پاکستانی تارکین اوباما کو ووٹ دیں گے

موجودہ بحران سے یہ بات عیاں ہے کہ بنیاد پرستی سیاسی ہو مذہبی یا کوئی معاشی نظریہ،یہ کام نہیں کرتی۔

ayazbabar@gmail.com

جب کارل مارکس نے کہا تھا ''آج تک کی پوری انسانی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے' تو وہ تاریخ کی جدلیات کے بارے میں اظہارخیال کر رہے تھے اور اسے معاشی ترقی کے کسی مخصوص مرحلے تک پابند نہیں کر رہے تھے۔

اپنے دورہ امریکا کے دوران بارک حسین اوباما اور ان کے ریپبلکن مد مقابل مِٹ رومنی کے درمیان بحث سن کر میرے ذہن میں کارل مارکس کی یاد تازہ ہو گئی۔سرمایہ دار امریکا کی جانب سے اس فلسفی کو سرکاری طور پر معتوب کیا گیا۔اوباما نے اس پوری بحث کو دولت مند بمقابلہ متوسط اورغریب طبقات میں بدل دیا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سرمایہ دار امریکا میں طبقاتی سیاست واپس آئی ہے۔مجھے یاد ہے جب کلنٹن نے سینئر بُش کو شکست دی تھی تب بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

بارک اوباما الیکشن میں جس نکتے کو بنیاد بنائے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ رومنی اور ریپبلکن پارٹی ایسی پالیسیوں کو فروغ دے رہے ہیںجن سے صرف امیر لوگوں اور بڑے کاروبار کو مدد ملے گی۔تاہم دونوں امیدوار امریکی عوام سے روزگار کے مزید موقعوں کا وعدہ کر رہے ہیں جہاں بیروزگاری کی شرح8%ہے۔ماہرین معاشیات نے پیش گوئی کی تھی کہ تقریباً145000نئی ملازمتیں نکلیں گی لیکن اگست میں صرف96000افراد بیروزگاری کے عذاب سے باہر نکل سکے۔فیڈرل ریزرو کے چیئرمین،بین برنانکے نے حال ہی میں اعتراف کیا کہ ملازمتوں کے توسیعی عمل میں انحطاط 'شدید تشویش' کا معاملہ ہے۔

صدر اوباما کہتے ہیں کہ ان کی پالیسیوں کا نتیجہ ' ان کے ریپبلکن حریف مٹ رومنی کی غلط سمت میں سوچ' کے مقابلے میں زیادہ افزائش، روزگار کے مزید موقعوں اور زیادہ انصاف پسندی کی صورت میں نکلے گا۔ اوباما نے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''میں غلط بیانی سے یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کروں گا کہ میں جو حل پیش کر رہا ہوں وہ فوری یا آسان ہے۔

میرے پاس کوئی ایسا حل نہیں ہے۔آپ نے مجھے اس لیے منتخب نہیں کیا تھا کہ میں آپ کو صرف وہ بات بتائوں جو آپ سننا چاہتے ہیں۔آپ نے مجھے اس لیے منتخب کیا تھا کہ میں آپ کو وہ بات بتائوں جو سچ ہے۔اور سچ یہ ہے کہ ان چیلنجز کو حل کرنے کے لیے چند سال سے زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا جن کا ہم نے کئی دہائیوں میں انبار لگایا ہے۔''یہ بُش کے دور کا حوالہ ہے۔

ایک پاکستانی ہونے کے ناتے،جو دیکھ چکا ہے کہ کوئی پاکستانی حکومت اپنے پیشرو کی طرف سے چھوڑے ہوئے مسائل کے بھاری ملبے سے جان چھڑانے کے لیے کس طرح سسکتی اور ہاتھ پائوں مارتی ہے،میں ان حالات کا احساس کرسکتا ہوں جن میں چارسال پہلے اوباما تھے۔پاکستان میں مشرف کی حکومت نے کھٹائی میں پڑے ہوئے معاشی فیصلوں اورایک ایسی خارجہ پالیسی کا بھاری بوجھ چھوڑا جو دنیا کو بیوقوف بنانے کے لیے تیار کی گئی تھی۔اوباما انتظامیہ کو ورثے میں ملنے والا اقتصادی بحران وہ ہے جو بش انتظامیہ نے کانٹوں کے تاج کی صورت میں اسے منتقل کیا تھا۔اس مفروضے کی بنیاد پر بینکوں کو کھلی چھٹی دے دینا کہ مارکیٹ خود اپنی اصلاح کرنے کی گنجائش رکھتی ہے، اقتصادی بحران کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔

Larry ElliotاورDan Atkinsonنے اپنی معرکتہ الآرا تصنیف"The Gods that failed -- How blind faith in Markets has cost us our future"میں اس زوال سے پہلے یہ پیشگوئی کر دی تھی کہ مارکیٹ کے بنیادی اصولوں پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے سے ایک ایسا معاشی سونامی آئے گا جو ہو سکتا ہے پوری دنیا کو بہا لے جائے۔انھوں نے "free-booting super-rich free-market operatives"کو 'New Olympian Gods.'کا نام دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ'' انھوں نے معاشی استحکام کا وعدہ کیا تھا مگر خلفشار اور انتشار دیا ۔


انھوں نے ایک ایسے اقتصادی نظام کا وعدہ کیا تھا جس کی بنیاد کاروبار،کفایت شعاری اور ذاتی محنت پر ہو گی مگر اس کی جگہ ایک ایسا نظام دیا جس کی بنیاد بدترین قرضوں اور بڑے پیمانے پر افواہ طرازی پر ہے۔انھوں نے ایک ایسی پر اسرار اورسمجھ میں نہ آنے والے مالیاتی علم کی دنیا پیدا کر دی ہے جس میں موبائل فون پیکیج کی اصل قیمت سے لے کر 'جانچ پڑتال کے مراحل سے گزرے ہوئے ' اربوں پائونڈز کے قرضوں کی اصل مالیت تک کسی بھی چیز کی حقیقت معلوم کرنا ناممکن ہے۔انھوں نے پروفیشنل اور سفید پوش ملازمتوں کے ڈھانچوں میں غیر ضروری اضطراب پیدا کیا،متوسط طبقے کی پنشن اسکیموں کا بیڑہ غرق کر دیا اور ان کے بچوں کو مجبور کر دیا کہ وہ جامعات میں حصول تعلیم کے استحقاق کی خاطر قرضوں کے بوجھ میں دبتے چلے جائیں۔''

ان الزامات میں سچائی ہے کیونکہ بے لگام مالیاتی منڈی کی آزادی کے ایک بڑے معمار Alan Greenspanنے اب اپنی غلطی مان لی ہے۔سرمایہ کاری کرنے والے بینکرز کی جانب سے جن فنانشل پراڈکٹس کی کبھی 'جدت طراز' کی حیثیت سے مارکیٹنگ کی جاتی تھی وہ محض گرم ہوا سے بھرے ہوئے غبارے تھے۔Economistکے مطابق بینکرز نے 600ٹریلین ڈالرز کی مختلف الشکل مارکیٹ بنا ئے رکھی اور یہ مالیت پوری دنیا کی مجموعی داخلی پیداوار(GDP)سیژ دس گنا ہے۔اب ان فرضی مالیاتی دستاویزات کا اندازہ کیجیے جو یہ افواہ طراز منظر عام پر لاتے رہے۔

موجودہ بحران سے یہ بات عیاں ہے کہ بنیاد پرستی سیاسی ہو مذہبی یا کوئی معاشی نظریہ،یہ کام نہیں کرتی۔چینی وزیر اعظم نے درست طور پر یہ رائے ظاہر کی کہ'' مسئلہ استادوں کے ساتھ ہے۔'' یہ چینی رہنمائوں کا مخصوص نوعیت کا محتاط بیان ہے۔مگر فرانسیسیوں نے جنھیں یورپ میں بہت زیادہ بصیرت کا حامل سمجھا جاتا ہے زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیا۔صدر نکولائی سرکوزی کا کہنا تھا کہ'' سیلف ریگولیشن ختم ہو چکا ہے'' انھوں نے یہ بھی کہا کہ '' آزاد معیشت کا دور چلا گیا۔''

مٹ رومنی جدید شکل میں وہی پرانی لبرل پالیسیاں تجویز کر رہے ہیں کہ ٹیکسوں میں کٹوتی اور سماجی شعبے پر اخراجات کم کر دیے جائیں۔وہ معیشت پر حکومت کا کم سے کم کنٹرول چاہتے ہیں؛ بُش اور ایلن گرین اسپین نے ایسا کیا تھا مگر وہ عام آدمی کے مفاد کا تحفظ کرنے کی اپنی ذمے داری میں ناکام رہے تھے۔گڑ بڑ یہ ہے کہ ضابطے نافذ کرنے والے اور پوری دنیا میں جن پر ضابطے نافذ ہوتے ہیں دونوں اسی مدرسے کے 'طالبان' ہیںجہاں 'بے لگام آزاد منڈی' کا فقہ پڑھایا جاتا ہے۔چنانچہ وہ اس اندھے یقین کے ساتھ آگے بڑھتے رہے کہ مارکیٹ اتنی حساس ہے کہ کسی تشکیل پذیر طوفان کی پیش گوئی کر سکے۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ خطرے کی گھنٹی مارکیٹ نے نہیں بجائی تھی بلکہ غیر منفعت بخش تنظیموں،غیر جانبدار ماہرین معاشیات اور صحافیوں نے ایسا کیا تھا۔ مگر ان کے انتباہ کو مسترد کر دیا گیا۔بُش نے عراق اور افغانستان میں دو نا تمام جنگیں بھی اوباما کے لیے چھوڑیں۔عراق میں انھوں نے اپنا بوریا بستر گول کر لیا ہے اورآیندہ سال کے وسط میں افغانستان سے بھی نکل جانے کا وعدہ کیا ہے۔افغانستان سے امریکا کیسے نکلتا ہے،یہ پاکستان کے مستقبل کے استحکام کے لیے زبردست اہمیت کا حامل ہے۔

امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں سے بات کر کے یوں لگتا ہے کہ ان کی واضح اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ ان کے پاس اوباما کو ووٹ دینے کے سوا اورکوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ وہ اب بھی متوسط طبقے اور غریبوں کی بات کرتے ہیں۔سینٹ لوئس میں ایک پاکستانی سائنسدان کا کہنا ہے کہ ''ہم وزیرستان میں ان کے ڈرون حملوں اور پاکستان کے ساتھ سخت گیر رویے سے خوش نہیں ہیں، مگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ رومنی اور بھی زیادہ سخت گیرثابت ہوں گے۔'' رومنی کے اس بیان نے بھی انھیںامریکا میں مسلمان ووٹروں سے دور کر دیا ہے کہ امریکا کو اسرائیل کے خدشات دور کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں۔

بائیں بازو کی چھوٹی جماعتیں ڈیموکریٹک پارٹی سے اس لیے نفرت کرتی ہیں کہ وہ متوسط طبقے،غریبوں اور غیر قانونی تارکین وطن کے مسائل کا حل سرمایہ دارانہ نظام میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے۔بایاں بازو افغانستان، پاکستان، لیبیا اوریمن کے بارے میں امریکا کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے بھی خلاف ہے۔بائیں بازو کے لیے اوباما 'چھوٹی برائی' ہے۔یہاں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے وہ 'واحد پسند' ہیں۔امریکی متوسط طبقے کے لیے جو اکثریت میں ہے،رومنی بڑے بزنس کی نمایندگی کرتے ہیں۔چنانچہ اوبامہ کے دوبارہ منتخب ہونے کا امکان زیادہ ہے۔
Load Next Story