آخر میں صرف اجڑی ہوئی قبر
1933 میں نازی پارٹی نے ہٹلر کی زیر قیادت جرمنی میں حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالی۔
مسولینی خود کہا کرتا تھا ''میں اپنی قوت ارادی سے تاریخ پر اپنے نشان چھوڑ جائوں گا۔
میرے نشان شیر کے پنجوں کے نشانات سے مشابہ ہوں گے، یہ خواہش میرے دل و دماغ پر محیط ہے، یہ مجھے اندر ہی اندر کھائے جارہی ہے''۔ یہ ایک انا پسند شخص کا اعتراف ہے، ایک ایسے شخص کا اعتراف جس نے پانچ لاکھ آدمی محض اس لیے موت کی بھینٹ چڑھا دیے کہ اسے بیسویں صدی کا جولیس سیزر کہا جائے۔ مسولینی خود کو اصلی جولیس سیزر تو نہ کہتا تھا مگر خود کو جولیس سیزر ثانی ضرور کہا کرتا تھا۔
اس نے مجسمہ سازوں کو حکم دے رکھا تھا کہ اس کے مجسمے جولیس سیزر جیسے بنائے جائیں۔ 1926 میں جب اس نے ٹریپولی کا دورہ کیا تھا تو ہزاروں اشتہاروں نے ان الفاظ سے اس کا استقبال کیا ''خو ش آمدید سیزر''۔ مسولینی نے اپنا بچپن نفرت اور بغاوت کے ماحول میں بسر کیا۔ ہٹلر کی طرح مسولینی نے بھی اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی تلخ جوانی کی تلافی کرنے کی کوشش کی، اس نے کہا تھا ''بچپن میں کوئی مجھ سے نرمی اور شفقت سے پیش نہ آتا تھا، میں ایک غریب گھر میں رہتا تھا اور میری زندگی انتہائی تلخ تھی، مجھ میں شفقت کہاں سے آتی۔''
مسولینی جہاں کہیں بھی گیا اس نے نفرت اور تشدد کا مظاہرہ کیا، بذات خود وہ اس قدر بزدل تھا کہ سوشلسٹ اخبار ''اوانٹی'' کی ادارت کے دنوں میں اس نے ہمیشہ اپنی میز پر ایک چاقو اور ایک بھرا ہوا پستول رکھا ہوتا تھا۔ مسولینی کے اس زمانے کی زندگی کے بارے میں اس کی ایک نائب مدیرہ خاتون سے زیادہ اور کوئی نہیں جانتا۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ وہ مسولینی کے اس نا قابل یقین خوف پر بے حد حیران تھی۔ مسولینی نے اس کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ تو اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہوجاتا تھا۔ وہ اس قدر بزدل تھا کہ اندھیرے میں اکیلا گھر جانے سے گھبراتا تھا۔
یہ حقیقت اسے اپنے دفتر کے دوسرے لوگوں کے سامنے تسلیم کرنے میں شرم محسوس ہوتی تھی لہٰذا اس نے خاتون مدیرہ سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اسے ہر روز اس کے گھر چھوڑ آیا کرے۔ وہ خاتون مسولینی کو اس کے گھر کے دروازے پر چھوڑ کر اپنے گھر جایا کرتی تھی۔ یہ تمام باتیں اس خاتون نے ایک کتاب کی شکل میں لکھی ہیں، اس خاتون کا نا م انجیلیکا بالانوف ہے۔ اٹلی کا آمر بننے کے بعد اس نے پندرہ ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک پرائیویٹ فوج بنا رکھی تھی جو اس کے محل کی پوری طرح نگرانی کرتی تھی۔ جب مسولینی نے آمرانہ اقتدار حاصل کیا تو اس زمانے میں ہٹلر کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ مسولینی ہی سے ہٹلر نے آمرانہ اقتدار حاصل کرنے کے گُر سیکھے۔
1933 میں نازی پارٹی نے ہٹلر کی زیر قیادت جرمنی میں حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالی۔ پارٹی نے اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے انتہائی بیدردی سے کام لیا۔ جمہوری حکومت کے تمام رہے سہے سلسلے ختم کر دیے گئے۔ جن لوگوں نے اختلافی رائے ظاہر کی، انھیں بے رحمی سے دبا دیا گیا۔ یہودی کثیر تعداد میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ہٹلر عوام کو بہت حقیر سمجھتا تھا اور اس کا اظہار اس نے مختلف صورتوں میں بار بار کیا۔ ایک جگہ انھیں بھیڑوں کے بے دماغ ریوڑ کہا، دوسرے مقام پر مجسمہ حماقت قرار دیتا ہے۔ اپنا یہ عقیدہ بھی اس نے مسلسل ظاہر کیا کہ عوام سست، بزدل اور جذباتی ہوتے ہیں۔
ہٹلر آسٹریا کے ایک مقام برانو میں پیدا ہوا۔ وہ خود بتاتا ہے کہ میری زندگی کے شروع کے سال انتہائی عسرت و تنگ دستی، رنج و مصیبت، ناکامی، محرومی کے سال تھے۔ 13 برس کی عمر میں اس کی رسمی تعلیم ختم ہوگئی ، یہ ہی زمانہ ہے جب اس کے ماں اور باپ نے وفات پائی۔ اس نے ویانا میں پہلے بطور مصور زندگی شروع کی لیکن اس میں کامیابی نہ ہوئی تو معماری کا پیشہ اختیار کرلیا، اس میں بھی نہ چل سکا کیونکہ اس نے تعلیم کم پائی تھی۔ ادھر دوسری طرف انقلاب فرانس کے بطن سے نپولین پیدا ہوتا ہے۔
ایچ جی ویلز اور دیگر تاریخ دان اس کے متعلق کہتے ہیں ''محض ایک مہم جو اور غارت گر جس نے یورپ اور تہذیب کو زبردست نقصان پہنچایا۔'' وہ ایک عظیم جرنیل تھا، ماضی کے جنگجوئوں سکندراعظم اور چنگیز خان کے ہم پلہ، لیکن وہ بہت چھوٹا آدمی بھی تھا، خودغرض اور خود پسند۔ اس نے کہا تھا طاقت میری شریک حیات ہے، اس کے حصو ل نے مجھے اتنے جوکھم میں ڈالا ہے کہ اب میں کسی اور کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتا، کوئی اس میں میرا شریک نہیں بن سکتا۔ انقلاب کے دنوں میں وہ انتہاپسند جمہوریت نواز گروپ کا رکن تھا۔ اس نے انتہاپسندوں میں شمو لیت اس لیے اختیار کی کہ وہ اپنے مفادات کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا چاہتا تھا، اس نے جمہوریت کا خاتمہ کردیا اور خود فرانس کا بادشاہ بن گیا۔
وہ دس سال تک بادشاہ رہا، اس عرصے میں وہ پورے یورپ میں دندناتا رہا، سب اس کے نام پہ لرزتے تھے۔ نپولین نے درست کہا تھا ''میرے زوال کا الزام اگر کسی کو دیا جاسکتا ہے وہ خود میں ہوں، اپنا سب سے بڑا دشمن خود میں تھا اور میری تباہی کا سبب یہ ہی تھا۔'' اپنی طاقت کے غرور میں بدمست نپولین یہ کہتا تھا ''اس سے پہلے کہ آسمان ہم پر آن گرے، ہمیں اس کو اپنے نیزے کی انیوں سے سنبھالے رکھنا ہوگا۔'' لیکن آخر میں صرف ایک اجڑی ہوئی قبر اس کی آخری آرام گاہ بنی۔
مسولینی ہو یا ہٹلر، نپولین ہو یا کوئی اور آمر ان سب نے صرف اقتدار کی قربان گاہ کی تعظیم کی۔ ان کی عبادت، ان کی محبت صرف اقتدار تھا، ان سب کی بنیاد لوٹ کھسوٹ اور استحصال پر قائم تھی۔ یہ سب کے سب نفسیاتی مسائل کا شکار تھے اور اپنی محرومیوں، تلخیوں کا بدلہ اپنے عوام کو برباد اور ذلیل و خوار کرکے لیتے رہے۔ یہ سب خود کے دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کے دشمن تھے۔ انھوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے تمام نفسیاتی حربوں اور طریقوں کو استعمال کیا جن کے ذریعے وہ اپنے عوام پر قابو پاسکیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ عوام کو دہشت زدہ اور وحشت زدہ کرنے والوں کا انجام ایک ہی جیسا ہوا ہے ۔ آخر میں صرف ایک اجڑی ہوئی قبر ان کی آرام گاہ بنی۔ بیکن کہتا ہے تاریخ آدمی کو عقل مند بناتی ہے۔ ویچو انسانی تاریخ میں جب معاشرے کے ارتقا پر بحث کرتا ہے تو وہ معاشرے کو تین ادوار میں تقسیم کرتا ہے، پہلے دور کی خصوصیت مذہبی ہوتی ہے، اس میں تخیل کے سہارے فطرت کے مظاہرکو خدا کی ذات سے ملایا جاتا ہے، اپنی اسی تخیل کی وجہ سے وہ ان دیوتائوں سے خوفزدہ ہوتا ہے جسے اس نے تخلیق کیا ہوتا ہے، دوسرے دور کی خصوصیت افسانوی ہوتی ہے،
اس میں سورما اپنے آپ کو خدا کی اولاد بتاتے ہیں اور معاشرے میں اہم و ممتاز مقام حاصل کرلیتے ہیں اور اسی رشتے کی بنیاد پر وہ دوسرے لوگوں پر حکومت کرتے ہیں، تیسرے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسان ذہن و شعور کے لحاظ سے برابر ہوجاتے ہیں اور معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم ہوجاتی ہے۔ ویچو آدمی کو فطری طور پر خودغرض بتاتا ہے، اس لیے خود غرضی کی بنا پر انسان ہر کام اور ہر عمل میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے، اس لیے یہ جذبہ اس پر قابو پالیتا ہے، وہ اپنے جذبات کو انصاف کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے اسی لیے تاریخ میں مسولینی، ہٹلر، نپولین اور دیگر بہت سے آمر پیدا ہوئے۔
میرے نشان شیر کے پنجوں کے نشانات سے مشابہ ہوں گے، یہ خواہش میرے دل و دماغ پر محیط ہے، یہ مجھے اندر ہی اندر کھائے جارہی ہے''۔ یہ ایک انا پسند شخص کا اعتراف ہے، ایک ایسے شخص کا اعتراف جس نے پانچ لاکھ آدمی محض اس لیے موت کی بھینٹ چڑھا دیے کہ اسے بیسویں صدی کا جولیس سیزر کہا جائے۔ مسولینی خود کو اصلی جولیس سیزر تو نہ کہتا تھا مگر خود کو جولیس سیزر ثانی ضرور کہا کرتا تھا۔
اس نے مجسمہ سازوں کو حکم دے رکھا تھا کہ اس کے مجسمے جولیس سیزر جیسے بنائے جائیں۔ 1926 میں جب اس نے ٹریپولی کا دورہ کیا تھا تو ہزاروں اشتہاروں نے ان الفاظ سے اس کا استقبال کیا ''خو ش آمدید سیزر''۔ مسولینی نے اپنا بچپن نفرت اور بغاوت کے ماحول میں بسر کیا۔ ہٹلر کی طرح مسولینی نے بھی اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی تلخ جوانی کی تلافی کرنے کی کوشش کی، اس نے کہا تھا ''بچپن میں کوئی مجھ سے نرمی اور شفقت سے پیش نہ آتا تھا، میں ایک غریب گھر میں رہتا تھا اور میری زندگی انتہائی تلخ تھی، مجھ میں شفقت کہاں سے آتی۔''
مسولینی جہاں کہیں بھی گیا اس نے نفرت اور تشدد کا مظاہرہ کیا، بذات خود وہ اس قدر بزدل تھا کہ سوشلسٹ اخبار ''اوانٹی'' کی ادارت کے دنوں میں اس نے ہمیشہ اپنی میز پر ایک چاقو اور ایک بھرا ہوا پستول رکھا ہوتا تھا۔ مسولینی کے اس زمانے کی زندگی کے بارے میں اس کی ایک نائب مدیرہ خاتون سے زیادہ اور کوئی نہیں جانتا۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ وہ مسولینی کے اس نا قابل یقین خوف پر بے حد حیران تھی۔ مسولینی نے اس کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ تو اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہوجاتا تھا۔ وہ اس قدر بزدل تھا کہ اندھیرے میں اکیلا گھر جانے سے گھبراتا تھا۔
یہ حقیقت اسے اپنے دفتر کے دوسرے لوگوں کے سامنے تسلیم کرنے میں شرم محسوس ہوتی تھی لہٰذا اس نے خاتون مدیرہ سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اسے ہر روز اس کے گھر چھوڑ آیا کرے۔ وہ خاتون مسولینی کو اس کے گھر کے دروازے پر چھوڑ کر اپنے گھر جایا کرتی تھی۔ یہ تمام باتیں اس خاتون نے ایک کتاب کی شکل میں لکھی ہیں، اس خاتون کا نا م انجیلیکا بالانوف ہے۔ اٹلی کا آمر بننے کے بعد اس نے پندرہ ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک پرائیویٹ فوج بنا رکھی تھی جو اس کے محل کی پوری طرح نگرانی کرتی تھی۔ جب مسولینی نے آمرانہ اقتدار حاصل کیا تو اس زمانے میں ہٹلر کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ مسولینی ہی سے ہٹلر نے آمرانہ اقتدار حاصل کرنے کے گُر سیکھے۔
1933 میں نازی پارٹی نے ہٹلر کی زیر قیادت جرمنی میں حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالی۔ پارٹی نے اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے انتہائی بیدردی سے کام لیا۔ جمہوری حکومت کے تمام رہے سہے سلسلے ختم کر دیے گئے۔ جن لوگوں نے اختلافی رائے ظاہر کی، انھیں بے رحمی سے دبا دیا گیا۔ یہودی کثیر تعداد میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ہٹلر عوام کو بہت حقیر سمجھتا تھا اور اس کا اظہار اس نے مختلف صورتوں میں بار بار کیا۔ ایک جگہ انھیں بھیڑوں کے بے دماغ ریوڑ کہا، دوسرے مقام پر مجسمہ حماقت قرار دیتا ہے۔ اپنا یہ عقیدہ بھی اس نے مسلسل ظاہر کیا کہ عوام سست، بزدل اور جذباتی ہوتے ہیں۔
ہٹلر آسٹریا کے ایک مقام برانو میں پیدا ہوا۔ وہ خود بتاتا ہے کہ میری زندگی کے شروع کے سال انتہائی عسرت و تنگ دستی، رنج و مصیبت، ناکامی، محرومی کے سال تھے۔ 13 برس کی عمر میں اس کی رسمی تعلیم ختم ہوگئی ، یہ ہی زمانہ ہے جب اس کے ماں اور باپ نے وفات پائی۔ اس نے ویانا میں پہلے بطور مصور زندگی شروع کی لیکن اس میں کامیابی نہ ہوئی تو معماری کا پیشہ اختیار کرلیا، اس میں بھی نہ چل سکا کیونکہ اس نے تعلیم کم پائی تھی۔ ادھر دوسری طرف انقلاب فرانس کے بطن سے نپولین پیدا ہوتا ہے۔
ایچ جی ویلز اور دیگر تاریخ دان اس کے متعلق کہتے ہیں ''محض ایک مہم جو اور غارت گر جس نے یورپ اور تہذیب کو زبردست نقصان پہنچایا۔'' وہ ایک عظیم جرنیل تھا، ماضی کے جنگجوئوں سکندراعظم اور چنگیز خان کے ہم پلہ، لیکن وہ بہت چھوٹا آدمی بھی تھا، خودغرض اور خود پسند۔ اس نے کہا تھا طاقت میری شریک حیات ہے، اس کے حصو ل نے مجھے اتنے جوکھم میں ڈالا ہے کہ اب میں کسی اور کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتا، کوئی اس میں میرا شریک نہیں بن سکتا۔ انقلاب کے دنوں میں وہ انتہاپسند جمہوریت نواز گروپ کا رکن تھا۔ اس نے انتہاپسندوں میں شمو لیت اس لیے اختیار کی کہ وہ اپنے مفادات کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا چاہتا تھا، اس نے جمہوریت کا خاتمہ کردیا اور خود فرانس کا بادشاہ بن گیا۔
وہ دس سال تک بادشاہ رہا، اس عرصے میں وہ پورے یورپ میں دندناتا رہا، سب اس کے نام پہ لرزتے تھے۔ نپولین نے درست کہا تھا ''میرے زوال کا الزام اگر کسی کو دیا جاسکتا ہے وہ خود میں ہوں، اپنا سب سے بڑا دشمن خود میں تھا اور میری تباہی کا سبب یہ ہی تھا۔'' اپنی طاقت کے غرور میں بدمست نپولین یہ کہتا تھا ''اس سے پہلے کہ آسمان ہم پر آن گرے، ہمیں اس کو اپنے نیزے کی انیوں سے سنبھالے رکھنا ہوگا۔'' لیکن آخر میں صرف ایک اجڑی ہوئی قبر اس کی آخری آرام گاہ بنی۔
مسولینی ہو یا ہٹلر، نپولین ہو یا کوئی اور آمر ان سب نے صرف اقتدار کی قربان گاہ کی تعظیم کی۔ ان کی عبادت، ان کی محبت صرف اقتدار تھا، ان سب کی بنیاد لوٹ کھسوٹ اور استحصال پر قائم تھی۔ یہ سب کے سب نفسیاتی مسائل کا شکار تھے اور اپنی محرومیوں، تلخیوں کا بدلہ اپنے عوام کو برباد اور ذلیل و خوار کرکے لیتے رہے۔ یہ سب خود کے دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کے دشمن تھے۔ انھوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے تمام نفسیاتی حربوں اور طریقوں کو استعمال کیا جن کے ذریعے وہ اپنے عوام پر قابو پاسکیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ عوام کو دہشت زدہ اور وحشت زدہ کرنے والوں کا انجام ایک ہی جیسا ہوا ہے ۔ آخر میں صرف ایک اجڑی ہوئی قبر ان کی آرام گاہ بنی۔ بیکن کہتا ہے تاریخ آدمی کو عقل مند بناتی ہے۔ ویچو انسانی تاریخ میں جب معاشرے کے ارتقا پر بحث کرتا ہے تو وہ معاشرے کو تین ادوار میں تقسیم کرتا ہے، پہلے دور کی خصوصیت مذہبی ہوتی ہے، اس میں تخیل کے سہارے فطرت کے مظاہرکو خدا کی ذات سے ملایا جاتا ہے، اپنی اسی تخیل کی وجہ سے وہ ان دیوتائوں سے خوفزدہ ہوتا ہے جسے اس نے تخلیق کیا ہوتا ہے، دوسرے دور کی خصوصیت افسانوی ہوتی ہے،
اس میں سورما اپنے آپ کو خدا کی اولاد بتاتے ہیں اور معاشرے میں اہم و ممتاز مقام حاصل کرلیتے ہیں اور اسی رشتے کی بنیاد پر وہ دوسرے لوگوں پر حکومت کرتے ہیں، تیسرے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسان ذہن و شعور کے لحاظ سے برابر ہوجاتے ہیں اور معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم ہوجاتی ہے۔ ویچو آدمی کو فطری طور پر خودغرض بتاتا ہے، اس لیے خود غرضی کی بنا پر انسان ہر کام اور ہر عمل میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے، اس لیے یہ جذبہ اس پر قابو پالیتا ہے، وہ اپنے جذبات کو انصاف کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے اسی لیے تاریخ میں مسولینی، ہٹلر، نپولین اور دیگر بہت سے آمر پیدا ہوئے۔