دنیا بھر سے افغانستان اب بھی خطرناک
ایک طرف دنیا داعش کے خلاف کاروائیوں پر مرکوز ہے تو دوسری طرف بعد از امریکا افغانستان پر فکر مند دکھائی دے رہے ہے۔
حالیہ افغان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد ہوئے جس کا ہر ذی شعور کو یقین تھا کہ ایسا تو ہونا ہی ہے مگر اُس کے بعد جو کچھ ہوا اُس کا علم شاید کسی کسی کو ہی ہوگا کہ انتخابات میں حصہ لینے والے دونوں یعنی عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کو ہی اقتدار کی کرسی تھما دی جائے گی اور امریکا بہادر کے منانے پر دونوں مخالفین ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر راضی ہوگئے اور خوشی خوشی رہنے لگ گئے۔
مگر مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اتحاد زیادہ عرصہ تک برقرار نہ رہ پائے گا۔ اگرچہ حکومت کو ابھی ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہی گزرا ہے تاہم شراکت اقتدار کے اس فارمولے کے اثرات/ثمرات جلد یا بادیر سامنے آنے شروع ہو جائیں گے۔انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اتحادی حکومت کے قیام پر مغربی ممالک اور بالخصوص جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ہمسایہ ممالک نے اطمینان کا اظہار کیااور افغانستان کی موجودہ صورتحال اور لاحق خطرات کے پیش نظر شراکت اقتدار کے اس فارمولے کو افغانستان کے مستقبل کے لئے نہایت اہم قرار دیا ہے۔
اشرف غنی کی بطور صدر تقرری کئی اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ اگرچہ اشرف غنی کی بطور افغان صدر تقرری خالصتاً امریکی اور مغربی مفادات کے حصول کی خاطر ہے۔ قبل ازیں امریکی حکومت حامد کرزئی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی ہے۔ اشرف غنی کو بھی اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم ان کی بطور صدر تقرری دو اعتبار سے نہایت اہم ہے۔ اول الذکر امریکہ جو کرزئی دور حکومت میں امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کا خوہاں تھا جس کی حامد کرزئی نے سخت مخالفت کی اور معاہدے پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا۔اس معاہدے کے تحت 2014میں امریکی اور اتحادی فوج کے انخلاء کے بعد امریکی دستوں کی افغانستان میں بدستور موجودگی تھی۔اشرف غنی نے مسند اقتدار پر برا جمان ہوتے ہی سرتسلیم خم کر دیا اور سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کر دیئے۔آخر الذکر اشرف غنی کے بارے میں پاکستانی حلقوں میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ عبداللہ عبداللہ کے مقابلے جن کو شمالی اتحاد اور بھارت کی مکمل سپورٹ حاصل تھی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بھی سخت موقف رکھتے تھے، اشرف غنی کو ترجیحاً بہتر اور حمایت یافتہ امیدوار قرار دیا۔لیکن یہ تاثر بھی اس وقت زائل ہو گیا جب افغان صدر نے اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا کہ ''افغانستان کے ہمسائے افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس پر ان کے چینی ہم منصب نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو معاملات میں دخل اندازی کرنے سے اجتناب کرنے کو کہا گیاہے۔
ایک طرف دنیا بالخصوص امریکہ اور مغربی ممالک کی توجہ اس وقت شام، اعراق اور داعش کے خلاف کاروائیوں پر مرکوز ہیں تو دوسری طرف افغانستان میں موجود فوج کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے فکر مند دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان میں غنی حکومت کے قیام کو ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس ایک ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے افغان صدر کی کارکردگی کے سلسلے میں ایک سروے رپورٹ یکم نومبر 2014 کو شائع ہوئی۔ سروے کا انعقاد افغانستان کے بڑے ٹیلی ویژنTOLO NEWSنے ایک کنسلٹنگ فرم ATRکے تعاون سے کیا۔ سروے 22اکتوبر سے 29اکتوبر کے درمیان کیا گیا۔ سروے میں ملک کے 34صوبوں سے تعلق رکھنے والے2745لوگوں کو شامل کیاگیا۔ جس میں 70فیصد مردوں اور30 فیصد خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کو کہا گیا۔ ٹیلیفیون کے ذریعے کیئے جانے والے اس سروے میں لوگوں سے سوال پوچھا گیا کہ ''آپ افغان صدر کی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں''؟؟جواب میں 59.9فیصد لوگوں نے کارکردگی کو بہت زیادہ مطمئن قرار دیاجبکہ 24.2فیصد لوگوں نے کارکردگی کوکسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا۔جبکہ 6.2فیصد لوگ صدر کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دیئے۔جبکہ 9.8فیصد لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ اگرچہ افغان صدر کی یہ کارکردگی کافی حد تک اطمینان بخش دکھائی دیتی ہے۔
دوسری طرف (Special Inspector General for Afghan Reconstruction)SIGARکی جانب سے گذشتہ جمعرات کانگریس کو ایک رپورٹ پیش کی گئی ۔ SIGARافغانستان میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے کیئے جانے والے کاموں کی دیکھ بھال کا ایک ادارہ ہے جو قتاً فوقتاً اس حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کرتا رہتا ہے۔گذشتہ جمعرات کوکانگریس کو پیش کی جانے والی اس رپورٹ میں بہت سے انکشافات کیا جو افغانستان کی موجودہ صورتحال کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ یہ رپورٹ'' فارن پالیسی '' میں شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان سیکیورٹی افواج پر حملوں میں تیزی آگئی ہے۔ افغان سیکیورٹی افواج کو بہت بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف ڈرگز اور افیون کا کاروبار عروج پر ہے ۔ افغانستان میں افیون کی کاشت میں زبردست تیزری آگئی ہے اور سال 1999 کے مقابلے میں جب قابل پر طالبان کی حکومت تھی کاشت دوگنا ہو گئی ہے۔
2013 میں افغانستان میں دولاکھ نو ہزار ایکڑ رقبے پر افیون کی کاشت کی جارہی تھی جو2012 کے مقابلے میں 36فیصد ی زیادہ ہے۔جبکہ1999 طالبان دور حکومت میں ایک لاکھ نو ہزار ایکڑ رقبے پر اس کی کاشت کی جاتی تھی۔رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا کہ افغانستان میں کاشت کی جانے والی افیون اور ڈرگز سے سالانہ3بلین ڈالرز کی خطیر رقم حاصل ہو رہی ہے جس سے براہ راست طالبان اور مزاحمتی گروپوں کو مدد مل رہی ہے جس سے افواج کے خلاف مزاخمتی کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس رپورٹ کی حقیقت کا اندازہ گذشتہ 9ماہ کے دوران 15968حملوں سے کیا جاسکتا ہے۔ مغربی مبصرین ان حملوں میں اضافے کا باعث افغان الیکشن کے بعد پیدا ہونے والا ڈیڈ لاک کو قرار دے رہے ہیں جو 29ستمبر کو ختم ہوا۔
اگرچہ امریکا بہادر نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں سیاسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی مگر وہاں کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو 2016میں امریکی اور اتحادی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد افغانستان سیکیورٹی نقطہ نظر سے غیر مستحکم ہوتادکھائی دے رہا ہے سیکیورٹی افواج جسے پہلے ہی مزاحمتی گروہوں اور طالبان کے حملوں کا سامنا ہے میں اتنی سکت باقی نہیں رہے گی کی وہ طالبان کے خلاف کھڑی رہ سکیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مگر مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اتحاد زیادہ عرصہ تک برقرار نہ رہ پائے گا۔ اگرچہ حکومت کو ابھی ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہی گزرا ہے تاہم شراکت اقتدار کے اس فارمولے کے اثرات/ثمرات جلد یا بادیر سامنے آنے شروع ہو جائیں گے۔انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اتحادی حکومت کے قیام پر مغربی ممالک اور بالخصوص جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ہمسایہ ممالک نے اطمینان کا اظہار کیااور افغانستان کی موجودہ صورتحال اور لاحق خطرات کے پیش نظر شراکت اقتدار کے اس فارمولے کو افغانستان کے مستقبل کے لئے نہایت اہم قرار دیا ہے۔
اشرف غنی کی بطور صدر تقرری کئی اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ اگرچہ اشرف غنی کی بطور افغان صدر تقرری خالصتاً امریکی اور مغربی مفادات کے حصول کی خاطر ہے۔ قبل ازیں امریکی حکومت حامد کرزئی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی ہے۔ اشرف غنی کو بھی اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم ان کی بطور صدر تقرری دو اعتبار سے نہایت اہم ہے۔ اول الذکر امریکہ جو کرزئی دور حکومت میں امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کا خوہاں تھا جس کی حامد کرزئی نے سخت مخالفت کی اور معاہدے پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا۔اس معاہدے کے تحت 2014میں امریکی اور اتحادی فوج کے انخلاء کے بعد امریکی دستوں کی افغانستان میں بدستور موجودگی تھی۔اشرف غنی نے مسند اقتدار پر برا جمان ہوتے ہی سرتسلیم خم کر دیا اور سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کر دیئے۔آخر الذکر اشرف غنی کے بارے میں پاکستانی حلقوں میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ عبداللہ عبداللہ کے مقابلے جن کو شمالی اتحاد اور بھارت کی مکمل سپورٹ حاصل تھی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بھی سخت موقف رکھتے تھے، اشرف غنی کو ترجیحاً بہتر اور حمایت یافتہ امیدوار قرار دیا۔لیکن یہ تاثر بھی اس وقت زائل ہو گیا جب افغان صدر نے اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا کہ ''افغانستان کے ہمسائے افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس پر ان کے چینی ہم منصب نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو معاملات میں دخل اندازی کرنے سے اجتناب کرنے کو کہا گیاہے۔
ایک طرف دنیا بالخصوص امریکہ اور مغربی ممالک کی توجہ اس وقت شام، اعراق اور داعش کے خلاف کاروائیوں پر مرکوز ہیں تو دوسری طرف افغانستان میں موجود فوج کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے فکر مند دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان میں غنی حکومت کے قیام کو ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس ایک ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے افغان صدر کی کارکردگی کے سلسلے میں ایک سروے رپورٹ یکم نومبر 2014 کو شائع ہوئی۔ سروے کا انعقاد افغانستان کے بڑے ٹیلی ویژنTOLO NEWSنے ایک کنسلٹنگ فرم ATRکے تعاون سے کیا۔ سروے 22اکتوبر سے 29اکتوبر کے درمیان کیا گیا۔ سروے میں ملک کے 34صوبوں سے تعلق رکھنے والے2745لوگوں کو شامل کیاگیا۔ جس میں 70فیصد مردوں اور30 فیصد خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کو کہا گیا۔ ٹیلیفیون کے ذریعے کیئے جانے والے اس سروے میں لوگوں سے سوال پوچھا گیا کہ ''آپ افغان صدر کی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں''؟؟جواب میں 59.9فیصد لوگوں نے کارکردگی کو بہت زیادہ مطمئن قرار دیاجبکہ 24.2فیصد لوگوں نے کارکردگی کوکسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا۔جبکہ 6.2فیصد لوگ صدر کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دیئے۔جبکہ 9.8فیصد لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ اگرچہ افغان صدر کی یہ کارکردگی کافی حد تک اطمینان بخش دکھائی دیتی ہے۔
دوسری طرف (Special Inspector General for Afghan Reconstruction)SIGARکی جانب سے گذشتہ جمعرات کانگریس کو ایک رپورٹ پیش کی گئی ۔ SIGARافغانستان میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے کیئے جانے والے کاموں کی دیکھ بھال کا ایک ادارہ ہے جو قتاً فوقتاً اس حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کرتا رہتا ہے۔گذشتہ جمعرات کوکانگریس کو پیش کی جانے والی اس رپورٹ میں بہت سے انکشافات کیا جو افغانستان کی موجودہ صورتحال کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ یہ رپورٹ'' فارن پالیسی '' میں شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان سیکیورٹی افواج پر حملوں میں تیزی آگئی ہے۔ افغان سیکیورٹی افواج کو بہت بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف ڈرگز اور افیون کا کاروبار عروج پر ہے ۔ افغانستان میں افیون کی کاشت میں زبردست تیزری آگئی ہے اور سال 1999 کے مقابلے میں جب قابل پر طالبان کی حکومت تھی کاشت دوگنا ہو گئی ہے۔
2013 میں افغانستان میں دولاکھ نو ہزار ایکڑ رقبے پر افیون کی کاشت کی جارہی تھی جو2012 کے مقابلے میں 36فیصد ی زیادہ ہے۔جبکہ1999 طالبان دور حکومت میں ایک لاکھ نو ہزار ایکڑ رقبے پر اس کی کاشت کی جاتی تھی۔رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا کہ افغانستان میں کاشت کی جانے والی افیون اور ڈرگز سے سالانہ3بلین ڈالرز کی خطیر رقم حاصل ہو رہی ہے جس سے براہ راست طالبان اور مزاحمتی گروپوں کو مدد مل رہی ہے جس سے افواج کے خلاف مزاخمتی کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس رپورٹ کی حقیقت کا اندازہ گذشتہ 9ماہ کے دوران 15968حملوں سے کیا جاسکتا ہے۔ مغربی مبصرین ان حملوں میں اضافے کا باعث افغان الیکشن کے بعد پیدا ہونے والا ڈیڈ لاک کو قرار دے رہے ہیں جو 29ستمبر کو ختم ہوا۔
اگرچہ امریکا بہادر نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں سیاسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی مگر وہاں کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو 2016میں امریکی اور اتحادی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد افغانستان سیکیورٹی نقطہ نظر سے غیر مستحکم ہوتادکھائی دے رہا ہے سیکیورٹی افواج جسے پہلے ہی مزاحمتی گروہوں اور طالبان کے حملوں کا سامنا ہے میں اتنی سکت باقی نہیں رہے گی کی وہ طالبان کے خلاف کھڑی رہ سکیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔