پٹرول کی قیمت میں کمیمہنگائی بدستور اپنی جگہ موجود
پٹرول میں کمی کی قیمت کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہیے‘ عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں‘ صرف دعوے اور نعرے کافی نہیں۔
KARACHI:
حکومت نے یکم نومبر کو پٹرول کی قیمت میں 9.43روپے کی کمی کر کے عوام کو خوشخبری سنائی جس سے یہ امید بندھی کہ اب روز مرہ کی دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی آئے گی اور مہنگائی کا جن جو قابو سے باہر ہو چکا ہے اسے بوتل میں بند کر کے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف پہنچایا جائے گا مگر آج چار روز گزرنے کے باوجود ان امیدوں کے پورا ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں پڑ رہے اور مہنگائی کا گراف بدستور اپنی جگہ پر موجود ہے۔
ہماری پوری معیشت کا انحصار پٹرول کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ابھی پٹرول کی قیمت میں اضافے کی خبر ہی آتی ہے تو اس کا اثر مارکیٹ پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہر چیز مہنگی کر دی جاتی ہے، ٹرانسپورٹر من مانی کرتے ہوئے کرایوں میں فوری اضافہ کر دیتے ہیں اور انتظامیہ بے بس دکھائی دیتی ہے۔ یوٹیلٹی بلوں کی قیمت بھی بڑھا دی جاتی ہے۔ مگر جب عوام کے فائدے کی بات چلتی ہے تو اس کی راہ میں ہزاروں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں اور کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ پیش کر کے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں تین چار روپے ہی اضافہ ہو جائے تو لگتا ہے کہ ہر جا مہنگائی کا طوفان آ گیا ہے، اب اس کی قیمت میں 9.43 روپے کی کمی کی گئی ہے جو ایک مناسب کمی ہے مگر مہنگائی میں قطعی کمی نہیں ہو رہی۔
تنوروں پر روٹی کی قیمت اضافہ ہونے کی خبر شایع ہونے پر انتظامیہ نے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت چند تنور والوں کی پکڑ دھکڑ کر کے کارکردگی دکھانے کی کوشش کی مگر اس کا اثر کچھ بھی نہیں ہوا' روٹی آج بھی تنوروں پر دس روپے ہی میں بک رہی ہے۔ اسی طرح' دودھ' گھی اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ حکومتی رٹ' انتظامیہ اور صارفین کے حقوق کے ادارے کہاں ہیں۔ کیا مہنگائی کے ذمے دار افراد اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں کہ حکومت ان کے سامنے بے بس ہو جائے۔ پٹرول میں کمی کی قیمت کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہیے' عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں' صرف دعوے اور نعرے کافی نہیں۔
حکومت نے یکم نومبر کو پٹرول کی قیمت میں 9.43روپے کی کمی کر کے عوام کو خوشخبری سنائی جس سے یہ امید بندھی کہ اب روز مرہ کی دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی آئے گی اور مہنگائی کا جن جو قابو سے باہر ہو چکا ہے اسے بوتل میں بند کر کے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف پہنچایا جائے گا مگر آج چار روز گزرنے کے باوجود ان امیدوں کے پورا ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں پڑ رہے اور مہنگائی کا گراف بدستور اپنی جگہ پر موجود ہے۔
ہماری پوری معیشت کا انحصار پٹرول کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ابھی پٹرول کی قیمت میں اضافے کی خبر ہی آتی ہے تو اس کا اثر مارکیٹ پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہر چیز مہنگی کر دی جاتی ہے، ٹرانسپورٹر من مانی کرتے ہوئے کرایوں میں فوری اضافہ کر دیتے ہیں اور انتظامیہ بے بس دکھائی دیتی ہے۔ یوٹیلٹی بلوں کی قیمت بھی بڑھا دی جاتی ہے۔ مگر جب عوام کے فائدے کی بات چلتی ہے تو اس کی راہ میں ہزاروں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں اور کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ پیش کر کے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں تین چار روپے ہی اضافہ ہو جائے تو لگتا ہے کہ ہر جا مہنگائی کا طوفان آ گیا ہے، اب اس کی قیمت میں 9.43 روپے کی کمی کی گئی ہے جو ایک مناسب کمی ہے مگر مہنگائی میں قطعی کمی نہیں ہو رہی۔
تنوروں پر روٹی کی قیمت اضافہ ہونے کی خبر شایع ہونے پر انتظامیہ نے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت چند تنور والوں کی پکڑ دھکڑ کر کے کارکردگی دکھانے کی کوشش کی مگر اس کا اثر کچھ بھی نہیں ہوا' روٹی آج بھی تنوروں پر دس روپے ہی میں بک رہی ہے۔ اسی طرح' دودھ' گھی اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ حکومتی رٹ' انتظامیہ اور صارفین کے حقوق کے ادارے کہاں ہیں۔ کیا مہنگائی کے ذمے دار افراد اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں کہ حکومت ان کے سامنے بے بس ہو جائے۔ پٹرول میں کمی کی قیمت کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہیے' عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں' صرف دعوے اور نعرے کافی نہیں۔