’’جاسوس ڈولفن‘‘
اس آبی مخلوق سے بارودی سرنگوں کا کھوج لگانے میں مدد لی جارہی ہے
KARACHI:
سائنسی آلات، اوزاروں اور ٹیکنالوجی نے موجودہ دور میں ہمارے لاتعداد کام آسان کردیے ہیں۔
ان ایجادات میں سے بے شمار ہمارے قدرتی ماحول کی دَین ہیں۔ پودوں اور جانوروں کی خصوصیات سے متأثر ہوکر ایجادات کو سائنس کی باقاعدہ شاخ کا درجہ حاصل ہے۔ اسے ' بایو ممیٹکس' کہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ڈولفن کی 'شکار کی نشان دہی کی تکنیک' ہے، جس سے متأثر ہوکر ایسا ریڈار سسٹم ایجاد کیا گیا ہے، جو غیر ضروری سگنلز کو مطلوبہ سگنلز سے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ایجاد کے ساتھ ہی براہِ راست ڈولفن کی مدد سے بارودی سرنگوں کا کھوج بھی لگایا جارہا ہے۔
ڈولفن انسانوں سے بہت جلد مانوس ہوجانے والی آبی مخلوق ہے، جس سے سراغ رسانی کا کام لینے کے لیے اسے باقاعدہ تربیت دی جارہی ہے۔ جس طرح سیکیورٹی اداروں کے اہل کار منشیات یا دھماکا خیز مواد تک پہنچنے کے لیے کتوں سے مدد لیتے ہیں، بالکل اسی طرح بحری فوج ڈولفن کو سمندر میں بارودی سرنگوں کا پتا لگانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔
امریکی بحریہ کے ماہرین ڈولفن کو اس کام کی مکمل تربیت دیتے ہیں۔ ڈولفن میں پانی کے اندر صوتی لہریں پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ لہریں جب کسی شے سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں تو ڈولفن کو اس شے اور اپنے درمیان فاصلے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اسی صلاحیت کے ذریعے یہ سمندر میں بارود کا سراغ لگاتی ہے۔ اس کی یہ صلاحیت انسانی ساختہ کسی بھی ڈیوائس سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
امریکی بحریہ نے سمندری جانوروں کو اپنے لیے کارآمد بنانے پر 1950 کی دہائی میں توجہ دینا شروع کی تھی۔ ابتدا میں تارپیڈو، بحری جہاز اور آب دوز کے ڈیزائن کو بہتر بنانے کے لیے ڈولفن کا مطالعہ کیا گیا۔ انہیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ مچھلی کھلے سمندر میں فرائض سر انجام دینے والے غوطہ خوروں کی جگہ لے سکتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسے زیر سمندر اشیا کی تلاش اور نشان دہی کرنے کے لیے سدھایا بھی جاسکتا ہے۔ اس پروگرام کو حتمی شکل دینے کے بعد بحریہ نے ابتدا میں تمام اقسام کی وھیل کو سدھانے کی کوشش کی۔
تجرباتی طور پر غرقاب بحری جہازوں سے اشیا کی نشان دہی کے لیے دیگر آبی جانوروں کا استعمال بھی کیا گیا۔ اس دوران انہیں شارک مچھلیوں سے بچانے کا خصوصی انتظام کیا جاتا تھا۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایسے تجربات کا راز کھلا تو جانوروں کے حقوق سے متعلق سرگرم تنظیموں کی جانب سے بحریہ پر آبی مخلوق کے ساتھ برے سلوک کا الزام لگایا گیا۔ ان تنظیموں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ڈولفن کو بہ طور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ 1988 اور پھر 1990 میں تحقیقات کے بعد ''میرین میمل کمیشن'' نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
آج امریکی بحریہ bottlenose dolphins اور Califomia sea lions کو سمندری بارودی سرنگوں کی نشان دہی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ یہ مختصر فاصلے تک کشتی کے ساتھ ساتھ سفر بھی کرسکتے ہیں، لیکن اگر مشن اور ہدف زیادہ فاصلے پر ہو تو انہیں بحری یا ہوائی جہاز میں ساتھ لے جایا جاتا ہے۔ دوران سفر بحری شیر کو خصوصی احاطے میں رکھا جاتا ہے، جن میں اس کے جسم کو سرد اور گیلا رکھنے کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ ڈولفن کو اسٹریچر سے باندھ کر فائبر گلاس سے بنے اور پانی سے بھرے ہوئے کنٹینر میں لٹکا دیا جاتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اس آبی مخلوق کو روزانہ سمندر میں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور امریکی بحریہ کا دعویٰ ہے کہ یہ اپنی ''ڈیوٹی'' پر واپس آجاتے ہیں۔ اب تک چند ہی سدھائے ہوئے جانور واپس نہیں آئے۔ بحریہ نے ڈولفن کی افزائش کا پروگرام بھی شروع کیا ہے۔ اس طرح ڈولفن کی ابتدائی عمر ہی سے تربیت شروع کر دی جاتی ہے اور اس کے زیادہ بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
سائنسی آلات، اوزاروں اور ٹیکنالوجی نے موجودہ دور میں ہمارے لاتعداد کام آسان کردیے ہیں۔
ان ایجادات میں سے بے شمار ہمارے قدرتی ماحول کی دَین ہیں۔ پودوں اور جانوروں کی خصوصیات سے متأثر ہوکر ایجادات کو سائنس کی باقاعدہ شاخ کا درجہ حاصل ہے۔ اسے ' بایو ممیٹکس' کہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ڈولفن کی 'شکار کی نشان دہی کی تکنیک' ہے، جس سے متأثر ہوکر ایسا ریڈار سسٹم ایجاد کیا گیا ہے، جو غیر ضروری سگنلز کو مطلوبہ سگنلز سے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ایجاد کے ساتھ ہی براہِ راست ڈولفن کی مدد سے بارودی سرنگوں کا کھوج بھی لگایا جارہا ہے۔
ڈولفن انسانوں سے بہت جلد مانوس ہوجانے والی آبی مخلوق ہے، جس سے سراغ رسانی کا کام لینے کے لیے اسے باقاعدہ تربیت دی جارہی ہے۔ جس طرح سیکیورٹی اداروں کے اہل کار منشیات یا دھماکا خیز مواد تک پہنچنے کے لیے کتوں سے مدد لیتے ہیں، بالکل اسی طرح بحری فوج ڈولفن کو سمندر میں بارودی سرنگوں کا پتا لگانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔
امریکی بحریہ کے ماہرین ڈولفن کو اس کام کی مکمل تربیت دیتے ہیں۔ ڈولفن میں پانی کے اندر صوتی لہریں پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ لہریں جب کسی شے سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں تو ڈولفن کو اس شے اور اپنے درمیان فاصلے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اسی صلاحیت کے ذریعے یہ سمندر میں بارود کا سراغ لگاتی ہے۔ اس کی یہ صلاحیت انسانی ساختہ کسی بھی ڈیوائس سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
امریکی بحریہ نے سمندری جانوروں کو اپنے لیے کارآمد بنانے پر 1950 کی دہائی میں توجہ دینا شروع کی تھی۔ ابتدا میں تارپیڈو، بحری جہاز اور آب دوز کے ڈیزائن کو بہتر بنانے کے لیے ڈولفن کا مطالعہ کیا گیا۔ انہیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ مچھلی کھلے سمندر میں فرائض سر انجام دینے والے غوطہ خوروں کی جگہ لے سکتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسے زیر سمندر اشیا کی تلاش اور نشان دہی کرنے کے لیے سدھایا بھی جاسکتا ہے۔ اس پروگرام کو حتمی شکل دینے کے بعد بحریہ نے ابتدا میں تمام اقسام کی وھیل کو سدھانے کی کوشش کی۔
تجرباتی طور پر غرقاب بحری جہازوں سے اشیا کی نشان دہی کے لیے دیگر آبی جانوروں کا استعمال بھی کیا گیا۔ اس دوران انہیں شارک مچھلیوں سے بچانے کا خصوصی انتظام کیا جاتا تھا۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایسے تجربات کا راز کھلا تو جانوروں کے حقوق سے متعلق سرگرم تنظیموں کی جانب سے بحریہ پر آبی مخلوق کے ساتھ برے سلوک کا الزام لگایا گیا۔ ان تنظیموں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ڈولفن کو بہ طور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ 1988 اور پھر 1990 میں تحقیقات کے بعد ''میرین میمل کمیشن'' نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
آج امریکی بحریہ bottlenose dolphins اور Califomia sea lions کو سمندری بارودی سرنگوں کی نشان دہی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ یہ مختصر فاصلے تک کشتی کے ساتھ ساتھ سفر بھی کرسکتے ہیں، لیکن اگر مشن اور ہدف زیادہ فاصلے پر ہو تو انہیں بحری یا ہوائی جہاز میں ساتھ لے جایا جاتا ہے۔ دوران سفر بحری شیر کو خصوصی احاطے میں رکھا جاتا ہے، جن میں اس کے جسم کو سرد اور گیلا رکھنے کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ ڈولفن کو اسٹریچر سے باندھ کر فائبر گلاس سے بنے اور پانی سے بھرے ہوئے کنٹینر میں لٹکا دیا جاتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اس آبی مخلوق کو روزانہ سمندر میں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور امریکی بحریہ کا دعویٰ ہے کہ یہ اپنی ''ڈیوٹی'' پر واپس آجاتے ہیں۔ اب تک چند ہی سدھائے ہوئے جانور واپس نہیں آئے۔ بحریہ نے ڈولفن کی افزائش کا پروگرام بھی شروع کیا ہے۔ اس طرح ڈولفن کی ابتدائی عمر ہی سے تربیت شروع کر دی جاتی ہے اور اس کے زیادہ بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔