پاکستان ایک نظر میں داخلہ کے حقوق محفوظ ہیں

ہر مسلک والوں نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر ’’داخلہ کے حقوق محفوظ ہیں‘‘ کی تختی جلی حروف میں لکھ کر آویزاں کررکھی ہے

ہر مسلک والوں نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر ’’داخلہ کے حقوق محفوظ ہیں ‘‘ کی تختی جلی حروف میں لکھ کر باہر آویزاں کررکھی ہے۔ فوٹو رائٹرز

مولوی صاحب روز گزرتے ہوئے ایک نوجوان کو سینما ہال کے سامنے ٹکٹ کے لئے لائن میں کھڑا دیکھتے۔کئی بار مولانا صاحب نے اس کو دیکھا۔ نوجوان ہر بار اسی لائن میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوتا تھا۔ایک دن مولوی صاحب نے سوچا کیوں نہ میں اس نوجوان کو سمجھا کر سینما گھروں کے بجائے مسجد کے راستے پر لگایا جائے۔ مولانا صاحب نے نوجوان کو بلایا، نہایت شفقت اورپیا رمحبت سے اس کو سمجھایا ''دیکھو میاں ! اللہ تعالیٰ نے نوجوانی عطا فرمائی ہے، تندرستی کی نعمت سے نوازا ہے، مال و دولت دی ہے ۔کیوں اللہ تعالیٰ کے انعامات کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف استعمال کر رہے ہو۔ یہ جوانی، تندرستی مال ودولت اللہ کی راہ میں خرچ کرو بہت اجر پاؤ گے'' ۔


نوجوان نے مولوی صاحب کی وعظ نصیحت سن کر توبہ کرلی اور مولوی صاحب سے وعدہ کیا کہ میں آئندہ سینما نہیں جاؤں گا۔ایک دودن تک مولوی صاحب کو سینما ہال کے سامنے وہ نوجوان نظر نہیں آیا، وہ بڑے خوش ہوگئے کہ چلو مان گیا ہے۔ اگلے دن مولوی صاحب سینما ہال کے سامنے سے گزررہے تھے کہ وہی نوجوان پھر اسی لائن میں ٹکٹ خریدنے کے لئے کھڑا اپنی باری کا انتظار کر کر رہا ہے۔ ''کمال ہے یہ تو بڑا ہی دورخی قسم کا آدمی ہے۔وعدہ کر کہ مکر گیا'' مولوی صاحب کے دل میں خیال آیا۔ نوجوان کو بلایا '' اچھا میاں ! تو آج پھر لائن میں کھڑے ہو، وعدہ خلافی کر رہے ہو۔توبہ کر کہ دوبارہ گناہ کے مرتکب ہورہے ہو اللہ سے ڈرو '' ۔


نوجوان نے یہ سب سن کر مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہوکر کہا '' مولانا صاحب سینما ہال کے گیٹ پرکسی نے آج تک مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ دیوبندی ہیں یا اہل حدیث ،بریلوی ہیں یا وہابی، شیعہ ہیں یا سنی۔ یہاں تو کوئی کسی کے مذہب کا بھی نہیں پوچھتا مسلک تو دور کی بات ہے۔ سب اسی ایک لائن میں کھڑے ہو کر ٹکٹ لیتے ہیں اور سبھی اسی ایک ہال کے اندر بیٹھ کر فلم دیکھتے ہیں۔ لیکن جب میں نے توبہ کر کے اللہ کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تو میری راہ میں سب سے پہلے یہی مسلکی تعصبات رکاوٹ بنے۔



میں نماز پڑھنے ایک مسجد میں گیا تو دیوبندی قرار دیکر وہاں سے نکالا گیا، دوسری میں گیا تو اہل حدیث قرار دے کر وہاں سے بھی بھگایا گیا، جب تیسری میں داخل ہو ا تو بریلوی قرار دیکر دھتکارا گیا ،آخرکار میں چھوٹی مسجد میں پہنچا تو وہابی سمجھ کر وہاں سے بھی بے دخل کر دیا گیا۔اب آپ ہی بتائیں میں نماز پڑھنے کدھر جاتا؟ لہذا میں مجبور ہوکر تھک ہار کر واپس یہاں آیا ہوں ''۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ سینما حال میں جانے کے لیے کوئی شرط عائد نہیں لیکن خدا کے گھر میں داخل ہونے کے لئے کڑی شرائط عائد کردی گئیں ہیں،خدا کے گھروں کو بھی مسلکوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ہر مسلک والوں نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر ''داخلہ کے حقوق محفوظ ہیں '' کی تختی جلی حروف میں لکھ کر باہر آویزاں کررکھی ہے۔


ایک مسلک کے پیروکار اپنے آپ کو اسلام اور جنت کے ٹھیکہ دار جبکہ دوسروں کو واجب القتل اور جہنم کا ایندھن سمجھتے ہیں۔ان مسلکی اختلافات پر مر مٹنے پراترآتے ہیں۔ مرنے مارنے سے دریغ نہیں کرتے۔ کوئٹہ اور کراچی میں روز درجنوں ہنستے بستے انسان اس مسلکی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مذہبی تہواروں پر ریاست کی پوری مشینری امن وامان برقرار رکھنے کے لیے جھونک دی جاتی ہے۔ پورا ملک سیکورٹی اسٹیٹ کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ عید میلادالنبی ﷺ ہو یا محرم الحرام لوگ گھروں میں محصور رہ جاتے ہیں۔ جو گھروں سے نکل جائے ان کی بخیریت واپس آنے کی امید نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی صورت حال کا نتیجہ بہت بھیانک ہوتا ہے۔ بغداد میں جب ایسی صورت حال کا سامنا تھا تو اسی وقت ہلاکو خان نے پوری شدت کے ساتھ حملہ کر کہ کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کئے تھے، لیکن اس وقت بھی بغداد کے علماء کوحرام یا حلال پر ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ جاگ جاؤ اور اس فرقہ واریت کی تقلید سے نکل کر قرآن پر عمل کر کے سچے مسلمان بنو، اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام پر اس ملک کو اسلام کا قلع بنا دو۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story