فالج کا مہلک مرض
پاکستان میں فالج کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح خطرے کی گھنٹی ہے، جس کی بنیادی وجہ بلڈ پریشر کا بڑھنا ہے۔
KUWAIT CITY:
کسی ناگہانی حادثے میں لوگوں کی اچانک موت واقع ہوجائے تو معاشرے میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے اور لوگ ان اموات پر افسوس اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے صدمے سے دوچار ہوجاتے ہیں جب کہ ذرایع ابلاغ واقعے کے حوالے سے مسلسل خبروں کی نشرو اشاعت میں مصروف رہتے ہیں۔
علاوہ ازیں ایسے واقعات لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات اورنقوش چھوڑتے ہیں جب کہ متعلقہ ادارے ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے مختلف سطح پر لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے عملی اقدامات کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ 29 اکتوبر کو فالج کے مرض کا عالمی دن انتہائی خاموشی کے ساتھ گزر گیا اور اس حوالے سے کسی بھی سطح پر کسی بھی قسم کی کوئی خاص توجہ حاصل نہ ہوسکی۔ حالانکہ یہ بات لوگوں کے لیے حیرت اور اچنبھے کا باعث بنے گی کہ فالج ایک ایسا موذی مرض ہے جس سے صرف پاکستان میں روزانہ 4 سو افراد خاموشی سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
فالج ایسا مرض نہیں ہے کہ جس سے بچنا ناممکن ہو، اگر ضروری تدابیر اختیار کرلی جائیں تو اس مرض پر قابو اور اس کے سبب پیش آنے والی ذہنی، جسمانی و مالی تکالیف سے بچا جاسکتا ہے، مزید برآں لاعلمی کے سبب اس مرض میں مبتلا افراد کے علاج میں غفلت، کوتاہی بھی اموات کا سبب بن رہی ہے، جس کے لیے عوامی آگاہی و شعور کی بیداری انتہائی ضروری ہے۔
اگر اعداد و شمار کا حوالہ دیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں ہر سال ایک کروڑ 80 لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں اور جن میں سے 60 لاکھ افراد موت کو گلے لگا لیتے ہیں، فالج کا شکار ہونے والے 70 فیصد افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے جب کہ ہر 10 میں سے ایک مریض جانبر نہیں رہ پاتا۔ اعداد و شمار اس امر کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ فالج کا شکار ہونے والے 20 سے 40 فیصد مریض یہ روگ لگنے کے 3 ماہ کے اندر دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے تکلیف دہ صورتحال ہے، جہاں روزانہ ایک ہزار افراد فالج کا شکار ہورہے ہیں، ہمارے ملک میں ہر 6 میں سے ایک مرد کو فالج کا مرض لاحق ہونے کا امکان ہے جب کہ خواتین کے معاملے میں یہ صورتحال مزید سنگین ہے کہ پاکستان میں ہر 5 میں ایک خاتون کو فالج کے حملے کا خطرہ درپیش ہے۔
ہمارے ملک میں 15 سے 45 برس کی عمر والے 20 سے 25 فیصد افراد فالج کی زد میں آرہے ہیں، یہ تناسب دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یورپ اور امریکا میں حفاظتی تدابیر اور اقدامات کے سبب یہ تناسب 10 فیصد رہ گیا ہے۔ پاکستان میں فالج کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح خطرے کی گھنٹی ہے، جس کی بنیادی وجہ بلڈ پریشر کا بڑھنا ہے۔ یہ امر بہت افسوس کن ہے کہ بدقسمتی سے 45 برس سے بڑھتی عمر والے ایک تہائی افراد خون کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا شکار ہیں جب کہ یہ بات اور تکلیف دہ ہے کہ ان میں سے نصف تعداد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس خاموش قاتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد بھی فالج کا سبب بن رہی ہے۔
قیاس ہے کہ 2020 تک پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 1 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی اور اس مرض میں پاکستان کا دنیا میں چوتھا نمبر ہوگا۔ تمباکو نوشی کے مہلک اثرات سب پر عیاں ہیں مگر پھر بھی اس سے گریز اور اجتناب تو درکار کمی کا تصور بھی نہیں کیا جارہا بلکہ لوگوں میں، خاص طور پر نوجوانوں میں تمباکو نوشی کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے، 5 فیصد خواتین بھی اس لت کا شکار ہیں، دوسری جانب نسوار، پان پراگ، گٹکا، شیشہ اور گانجا کے بے جا استعمال کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی اور سی بھی فالج کی شرح میں اضافہ کا سبب ہیں، مزید برآں سردرد، لقوہ، بھول کی عادت، نسوں کی بیماری، ہاتھ پاؤں کا سن ہوجانا، پٹھوں اور کمر کا درد، بے خوابی، چکر کا آنا، پیدائشی دماغی نقائص اور دماغی ٹی بی جیسے اعصابی امراض کو بھی نظر انداز کرنا فالج کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سماجی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، مالی مسائل کے سبب بھی لوگوں میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر فالج کا مریض بننے کا امکان موجود رہتا ہے۔
ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ 40 فیصد مریضوں کو علم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ فالج کے مرض میں مبتلا ہوگئے جب کہ فالج کے90 فیصد مریض علاج کے لیے اسپتال نہیں جاتے اور موزوں علاج سے عدم توجہی برتتے ہوئے دوسرے طریقوں پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں جنگلی کبوتر کے خون کا استعمال بھی شامل ہے، دماغی فالج کے سبب قوت گویائی متاثر ہونے پر الفاظ کی نادرست ادائیگی کو جن بھوت کے اثرات گردانا جاتا ہے۔ ماہر اعصابی امراض ڈاکٹر محمد واسع شاکر کا کہنا ہے کہ اگر بروقت علاج پر توجہ دے دی جائے تو فالج کے مہلک اثرات سے بچاؤ ممکن ہے۔
اس ضمن میں عوامی شعور اور آگاہی بیدار کرنا بہت ضروری ہے، فالج کے نقصانات سے بچنے کے لیے تشخیص کردہ ادویات کا مسلسل استعمال لازمی ہے، نمک کا کم سے کم استعمال کرکے بھی فالج سے بچا جاسکتا ہے جب کہ زہر قاتل کی حیثیت رکھنے والی تمباکو نوشی سے اجتناب زندگی کی مسرتوں میں اضافہ کر سکتا ہے، مزید برآں روزانہ 40 منٹ تک ورزش کو معمول بنالیا جائے تو سودمند رہتا ہے، بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے ماہر معالج کے مشوروں پر عمل کیا جائے، بلڈ پریشیر کو3 ایم ایم کم کرلیا جائے تو فالج کے امکانات 25 فیصد کم ہوجاتے ہیں، علاوہ ازیں ذیابیطس اور کولیسٹرول کو قابو میں رکھنا لازمی ہے۔
فالج کے حملے کی علامات میں مریض کی زبان کا بند ہوجانا اور بولنے کی صلاحیت معطل ہوجانا، ہاتھ اور پاؤں کی معذوری اور بینائی کا چلا جانا شامل ہے، فالج کا حملہ ہونے پر مریض کو 3 گھنٹے میں موزوں اسپتال پہنچایا جائے تو اسے مخصوص انجکشن لگانے سے زندگی کے بچاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، دل کے امراض میں مبتلا افراد کو فالج کی زد میں آکر مزید کسی تکلیف سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے آج زندگی پر سکون نہیں لیکن ڈپریشن میں کمی لاکر فالج کو قریب آنے سے روکا جاسکتا ہے، خواتین کو خاص طور پر اپنے موٹاپے میں کمی لانے کے لیے درست سمت میں اقدامات کرنا لازمی ہے۔
کسی ناگہانی حادثے میں لوگوں کی اچانک موت واقع ہوجائے تو معاشرے میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے اور لوگ ان اموات پر افسوس اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے صدمے سے دوچار ہوجاتے ہیں جب کہ ذرایع ابلاغ واقعے کے حوالے سے مسلسل خبروں کی نشرو اشاعت میں مصروف رہتے ہیں۔
علاوہ ازیں ایسے واقعات لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات اورنقوش چھوڑتے ہیں جب کہ متعلقہ ادارے ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے مختلف سطح پر لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے عملی اقدامات کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ 29 اکتوبر کو فالج کے مرض کا عالمی دن انتہائی خاموشی کے ساتھ گزر گیا اور اس حوالے سے کسی بھی سطح پر کسی بھی قسم کی کوئی خاص توجہ حاصل نہ ہوسکی۔ حالانکہ یہ بات لوگوں کے لیے حیرت اور اچنبھے کا باعث بنے گی کہ فالج ایک ایسا موذی مرض ہے جس سے صرف پاکستان میں روزانہ 4 سو افراد خاموشی سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
فالج ایسا مرض نہیں ہے کہ جس سے بچنا ناممکن ہو، اگر ضروری تدابیر اختیار کرلی جائیں تو اس مرض پر قابو اور اس کے سبب پیش آنے والی ذہنی، جسمانی و مالی تکالیف سے بچا جاسکتا ہے، مزید برآں لاعلمی کے سبب اس مرض میں مبتلا افراد کے علاج میں غفلت، کوتاہی بھی اموات کا سبب بن رہی ہے، جس کے لیے عوامی آگاہی و شعور کی بیداری انتہائی ضروری ہے۔
اگر اعداد و شمار کا حوالہ دیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں ہر سال ایک کروڑ 80 لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں اور جن میں سے 60 لاکھ افراد موت کو گلے لگا لیتے ہیں، فالج کا شکار ہونے والے 70 فیصد افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے جب کہ ہر 10 میں سے ایک مریض جانبر نہیں رہ پاتا۔ اعداد و شمار اس امر کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ فالج کا شکار ہونے والے 20 سے 40 فیصد مریض یہ روگ لگنے کے 3 ماہ کے اندر دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے تکلیف دہ صورتحال ہے، جہاں روزانہ ایک ہزار افراد فالج کا شکار ہورہے ہیں، ہمارے ملک میں ہر 6 میں سے ایک مرد کو فالج کا مرض لاحق ہونے کا امکان ہے جب کہ خواتین کے معاملے میں یہ صورتحال مزید سنگین ہے کہ پاکستان میں ہر 5 میں ایک خاتون کو فالج کے حملے کا خطرہ درپیش ہے۔
ہمارے ملک میں 15 سے 45 برس کی عمر والے 20 سے 25 فیصد افراد فالج کی زد میں آرہے ہیں، یہ تناسب دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یورپ اور امریکا میں حفاظتی تدابیر اور اقدامات کے سبب یہ تناسب 10 فیصد رہ گیا ہے۔ پاکستان میں فالج کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح خطرے کی گھنٹی ہے، جس کی بنیادی وجہ بلڈ پریشر کا بڑھنا ہے۔ یہ امر بہت افسوس کن ہے کہ بدقسمتی سے 45 برس سے بڑھتی عمر والے ایک تہائی افراد خون کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا شکار ہیں جب کہ یہ بات اور تکلیف دہ ہے کہ ان میں سے نصف تعداد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس خاموش قاتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد بھی فالج کا سبب بن رہی ہے۔
قیاس ہے کہ 2020 تک پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 1 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی اور اس مرض میں پاکستان کا دنیا میں چوتھا نمبر ہوگا۔ تمباکو نوشی کے مہلک اثرات سب پر عیاں ہیں مگر پھر بھی اس سے گریز اور اجتناب تو درکار کمی کا تصور بھی نہیں کیا جارہا بلکہ لوگوں میں، خاص طور پر نوجوانوں میں تمباکو نوشی کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے، 5 فیصد خواتین بھی اس لت کا شکار ہیں، دوسری جانب نسوار، پان پراگ، گٹکا، شیشہ اور گانجا کے بے جا استعمال کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی اور سی بھی فالج کی شرح میں اضافہ کا سبب ہیں، مزید برآں سردرد، لقوہ، بھول کی عادت، نسوں کی بیماری، ہاتھ پاؤں کا سن ہوجانا، پٹھوں اور کمر کا درد، بے خوابی، چکر کا آنا، پیدائشی دماغی نقائص اور دماغی ٹی بی جیسے اعصابی امراض کو بھی نظر انداز کرنا فالج کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سماجی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، مالی مسائل کے سبب بھی لوگوں میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر فالج کا مریض بننے کا امکان موجود رہتا ہے۔
ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ 40 فیصد مریضوں کو علم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ فالج کے مرض میں مبتلا ہوگئے جب کہ فالج کے90 فیصد مریض علاج کے لیے اسپتال نہیں جاتے اور موزوں علاج سے عدم توجہی برتتے ہوئے دوسرے طریقوں پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں جنگلی کبوتر کے خون کا استعمال بھی شامل ہے، دماغی فالج کے سبب قوت گویائی متاثر ہونے پر الفاظ کی نادرست ادائیگی کو جن بھوت کے اثرات گردانا جاتا ہے۔ ماہر اعصابی امراض ڈاکٹر محمد واسع شاکر کا کہنا ہے کہ اگر بروقت علاج پر توجہ دے دی جائے تو فالج کے مہلک اثرات سے بچاؤ ممکن ہے۔
اس ضمن میں عوامی شعور اور آگاہی بیدار کرنا بہت ضروری ہے، فالج کے نقصانات سے بچنے کے لیے تشخیص کردہ ادویات کا مسلسل استعمال لازمی ہے، نمک کا کم سے کم استعمال کرکے بھی فالج سے بچا جاسکتا ہے جب کہ زہر قاتل کی حیثیت رکھنے والی تمباکو نوشی سے اجتناب زندگی کی مسرتوں میں اضافہ کر سکتا ہے، مزید برآں روزانہ 40 منٹ تک ورزش کو معمول بنالیا جائے تو سودمند رہتا ہے، بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے ماہر معالج کے مشوروں پر عمل کیا جائے، بلڈ پریشیر کو3 ایم ایم کم کرلیا جائے تو فالج کے امکانات 25 فیصد کم ہوجاتے ہیں، علاوہ ازیں ذیابیطس اور کولیسٹرول کو قابو میں رکھنا لازمی ہے۔
فالج کے حملے کی علامات میں مریض کی زبان کا بند ہوجانا اور بولنے کی صلاحیت معطل ہوجانا، ہاتھ اور پاؤں کی معذوری اور بینائی کا چلا جانا شامل ہے، فالج کا حملہ ہونے پر مریض کو 3 گھنٹے میں موزوں اسپتال پہنچایا جائے تو اسے مخصوص انجکشن لگانے سے زندگی کے بچاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، دل کے امراض میں مبتلا افراد کو فالج کی زد میں آکر مزید کسی تکلیف سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے آج زندگی پر سکون نہیں لیکن ڈپریشن میں کمی لاکر فالج کو قریب آنے سے روکا جاسکتا ہے، خواتین کو خاص طور پر اپنے موٹاپے میں کمی لانے کے لیے درست سمت میں اقدامات کرنا لازمی ہے۔