پیغام حسینی اقوام عالم کے مسائل کا حل
سانحہ کربلا ایسا تاریخی، مثالی اور عزم و استقلال سے بھرپور واقعہ ہے جس کی نظیر لانے سے تاریخ عالم قاصر ہے۔
دس محرم الحرام 61 ہجری کو میدان کربلا میں تاریخ اسلام کا انتہائی اندوہناک اور دلوں کو دہلا دینے والا سانحہ رونما ہوا۔ تاریخ عالم میں ایسے بہت سے واقعات گزرے ہیں، جس نے انسانی تاریخ میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں، لیکن سانحہ کربلا ایسا تاریخی، مثالی اور عزم و استقلال سے بھرپور واقعہ ہے جس کی نظیر لانے سے تاریخ عالم قاصر ہے۔
واقعہ کربلا تاریخ انسانیت کا عظیم واقعہ ہے، جس میں نواسہ رسول، فرزند علی و بتول امام حسینؓ نے اپنی اور اپنے اعزاء و اقارب اور جاں نثاروں کی عظیم قربانیاں پیش کرکے پرچم توحید کو قیامت تک کے لیے سر بلند کردیا اور اسلام کو حیات نو بخشی۔ شہدائے کربلا کی بے مثال قربانیاں پوری انسانیت کے لیے چراغ ہدایت ہیں۔
جس طرح سورج کی کرنیں، دریاؤں کا پانی، بارش کے قطرے بلا تفریق رنگ و نسل، مذہب و ملت پوری انسانیت کو فیض یاب کرتے ہیں، اسی طرح میدان کربلا میں معرکہ حق و باطل نے ہر عہد، ہر زمانہ، ہر ملک و تہذیب کو اپنے ثمرات سے مستفید کیا، شہادت حسین ہر دور میں انسانیت کے لیے سبق آموز ہے۔ مطلق العنانیت، ظلم، جبر، ناانصافی، برائی، لادینیت، پست کرداری، عہد شکنی کے مقابلے میں شہادت حسین آزادی و حریت، سچائی، عزم و ہمت، وفا و استقامت، عدل و انصاف، مساوات، جرأت و بہادری، عظمت کردار اور مظلومین کی فتح و سرفرازی کا استعارہ بن کر سامنے آتی ہے۔
حسین ابن علیؓ نے عظیم ترین مجاہدے اور شہادت سے بشریت کو آبرو و حرمت بخشی اور جہان بشریت کے رہبر و رہنما کہلائے۔ آپؓ کربلا کے معرکے میں دشمنوں کے محاصرے میں اس طرح تھے جیسے انگوٹھی میں نگینہ، موت خوف ناک اژدھے کی طرح آپ اور آپ کے اصحاب کو نگلنے کے لیے منہ کھولے کھڑی تھی۔ آپ کے عیال و اطفال زمانے کے پست ترین افراد کی قید و بند میں گرفتار ہونے کے شدید خطرے سے دوچار تھے۔ پھر بھی ایسے پرخطر حالات میں فولادی پہاڑ سے زیادہ سخت، ٹھوس، مصمم آہنی عزم کے ساتھ سرزمین عراق کے سورج کی جلا دینے والی شعاعوں کے نیچے ایستادہ ہوئے۔ امام حسین کی شہادت نے قانون آزادی بشر پر اپنے جاں نثاروں اور جگر پاروں کے پاک لہو سے دستخط ثبت کیے، اور اسے ''بعنوان درس جاوداں'' مجاہدین عالم کے سامنے پیش کردیا۔
کربلا میں نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ کے قیام کا مقصد حب الٰہی، اعلائے کلمۃ الحق، خدمت انسانیت، اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت کا قیام، دین کی ترویج، حق و صداقت کی نشر و اشاعت تھا۔ امام حسین چاہتے تھے کہ ''اللہ کی مخلوق حکومت الٰہیہ کے سایہ میں امن و چین کی زندگی بسر کرسکے۔ سسکتی ہوئی انسانیت، پاکیزہ نظام حیات سے اپنی دنیا و آخرت سنوار سکے۔ کسی جابر و ظالم کو بے گناہ مخلوق پر ظلم ڈھانے کی ہمت نہ ہونے پائے۔ کوئی اقتدار کا متوالا، حکومت کا دلدادہ، انسانیت کے خرمن امن پر برق ہلاکت آفریں نہ بننے پائے۔
عدل عمرانی کا دور دورہ ہو، مساوات، حریت، اخوت، حسن معاشرت کی نعمتوں سے بنی نوع انسان متمع ہو، سیدنا حسینؓ چاہتے تھے کہ چہار دانگ عالم میں توحید کا ڈنکا بجے، عبد و معبود کے روابط مضبوط ہوں، دنیا میں حق کا بول بالا ہو، انسانیت معراج کمال پائے، دنیا جنت نظیر بن جائے، بے گناہوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی جائے، شرف انسان کی تذلیل نہ ہونے پائے، طاقت ور کمزور کو نہ دبائے، اقتدار کی جنگ میں نہتی آبادیوں کو تباہ نہ کیا جائے، حریت فکر پر پہرہ نہ بٹھایا جائے، حدود شریعت سے تجاوز نہ ہو، حق العباد سے اغماض نہ ہو، حسینؓ ایک ایسا انقلاب لانا چاہتے تھے جو معاشرے کو ترقی کی راہ پر لے جائے۔
امام حسینؓ نے یزیدیت کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے اور آمریت و ملوکیت کے چہروں پر پڑے ہوئے تمام پردوں کو چاک کرکے دنیا کو یہ بتا دیا کہ موت ہمیشہ ذلت و رسوائی کی ندامت سے لبریز زندگی سے زیادہ بہتر، عزیز اور زیادہ محبوب ہے۔
انسانی تاریخ کے سب سے بڑے شجیع نے صبر کو قوت بناکر ابد تک یزیدیت کو مدفون کردیا اور اسے مرکز ملامت اور مذمت کردیا مگر شرمناک کہ ہم آج بھی اپنی معاشرت میں یزیدی قوتوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہمارے معصوم انسان وحشی انسانی درندوں کے ہاتھوں ہلاک کردیے جاتے ہیں، ہم منصب شہادت اور سرکاری مالی امداد کا اعلان کرکے خود پر بے حسی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، یہ اس مذہب کے ماننے والوں کا حال ہے جو دین کامل اور دین فطرت پر یقین رکھتے ہیں، اسلام سماجی مساوات اور انسانی عظمت کا سب سے بڑا داعی ہے، عفو و درگزر کا پیغام دیتا ہے، خدا کی وحدانیت کا اقرار کرواتا ہے۔
مگر عبد کی عظمت اور اس کی حفاظت کو اولین قرار دیتا ہے، انسان سے محبت مذہب اسلام کا جزو اول ہے مگر ہم شاید کسی اور سمت نکل گئے ہیں۔ ہم نے اپنے آنگنوں کے دروازے اجنبی قدموں کے لیے کھول رکھے ہیں جو اپنے آتشی ہتھیاروں سے آگ برسا رہے ہیں، اپنی زہریلی سوچ اور فکر سے انسانی فکر کو مغلوب کررہے ہیں، انھیں ایسے نشہ آور سفر پر لیے جارہے ہیں جہاں وہ اپنے وجود کو بھی فراموش کرچکے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مذہبی اور سیاسی نصاب کو تبدیل کریں، ہماری اکثریت معتدل مزاج اور محبتوں کی امین ہے، مگر اس کے اطراف نفرتوں اور جہل کے جالے بن دیے گئے ہیں۔
بے قامت و قیمت صاحبان جبہ و دستار، مطلق العنان جابر حکمرانوں اور زر خرید پیشہ ور قاتلوں نے اس معاشرے کو لہولہان کردیا ہے، نفرتوں، عصبیتوں اور تنازعوں کی جلتی ہوئی آگ ہمیں ہی بجھانی ہوگی، غمزدہ اور تھک کر سوجانے سے یہ آشوب وحشت و دشت ختم نہیں ہوگی۔ ذاتی، نظریاتی، مسلکی، لسانی تعصبات کو امن ومحبت کی چادر اوڑھا کر قومی و اجتماعی مفادات کا حصول ہماری سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے، اگر امت مسلمہ ذلت و رسوائی سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے تو اسے شعار حسینی اپنانا ہوگا۔
واقعہ کربلا تاریخ انسانیت کا عظیم واقعہ ہے، جس میں نواسہ رسول، فرزند علی و بتول امام حسینؓ نے اپنی اور اپنے اعزاء و اقارب اور جاں نثاروں کی عظیم قربانیاں پیش کرکے پرچم توحید کو قیامت تک کے لیے سر بلند کردیا اور اسلام کو حیات نو بخشی۔ شہدائے کربلا کی بے مثال قربانیاں پوری انسانیت کے لیے چراغ ہدایت ہیں۔
جس طرح سورج کی کرنیں، دریاؤں کا پانی، بارش کے قطرے بلا تفریق رنگ و نسل، مذہب و ملت پوری انسانیت کو فیض یاب کرتے ہیں، اسی طرح میدان کربلا میں معرکہ حق و باطل نے ہر عہد، ہر زمانہ، ہر ملک و تہذیب کو اپنے ثمرات سے مستفید کیا، شہادت حسین ہر دور میں انسانیت کے لیے سبق آموز ہے۔ مطلق العنانیت، ظلم، جبر، ناانصافی، برائی، لادینیت، پست کرداری، عہد شکنی کے مقابلے میں شہادت حسین آزادی و حریت، سچائی، عزم و ہمت، وفا و استقامت، عدل و انصاف، مساوات، جرأت و بہادری، عظمت کردار اور مظلومین کی فتح و سرفرازی کا استعارہ بن کر سامنے آتی ہے۔
حسین ابن علیؓ نے عظیم ترین مجاہدے اور شہادت سے بشریت کو آبرو و حرمت بخشی اور جہان بشریت کے رہبر و رہنما کہلائے۔ آپؓ کربلا کے معرکے میں دشمنوں کے محاصرے میں اس طرح تھے جیسے انگوٹھی میں نگینہ، موت خوف ناک اژدھے کی طرح آپ اور آپ کے اصحاب کو نگلنے کے لیے منہ کھولے کھڑی تھی۔ آپ کے عیال و اطفال زمانے کے پست ترین افراد کی قید و بند میں گرفتار ہونے کے شدید خطرے سے دوچار تھے۔ پھر بھی ایسے پرخطر حالات میں فولادی پہاڑ سے زیادہ سخت، ٹھوس، مصمم آہنی عزم کے ساتھ سرزمین عراق کے سورج کی جلا دینے والی شعاعوں کے نیچے ایستادہ ہوئے۔ امام حسین کی شہادت نے قانون آزادی بشر پر اپنے جاں نثاروں اور جگر پاروں کے پاک لہو سے دستخط ثبت کیے، اور اسے ''بعنوان درس جاوداں'' مجاہدین عالم کے سامنے پیش کردیا۔
کربلا میں نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ کے قیام کا مقصد حب الٰہی، اعلائے کلمۃ الحق، خدمت انسانیت، اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت کا قیام، دین کی ترویج، حق و صداقت کی نشر و اشاعت تھا۔ امام حسین چاہتے تھے کہ ''اللہ کی مخلوق حکومت الٰہیہ کے سایہ میں امن و چین کی زندگی بسر کرسکے۔ سسکتی ہوئی انسانیت، پاکیزہ نظام حیات سے اپنی دنیا و آخرت سنوار سکے۔ کسی جابر و ظالم کو بے گناہ مخلوق پر ظلم ڈھانے کی ہمت نہ ہونے پائے۔ کوئی اقتدار کا متوالا، حکومت کا دلدادہ، انسانیت کے خرمن امن پر برق ہلاکت آفریں نہ بننے پائے۔
عدل عمرانی کا دور دورہ ہو، مساوات، حریت، اخوت، حسن معاشرت کی نعمتوں سے بنی نوع انسان متمع ہو، سیدنا حسینؓ چاہتے تھے کہ چہار دانگ عالم میں توحید کا ڈنکا بجے، عبد و معبود کے روابط مضبوط ہوں، دنیا میں حق کا بول بالا ہو، انسانیت معراج کمال پائے، دنیا جنت نظیر بن جائے، بے گناہوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی جائے، شرف انسان کی تذلیل نہ ہونے پائے، طاقت ور کمزور کو نہ دبائے، اقتدار کی جنگ میں نہتی آبادیوں کو تباہ نہ کیا جائے، حریت فکر پر پہرہ نہ بٹھایا جائے، حدود شریعت سے تجاوز نہ ہو، حق العباد سے اغماض نہ ہو، حسینؓ ایک ایسا انقلاب لانا چاہتے تھے جو معاشرے کو ترقی کی راہ پر لے جائے۔
امام حسینؓ نے یزیدیت کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے اور آمریت و ملوکیت کے چہروں پر پڑے ہوئے تمام پردوں کو چاک کرکے دنیا کو یہ بتا دیا کہ موت ہمیشہ ذلت و رسوائی کی ندامت سے لبریز زندگی سے زیادہ بہتر، عزیز اور زیادہ محبوب ہے۔
انسانی تاریخ کے سب سے بڑے شجیع نے صبر کو قوت بناکر ابد تک یزیدیت کو مدفون کردیا اور اسے مرکز ملامت اور مذمت کردیا مگر شرمناک کہ ہم آج بھی اپنی معاشرت میں یزیدی قوتوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہمارے معصوم انسان وحشی انسانی درندوں کے ہاتھوں ہلاک کردیے جاتے ہیں، ہم منصب شہادت اور سرکاری مالی امداد کا اعلان کرکے خود پر بے حسی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، یہ اس مذہب کے ماننے والوں کا حال ہے جو دین کامل اور دین فطرت پر یقین رکھتے ہیں، اسلام سماجی مساوات اور انسانی عظمت کا سب سے بڑا داعی ہے، عفو و درگزر کا پیغام دیتا ہے، خدا کی وحدانیت کا اقرار کرواتا ہے۔
مگر عبد کی عظمت اور اس کی حفاظت کو اولین قرار دیتا ہے، انسان سے محبت مذہب اسلام کا جزو اول ہے مگر ہم شاید کسی اور سمت نکل گئے ہیں۔ ہم نے اپنے آنگنوں کے دروازے اجنبی قدموں کے لیے کھول رکھے ہیں جو اپنے آتشی ہتھیاروں سے آگ برسا رہے ہیں، اپنی زہریلی سوچ اور فکر سے انسانی فکر کو مغلوب کررہے ہیں، انھیں ایسے نشہ آور سفر پر لیے جارہے ہیں جہاں وہ اپنے وجود کو بھی فراموش کرچکے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مذہبی اور سیاسی نصاب کو تبدیل کریں، ہماری اکثریت معتدل مزاج اور محبتوں کی امین ہے، مگر اس کے اطراف نفرتوں اور جہل کے جالے بن دیے گئے ہیں۔
بے قامت و قیمت صاحبان جبہ و دستار، مطلق العنان جابر حکمرانوں اور زر خرید پیشہ ور قاتلوں نے اس معاشرے کو لہولہان کردیا ہے، نفرتوں، عصبیتوں اور تنازعوں کی جلتی ہوئی آگ ہمیں ہی بجھانی ہوگی، غمزدہ اور تھک کر سوجانے سے یہ آشوب وحشت و دشت ختم نہیں ہوگی۔ ذاتی، نظریاتی، مسلکی، لسانی تعصبات کو امن ومحبت کی چادر اوڑھا کر قومی و اجتماعی مفادات کا حصول ہماری سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے، اگر امت مسلمہ ذلت و رسوائی سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے تو اسے شعار حسینی اپنانا ہوگا۔