ریاست اور ریاستی رٹ

قتل کبھی لسانی بنیادوں پر ہوتے رہے کبھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر اور کبھی خوامخواہ ہی شہر کے حالات خراب...

کسی بھی ملک کی سلامتی کی ضامن محض اس کی سرحدوں کی حفاظت نہیں بلکہ سرحدوں کے اندر ریاستی خود مختاری ہے اور ریاستی خود مختاری آسمان سے نہیں نازل ہوتی بلکہ ملک کے ایک ایک کونے میں ریاستی عملداری سے حاصل کی جاتی ہے۔

ریاستی عملداری یا رٹ کے بغیر خودمختاری کے نعرے کھوکھلے تصور کیے جاتے ہیں۔ ریاستی رٹ اور خود مختاری کا معیشت سے بڑا گہرا تعلق ہے اور عام طور پر کمزور معیشتیں ریاستی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح خود مختار ہونے کی دعویدار نہیں ہو پاتیں جس طرح کے مضبوط معیشتیں ہوسکتی ہیں۔ پاکستان بھی ایک کمزور معیشت کا شکار ہے مگر ریاستی عملداری کے حوالے سے ایک ایسی انوکھی مثال بنتا جا رہا ہے کہ جس کا کمزور معیشت سے کم اور سیاسی غلطیوں، دور اندیشی کی کمی،سیاسی مفاہمت اور اسٹیبلشمنٹ کی ماضی کی غلطیوں اور آج بھی معاملات کو اپنے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کا زیادہ تعلق ہے۔

ملک کے کسی بھی حصے کی مثال لے لیجیے چاہے وہ دور دراز علاقوں میں حکومت کی رٹ کا نہ ہونا ہو یا شہری علاقوں میں رٹ کے دعوئوں کے باوجود شہریوں کے جان و مال کا مسئلہ۔ ہر طرف کمزور معیشت کا کم اور اوپر بیان کیے گئے دوسرے عوامل کا زیادہ تعلق نظر آتا ہے۔ پرو ایکٹیو ہونا تو دور کی بات حکومت اور ریاستی ادارے ری ایکٹیو ہوکر بھی معاملات حل کرتے نظر نہیں آتے۔

اب سے چند سال پہلے تک کے مسائل تھے قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ قائم کرنا، وہ تو نہ ہوسکا مگر پھردنیا شور مچانے لگی کہ قبائلی علاقے اپنی جگہ اب تو سوات میں حکومت کی رٹ ختم ہوچکی اور طالبان کی رٹ قائم ہوچکی ہے۔ پھر حکومت کی دور اندیشی دیکھیے کہ سالوں سے قید صوفی محمد کو رہا کرکے ایک ایسا معاہدہ کرلیا کہ عملاً سوات کا کنٹرول طالبان کے حوالے ہوگیا۔

انھوں نے موقع کو غنیمت جانا اوردیر پر چڑھ دوڑے۔ یہاںتک کہ پارلیمنٹ میں موجود کسی لبرل اور سیکولر پارلیمنٹیرین نے نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن نے یہ تقریر کر ڈالی کہ طالبان تو اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوںکے پیچھے تک پہنچ چکے ہیں اور ان کے اور اسلام آباد کے درمیان محض مارگلہ کے پہاڑ رہ گئے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ غلطیوں کی تصحیح کی جائے اور فوجی آپریشن کرکے ریاستی عملداری قائم کی جائے۔ سوات کے بعد اس خیال نے جنوبی وزیرستان کے لیے بھی جنم لیا اور وہاں بھی فوجی آپریشن کرکے ریاستی رٹ قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔

اور اب شمالی وزیرستان کے لیے بھی بین الاقوامی برادری کا بالعموم اور امریکا کا بالخصوص دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ ہمیں ڈرون برے لگتے ہیں اور امریکا کو حقانی نیٹ ورک۔ حکومت کی رٹ شمالی وزیرستان میں نہیں مگر ڈرون حملے ہوں تو یہ نعرہ کہ ہماری خود مختاری پر حملہ۔ بالکل کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کی سرحدی حدود میں آکر کارروائی کرے۔ خود مختاری کی خلاف ورزی بھی کرے اور معصوم جانوں کا ضیاع بھی ہو مگر جناب حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ مکمل ریاستی عملداری قائم کرکے کسی کو اس الزام کا موقع نہ دے کہ آپ کی ریاستی حدود میں اگر دہشتگرد ہوں اور وہ سرحد پار جاکر کارروائیاں کریں تو پھر ریاستی خود مختاری کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔

بہرحال اس ریاستی رٹ کا مسئلہ اب محض قبائلی علاقوں اور طالبان تک محدود نہیں رہ گیا بلکہ شہری علاقوں یہاں تک کہ اسلام آباد تک پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ جمعے کو یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اسلام آباد میں جو کچھ ہوا ،کیا اس نے شرپسند عناصر کو یہ واضح پیغام نہیں دیا کہ ملک کے دارالحکومت میں بھی وہ جب چاہیں جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ ریاستی مشینری کا پہیہ جام کرسکتے ہیں، مارپٹائی کرسکتے ہیں، آگ لگاسکتے ہیں، پولیس پر پتھر برسا سکتے ہیں اور بینکوں کو لوٹ سکتے ہیں۔


مگر انھیں روکا نہیں جائے گا۔ کیا اگر انھیں یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ محض ایک ہجوم کی طرح ڈنڈے ہاتھ میں لے کر دارالحکومت میں حکومت کی رٹ کو تہس نہس کرسکتے ہیں تو کیا آیندہ وہ اس سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے اور ڈنڈوں کی جگہ کچھ اور اٹھانے کے لیے پر اعتماد نہیں ہوگئے ہوں گے۔ ماضی بعید نہیں جناب ماضی قریب کی مثالیں موجود ہیں کہ جب حکومت ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں کے آگے بے بس ہوجائے تو ان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں۔ چاہے وہ وزیرستان سے سوات اور سوات سے دیر کا معاملہ ہو یا کراچی کا۔

یا پھر بلوچستان کے حالات کا۔ کراچی کی مثال تو سب کے سامنے آشکار ہے۔ بھلا کسی کو کوئی ڈر ہے کہ وہ قتل کردے اور پھر پکڑا جائے۔ مگر کیا اب سے پانچ سال پہلے بھی یہی صورتحال تھی۔ بالکل نہیں۔ کراچی میں بیسیوں لوگوں کا قتل ہوجانا اور قاتلوں کا نہ پکڑا جانا قطعی طور پر ایک معمولی بات نہیں تھی۔ مگر مفاہمت کی سیاست نے یہ بڑا تحفہ دیا۔ کیا کسی کو کوئی ڈر ہے کہ موبائل چھین لے، پوری بس لوٹ لے، یہاں تک کہ آئے دن بینک لوٹ لے۔ جی نہیں کوئی ڈر نہیں کیونکہ حکومت نے عملداری قائم کرنے کی اور مجرموں کے دل میں قانون کا خوف پیدا کرنے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کی۔

قتل کبھی لسانی بنیادوں پر ہوتے رہے کبھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر اور کبھی خوامخواہ ہی شہر کے حالات خراب کرنے کے لیے لوگ مارے جاتے رہے مگر مجال ہے کہ حکومت کے کان پر جوں رینگی ہو۔ مجال ہے کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہو۔ جس کا دل چاہے جسے لوٹ لے اور جس کا دل چاہے اغواء کرکے تاوان مانگ لے۔ ریاستی رٹ دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اب بلوچستان کی مثال لیجیے۔

مارنے والوں کے سکون کا عالم دیکھیے لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر انتہائی سکون سے بس روک کر شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو نیچے اتار کر گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں اور مجال ہے کہ پکڑے جائیں اور جب بلوچستان میں نہیں پکڑے جاتے تو حوصلے اتنے بلند ہو جاتے ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی شناختی کارڈ دیکھ کر سکون سے قطار میں کھڑا کرکے انسانوں کو جی جناب انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ خبر آتی ہے صدر یا وزیراعظم نے نوٹس لے لیا۔ اگلی خبر آتی ہے کہ کمیٹی قائم کردی گئی اور پھر نوٹس اور کمیٹی کہیں گم ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ مارنے والوں کے حوصلے اور بلند ہوجاتے ہیں اس لیے وہ چند دنوں میں ایسی ایک اور کارروائی کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہی نوٹس پھر وہی کمیٹی اور پھر ایک اور واقعے۔

ذرا سوچیے اوپر بیان کیے گئے کسی بھی معاملے کا تعلق کیا معیشت سے ہے؟ کیا کراچی کے حالات اسی کمزور معیشت کے ساتھ بہتر نہیں کیے جاسکتے؟ بالکل کیے جاسکتے ہیں بشرطیکہ کہ حکومت پولیٹیکل ول دکھائے۔ محض مفاہمت کی سیاست کے نعرے لگا کر کراچی جیسے شہر کو کہ جو ملک کی شہ رگ ہے قاتلوں اغوا کاروں اور لٹیروں کے ہاتھ میں نہ تھما دے۔ کیا اسلام آباد میں ریاستی عملداری اس کمزور معیشت کے ساتھ ممکن ہے؟

جی ہاں بالکل ممکن ہے اگر حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہے۔ اگر وزیر داخلہ موبائل فون بند کرنے کے علاوہ بھی کوئی اچھی پالیسی مرتب دے لیں۔ اگر شر پسند عناصر کو محض یہ تاثر نہ ملے کہ وہ جو چاہیں گے کرسکتے ہیں بلکہ ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جائے کہ اگر وہ جو چاہیں گے وہ کریں گے تو حکومت پھر ان کے ساتھ وہ کرے گی کہ پھر کبھی قانون کو ہاتھ میں لینے کا تصور بھی نہیں کرسکیں گے۔

کیا بلوچستان کے مسئلے کا تعلق معیشت سے ہے۔ نہیں جناب۔ جو صوبہ صوبائی اسمبلی کے ایک رکن کو چھوڑ کر باقی تمام رکن بطور وزیر برداشت کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہاں معیشت مسئلہ کیسے ہے۔ پس اگر اربوں روپے کے فنڈز نہ کھائے جاتے اور عوام پر لگادیے جاتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت کچھ بگڑچکا ہے۔ مگر بہرحال تصحیح ممکن ہے مگر تصحیح کے لیے درست پالیسیاں درکار ہیں اور درست پالیسیوں کے لیے سیاسی وژن۔ اور بدقسمتی سے گزشتہ ساڑھے چار سال میں موجود سیاسی قیادت وژن سے عاری نظر آتی ہے۔ اب جب کہ کائرہ صاحب فرما رہے ہیں کہ موجودہ حکومت اگلے برس 18 مارچ تک پانی مدت پوری کرے گی تو جناب ان چھ ماہ میں ہی ملک کے لیے کچھ کر دیجیے۔ اس مختصر عرصے میں معیشت تو بہتر ہو نہیں سکتی مگر قانون کی حکمرانی اور حکومت کی رٹ ضرور قائم کی جاسکتی ہے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا یہ سب اس کمزور معیشت کے ساتھ بیشک ممکن ہے۔ کیونکہ ریاستیں کمزور معیشت کے ساتھ شاید قائم رہ جاتی ہیں مگر ریاستی عملداری کے بغیر نہیں۔
Load Next Story