سوئیپر ہائی وے
136 کلو میٹر طویل پاکستان نیشنل ہائی وے نیٹ ورک کی یہ شاہراہ پاکستان کی پہلی خوب صورت ترین شاہراہ تھی
وہ جان جوکھوں کا سفر تھا۔ اپنے شہر سے روانہ ہو کر دریا کے پار جانا اور پھر اونچے نیچے نا ہموار راستوں سے سفر کرتے ہوئے صبح کے چلے شام تک دوسرے شہر پہنچتے اور وہ بھی تھکے ہارے ''سفر خوردہ'' کئی گھنٹے آرام کرنے پر بھی تھکن کم نہ ہوتی اور واپس سفر کرنا ہو تو سمجھو کہ نہتے بھرتک ''ہڈیاں دکھتی'' رہتی تھیں۔
یہی وجہ تھی کہ لوگ زیادہ سفر سے گریز کرتے تھے اور کرنا پڑے تو ''رخت سفر'' یوں باندھتے تھے کہ جیسے کسی دوسرے دیس جانے کا پروگرام ہے اس رخت سفر میں کھانے پینے کا بندوبست بھی تھا اور وہ یوں کہ صبح کے چلے رات پہنچتے تھے۔
ٹرین کا سفر بھی کچھ آرام دہ نہ تھا۔ کالے انجن، دھواں، چنگاریاں، کوئلے کی راکھ کا آنکھوں میں پڑنا اور اس ''قبیل'' کی بہت سی تکالیف، تمام اسٹیشنوں پر گاڑی رکتی، کئی جگہ کراسنگ کے لیے کھڑا رہنا پڑتا، شہر سے باہر ٹرین کھڑی رہتی کہ لائن ملے تو ٹرین پلیٹ فارم پر پہنچے۔ بہت سے لوگ تو ''پھاٹک'' پر ہی اتر کر دونوں طرف روانہ ہو جاتے تھے کہ پٹڑی کے دونوں طرف شہر آباد تھا اور اب تک ہے بلکہ اب تو دو شہر لگتے ہیں۔ ایک پٹڑی کے اس طرف ایک پٹڑی کے دوسری طرف۔
پھر ایک شور اٹھا کہ دونوں شہروں کے درمیان ایک ایسی سڑک تعمیر ہو رہی ہے کہ اس پر سفر کرتے ہوئے اگر آپ پانی کا گلاس ڈیش بورڈ پر رکھ دیں تو پورے سفر کے دوران پانی کا ایک قطرہ تک نہیں چھلکے گا۔ یار لوگوں نے اسے مبالغہ سمجھا۔ کچھ نے محض زیب داستان قرار دیا۔
استاد گاگی جو میری کار کے مستری، ڈرائیور اور میکنک اور مالک سب کچھ تھے، انھوں نے کہا کہ جعفری صاحب! چلتے ہیں ٹیسٹ کرتے ہیں سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ سستا زمانہ تھا، پٹرول پانچ روپے پچھتر پیسے لیٹر تھا، لہٰذا ٹینک فل کروایا اور ایڈونچر پر چل پڑے۔
اس زمانے میں اسے عام ٹریفک کے لیے نہیں کھولا گیا تھا لہٰذا ٹول پلازا سے تو گزر نہیں سکتے تھے ویسے وہاں ٹول پلازے پر کوئی تھا بھی نہیں۔ بہر حال طریقہ کار یہ ہوا کہ جہاں تک تعمیر سڑک ملتی اس پر چلتے اور جہاں تعمیر نہیں ہوتی تھی کام جاری تھا تو سائیڈ کے گاؤں سے By Pass کر کے پھر سڑک پر آ جاتے اور سفر جاری رکھتے۔
بار بار گاؤں میں جانے اور پھر اس راستے پر آنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ سڑک پر ہوتے تو لگتا کہ ''ماں کی آغوش'' میں ہیں اور گاؤں کے پتھریلے راستوں میں گاڑی جاتی تو لگتا کہ ''والد صاحب کے دست شفقت'' میں ہیں کیوں کہ یہ سفر ایک ایڈونچر کی صورت اختیار کر گیا تھا جس سے Experience بھی حاصل ہونا تھا لہٰذا خاصا وقت بھی لگا۔ بہت گاؤں بھی دیکھے۔ پہاڑی اور یوں چار پانچ گھنٹے میں دوسرے شہر میں پہنچے اور جہاں پہنچے وہ علاقہ پہچاننے میں بھی خاصا وقت لگا۔
ہم یہاں دوسرے راستے سے آیا کرتے تھے اور وہ شہر کے بالکل دوسری طرف تھا اس طرف تو شاید پہلے کبھی آئے بھی نہیں تھے اور یوں یہ علاقہ اجنبی سا لگ رہا تھا۔ بہر حال پوچھتے پاچھتے اس علاقے میں پہنچے جو شناسا تھا اور کچھ دیر آرام کے بعد واپسی کا سفر پرانے راستے سے کیا۔
یہ کہانی میں نے آپ کو Super High Way کی سنائی ہے جسے پاکستان کے ایک حکمران محمد ایوب خان نے تعمیر کروایا تھا۔ 136 کلو میٹر طویل پاکستان نیشنل ہائی وے نیٹ ورک کی یہ شاہراہ پاکستان کی پہلی خوب صورت ترین شاہراہ تھی جو کراچی کو حیدرآباد سے ملاتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ اس قدر خوب صورتی سے تعمیر کی گئی تھی کہ حقیقتاً آپ ڈیش بورڈ پر پانی کا گلاس رکھ کر کراچی تک سفر کریں تو پانی کا ایک قطرہ تک نہیں چھلکتا تھا۔
یہ ماضی ہے خوب صورت شاہراہ سپر ہائی وے کا جو گزشتہ دس پندرہ سال سے اس نیشنل ہائی وے سے بھی بد تر حالت میں ہے جس کے ذریعے سفر کا احوال میں نے شروع میں لکھا ہے جو براستہ کوٹری، ٹھٹھہ، گھارو، کراچی جاتی ہے اور جس پر اب سفر کا وہ رش نہیں ہے جو کبھی تھا کیوں کہ وہ تمام بھاری بوجھ سپر ہائی وے نے اپنے سینے پر اٹھا رکھا ہے۔
ناقدری ارباب اقتدار اور لاپرواہی کو کیا نام دیجیے کہ یہ سپر ہائی وے اب ''Sweeperhigh Way'' نظر آتی ہے۔ اس عرصے میں کھربوں روپے اس سے ٹول ٹیکس کی مد میں کمایا گیا۔ اس کے حسن کو غارت کر دیا گیا۔ بد نما داغ اس کے چہرے پر سیاہ کاریوں کے نشانات کی طرح ہیں۔ عرصہ گزر گیا ہے، اعلانات ... اعلانات ہم کہیں بھی تعمیرات اور ترقی کے مخالف نہیں مگر عدم مساوات اور نیت کی بد دیانتی کے مخالف ضرور ہیں۔
دونوں ''سیاسی خانوادوں'' کی حکومتوں کے کئی ''ادوار'' گزر گئے، کراچی، کوئٹہ روڈ مکمل ہو گیا۔ لاہور ''لاہور'' ہو گیا مگر سپر ہائی وے جو غیر ملکوں سے آنے والے سامان کی بذریعہ روڈ ترسیل کا واحد راستہ ہے نظر انداز ہی رہا۔
منظور نظر لوگوں کو تعمیر کے ٹھیکے ملتے رہے۔ وہ ایک حصے کو تعمیر کرتے اور دوسرے کو ''متبادل'' کے طور پر استعمال کر کے ''خرچہ'' بچاتے رہے جو ''ایکسٹرا روڈ'' بنانے اور تعمیر کے دوران اسے برقرار رکھنے میں آتا ہے متبادل کے طور پر۔ حکومتوں نے آنکھیں بند کر لیں ... اور اب تک بند ہیں!
لاہور اور اسلام آباد کا موٹر وے تعمیر ہو گیا۔ بقول شاعر:
اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
مگر یہ جذبہ تعمیر ۔ نہ سپر ہائی وے کے سلسلے میں ''مہمیز'' ہے نہ ''سرکلر ریلوے'' کے سلسلے میں ان کے بارے میں ایسی فرموں سے رابطوں کا سنا ہے جو ان کو بنائیں، چلائیں اور پھر ایک مقررہ مدت میں منافع سمیت ''وصولی'' کر کے بقیہ ''وصولی'' کے لیے وفاق کے حوالے کردیں۔
یہ ہے مقدر یہاں کے ان منصوبوں کا۔ اب اگر عوام اٹھ کھڑے ہوں ... مطالبہ کریں کہ انھیں بھی پورا کرو تو پھر عوام کا ''بندوبست'' کرنے میں وفاق اور صوبائی حکومتیں ''کزن'' ہیں۔
یہ سب کچھ کہنے میں، لکھنے میں آنکھوں میں نمک اور حلق میں کڑواہٹ آ جاتی ہے۔ مگر کیا کریں؟ نہ آنکھیں بند کر سکتے ہیں جب تک خدا کا حکم نہ ہو، نہ دل و دماغ کو ''قید'' کر سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں ... عوام ہیں حکمران نہیں!
یہی وجہ تھی کہ لوگ زیادہ سفر سے گریز کرتے تھے اور کرنا پڑے تو ''رخت سفر'' یوں باندھتے تھے کہ جیسے کسی دوسرے دیس جانے کا پروگرام ہے اس رخت سفر میں کھانے پینے کا بندوبست بھی تھا اور وہ یوں کہ صبح کے چلے رات پہنچتے تھے۔
ٹرین کا سفر بھی کچھ آرام دہ نہ تھا۔ کالے انجن، دھواں، چنگاریاں، کوئلے کی راکھ کا آنکھوں میں پڑنا اور اس ''قبیل'' کی بہت سی تکالیف، تمام اسٹیشنوں پر گاڑی رکتی، کئی جگہ کراسنگ کے لیے کھڑا رہنا پڑتا، شہر سے باہر ٹرین کھڑی رہتی کہ لائن ملے تو ٹرین پلیٹ فارم پر پہنچے۔ بہت سے لوگ تو ''پھاٹک'' پر ہی اتر کر دونوں طرف روانہ ہو جاتے تھے کہ پٹڑی کے دونوں طرف شہر آباد تھا اور اب تک ہے بلکہ اب تو دو شہر لگتے ہیں۔ ایک پٹڑی کے اس طرف ایک پٹڑی کے دوسری طرف۔
پھر ایک شور اٹھا کہ دونوں شہروں کے درمیان ایک ایسی سڑک تعمیر ہو رہی ہے کہ اس پر سفر کرتے ہوئے اگر آپ پانی کا گلاس ڈیش بورڈ پر رکھ دیں تو پورے سفر کے دوران پانی کا ایک قطرہ تک نہیں چھلکے گا۔ یار لوگوں نے اسے مبالغہ سمجھا۔ کچھ نے محض زیب داستان قرار دیا۔
استاد گاگی جو میری کار کے مستری، ڈرائیور اور میکنک اور مالک سب کچھ تھے، انھوں نے کہا کہ جعفری صاحب! چلتے ہیں ٹیسٹ کرتے ہیں سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ سستا زمانہ تھا، پٹرول پانچ روپے پچھتر پیسے لیٹر تھا، لہٰذا ٹینک فل کروایا اور ایڈونچر پر چل پڑے۔
اس زمانے میں اسے عام ٹریفک کے لیے نہیں کھولا گیا تھا لہٰذا ٹول پلازا سے تو گزر نہیں سکتے تھے ویسے وہاں ٹول پلازے پر کوئی تھا بھی نہیں۔ بہر حال طریقہ کار یہ ہوا کہ جہاں تک تعمیر سڑک ملتی اس پر چلتے اور جہاں تعمیر نہیں ہوتی تھی کام جاری تھا تو سائیڈ کے گاؤں سے By Pass کر کے پھر سڑک پر آ جاتے اور سفر جاری رکھتے۔
بار بار گاؤں میں جانے اور پھر اس راستے پر آنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ سڑک پر ہوتے تو لگتا کہ ''ماں کی آغوش'' میں ہیں اور گاؤں کے پتھریلے راستوں میں گاڑی جاتی تو لگتا کہ ''والد صاحب کے دست شفقت'' میں ہیں کیوں کہ یہ سفر ایک ایڈونچر کی صورت اختیار کر گیا تھا جس سے Experience بھی حاصل ہونا تھا لہٰذا خاصا وقت بھی لگا۔ بہت گاؤں بھی دیکھے۔ پہاڑی اور یوں چار پانچ گھنٹے میں دوسرے شہر میں پہنچے اور جہاں پہنچے وہ علاقہ پہچاننے میں بھی خاصا وقت لگا۔
ہم یہاں دوسرے راستے سے آیا کرتے تھے اور وہ شہر کے بالکل دوسری طرف تھا اس طرف تو شاید پہلے کبھی آئے بھی نہیں تھے اور یوں یہ علاقہ اجنبی سا لگ رہا تھا۔ بہر حال پوچھتے پاچھتے اس علاقے میں پہنچے جو شناسا تھا اور کچھ دیر آرام کے بعد واپسی کا سفر پرانے راستے سے کیا۔
یہ کہانی میں نے آپ کو Super High Way کی سنائی ہے جسے پاکستان کے ایک حکمران محمد ایوب خان نے تعمیر کروایا تھا۔ 136 کلو میٹر طویل پاکستان نیشنل ہائی وے نیٹ ورک کی یہ شاہراہ پاکستان کی پہلی خوب صورت ترین شاہراہ تھی جو کراچی کو حیدرآباد سے ملاتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ اس قدر خوب صورتی سے تعمیر کی گئی تھی کہ حقیقتاً آپ ڈیش بورڈ پر پانی کا گلاس رکھ کر کراچی تک سفر کریں تو پانی کا ایک قطرہ تک نہیں چھلکتا تھا۔
یہ ماضی ہے خوب صورت شاہراہ سپر ہائی وے کا جو گزشتہ دس پندرہ سال سے اس نیشنل ہائی وے سے بھی بد تر حالت میں ہے جس کے ذریعے سفر کا احوال میں نے شروع میں لکھا ہے جو براستہ کوٹری، ٹھٹھہ، گھارو، کراچی جاتی ہے اور جس پر اب سفر کا وہ رش نہیں ہے جو کبھی تھا کیوں کہ وہ تمام بھاری بوجھ سپر ہائی وے نے اپنے سینے پر اٹھا رکھا ہے۔
ناقدری ارباب اقتدار اور لاپرواہی کو کیا نام دیجیے کہ یہ سپر ہائی وے اب ''Sweeperhigh Way'' نظر آتی ہے۔ اس عرصے میں کھربوں روپے اس سے ٹول ٹیکس کی مد میں کمایا گیا۔ اس کے حسن کو غارت کر دیا گیا۔ بد نما داغ اس کے چہرے پر سیاہ کاریوں کے نشانات کی طرح ہیں۔ عرصہ گزر گیا ہے، اعلانات ... اعلانات ہم کہیں بھی تعمیرات اور ترقی کے مخالف نہیں مگر عدم مساوات اور نیت کی بد دیانتی کے مخالف ضرور ہیں۔
دونوں ''سیاسی خانوادوں'' کی حکومتوں کے کئی ''ادوار'' گزر گئے، کراچی، کوئٹہ روڈ مکمل ہو گیا۔ لاہور ''لاہور'' ہو گیا مگر سپر ہائی وے جو غیر ملکوں سے آنے والے سامان کی بذریعہ روڈ ترسیل کا واحد راستہ ہے نظر انداز ہی رہا۔
منظور نظر لوگوں کو تعمیر کے ٹھیکے ملتے رہے۔ وہ ایک حصے کو تعمیر کرتے اور دوسرے کو ''متبادل'' کے طور پر استعمال کر کے ''خرچہ'' بچاتے رہے جو ''ایکسٹرا روڈ'' بنانے اور تعمیر کے دوران اسے برقرار رکھنے میں آتا ہے متبادل کے طور پر۔ حکومتوں نے آنکھیں بند کر لیں ... اور اب تک بند ہیں!
لاہور اور اسلام آباد کا موٹر وے تعمیر ہو گیا۔ بقول شاعر:
اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
مگر یہ جذبہ تعمیر ۔ نہ سپر ہائی وے کے سلسلے میں ''مہمیز'' ہے نہ ''سرکلر ریلوے'' کے سلسلے میں ان کے بارے میں ایسی فرموں سے رابطوں کا سنا ہے جو ان کو بنائیں، چلائیں اور پھر ایک مقررہ مدت میں منافع سمیت ''وصولی'' کر کے بقیہ ''وصولی'' کے لیے وفاق کے حوالے کردیں۔
یہ ہے مقدر یہاں کے ان منصوبوں کا۔ اب اگر عوام اٹھ کھڑے ہوں ... مطالبہ کریں کہ انھیں بھی پورا کرو تو پھر عوام کا ''بندوبست'' کرنے میں وفاق اور صوبائی حکومتیں ''کزن'' ہیں۔
یہ سب کچھ کہنے میں، لکھنے میں آنکھوں میں نمک اور حلق میں کڑواہٹ آ جاتی ہے۔ مگر کیا کریں؟ نہ آنکھیں بند کر سکتے ہیں جب تک خدا کا حکم نہ ہو، نہ دل و دماغ کو ''قید'' کر سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں ... عوام ہیں حکمران نہیں!