تھر میں470اموات کی ذمے دار سندھ حکومت قرار تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف
رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ تھر میں470 افراد ہلاک ہوئے جن میں7 سال سے کم عمر کے3 سو سے زائد بچے شامل ہیں۔
صوبائی وزیر اینٹی کرپشن نے تھر میں قحط سالی اور اس کے نتیجے میں3 سو بچوں سمیت سیکڑوں انسانی جانوں کی ہلاکت کا ذمے دار سندھ حکومت، اعلیٰ عہدوں پرفائز سیاسی شخصیات اوران کے چہیتے افسران کوقراردیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف زرداری کی ہدایت پر تیارکی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ تھرکے دوردراز علاقوں میں قائم سیکڑوں ڈسپنسریاں ، ٹراما سینٹرز، میٹرنٹی ہومز، مراکز غذائیت صرف کاغذات پرموجود ہیں اور ان کے نام پر ہر ماہ کروڑوں روپے کا فنڈز خورد بردکیا جارہا ہے، اسپتالوں میں تاریخ تنسیخ گزرجانے کے بعد نمکول فراہم کیا جارہا ہے،تھر کے عوام بھوک اور پیاس سے سسک سسک کرمرتے رہے اور کروڑوں روپے مالیت کا موبائل ہیلتھ یونٹایک فارم ہاؤس پراستعمال ہوتا رہا، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے دواؤں اور علاج معالجے کیلیے جاری کیا جانے والے فنڈ سے5 کروڑ روپے کا فرنیچرخرید لیا۔
تفصیلات کے مطابق سندھ کے صوبائی وزیر اینٹی کرپشن منظور وسان کو آصف زرداری کی جانب سے تھر میں بڑی تعداد میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں کی تحقیقات کی ذمے داری سونپی، تھی اس سلسلے میں منظور وسان نے گذشتہ ماہ کے آخر میں تھر کا دورہ بھی کیا تھا، منظور وسان نے اس سلسلے میں اپنی ابتدائی رپورٹ تیارکرلی ہے جوکہ آصف علی زرداری کو پیش کی جائے گی، رپورٹ میں دل دہلادینے والے انکشافات کیے گئے ہیں، رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ خوراک کی کمی اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تھر میں470 افراد ہلاک ہوئے جن میں7 سال سے کم عمر کے3 سو سے زائد بچے شامل ہیں۔
تھر میں موجود110 ڈسپنسریاں، ایمرجنسی سینٹر، ڈیپلو میں واقع ایک ٹراما سینٹراور مٹھی میں واقع ایک زچہ و بچہ مرکز فعال نہیں ہے ان کا وجود صرف کاغذ پر ہی ہے جبکہ مراکزکے نام پر ہر ماہ کروڑوں روپے کے فنڈزخوردبردکیے جارہے ہین، یونین کونسل اور تعلقہ کی سطح پر مراکزغذائیت کا وجود ہی نہیں ہے، اسپتالوں میں فراہم کیے جانے والے نمکول کی مدت استعمال ختم ہوچکی ہے، سول اسپتال مٹھی میں کچھ بہترسہولیات موجود ہیں تاہم وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں آنے والے مریضوں کیلیے ناکافی ہے، محکمہ صحت کے افسران اپنی خلاف آنے والی میڈیا رپورٹس سے بچنے کیلیے مریضوں خاص طور پر بچوں کا علاج کرنے کے انھیں حیدرآباد اور کراچی کے اسپتالوں میں بھیج دیتے ہیں، گذشتہ دو سال سے ضلع تھرپارکر میں ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے خاص طور پر ماہرین امراض اطفال کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
25کروڑ روپے کی لاگت سے جاپان سے درآمد کی جانے والی5 موبائل ہیلتھ یونٹ اہم سیاسی شخصیات اور چہیتے افسران کے ذاتی استعمال میں ہیں، ایک موبائل یونٹ ڈی سی او تھرپارکر2008 سے ایئرکنڈیشنڈ کار کے طور پر استعمال کررہے ہیں، دو یونٹ چھور کینٹ کی انتظامیہ کے سپرد کی جاچکی ہیں، سول اسپتال مٹھی میں موجود ایک موبائل ہیلتھ یونٹ کو بھی استعمال نہیں کیا جارہا ہے، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے گذشتہ مالی سال کے دوران5 کروڑ روپے سے زائدکا بجٹ فرنیچر کی خریداری اور دیگر آسائشوں پر استعمال کیاگیا، قحط سالی2012 سے جاری ہے اور اگر صحت کی مناسب سہولیات فراہم کی جاتیں تو سیکڑوں انسانی جانوں کوبچایا جاسکتا تھا۔
وزیراعلی سندھ کی جانب سے تھرپارکر میں نرسنگ اسکول، کالج اور ہلاک ہونے والے افراد کو معاوضے کی ادائیگی، ڈاکٹرز کی تعیناتی، ان کے تنخواہوں کو دگنا کرنے، ماہرین زچہ و بچہ اور اطفال مقرر کرنے کے وعدے تاحال پورے نہیں کیے گئے ہیں جس کے سبب مقامی آبادی موجودہ حکومت سے کے حق میں کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے، تھرپارکر میں موجود65 لاکھ جانوروں میں سے صرف7 لاکھ کو ویکسینیشن دی گئی، سابق سیکریٹری لائیو اسٹاک چوہدری ظفر اقبال نے قوانین کے برخلاف نادرشاہی احکامات کے تحت جانوروں کے چارے کی خریداری کی مد میں20 کروڑ روپے خرچ کیے۔
دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز نوبت کھوسو ار ڈاکٹر مدن لال نے ویکسینیشن کی مد میں5 کروڑ روپے کی خورد برد کی، نوبت کھوسوکوکرپشن اور غفلت کے الزام میں معطل کیا گیا تاہم بعد ازاں انھیں بحال کرکے میرپورخاص میں تعینات کردیا گیا، محکمہ حیوانیات(لائیواسٹاک) کے ایک ارب20 کروڑ روپے کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر خورد برد کی گئی، ہرسال ملنے والے ایک ارب سے زائدکے فنڈ اور قحط سالی کے باوجود ایک بھی جانوروں کا اسپتال، ڈسپنسریز اورسینٹر قائم نہیں کیے گئے، قحط سالی کی وجہ سے10 ہزار سے زائد جانور مرگئے تاہم صوبائی وزیر لائیو اسٹاک اور سیکریٹری نے تھر کا دورہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے جانوروں کے اسپتال کے قیام اور جانوروں کے مالکان میں معاوضے کی ادائیگی بھی صرف اعلانات تک محدود رہی، اعدادوشمار کے مطابق خوراک کی کمی کا شکار3 لاکھ 80 ہزارخاندانوں میں فی خاندان50 کلوگرام راشن کے بیگ تقسیم کیے گئے تاہم متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ تاحال امداد سے محروم ہیں، ڈپٹی کمشنر مٹھی آصف اکرام کو مختلف اداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی منرل واٹر کی21 ہزار بوتلوں میں سے12ہزار تاحال بے نظیر کلچرکمپلیکس مٹھی میں ذخیرہ ہیں، تاریخ استعمال گذرجانے کے بعد منرل واٹر کی بوتلیں متاثرین میں تقسیم کی گئیں، ڈسٹرکٹ تھرپارکر میں حکومتی منصوبے کے تحت ایک ہزار سے زائد ریورس اوسموسز پلانٹ لگائے جانے تھے تاہم صرف70 آر او پلانٹ کام کررہے ہیں۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ قحط سالی کا شکار تھر کے عوام کو بھوکا پیاسا مرنے پر مجبور کرنے والی ضلعی انتظامیہ، محکمہ صحت، لائیو اسٹاک ڈپارٹمنٹ، محکمہ خوراک، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، ریلیف کمشنر اور فنانس ڈپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے۔دریں اثنا پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تھر کی صورتحال کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبروں کے بعد پیپلزپارٹی سندھ کے صدر قائم علی شاہ اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل منظور وسان کو بدانتظامی پر شوکاز نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف زرداری کی ہدایت پر تیارکی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ تھرکے دوردراز علاقوں میں قائم سیکڑوں ڈسپنسریاں ، ٹراما سینٹرز، میٹرنٹی ہومز، مراکز غذائیت صرف کاغذات پرموجود ہیں اور ان کے نام پر ہر ماہ کروڑوں روپے کا فنڈز خورد بردکیا جارہا ہے، اسپتالوں میں تاریخ تنسیخ گزرجانے کے بعد نمکول فراہم کیا جارہا ہے،تھر کے عوام بھوک اور پیاس سے سسک سسک کرمرتے رہے اور کروڑوں روپے مالیت کا موبائل ہیلتھ یونٹایک فارم ہاؤس پراستعمال ہوتا رہا، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے دواؤں اور علاج معالجے کیلیے جاری کیا جانے والے فنڈ سے5 کروڑ روپے کا فرنیچرخرید لیا۔
تفصیلات کے مطابق سندھ کے صوبائی وزیر اینٹی کرپشن منظور وسان کو آصف زرداری کی جانب سے تھر میں بڑی تعداد میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں کی تحقیقات کی ذمے داری سونپی، تھی اس سلسلے میں منظور وسان نے گذشتہ ماہ کے آخر میں تھر کا دورہ بھی کیا تھا، منظور وسان نے اس سلسلے میں اپنی ابتدائی رپورٹ تیارکرلی ہے جوکہ آصف علی زرداری کو پیش کی جائے گی، رپورٹ میں دل دہلادینے والے انکشافات کیے گئے ہیں، رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ خوراک کی کمی اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تھر میں470 افراد ہلاک ہوئے جن میں7 سال سے کم عمر کے3 سو سے زائد بچے شامل ہیں۔
تھر میں موجود110 ڈسپنسریاں، ایمرجنسی سینٹر، ڈیپلو میں واقع ایک ٹراما سینٹراور مٹھی میں واقع ایک زچہ و بچہ مرکز فعال نہیں ہے ان کا وجود صرف کاغذ پر ہی ہے جبکہ مراکزکے نام پر ہر ماہ کروڑوں روپے کے فنڈزخوردبردکیے جارہے ہین، یونین کونسل اور تعلقہ کی سطح پر مراکزغذائیت کا وجود ہی نہیں ہے، اسپتالوں میں فراہم کیے جانے والے نمکول کی مدت استعمال ختم ہوچکی ہے، سول اسپتال مٹھی میں کچھ بہترسہولیات موجود ہیں تاہم وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں آنے والے مریضوں کیلیے ناکافی ہے، محکمہ صحت کے افسران اپنی خلاف آنے والی میڈیا رپورٹس سے بچنے کیلیے مریضوں خاص طور پر بچوں کا علاج کرنے کے انھیں حیدرآباد اور کراچی کے اسپتالوں میں بھیج دیتے ہیں، گذشتہ دو سال سے ضلع تھرپارکر میں ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے خاص طور پر ماہرین امراض اطفال کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
25کروڑ روپے کی لاگت سے جاپان سے درآمد کی جانے والی5 موبائل ہیلتھ یونٹ اہم سیاسی شخصیات اور چہیتے افسران کے ذاتی استعمال میں ہیں، ایک موبائل یونٹ ڈی سی او تھرپارکر2008 سے ایئرکنڈیشنڈ کار کے طور پر استعمال کررہے ہیں، دو یونٹ چھور کینٹ کی انتظامیہ کے سپرد کی جاچکی ہیں، سول اسپتال مٹھی میں موجود ایک موبائل ہیلتھ یونٹ کو بھی استعمال نہیں کیا جارہا ہے، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے گذشتہ مالی سال کے دوران5 کروڑ روپے سے زائدکا بجٹ فرنیچر کی خریداری اور دیگر آسائشوں پر استعمال کیاگیا، قحط سالی2012 سے جاری ہے اور اگر صحت کی مناسب سہولیات فراہم کی جاتیں تو سیکڑوں انسانی جانوں کوبچایا جاسکتا تھا۔
وزیراعلی سندھ کی جانب سے تھرپارکر میں نرسنگ اسکول، کالج اور ہلاک ہونے والے افراد کو معاوضے کی ادائیگی، ڈاکٹرز کی تعیناتی، ان کے تنخواہوں کو دگنا کرنے، ماہرین زچہ و بچہ اور اطفال مقرر کرنے کے وعدے تاحال پورے نہیں کیے گئے ہیں جس کے سبب مقامی آبادی موجودہ حکومت سے کے حق میں کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے، تھرپارکر میں موجود65 لاکھ جانوروں میں سے صرف7 لاکھ کو ویکسینیشن دی گئی، سابق سیکریٹری لائیو اسٹاک چوہدری ظفر اقبال نے قوانین کے برخلاف نادرشاہی احکامات کے تحت جانوروں کے چارے کی خریداری کی مد میں20 کروڑ روپے خرچ کیے۔
دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز نوبت کھوسو ار ڈاکٹر مدن لال نے ویکسینیشن کی مد میں5 کروڑ روپے کی خورد برد کی، نوبت کھوسوکوکرپشن اور غفلت کے الزام میں معطل کیا گیا تاہم بعد ازاں انھیں بحال کرکے میرپورخاص میں تعینات کردیا گیا، محکمہ حیوانیات(لائیواسٹاک) کے ایک ارب20 کروڑ روپے کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر خورد برد کی گئی، ہرسال ملنے والے ایک ارب سے زائدکے فنڈ اور قحط سالی کے باوجود ایک بھی جانوروں کا اسپتال، ڈسپنسریز اورسینٹر قائم نہیں کیے گئے، قحط سالی کی وجہ سے10 ہزار سے زائد جانور مرگئے تاہم صوبائی وزیر لائیو اسٹاک اور سیکریٹری نے تھر کا دورہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے جانوروں کے اسپتال کے قیام اور جانوروں کے مالکان میں معاوضے کی ادائیگی بھی صرف اعلانات تک محدود رہی، اعدادوشمار کے مطابق خوراک کی کمی کا شکار3 لاکھ 80 ہزارخاندانوں میں فی خاندان50 کلوگرام راشن کے بیگ تقسیم کیے گئے تاہم متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ تاحال امداد سے محروم ہیں، ڈپٹی کمشنر مٹھی آصف اکرام کو مختلف اداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی منرل واٹر کی21 ہزار بوتلوں میں سے12ہزار تاحال بے نظیر کلچرکمپلیکس مٹھی میں ذخیرہ ہیں، تاریخ استعمال گذرجانے کے بعد منرل واٹر کی بوتلیں متاثرین میں تقسیم کی گئیں، ڈسٹرکٹ تھرپارکر میں حکومتی منصوبے کے تحت ایک ہزار سے زائد ریورس اوسموسز پلانٹ لگائے جانے تھے تاہم صرف70 آر او پلانٹ کام کررہے ہیں۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ قحط سالی کا شکار تھر کے عوام کو بھوکا پیاسا مرنے پر مجبور کرنے والی ضلعی انتظامیہ، محکمہ صحت، لائیو اسٹاک ڈپارٹمنٹ، محکمہ خوراک، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، ریلیف کمشنر اور فنانس ڈپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے۔دریں اثنا پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تھر کی صورتحال کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبروں کے بعد پیپلزپارٹی سندھ کے صدر قائم علی شاہ اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل منظور وسان کو بدانتظامی پر شوکاز نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا ہے۔