کچھ توجہ اس طرف بھی
تعلیم کے میدان میں کاغذی ترقی تو خوب ہوئی مگر طالب علم طالب علم نہیں بلکہ کچھ اور بن کر رہ گئے۔
جس وقت مملکت خداداد دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا اس وقت سب کے دل جڑے ہوئے تھے۔ سب ملک کے قیام کی خاطر قربانیاں دینے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ پھر اگلی نسلوں تک یہ جذبہ کیوں منتقل نہ ہوسکا؟ کس نے اس سلسلے میں کوتاہی اور غیر ذمے داری کا ثبوت دیا؟ ہم کب اور کیسے خود غرض، غیر محب وطن ہوگئے؟ اور کیسے اپنے اپنے گھر اور جیبیں بھرنے کی طرف مائل ہوئے؟ ہمیں کس نے اور کیوں اس راہ پر لگایا، ہمارا پیار، ہماری محبتیں کب تعصب و نفرت میں چپکے سے ڈھل گئیں؟ کیا کسی نے ان سوالات پر کبھی غور کیا یا سب بہتی گنگا میں اشنان کرنے لگے؟
جب مملکت خداداد عالم وجود میں آئی تھی اس وقت عنان حکومت آزادی کے قدر شناس اداروں کے سربراہ اور منتظمین تعلیم یافتہ، روشن خیال، با شعور، ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے جذبے سے سرشار افراد تھے۔ جب یہ با اصول و باعمل افراد اپنے عہدوں سے فارغ ہوگئے یا دنیا ہی سے رخصت ہوگئے تو رفتہ رفتہ نا اہل، غیر تعلیم یافتہ، بے ہنر لوگوں کے ہاتھوں میں ملکی نظام آگیا جب عوامی فلاح و بہبود، تعلیم اور قومی ترقی کے شعبے میٹرک فیل یا انگوٹھا چھاپ چلائے گا تو کوئی مثبت سوچ یا ترقی کا منصوبہ کامیاب تو در کنار سامنے ہی نہ آسکے گا۔
پی آئی اے (قومی ایئر لائن) دنیا کی مانی ہوئی ایئر لائن تھی ترقی یافتہ اور متمول ممالک سے لوگ یہاں ہوا بازی سیکھنے آتے تھے بلکہ کئی مشہور ایئر لائنز آج بھی پی آئی اے کی مرہون منت ہیں۔ آج وہ ایئر لائنز جنھوں نے ہم سے تربیت حاصل کی تھی وہ تو عالمی شہرت اور معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ہم اس نہج پر پہنچ گئے ۔دوسری مثال اسٹیل مل کی لیجیے جو ملک میں بڑی امیدوں کے سات شان و شوکت سے قائم ہوا تھا، ایشیا کا سب سے بڑا منصوبہ آج اسکریپ کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ اس سارے مسئلے کی جڑ جاگیردارانہ، وڈیرانہ ذہنیت تھی اور ہے کیوں کہ ملکی ترقی سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے۔
تعلیم کے میدان میں کاغذی ترقی تو خوب ہوئی مگر طالب علم طالب علم نہیں بلکہ کچھ اور بن کر رہ گئے، الٹی سیدھی انگریزی بولنے کے سوا کسی شعبے میں کوئی خاص کارکردگی نہیں، جو اعلیٰ درجنوں (اعلیٰ پوزیشن) میں پاس ہوتے ہیں وہ کبھی کسی موضوع پر فی البدیہ دو مربوط جملے ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے اس لیے کہ ان کی کمر پر بھاری بیگ تو لاد دیے گئے مگر انھیں تہذیب، گفتگو کا سلیقہ، مباحثے کے آداب، شعر و ادب سے آگاہی، دیگر فنون لطیفہ کا ذوق حتیٰ کہ پارلیمانی مباحثوں سے بھی دور رکھ کر ڈگری کے نام پر کاغذ کے ٹکڑے تھما دیے گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہم آج پارلیمنٹ میں ارکان کے گالم گلوچ اور دست و گریبان ہونے کے مناظر دیکھ رہے ہیں، سرکاری تعلیمی ادارے تو گویا شرفا کے لیے ممنوع قرار دیے جاچکے ہیں جب کہ آزادی کے کئی برس بعد تک کی کئی نسلیں سرکاری اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلی تھیں۔ وہ طالب علم ''ہر فن مولا'' ہوتے تھے۔
ہماری تعلیمی تاریخ کے کئی مشہور مقرر، لکھاری، شاعر، مصور اور لیڈر سرکاری و نیم سرکاری یا فلاحی اداروں کے قائم کردہ اداروں سے ہی برآمد ہوئے تھے۔ کتنی ہی بزرگ ہستیاں آج بھی اپنے اپنے شعبوں میں شہرت حاصل کرکے گوشہ نشیں ہیں اور کچھ نامور لوگ بے حد داد وتحسین اور مقبولیت سمیٹ کر اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔ جو ماشاء اﷲ حیات ہیں وہ میری اس بات کی تائید کریںگے ایک زمانہ تھا کہ سرکاری تعلیمی ادارے تمام نصابی ہم نصابی سرگرمیوں پر مکمل توجہ دیتے تھے۔ جب سے تعلیمی شعبہ نجی شعبے میں تبدیل ہوا اس وقت سے نامی گرامی انگریزی ذریعہ تعلیم کے نام پر تمام طلبا سرگرمیاں آہستہ آہستہ دم توڑتی گئیں۔
کیسے کیسے علمی و ادبی موضوعات پر مباحثے، مذاکرے، مکالمے، شعر و ادب اور دیگر فنون لطیفہ کے پروگرامز تعلیمی اداروں میں ہوا کرتے تھے جن کے ذریعے طلبا کی پوشیدہ صلاحیتیں منظر عام پر آتیں بلکہ مقابلے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مثبت رجحان بھی پروان چڑھتا جس کے نتیجے میں با صلاحیت، لائق، با اعتماد، با شعور اور معلومات عامہ پر دسترس رکھنے والے طلبا سامنے آتے۔ اس دور کے اساتذہ اور ان مقابلوں کے مصنفین بھی طلبا کی حوصلہ افزائی کرتے تھے آج ہم اپنے تعلیمی ادارے میں اردو مباحثہ، بیت بازی یا مقابلہ شعر گوئی کا اہتمام کریں تو طلبا تو شاید اپنے بڑوں سے لکھواکر کچھ غلط کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر بھی لیں مگر ہم دوسرے اداروں سے پندرہ بلکہ اٹھارہ سالہ تدریسی تجربہ رکھنے والے اساتذہ کو بطور مصنف بلاتے ہیں تو انھیں طلبا کی صلاحیت جانچنے کا طریقہ تک معلوم نہیں ہوتا یہ ہمارا اپنا تجربہ ہے کہ ہم نے مباحثے میں کل نمبر سو (مختلف مد میں ) رکھے مصنفین نے انھیں پانچ سو تک نمبر دے دیے کسی صورت نتائج تیار نہ ہوسکے۔
جب ہم نے ان سے اس صورت حال کی وجہ معلوم کی تو انھوں نے بتایاکہ ان کی دوران تدریس کبھی کوئی مباحثہ ہوا ہی نہیں اور ہم نے خود کبھی کسی مباحثے میں حصہ لیا نہیں اس لیے ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کس طرح نمبر دیے جاتے ہیں اس قصے کو یہاں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عرصہ دراز سے ایسی تمام سرگرمیوں پر تعلیمی اداروں میں بلا اعلان پابندی عائد ہے اس کی جگہ اب ویلکم اور فیئرویل پارٹیاں یا کارنیول ہوتے ہیں جن میں انگریزی دھنوں پر چار پانچ مختلف انداز کے رقص اور کمپیئرنگ کے نام پر اوٹ پٹانگ حرکتیں جن کا مقصد لوگوں کو ہنسانا رہ گیا ہے۔
جب کہ ہمارے بچپن میں سندھ کے نسبتاً چھوٹے سے شہر کے سرکاری اسکول میں باقاعدہ ہفتہ طلبا منایا جاتا تھا جس میں مباحثے، مذاکرے، مشاعرے، ڈرامہ اور مینا بازار بھی لگایا جاتا تھا۔ ان سب کی تیاری خود طالبات کرتی تھیں، چھوٹی جماعتوں کے پیش کردہ ٹیبلو یا قومی نغمے بھی بڑی جماعتوں کی لڑکیاں کراتی تھیں، اساتذہ صرف نگرانی کرتی اور مشورے دیتی تھیں، ڈرامہ لکھنے سے لے کر پیشکش اور ہدایت کاری تک سب طالبات کی ہوتی تھی اس زمانے میں تفریح کے ذرایع نہ ہونے کے برابر تھے لہٰذا پورے شہر کی خواتین کو ہمارے اسکول کے ہفتہ طالبات کا بے چینی سے انتظار رہتا، ڈرامہ تین دن مسلسل پیش کیا جاتا ایک دن طالبات کے لیے، ایک دن والدین کے لیے اور تیسرے دن شہر کی تمام خواتین کے لیے جب کہ مینا بازار پورے ہفتے جاری رہتا تھا۔
شہر کی تمام پردہ دار خواتین تک اس میں آتیں خوب ٹکٹ فروخت ہوتے ٹکٹ کے علاوہ تمام اسٹالوں کی آمدنی سے مستحق طالبات کو وظیفے، کتابیں، یونیفارم وغیرہ دیے جاتے جس اسٹال کی آمدنی سب سے زیادہ ہوتی اس کی طالبات کو انعام اور اسناد دی جاتیں تاکہ طالبات میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہو۔ سب سے اہم بات کہ ان تمام سرگرمیوں سے بہت کچھ سیکھنے، بنانے اور پیش کرنے کا سلیقہ آتا تھا مگر اب تو سرکاری اسکول بھینسوں اور بکریوں کے باڑے میں تبدیل ہوگئے ہیں، وجہ وہی نااہلوں کو اہل اور باصلاحیت افراد پر ترجیح دینا ہے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرنا قوم کے مستقبل کی کسی کو فکر نہیں بلا کسی مفاد کے کسی کے کام آنا یا خدمت خلق تو اب متروک خیال یا خواب بن کر رہ گیا ہے۔
ماضی کی ان خوشگوار یادوں نے مجھے اپنی گرفت میں اس لیے جکڑ لیا ہے کہ پورے ملک میں یکساں نصاب اور نظام تعلیم قائم کرنے کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ ذمے داران کی خدمت میں عرض کرنا تھا کہ صرف نصاب نہیں بلکہ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو تعلیم کا حصہ بنانے پر بھی غور کیا جائے تاکہ طلبا اپنی صلاحیتوں کا مثبت اظہار کرسکیں۔ یہ دہشت گردی، یہ منفی سرگرمیاں تعلیم اور تربیت سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہر فرد کو کچھ نہ کچھ صلاحیت دیکر اس دنیا میں بھیجتا ہے اگر ان کو اظہار کے مواقع فراہم نہ کیے جائیں تو وہ غلط راہوں پر نکل جاتے ہیں۔
ہمارا ملک بے حد خوش قسمت ہے جو نوجوانوں کی اکثریت سے بھی مالا مال ہے (دیگر ذرایع کے علاوہ) مگر ان نوجوانوں کی صلاحیت کو ملکی ترقی کے لیے استعمال کرنے پر بھی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے آج کے نوجوان کو کچھ کرنے کے لیے نہیں ہے تو وہ بے عملی ، سستی اور منشیات کی طرف راغب ہو رہا ہے، یہی تو کچھ کر گزرنے کی، ولولے کی عمر ہوتی ہے خدارا اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے، نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ با عمل اور با صلاحیت بنانے پر بھی توجہ دیجیے، طلبا سرگرمیاں بحال کیجیے اور پھر دیکھیے کہ ملکی حالات کس طرح تبدیل ہوتے ہیں۔ انشاء اﷲ
جب مملکت خداداد عالم وجود میں آئی تھی اس وقت عنان حکومت آزادی کے قدر شناس اداروں کے سربراہ اور منتظمین تعلیم یافتہ، روشن خیال، با شعور، ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے جذبے سے سرشار افراد تھے۔ جب یہ با اصول و باعمل افراد اپنے عہدوں سے فارغ ہوگئے یا دنیا ہی سے رخصت ہوگئے تو رفتہ رفتہ نا اہل، غیر تعلیم یافتہ، بے ہنر لوگوں کے ہاتھوں میں ملکی نظام آگیا جب عوامی فلاح و بہبود، تعلیم اور قومی ترقی کے شعبے میٹرک فیل یا انگوٹھا چھاپ چلائے گا تو کوئی مثبت سوچ یا ترقی کا منصوبہ کامیاب تو در کنار سامنے ہی نہ آسکے گا۔
پی آئی اے (قومی ایئر لائن) دنیا کی مانی ہوئی ایئر لائن تھی ترقی یافتہ اور متمول ممالک سے لوگ یہاں ہوا بازی سیکھنے آتے تھے بلکہ کئی مشہور ایئر لائنز آج بھی پی آئی اے کی مرہون منت ہیں۔ آج وہ ایئر لائنز جنھوں نے ہم سے تربیت حاصل کی تھی وہ تو عالمی شہرت اور معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ہم اس نہج پر پہنچ گئے ۔دوسری مثال اسٹیل مل کی لیجیے جو ملک میں بڑی امیدوں کے سات شان و شوکت سے قائم ہوا تھا، ایشیا کا سب سے بڑا منصوبہ آج اسکریپ کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ اس سارے مسئلے کی جڑ جاگیردارانہ، وڈیرانہ ذہنیت تھی اور ہے کیوں کہ ملکی ترقی سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے۔
تعلیم کے میدان میں کاغذی ترقی تو خوب ہوئی مگر طالب علم طالب علم نہیں بلکہ کچھ اور بن کر رہ گئے، الٹی سیدھی انگریزی بولنے کے سوا کسی شعبے میں کوئی خاص کارکردگی نہیں، جو اعلیٰ درجنوں (اعلیٰ پوزیشن) میں پاس ہوتے ہیں وہ کبھی کسی موضوع پر فی البدیہ دو مربوط جملے ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے اس لیے کہ ان کی کمر پر بھاری بیگ تو لاد دیے گئے مگر انھیں تہذیب، گفتگو کا سلیقہ، مباحثے کے آداب، شعر و ادب سے آگاہی، دیگر فنون لطیفہ کا ذوق حتیٰ کہ پارلیمانی مباحثوں سے بھی دور رکھ کر ڈگری کے نام پر کاغذ کے ٹکڑے تھما دیے گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہم آج پارلیمنٹ میں ارکان کے گالم گلوچ اور دست و گریبان ہونے کے مناظر دیکھ رہے ہیں، سرکاری تعلیمی ادارے تو گویا شرفا کے لیے ممنوع قرار دیے جاچکے ہیں جب کہ آزادی کے کئی برس بعد تک کی کئی نسلیں سرکاری اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلی تھیں۔ وہ طالب علم ''ہر فن مولا'' ہوتے تھے۔
ہماری تعلیمی تاریخ کے کئی مشہور مقرر، لکھاری، شاعر، مصور اور لیڈر سرکاری و نیم سرکاری یا فلاحی اداروں کے قائم کردہ اداروں سے ہی برآمد ہوئے تھے۔ کتنی ہی بزرگ ہستیاں آج بھی اپنے اپنے شعبوں میں شہرت حاصل کرکے گوشہ نشیں ہیں اور کچھ نامور لوگ بے حد داد وتحسین اور مقبولیت سمیٹ کر اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔ جو ماشاء اﷲ حیات ہیں وہ میری اس بات کی تائید کریںگے ایک زمانہ تھا کہ سرکاری تعلیمی ادارے تمام نصابی ہم نصابی سرگرمیوں پر مکمل توجہ دیتے تھے۔ جب سے تعلیمی شعبہ نجی شعبے میں تبدیل ہوا اس وقت سے نامی گرامی انگریزی ذریعہ تعلیم کے نام پر تمام طلبا سرگرمیاں آہستہ آہستہ دم توڑتی گئیں۔
کیسے کیسے علمی و ادبی موضوعات پر مباحثے، مذاکرے، مکالمے، شعر و ادب اور دیگر فنون لطیفہ کے پروگرامز تعلیمی اداروں میں ہوا کرتے تھے جن کے ذریعے طلبا کی پوشیدہ صلاحیتیں منظر عام پر آتیں بلکہ مقابلے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مثبت رجحان بھی پروان چڑھتا جس کے نتیجے میں با صلاحیت، لائق، با اعتماد، با شعور اور معلومات عامہ پر دسترس رکھنے والے طلبا سامنے آتے۔ اس دور کے اساتذہ اور ان مقابلوں کے مصنفین بھی طلبا کی حوصلہ افزائی کرتے تھے آج ہم اپنے تعلیمی ادارے میں اردو مباحثہ، بیت بازی یا مقابلہ شعر گوئی کا اہتمام کریں تو طلبا تو شاید اپنے بڑوں سے لکھواکر کچھ غلط کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر بھی لیں مگر ہم دوسرے اداروں سے پندرہ بلکہ اٹھارہ سالہ تدریسی تجربہ رکھنے والے اساتذہ کو بطور مصنف بلاتے ہیں تو انھیں طلبا کی صلاحیت جانچنے کا طریقہ تک معلوم نہیں ہوتا یہ ہمارا اپنا تجربہ ہے کہ ہم نے مباحثے میں کل نمبر سو (مختلف مد میں ) رکھے مصنفین نے انھیں پانچ سو تک نمبر دے دیے کسی صورت نتائج تیار نہ ہوسکے۔
جب ہم نے ان سے اس صورت حال کی وجہ معلوم کی تو انھوں نے بتایاکہ ان کی دوران تدریس کبھی کوئی مباحثہ ہوا ہی نہیں اور ہم نے خود کبھی کسی مباحثے میں حصہ لیا نہیں اس لیے ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کس طرح نمبر دیے جاتے ہیں اس قصے کو یہاں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عرصہ دراز سے ایسی تمام سرگرمیوں پر تعلیمی اداروں میں بلا اعلان پابندی عائد ہے اس کی جگہ اب ویلکم اور فیئرویل پارٹیاں یا کارنیول ہوتے ہیں جن میں انگریزی دھنوں پر چار پانچ مختلف انداز کے رقص اور کمپیئرنگ کے نام پر اوٹ پٹانگ حرکتیں جن کا مقصد لوگوں کو ہنسانا رہ گیا ہے۔
جب کہ ہمارے بچپن میں سندھ کے نسبتاً چھوٹے سے شہر کے سرکاری اسکول میں باقاعدہ ہفتہ طلبا منایا جاتا تھا جس میں مباحثے، مذاکرے، مشاعرے، ڈرامہ اور مینا بازار بھی لگایا جاتا تھا۔ ان سب کی تیاری خود طالبات کرتی تھیں، چھوٹی جماعتوں کے پیش کردہ ٹیبلو یا قومی نغمے بھی بڑی جماعتوں کی لڑکیاں کراتی تھیں، اساتذہ صرف نگرانی کرتی اور مشورے دیتی تھیں، ڈرامہ لکھنے سے لے کر پیشکش اور ہدایت کاری تک سب طالبات کی ہوتی تھی اس زمانے میں تفریح کے ذرایع نہ ہونے کے برابر تھے لہٰذا پورے شہر کی خواتین کو ہمارے اسکول کے ہفتہ طالبات کا بے چینی سے انتظار رہتا، ڈرامہ تین دن مسلسل پیش کیا جاتا ایک دن طالبات کے لیے، ایک دن والدین کے لیے اور تیسرے دن شہر کی تمام خواتین کے لیے جب کہ مینا بازار پورے ہفتے جاری رہتا تھا۔
شہر کی تمام پردہ دار خواتین تک اس میں آتیں خوب ٹکٹ فروخت ہوتے ٹکٹ کے علاوہ تمام اسٹالوں کی آمدنی سے مستحق طالبات کو وظیفے، کتابیں، یونیفارم وغیرہ دیے جاتے جس اسٹال کی آمدنی سب سے زیادہ ہوتی اس کی طالبات کو انعام اور اسناد دی جاتیں تاکہ طالبات میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہو۔ سب سے اہم بات کہ ان تمام سرگرمیوں سے بہت کچھ سیکھنے، بنانے اور پیش کرنے کا سلیقہ آتا تھا مگر اب تو سرکاری اسکول بھینسوں اور بکریوں کے باڑے میں تبدیل ہوگئے ہیں، وجہ وہی نااہلوں کو اہل اور باصلاحیت افراد پر ترجیح دینا ہے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرنا قوم کے مستقبل کی کسی کو فکر نہیں بلا کسی مفاد کے کسی کے کام آنا یا خدمت خلق تو اب متروک خیال یا خواب بن کر رہ گیا ہے۔
ماضی کی ان خوشگوار یادوں نے مجھے اپنی گرفت میں اس لیے جکڑ لیا ہے کہ پورے ملک میں یکساں نصاب اور نظام تعلیم قائم کرنے کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ ذمے داران کی خدمت میں عرض کرنا تھا کہ صرف نصاب نہیں بلکہ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو تعلیم کا حصہ بنانے پر بھی غور کیا جائے تاکہ طلبا اپنی صلاحیتوں کا مثبت اظہار کرسکیں۔ یہ دہشت گردی، یہ منفی سرگرمیاں تعلیم اور تربیت سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہر فرد کو کچھ نہ کچھ صلاحیت دیکر اس دنیا میں بھیجتا ہے اگر ان کو اظہار کے مواقع فراہم نہ کیے جائیں تو وہ غلط راہوں پر نکل جاتے ہیں۔
ہمارا ملک بے حد خوش قسمت ہے جو نوجوانوں کی اکثریت سے بھی مالا مال ہے (دیگر ذرایع کے علاوہ) مگر ان نوجوانوں کی صلاحیت کو ملکی ترقی کے لیے استعمال کرنے پر بھی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے آج کے نوجوان کو کچھ کرنے کے لیے نہیں ہے تو وہ بے عملی ، سستی اور منشیات کی طرف راغب ہو رہا ہے، یہی تو کچھ کر گزرنے کی، ولولے کی عمر ہوتی ہے خدارا اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے، نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ با عمل اور با صلاحیت بنانے پر بھی توجہ دیجیے، طلبا سرگرمیاں بحال کیجیے اور پھر دیکھیے کہ ملکی حالات کس طرح تبدیل ہوتے ہیں۔ انشاء اﷲ