عوام کی جمہوری اور معاشی غلامی
پاکستان میں سیاسی کلچر کو بھی ’’گودی سیاست‘‘ بنا دیا گیا ہے
ISLAMABAD:
16 اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان شہید کو سامراجی ایجنٹوں نے قتل کر دیا۔ ایوب خان، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، اسکندر مرزا نے قائداعظم محمد علی جناح کی جگہ مقرر کردہ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو 19 اکتوبر 1951ء کو وزیراعظم مقرر کیا اور ملک غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ اکتوبر 1951ء کو حاصل کر لیا۔ ملک غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا۔ یاد رہے کہ لیاقت علی خان شہید پر ستمبر 1949ء میں امریکی ادارے آئی ایم ایف نے دباؤ ڈالا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی کی جائے، خان لیاقت علی خان نے سختی سے امریکی حکم کو رد کر دیا تھا۔
جب امریکی (اشرافیہ) ٹرائیکا نے مکمل پاکستان پر قبضہ کر لیا، پاکستان کے خالق نمایندوں کو چن چن کر ٹھکانے لگا چکے تو اسکندر مرزا نے قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ جون 1955ء کو سنبھالنے کے بعد جولائی 1955ء میں 3.340 روپے سے 4.762 روپے کا ڈالر کر دیا۔ روپے کی قیمت میں یعنی Currency Devaluation Minus Economic Development کے نتیجے میں روپے کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں 43 فیصد کمی ہو گئی۔
بیرونی ملکوں سے ہر آنیوالی چیز کی قیمت عوام کو حکومتی ٹیکسوں کے علاوہ ڈالر ٹیکس 43 فیصد زیادہ ادا کرنا پڑا۔ آزاد پاکستان کو اسکندر مرزا کی حکومت نے امریکا کا معاشی غلام پاکستان بنا دیا۔ ملکی معیشت پر اس کا منفی اثر نمایاں ہوتا گیا۔ مالی سال 1956-57ء کا بجٹ 24.886 ملین روپے سے خسارے، تجارت 1956-57ء کے دوران 727.0 ملین روپے سے خسارے میں چلی گئی، ملکی صنعتی کلچر کی لاگتیں بڑھ گئیں۔ یاد رہے کہ خان لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت کے دوران 1948-49ء سے 1953-54ء تک بجٹ سرپلس تھے۔ تجارت 1949-50ء اور 1951-52ء میں خسارے میں گئی اور باقی برسوں اور 1953-54ء کے دوران سرپلس رہی تھی۔روس اور چین کے انقلابات نے پوری دنیا کے مزدوروں کے اندر سرمایہ داری سے نجات کے جذبات بھڑکا دیے تھے۔
پاکستان میں مزدوروں کے اندر معاشی بے چینی موجود تھی بلکہ پورے ملک کے عوام میں معاشی بدحالی پھیلنے سے سوشلسٹ انقلاب کے رجحانات بڑھنے لگے تھے۔ جنرل ایوب خان نے جب ذوالفقار علی بھٹو کو 18 جون 1966ء کو کابینہ سے نکال دیا۔ 30 نومبر سے یکم دسمبر 1967ء کے دوران لاہور میں جے اے رحیم، خورشید حسین میر، معراج محمد خان ودیگر کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو قائم کیا۔ اس سے قبل مزدور لیڈر حسن ناصر کو ایوب خان نے 1962ء میں قلعہ لاہور میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے۔ حسن ناصر کو بچانے کے لیے میجر اسحاق، فیض احمد فیض نے کوشش کی تھی کہ بھٹو صاحب سے مل کر حسن ناصر کو بچایا جائے لیکن ان کی کوششیں حسن ناصر کو بچا نہ سکیں۔
پیپلزپارٹی کی تشکیل کے دوران سینئر ترقی پسندوں نے بھٹو کے ساتھ مل کر سوشلسٹ منشور پیش کیا۔ (1) سیاست ہماری جمہوریت، (2) اسلام ہمارا دین، (3) سوشلزم ہماری معیشت ''روٹی کپڑا اور مکان'' اس پرکشش نعرے کے زور اور نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن NSF، ہاری کمیٹیوں اور ٹریڈ یونینز کی ''افرادی قوت'' سے پیپلز پارٹی سابقہ مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان میں اکثریتی سیٹیں لے کر کامیاب ہو گئی۔ یاد رہے کہ بھٹو نے کسی غریب لیڈر یا عوامی طبقے کے نمایندے کو ٹکٹ نہیں دیا، تمام کے تمام جاگیردار، سرمایہ کار اسمبلیوں پر قابض ہو گئے۔
20 دسمبر 1971ء کو بھٹو نے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کا اقتدار اور اعلیٰ اختیارات سنبھال لیے۔ حکومت حاصل کرنے کے پانچویں مہینے امریکی ادارے کے حکم پر ذوالفقار علی بھٹو نے مئی 1972ء میں 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ڈالر کر دیا گیا۔ روپے کی قیمت یہ کمی یکدم 132 فیصد کرنے سے باہر سے آنیوالی ہر شے 132 فیصد عوام کو مہنگی خریدنی پڑی۔ 1972ء میں عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی قیمت 1.90 ڈالر فی بیرل تھی۔ پاکستان کے روپے میں قیمت 4.762 روپے فی ڈالر کے حساب پاکستان یہ پٹرول 9.047 روپے کا لے رہا تھا۔ (18 لیٹر ایک روپے، ایک بیرل 163.656 لیٹر اور ایک بیرل 36 گیلن اپمریل ہوتے ہیں) اور جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 11.031 روپے کر دی گئی تو وہی پٹرولیم 20.96 روپے (7.80 لیٹر ایک روپے) کا لینا پڑا۔
جب بیرونی مہنگی اشیا آنے لگیں تو لاگتیں بھی بڑھتی گئیں۔ بجٹ 1973-74ء کا 1017.635 ملین روپے سے خسارے میں چلا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک بجٹ خسارے سے نہیں نکل سکا کیونکہ ہر حکومت نے روپے کی قیمت میں کمی مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔ تجارت 1973-74ء میں 3318.0 ملین روپے سے خسارے میں گئی اور اس کے بعد اب تک تجارت خسارے میں جا رہی ہے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت برطرف کرنے کے بعد حکمرانوں نے سامراجی قرضے لیے۔ جنرل ایوب خان تک عوام پر سامراجی قرضے کا بوجھ 1969-70ء تک 5763.0 ملین ڈالر تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے تک 1977-78ء تک 10458.0 ملین ڈالر کا قرضہ عوام پر چڑھا دیا گیا تھا۔ بھٹو کے دور میں مشنری 132 فیصد مہنگی ہونے سے صنعتی کلچر مکمل تباہ کر دیا گیا۔
پاکستان میں سیاسی کلچر کو بھی ''گودی سیاست'' بنا دیا گیا ہے اور عوام کو اتنا جاہل اور جھوٹے وعدوں، نعروں کا گرویدہ سمجھ لیا گیا ہے جیسے الٰہ دین کے چراغ کا قصہ ہے اور جب بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ مارا تھا، عوام دیوانے ہو گئے تھے کہ ان کے دکھ درد دور کرنیوالا مسیحا، یا جادوگر آ گیا ہے لیکن حقیقت یہ تھی 1949ء سے 1960ء کے دوران چینی اور روسی نظریات کے اثرات پاکستان میں پھیل رہے تھے، ان نظریات کے اثرات کو زائل کرنے اور ان کے درمیان رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے جعلی انقلاب کا شو کرانا امریکی ضرورت تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ مارا۔ تینوں اشیا Currency Devaluation Minus Economic Development کے نتیجے میں 132 فیصد روپے کی قیمت میں کمی سے عوام کی پہنچ سے دور کر دی گئیں۔ سیاست کو جمہوریت کہہ کر عوامی غریب نمایندوں کے بجائے جاگیرداروں، سرمایہ کاروں کو اسمبلیوں میں قانون سازی کے لیے عوام کی ووٹ کی قوت سے پہنچا دیا گیا۔
امریکا کے اشاروں پر قرضے لیے گئے۔ صرف ذوالفقار علی بھٹو نے ہی نہیں بلکہ 1953ء میں خواجہ ناظم الدین کی وزارت برطرف کرنے کے بعد گود در گود ہر ٹرائیکی (اشرافیائی) حکمران نے عوام کی خوشحالی کی مسلسل نفی کی ہے اور امریکی عالمی سرمایہ داری میں یہ سب نے مل کر ثابت کر دیا ہے کہ اشیا کی قیمتیں مسلسل اوپر چڑھنا قدرتی عمل ہے۔ دوسرے لفظوں میں حکمرانی کا حق جاگیرداروں، سرمایہ کاروں کو حاصل ہے۔ غریب عوام کا کوئی فرد حکمران نہیں بن سکتا؟ کتنی حیرت ہے چند لوگ ٹرائیکا عوام کے ووٹوں سے حکمران تو بن جاتے ہیں لیکن عوام کے غریب لوگ ایوانوں میں نہیں جا سکتے۔
اگر لکھاری عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ اصل مالک عوام ہیں اور عوامی حکومت بھی عوام کو اکٹھے ہو کر بنانی چاہیے اور گلے کے ہار ''کانٹے دار اشرافیہ'' کو نکال باہر پھینکنا چاہیے تو پھر عوام ''معاشی غلامی'' اور ''جمہوری غلامی'' سے نجات حاصل کر سکیں گے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے عوام کو جمہوری غلامی اور معاشی سامراجی و اشرافیائی غلامی سے نجات حاصل کرنی ضروری ہے یعنی جمہوری غلامی اور معاشی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے۔
ٹرائیکا گود در گود عوام کو معاشی غلام بناکر لوٹتی رہے گی۔ پاکستان بننے کے بعد چاروں صوبوں میں جاگیرداروں، سرمایہ کاروں نے خان لیاقت علی خان کو شہید اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور آج تک ان کی نسلیں اقتدار پر قابض چلی آ رہی ہیں کیونکہ اقتدار کی کرسی حاصل کرنا ''کھل جا سم سم '' کے مصداق ہے۔ اس لیے عوام اگر آج بیدار یا جاگیں گے نہیں تو اشرافیہ نسل در نسل عوام کی نسل در نسل پر حکمرانی کر کے عوام کی زندگی کو دوزخ اور اپنی زندگیوں کو جنت بناتے رہیں گے۔ عوام جاہل ان پڑھ ہوں، غریب ہوں اپنی حکمرانی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔ عوام کے ووٹوں سے ہی تو جاگیردار، سرمایہ کار حکمران بنتے ہیں۔
16 اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان شہید کو سامراجی ایجنٹوں نے قتل کر دیا۔ ایوب خان، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، اسکندر مرزا نے قائداعظم محمد علی جناح کی جگہ مقرر کردہ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو 19 اکتوبر 1951ء کو وزیراعظم مقرر کیا اور ملک غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ اکتوبر 1951ء کو حاصل کر لیا۔ ملک غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا۔ یاد رہے کہ لیاقت علی خان شہید پر ستمبر 1949ء میں امریکی ادارے آئی ایم ایف نے دباؤ ڈالا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی کی جائے، خان لیاقت علی خان نے سختی سے امریکی حکم کو رد کر دیا تھا۔
جب امریکی (اشرافیہ) ٹرائیکا نے مکمل پاکستان پر قبضہ کر لیا، پاکستان کے خالق نمایندوں کو چن چن کر ٹھکانے لگا چکے تو اسکندر مرزا نے قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ جون 1955ء کو سنبھالنے کے بعد جولائی 1955ء میں 3.340 روپے سے 4.762 روپے کا ڈالر کر دیا۔ روپے کی قیمت میں یعنی Currency Devaluation Minus Economic Development کے نتیجے میں روپے کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں 43 فیصد کمی ہو گئی۔
بیرونی ملکوں سے ہر آنیوالی چیز کی قیمت عوام کو حکومتی ٹیکسوں کے علاوہ ڈالر ٹیکس 43 فیصد زیادہ ادا کرنا پڑا۔ آزاد پاکستان کو اسکندر مرزا کی حکومت نے امریکا کا معاشی غلام پاکستان بنا دیا۔ ملکی معیشت پر اس کا منفی اثر نمایاں ہوتا گیا۔ مالی سال 1956-57ء کا بجٹ 24.886 ملین روپے سے خسارے، تجارت 1956-57ء کے دوران 727.0 ملین روپے سے خسارے میں چلی گئی، ملکی صنعتی کلچر کی لاگتیں بڑھ گئیں۔ یاد رہے کہ خان لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت کے دوران 1948-49ء سے 1953-54ء تک بجٹ سرپلس تھے۔ تجارت 1949-50ء اور 1951-52ء میں خسارے میں گئی اور باقی برسوں اور 1953-54ء کے دوران سرپلس رہی تھی۔روس اور چین کے انقلابات نے پوری دنیا کے مزدوروں کے اندر سرمایہ داری سے نجات کے جذبات بھڑکا دیے تھے۔
پاکستان میں مزدوروں کے اندر معاشی بے چینی موجود تھی بلکہ پورے ملک کے عوام میں معاشی بدحالی پھیلنے سے سوشلسٹ انقلاب کے رجحانات بڑھنے لگے تھے۔ جنرل ایوب خان نے جب ذوالفقار علی بھٹو کو 18 جون 1966ء کو کابینہ سے نکال دیا۔ 30 نومبر سے یکم دسمبر 1967ء کے دوران لاہور میں جے اے رحیم، خورشید حسین میر، معراج محمد خان ودیگر کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو قائم کیا۔ اس سے قبل مزدور لیڈر حسن ناصر کو ایوب خان نے 1962ء میں قلعہ لاہور میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے۔ حسن ناصر کو بچانے کے لیے میجر اسحاق، فیض احمد فیض نے کوشش کی تھی کہ بھٹو صاحب سے مل کر حسن ناصر کو بچایا جائے لیکن ان کی کوششیں حسن ناصر کو بچا نہ سکیں۔
پیپلزپارٹی کی تشکیل کے دوران سینئر ترقی پسندوں نے بھٹو کے ساتھ مل کر سوشلسٹ منشور پیش کیا۔ (1) سیاست ہماری جمہوریت، (2) اسلام ہمارا دین، (3) سوشلزم ہماری معیشت ''روٹی کپڑا اور مکان'' اس پرکشش نعرے کے زور اور نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن NSF، ہاری کمیٹیوں اور ٹریڈ یونینز کی ''افرادی قوت'' سے پیپلز پارٹی سابقہ مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان میں اکثریتی سیٹیں لے کر کامیاب ہو گئی۔ یاد رہے کہ بھٹو نے کسی غریب لیڈر یا عوامی طبقے کے نمایندے کو ٹکٹ نہیں دیا، تمام کے تمام جاگیردار، سرمایہ کار اسمبلیوں پر قابض ہو گئے۔
20 دسمبر 1971ء کو بھٹو نے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کا اقتدار اور اعلیٰ اختیارات سنبھال لیے۔ حکومت حاصل کرنے کے پانچویں مہینے امریکی ادارے کے حکم پر ذوالفقار علی بھٹو نے مئی 1972ء میں 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ڈالر کر دیا گیا۔ روپے کی قیمت یہ کمی یکدم 132 فیصد کرنے سے باہر سے آنیوالی ہر شے 132 فیصد عوام کو مہنگی خریدنی پڑی۔ 1972ء میں عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی قیمت 1.90 ڈالر فی بیرل تھی۔ پاکستان کے روپے میں قیمت 4.762 روپے فی ڈالر کے حساب پاکستان یہ پٹرول 9.047 روپے کا لے رہا تھا۔ (18 لیٹر ایک روپے، ایک بیرل 163.656 لیٹر اور ایک بیرل 36 گیلن اپمریل ہوتے ہیں) اور جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 11.031 روپے کر دی گئی تو وہی پٹرولیم 20.96 روپے (7.80 لیٹر ایک روپے) کا لینا پڑا۔
جب بیرونی مہنگی اشیا آنے لگیں تو لاگتیں بھی بڑھتی گئیں۔ بجٹ 1973-74ء کا 1017.635 ملین روپے سے خسارے میں چلا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک بجٹ خسارے سے نہیں نکل سکا کیونکہ ہر حکومت نے روپے کی قیمت میں کمی مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔ تجارت 1973-74ء میں 3318.0 ملین روپے سے خسارے میں گئی اور اس کے بعد اب تک تجارت خسارے میں جا رہی ہے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت برطرف کرنے کے بعد حکمرانوں نے سامراجی قرضے لیے۔ جنرل ایوب خان تک عوام پر سامراجی قرضے کا بوجھ 1969-70ء تک 5763.0 ملین ڈالر تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے تک 1977-78ء تک 10458.0 ملین ڈالر کا قرضہ عوام پر چڑھا دیا گیا تھا۔ بھٹو کے دور میں مشنری 132 فیصد مہنگی ہونے سے صنعتی کلچر مکمل تباہ کر دیا گیا۔
پاکستان میں سیاسی کلچر کو بھی ''گودی سیاست'' بنا دیا گیا ہے اور عوام کو اتنا جاہل اور جھوٹے وعدوں، نعروں کا گرویدہ سمجھ لیا گیا ہے جیسے الٰہ دین کے چراغ کا قصہ ہے اور جب بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ مارا تھا، عوام دیوانے ہو گئے تھے کہ ان کے دکھ درد دور کرنیوالا مسیحا، یا جادوگر آ گیا ہے لیکن حقیقت یہ تھی 1949ء سے 1960ء کے دوران چینی اور روسی نظریات کے اثرات پاکستان میں پھیل رہے تھے، ان نظریات کے اثرات کو زائل کرنے اور ان کے درمیان رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے جعلی انقلاب کا شو کرانا امریکی ضرورت تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ مارا۔ تینوں اشیا Currency Devaluation Minus Economic Development کے نتیجے میں 132 فیصد روپے کی قیمت میں کمی سے عوام کی پہنچ سے دور کر دی گئیں۔ سیاست کو جمہوریت کہہ کر عوامی غریب نمایندوں کے بجائے جاگیرداروں، سرمایہ کاروں کو اسمبلیوں میں قانون سازی کے لیے عوام کی ووٹ کی قوت سے پہنچا دیا گیا۔
امریکا کے اشاروں پر قرضے لیے گئے۔ صرف ذوالفقار علی بھٹو نے ہی نہیں بلکہ 1953ء میں خواجہ ناظم الدین کی وزارت برطرف کرنے کے بعد گود در گود ہر ٹرائیکی (اشرافیائی) حکمران نے عوام کی خوشحالی کی مسلسل نفی کی ہے اور امریکی عالمی سرمایہ داری میں یہ سب نے مل کر ثابت کر دیا ہے کہ اشیا کی قیمتیں مسلسل اوپر چڑھنا قدرتی عمل ہے۔ دوسرے لفظوں میں حکمرانی کا حق جاگیرداروں، سرمایہ کاروں کو حاصل ہے۔ غریب عوام کا کوئی فرد حکمران نہیں بن سکتا؟ کتنی حیرت ہے چند لوگ ٹرائیکا عوام کے ووٹوں سے حکمران تو بن جاتے ہیں لیکن عوام کے غریب لوگ ایوانوں میں نہیں جا سکتے۔
اگر لکھاری عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ اصل مالک عوام ہیں اور عوامی حکومت بھی عوام کو اکٹھے ہو کر بنانی چاہیے اور گلے کے ہار ''کانٹے دار اشرافیہ'' کو نکال باہر پھینکنا چاہیے تو پھر عوام ''معاشی غلامی'' اور ''جمہوری غلامی'' سے نجات حاصل کر سکیں گے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے عوام کو جمہوری غلامی اور معاشی سامراجی و اشرافیائی غلامی سے نجات حاصل کرنی ضروری ہے یعنی جمہوری غلامی اور معاشی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے۔
ٹرائیکا گود در گود عوام کو معاشی غلام بناکر لوٹتی رہے گی۔ پاکستان بننے کے بعد چاروں صوبوں میں جاگیرداروں، سرمایہ کاروں نے خان لیاقت علی خان کو شہید اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور آج تک ان کی نسلیں اقتدار پر قابض چلی آ رہی ہیں کیونکہ اقتدار کی کرسی حاصل کرنا ''کھل جا سم سم '' کے مصداق ہے۔ اس لیے عوام اگر آج بیدار یا جاگیں گے نہیں تو اشرافیہ نسل در نسل عوام کی نسل در نسل پر حکمرانی کر کے عوام کی زندگی کو دوزخ اور اپنی زندگیوں کو جنت بناتے رہیں گے۔ عوام جاہل ان پڑھ ہوں، غریب ہوں اپنی حکمرانی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔ عوام کے ووٹوں سے ہی تو جاگیردار، سرمایہ کار حکمران بنتے ہیں۔