ مارشل ایوب خاں سے ان کی بیماری کے دنوں میں صدارت چھن کر جنرل یحییٰ خاں کی جھولی میں ڈال دی گئی تو انھوں نے سرکاری ملازموں میں سے تین سو سے زائد کو بیک جنبش قلم ملازمت سے ڈسمس کردیا اور وسیع پیمانے پر تبادلے بھی کیے۔ ڈسمس کیے جانے والے سینئر افسروں میں میرے پہلے ڈپٹی کمشنر میجر اشرف اور پہلے کمشنر ایم ایچ شاہ برادر جسٹس نسیم حسن شاہ بھی تھے۔
کچھ عرصے بعد میں ایک روز دوستوں کے ساتھ راولپنڈی کے ایک ریستوران میں کھانا کھا رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر لگی ٹیبل پر کچھ اور لوگ کھانا کھا رہے تھے ان میں سے ایک صاحب نے بغیر استری شدہ قمیض پہنی ہوئی تھی گریبان کے بٹن کھلے تھے سر کے بال الجھے ہوئے اور چہرے پر ہوائیاں اڑی رہی تھیں چہرہ کچھ شناسا معلوم ہوا۔ وہ میری طرف غور سے دیکھے جا رہے تھے پھر میں نے انھیں پہچان لیا اور کرسی سے اٹھا۔ لیکن وہ اٹھ کر تیزی سے میری طرف بڑھے۔ میں نے کہا ''سر آپ کیسے ہیں اور یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے'' وہ بولے ''سر آئو ہمارے پاس بیٹھو''۔ میں نے انھیں اپنے دوستوں سے ملایا۔ ''یہ میرے پہلے ڈپٹی کمشنر تھے''۔
میں سامنے رکھی گروپ فوٹو کو دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں یا رب العزت ان آج کے حکمرانوں کا انجام کیسا ہو گا۔
چند روز قبل ایک چابیوں کے گچھے میں سے نکال کر کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دراز کی چابی گم نہیں ہوئی تھی نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ دراز کھلی تو معلوم ہوا، اس میں تو وہ گیارہ خاص فوٹو تھیں جو اکثر ایک محکمے یا شہر سے دوسرے میں تبادلے کے بعد الوداعی ڈنر کے ساتھ گروپ فوٹو بنا کرتی اور یادگار کے طور پر رخصت ہونے والے کو بطور خاص پیش کی جاتی تھیں۔
کئی تصاویر تو فریم کرا لی جاتیں اور بہت سی ویسے ہی رکھ لی جاتیں۔ ان گروپ فوٹوز میں سے ایک میں نے الگ کر لی کیوں کہ یہ الوداعی گروپ فوٹو ایک کالم کا تقاضا کرتی تھی۔ راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کے اس گروپ فوٹو میں سینئر افسر کرسیوں پر بیٹھے تھے جن کے سینٹر میں میرے پہلے ڈپٹی کمشنر میجر اشرف صاحب متمکن تھے۔ ان کے دائیں طرف والی کرسی پر پوسٹ آئوٹ ہو کر جانے والے مجسٹریٹ حلیم شیر تھے اور کرسیوں کے پیچھے نوجوان مجسٹریٹ کھڑے تھے اور میں انھی میں تھا۔ مذکورہ دو شخصیات ہی اس کالم کے لکھے جانے کی بنیاد ہیں۔
اب میرے ذہن کے پردے پر راولپنڈی کا چکلالہ ایئرپورٹ آتا ہے۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خاں ایک غیر ملکی دورے سے واپس آ رہے ہیں، ملکی و دیگر وی آئی پی شخصیات ریڈ کارپٹ پر استقبالیہ قطار میں کھڑی ہیں۔
ہوائی جہاز اتر کر ٹیکسی کرتا ہوا استقبالی قطار سے کچھ فاصلے پر رکتا ہے۔ ملٹری سیکریٹری جہاز کی سیڑھی پر نمودار ہو کر ڈپٹی کمشنر میجر اشرف کو جو ایک سائیڈ پر کھڑے ہیں اشارے سے بلاتا ہے۔ ایوب خاں جہاز سے اتر کر ڈپٹی کمشنر کو ہمراہ لے کر استقبالی قطار سے پرے جہاز کی سائیڈ پر جا کھڑے ہوتے اور ان سے چار پانچ منٹ تک باتیں کرتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ہاتھ باندھے صدر کی بات سن کر ''یس سر یس سر'' والی گردن ہلاتا جاتا ہے۔ سارے ملک کی وی آئی پی شخصیات صدر کا ڈپٹی کمشنر میجر اشرف کے ساتھ باہمی ربط و اعتماد کا منظر دیکھتی رہتی ہیں۔ میں بھی ایئرپورٹ ڈیوٹی پر حاضر یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ اب صدر استقبالیہ قطار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ڈپٹی کمشنر چاروں طرف طائرانہ بلکہ فاتحانہ نظر ڈالتے ہوئے وی آئی پی لائونج کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔
میرا عزیز ترین دوست مسٹر توقیر حسین انھی دنوں فارن آفس ٹریننگ سے فارغ ہوتا ہے اور اس کی پہلی فارن پوسٹنگ انڈیا ہو جاتی ہے۔ وہ مجرد ہے اور ڈپٹی کمشنر اسے پسند کرتے ہیں لیکن خود اسے انڈیا پوسٹنگ پسند نہیں آئی۔ ڈی سی صاحب اس کی خواہش پر اس کا تبادلہ محض ایک ٹیلیفون کال پر کینیڈا کرا دیتے ہیں اور وہ اسی ملک میں گھر بھی بسا لیتا ہے۔
اب آئیے گروپ فوٹو کے مطابق پوسٹ آئوٹ ہونے والی شخصیت کی طرف جو سفارش سے راولپنڈی تو تعینات ہوئی لیکن سات آٹھ ماہ کے اندر مرضی کی پوسٹنگ کروا کے کہیں اور چلی گئی لیکن اس کی راولپنڈی تعیناتی پر جو میرے ساتھ UNPRECIDENTED سلوک ہوا وہ بھی ریکارڈ کی بات ہے۔ مذکورہ مجسٹریٹ نے ضلعی انتظامیہ میں آ کر پسند کا کمرۂ عدالت تو لیا ہی تھا، اب ڈی سی سے مطالبہ کیا کہ سرکاری رہائش گاہ بھی دی جائے۔ کوئی سرکاری مکان خالی نہ تھا۔ تین ماہ قبل مجھے سرکاری مکان الاٹ ہوا تھا اور میں اس میں شفٹ ہو چکا تھا۔
ایئرپورٹ پر صدر ایوب خاں سے وزیروں سفیروں جرنیلوں کی موجودگی میں سب کی نظروں کے سامنے Exclusive ملاقات کے بعد سے ڈی سی صاحب کا انداز جابرانہ و متکبرانہ رعونت بھرا اور لہجہ بڑا درشت ہو چکا تھا۔ انھوں نے ایک روز کمال کا غیر معمولی آفس آرڈر جاری کیا کہ میں اپنی سرکاری رہائش گاہ فی الفور خالی کر کے نئے آنے والے مذکورہ مجسٹریٹ کے حوالے کر دوں۔ جس نے بھی اس مارشلائی حکم نامے کا سنا حیران ہوا لیکن میں تو پریشان بھی ہوا اور ایک احتجاجی نوٹ لکھ کر ڈی سی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کہ میں تو اس مکان میں رہائش پذیر ہوں میری الاٹمنٹ کس اصول پر منسوخ کی جا رہی ہے۔
انھوں نے غصہ سے کمشنر ایم ایچ شاہ کو فون کیا کہ ایک مجسٹریٹ نافرمان ہے میں آپ کی منظوری سے اسے گوجر خاں ٹرانسفر کر رہا ہوں اور پھر مجھے کہا کہ گوجر خاں میں سید سرفراز شاہ اسسٹنٹ کمشنر تمہارے لیے رہائش کا انتظام کر دے گا۔ انھی دنوں ایک شب کمشنر ہائوس جگمگ جگمگ کر رہا تھا ان کے ہاں بارات اتری تھی اور تحائف تھے کہ انھیں سنبھالنے میں ملازموں کو مشکل پڑ رہی تھی۔ اس تقریب شادی کا چرچا بڑے ایوانوں تک پہنچا۔
الاٹ شدہ مکان زبردستی خالی کرا کے ضلع میں تبدیل ہو کر آنے والے نئے اور برابر کے گریڈ والے افسر کو الاٹ کرنا تو ایک بات تھی لیکن اس زیادتی پر احتجاج کرنے کی پاداش میں ایک سرکاری ملازم کو سزا کے طور پر یوں مکان چھین کر تبدیل بھی کر دینا رعونت اور تکبر کی انتہا تھی۔ تین چار مہینے کے بعد میرا ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کی راولپنڈی میں بلائی گئی میٹنگ میں آنا ہوا۔ میٹنگ کے بعد ڈی سی صاحب نے مجھے روک لیا اور رعونت سے لبریز لہجے میں پوچھا گوجر خاں میں تمہیں سرکاری مکان تو مل گیا ہو گا کیا تم وہاں خوش ہو۔
میں نے جواب دیا کہ جناب میں نے آپ سے گوجر خاں ٹرانسفر کے لیے کوئی درخواست تو نہیں کی تھی۔ جس پر خوشی کا اظہار کروں۔ لہجے میں نرمی پیدا کر کے بولے کیا راولپنڈی واپس آنا چاہتے ہو۔ میں نے جواب دہرایا کہ سر میرا تبادلہ میری خواہش پر نہیں ہوا تھا۔ دوسرے دن میرے راولپنڈی واپسی کے آرڈر ہو گئے۔
فیلڈ مارشل ایوب خاں سے ان کی بیماری کے دنوں میں صدارت چھن کر جنرل یحییٰ خاں کی جھولی میں ڈال دی گئی تو انھوں نے سرکاری ملازموں میں سے تین سو سے زائد کو بیک جنبش قلم ملازمت سے ڈسمس کردیا اور وسیع پیمانے پر تبادلے بھی کیے۔ ڈسمس کیے جانے والے سینئر افسروں میں میرے پہلے ڈپٹی کمشنر میجر اشرف اور پہلے کمشنر ایم ایچ شاہ برادر جسٹس نسیم حسن شاہ بھی تھے۔
کچھ عرصے بعد میں ایک روز دوستوں کے ساتھ راولپنڈی کے ایک ریستوران میں کھانا کھا رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر لگی ٹیبل پر کچھ اور لوگ کھانا کھا رہے تھے ان میں سے ایک صاحب نے بغیر استری شدہ قمیض پہنی ہوئی تھی گریبان کے بٹن کھلے تھے سر کے بال الجھے ہوئے اور چہرے پر ہوائیاں اڑی رہی تھیں چہرہ کچھ شناسا معلوم ہوا۔ وہ میری طرف غور سے دیکھے جا رہے تھے پھر میں نے انھیں پہچان لیا اور کرسی سے اٹھا۔ لیکن وہ اٹھ کر تیزی سے میری طرف بڑھے۔ میں نے کہا ''سر آپ کیسے ہیں اور یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے'' وہ بولے ''سر آئو ہمارے پاس بیٹھو''۔ میں نے انھیں اپنے دوستوں سے ملایا۔ ''یہ میرے پہلے ڈپٹی کمشنر تھے''۔
میں سامنے رکھی گروپ فوٹو کو دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں یا رب العزت ان آج کے حکمرانوں کا انجام کیسا ہو گا۔