دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ

اگرچہ واہگہ بارڈر پر تخریب کاری سے متعلق قبل ازوقت اطلاع دی جاچکی تھی مگرانٹیلی جنس کے حوالے سے کوآرڈینیشن کی کمی تھی

کامیابی کے اپنے بھی کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ غیرمعمولی آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں جو غلط ادراک پیدا ہوا کہ دہشت گردی کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا گیا لہٰذا اب اس حوالے سے تشویش کی کوئی ضرورت نہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سوچ بعید از حقیقت ہے۔

یہ درست ہے کہ بہت سے تربیتی کیمپوں، خفیہ ٹھکانوں، گولہ بارود اور بم بنانے والی فیکٹریوں کو تباہ کر دیا گیا لیکن شمالی وزیرستان سے تخریب کاروں کا مکمل طور پر صفایا نہیں کیا جا سکا۔ ان میں سے کچھ لوگوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ اب اپنے پرانے ٹھکانے چھوڑ کر اور زیادہ دشوار گزار علاقوں کی طرف منتقل ہورہے ہیں جن میں شوال کے پہاڑ بھی شامل ہیں۔ ان کی لاجسٹک کا سلسلہ توڑ دینے سے انھوں نے اندرون ملک دیگر آسان اہداف کو تلاش کر لیا ہے۔

واہگہ بارڈر پر چار روز قبل ہونے والے تباہ کن دھماکے میں ساٹھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچوں کی تعداد ہے جب کہ شدید طور پر زخمی ہونے والے اس کے علاوہ ہیں اس حملے میں رینجرز کے تین جوان بھی شہید ہوئے جو کہ فرائض منصبی ادا کر رہے تھے۔ تخریب کاروں کے لیے یہ ایک آسان ہدف تھا جس نے بہت تباہی مچائی کیونکہ پرچم اتارنے کی تقریب کے بعد لوگوں کا بہت بڑا ہجوم باہر نکلا تو خاصی افراتفری محسوس ہو رہی تھی اور یہی تخریب کاروں کا آسان ترین ہدف ہوتا ہے۔ اتنے بڑے المیے کے بعد سرحد پار سے جو تجویز آئی وہ یہ تھی کہ اگلے دن یہ تقریب منعقد ہونی چاہیے تاہم پاکستان نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ۔

عوام کا مورال بلند رکھنے کی خاطر اس تقریب کا معمول کے مطابق انعقاد ضروری تھا نیز اس طرح سے تخریب کاروں کو اپنی حوصلہ افزائی کا تاثر بھی نہ جاتا۔ ایک اخبار کی شہ سرخی تھی کہ بم دھماکا ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکا چنانچہ اگلے دن ہونے والی تقریب میں پاکستان کی طرف سے شرکاء نے اسی جوش و خروش اور اسی تعداد میں شرکت کی جو کہ تقریب کا معمول ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دوسری جانب تمام کرسیاں خالی رہیں ادھر سے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کیے جا رہے تھے اور دہشت گردوں کو مردہ باد کہا جا رہا تھا اس روز فوج کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ بھی غیر معمولی تھا۔


کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان کی بات چیت کے دوران ان کے ساتھ دو جی او سیز میجر جنرل فدا حسین ملک اور امیر عباسی اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل خان طاہر جاوید خان بھی موجود تھے جب کہ لاہور پولیس کی نمایندگی سی سی پی او کیپٹن (ر) امین وائیں کر رہے تھے۔ نوید زمان نے تمام پاکستانیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ دہشت گرد پاکستانی عوام کے عزم اور حوصلے کو ہرگز متاثر نہیں کر سکتے۔ کتنی اچھی بات ہوتی کہ اگر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں سے بھی کچھ لوگ واہگہ بارڈر کی اس تقریب میں شرکت کرتے۔

اگرچہ تخریب کاری کے بارے میں قبل از وقت اطلاع دی جا چکی تھی مگر اس انٹیلی جنس کے حوالے سے کوآرڈینیشن کی کمی تھی۔ کوئی بھی ایسا مقام جہاں پر ہر روز بہت سے لوگ اکٹھے ہوتے ہوں ہمیشہ ہی اس قسم کی واردات کے لیے ایک آسان ہدف ثابت ہوتا ہے۔ اگرچہ سیکیورٹی کے انتظامات بہت سخت کیے گئے تھے اسی وجہ سے خود کش بمبار پہلے سیکیورٹی حصار تک نہ پہنچ سکا ورنہ اور زیادہ تباہ کاری کا احتمال تھا۔ اس موقع پر ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بھارت نے سیالکوٹ کی ورکنگ باؤنڈری پر گزشتہ ماہ سے بلا اشتعال گولہ باری شروع کر رکھی ہے لہٰذا واہگہ کے سانحہ میں بھارت کا ملوث ہونا خارج ازمکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

کیا ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ایسی حرکات پاک فوج کو ان کے حقیقی فرائض سے توجہ ہٹانے کے لیے کی جاتی ہیں جن کا بنیادی مقصد ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ پاک فوج انسداد دہشت گردی کے تمام اسرار و رموز سے بخوبی واقف اور آگاہ ہے لیکن شہری اور دیہی علاقوں میں ان وارداتوں کی حیثیت قطعاً مختلف ہو جاتی ہے۔ ان علاقوں میں یہ کام پولیس کے سپرد ہوتا ہے لیکن اگر انھیں خصوصی اختیارات دے دیے جائیں تو اس سے علیحدہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ تخریب کاری کے واقعات تب بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کراچی میں رینجرز کو ٹارگٹڈ آپریشن کا ہدف دیا گیا ہے لیکن ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے جس میں کہ سول سوسائٹی کے علاوہ بسا اوقات عدلیہ بھی ملوث ہو جاتی ہے۔

اگر بعض سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دہشت گردوں کی اس بنا پر حمایت کی جا رہی ہے کہ وہ بھی ان کے مفادات کا خیال کرتے ہیں تو یہ سلسلہ فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ دہشت گردوں کو جدوجہد آزادی کرنے والوں کے ساتھ کسی صورت نہیں ملایا جا سکتا کیونکہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا ایک اعلی مقصد ہوتا ہے جب کہ دہشت گردوں کو دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے بروئے کار لاتی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایک بہت اچھی طرح تیار کی جانے والی قومی سلامتی پالیسی کو نافذ العمل کرے جو کہ فی الوقت کسی سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے، انھیں انسداد دہشت گردی (سی آئی) اور سی ٹی آپریشن کے درمیان فرق کا واضح علم ہونا چاہیے۔

ایک وفادار سی ٹی فورس کے بغیر ہم بے شک سو سال تک لڑتے رہیں اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس کے اوپر ایک ہوم لینڈ سیکیورٹی کمان تشکیل دینی چاہیے تاکہ تمام وسائل، لاجسٹکس، مین پاور، انٹیلی جنس، مواصلات اور آپریشنز وغیرہ میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ ہماری سی ٹی فورس یا آپ بے شک اس کو کوئی دوسرا نام دے دیں فوری طور پر قابل عمل ہو جانی چاہیے تاکہ دہشت گردی کے عفریت کو جلد از جلد نیست و نابود کیا جا سکے۔
Load Next Story