چین میں انقلاب کی دھمک 2

جب سماجی استحکام کی بات کی جاتی ہے تو ہجرت کرنے والے مزدوروں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ...

zb0322-2284142@gmail.com

امیروں پر اس لیے حملہ کیا جاتا ہے کہ بو ان کی کرپشن پر تنقید کرکے انھیں سزائے موت سے بچانے کے نام پر بھاری تاوان حاصل کرسکے۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بو اپنے لڑکے کو ہیٹرو اور آکسفورڈ بھیج سکتا تھا۔ سچ یہ ہے کہ جو مقامی بورژوا بونو پارٹیسٹ ہے اور مزدور طبقے کی مدد سے اپنے آپ کو ابھارنا چاہتا ہے، مگر یہ کمیونسٹ پارٹی کا قومی قوتوں سے براہِ راست تضاد ہے اور یہ کھلے طور پر بورژوا پالیسی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ نابرابری کی وجہ سے عوام متبادل کے طور پر بوکے پیچھے لگ گئے ہیں، وہ یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ بو عوام کے حقوق کا دفاع کررہا ہے مگر یہ ان کی اپنی منطق ہے۔

مگر ایسا کرنے سے وہ حالات کو اپنے ہی خلاف کردیں گے۔ ایک طرف بو عوام کو غصّہ دلا چکے ہیں اور دوسری جانب وہ ریاست مخالف سرمایہ کاری کرنے کے خلاف ہیں اور نج کاری کو رد کرتے ہیں۔ ڈینگ ژیائو پینک نے مائو کے برخلاف کام کیا اور مائو کے انتقال کے بعد ڈینگ نے خود کو قابو کیا، وہ تجارت نواز اصلاح پسند بن گئے۔ وہ انھیں کے مدد سے صدر بنے۔ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی، یعنی نج کاری فوری طور پر متعارف نہیں ہوپائی تھی۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ نج کاری کے حامی دھڑوں کا اعلیٰ ہاتھ موجود تھا۔

بو اس وقت ان طاقتوں کو کنٹرول نہیں کرسکتے تھے۔ چین اس وقت دنیا میں بہت زیادہ عدم مساوات والا ملک بن گیا ہے۔ سرمایہ داروں کے لیے کروڑوں مزدوروں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ان کی آمدنی کس طرح سکڑتی گئی۔ 30 برسوں میں معیارِ زندگی بدلا ہے لیکن عدم مساوات اب فیشن بن گیا۔ عدم مساوات کی وجہ سے مزدوروں کو انقلابی دھمک سنائی دے رہی ہے۔ تھوڑے عرصے میں بہت بڑی تعداد پرولتاریہ پیدا ہوئی ہے۔ اب فیکٹریوں میں 12 گھنٹے کے کام کے علاوہ شفٹیں بھی شروع ہوگئی ہیں، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس قسم کی صورت حال انقلاب کو جنم دیتی ہے۔

جب سماجی استحکام کی بات کی جاتی ہے تو ہجرت کرنے والے مزدوروں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اس علاقے میں رائج مروجہ تنخواہ حاصل کرسکیں، اور وہ جن کے گھر منہدم کیے گئے ہیں، انھیں مذاکرات کی اجازت نہیں ہے۔ استحکام کو بروئے کار لانے کی بات کرکے اپنی حفاظت کے لیے اسے ڈھال کے طور پر سرمایہ کار اور ٹھیکے دار کو استعمال کیا ہے، جس میں انھیں مزدوروں کو معقول تنخواہ اور گھروں کے انہدام کا معاوضہ نہ دینا پڑے۔


مزید استحصال کی بات کرنے والوں نے سماج کو مزید غیر مستحکم کیا ہے۔ اس میں بڑی وضاحت سے رپورٹ کی گئی ہے کہ ''نام نہاد انٹرپرائزز کے ذریعے امیر بنانے کی راہ دِکھائی ہے، جس میں وہ کرپشن کے ذریعے پیسے بناسکیں۔ وہ اس عمل سے چین کو آگے نہیں بڑھا رہے ہیں جب کہ حب الوطنی سے دور ہوگئے ہیں اور قومی مفادات سے بھی دور ہوئے ہیں، ان کی حب الوطنی صرف اس میں ہے کہ وہ چینی عوام کا ریاستی صنعتوں کے ذریعے استحصال کریں اور پیسے بٹوریں۔

ان میں سے بیشتر لوگوں نے پیسہ بیرون ملک منتقل کردیا ہے، اس خوف سے کہ کہیں انقلاب نہ آجائے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ یہ لوگ صرف امیر بننے کے لیے کانگریس کے رکن بننا چاہتے ہیں اور ریاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ مزید دولت مند بنیں۔ ''بلومینگ نیوز'' کے ہیوان کی رپورٹ کے مطابق چینی کانگریس کے 70 امیر ترین نمایندوں کے پاس 89 بلین ڈالر کے اثاثے ہیں جو کہ امریکی صدر، اس کی کابینہ، کانگریس اور سپریم کورٹ کا ادارہ انصاف کے کل اخراجات کا 11 گنا ہے۔

بہت سے بائیں بازو کے چینی درست نشان دہی کرتے ہیں کہ ورلڈ بینک کا دیا گیا مندرجہ بالا رپورٹ میں کہا گیا کہ اسے چین، بحران کو نظرانداز کررہا ہے۔ چینی سماج میں طاقتور نئی بورژوازی میں فکر پیدا ہوا ہے جو کہ محنت کش طبقے کو جگانے کا کام کرے گا۔ نوکر شاہی اپنی 30 سالہ کہانی میں ہی مدہوش تھی۔ اب یہ ایک بھیانک خوف بن گیا ہے۔ چین اب 30 سال قبل کا چین نہیں رہا، اب اسے پہلے کی طرح حکمرانی کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ حالیہ ''گلوبل ٹائمز'' نے ایک تحقیق کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 49 فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چین انقلاب کے بہت قریب ہے۔

اس لیے ان کو فوج سے زیادہ اپنے تحفظ کا ڈر ہے اور بجٹ میں بھی مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ استحصال زدہ اور مفلوک الحال عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ پرانے طریقے سے زندگی گزارنا اب ناممکن ہوگیا ہے۔ اور استحصال کرنے والے اب پرانے طریقوں سے چل نہیں سکتے۔ دھڑے بندی یہاں عروج پر جانے کے نتیجے سے تحریک شروع ہوگی اور نتیجے میں ہر شہر، ٹائون اور چوراہوں پر پرتشدد ہڑتالیں شروع ہوں گی۔ عالمی رجحانات، عالمی سرمایہ دارانہ بحران کو جنم دے گا۔ چینی عوام کاروبارِ زندگی کو مفلوج کردیں گے جو حکمراں طبقات نے اپنے تضادات سے شروع کر رکھی ہے۔

آخرکار حکمران طبقات ایک دوسرے پر دبائو ڈالیں گے کہ مذاکرات کے لیے میز پر یک جا ہو کر بیٹھیں۔ اب ان کے یہ جھگڑے بہت ہوچکے، اب مزید جاری رکھنے کے لیے ان کے پاس کوئی سوال ہی نہیں۔ چین عالمی انقلاب کی چوٹی پہ بیٹھا ہے اور چین کے لیے یہ بہت پہلے سے ان پر واجب ہوگیا تھا۔ قومیانے کی تجویز ایک معقول تجویز کے طور پر چین میں ابھر کر آئی ہے اور نج کاری کرنے کے خلاف متبادل پیش کرنے کی تجویز حکمراں طبقات کو للکارنے کے مترادف ہے۔

چند دنوں قبل پیپلز ڈیلی نے اپنے اداریے میں یہ شایع کیا ہے کہ مزید ان کی دولت اور طاقت کو پرائیویٹائز کرنے کے لیے حزب اختلاف کی قوت کی فیصلہ کن حیثیت اختیار کرجائیں گی۔ بائیں بازو کا کہنا ہے کہ 20 سال سے عوام دیکھ رہے ہیں کہ ایسی بحث اس سے قبل بھی ہوئی ہیں، عوام کی تجاویز چین کے مستقبل کی ترقیاتی کاموں کی کامیابی پر انحصار کرتا ہے۔ عوام میں اس بحث کا نتیجہ متبادل حکمرانی کے لیا جارہا ہے اور انھیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ اس پر تبادلہ خیال کریں۔ یہ سب چینی انقلاب کا سنگِ بنیاد قرار پائے گا، مگر یہ مخالف دھڑا جب حکومت سے مذاکرات کرتا ہے تو اکثر یہ دیکھا گیا کہ وہ کسی بات پر اڑ جاتے ہیں اور سیاسی مطالبات باآسانی چھوڑ جاتے ہیں۔ آخری تجزیے میں چینی عوام کے مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی آزاد معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔
Load Next Story