بات کچھ اِدھر اُدھر کی آخر انسان کی تخلیق ہوئی تو کیسے ہوئی
انسان کسی اوردنیا یا سیارے سے تعلق رکھتا ہے جسے بعد میں اسکے اصل گھر سے بے دخل ہونا پڑااورسیارہ زمین پہ پھینک دیا گیا۔
SAUDI ARABIA:
زمین پر انسانی زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی ؟ یہ سوال ایسا ہے کہ سائنس اسکا درست جواب دینے میں آج بھی تذبذب کا شکار ہے ۔سائنس آنکھوں دیکھے اور انسانی حسیات سے محسوس کیے جانے والے تجرباتی حقائق پر یقین رکھتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی تمام تر احتیاط کے باوجود سائنس کو کچھ ہی عرصے بعد اپنے ہی بنائے ہوئے نظریات اور قوانین بدلنے پڑتے ہیں ۔
سائنس کے مطابق آج سے کئی ہزار صدیاں پہلے ساری کائنات ایک آگ کا گولا تھی پھر ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جسے ''بیگ بینگ'' کہا جاتا ہے اس دھماکے کے نتیجے میں بہت سے سیارے اور ستارے وجود میں آئے ۔ زمین بھی اسی دھماکے کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہے جس نے سورج کے گرد گردش شروع کردی وقت کے ساتھ ساتھ زمین ٹھنڈی ہوتی گئی اور اس پہ زندگی کا ظہور ہوا ۔ زمین پر انسانی زندگی کی ابتدا کے بارے میں سائنس کا ارتقائی نظریہ آج بھی بہت مقبول ہے ۔
ڈارون نے کہا تھا کہ انسان پہلے بندر تھا اور پھر بندر سے وہ صدیوں کے ارتقائی عمل کے بعد وہ انسان بن گیا ۔ حالانکہ یہ نظریہ کافی مضحکہ خیز بھی ہے کہ اگر انسان بندر سے انسان بنا تو جو آج کل بندر ہم دیکھتے ہیں وہ کیوں انسان نہیں بنے ؟ اور اگر صدیوں پہلے والے بندر ارتقائی عمل سے انسان بن گئے تو کیا خبر جو آجکل بندر ہم دیکھ رہے ہیں یہ بھی آنے والی صدیوں میں انسان بن جائیں ان میں سے کوئی بند ر جارج واشگٹن بنے کوئی جار ڈبلیو بش بنے اور سب سے اہم سوال وہ یہ کہ یہ ارتقائی عمل صرف بندروں میں ہی کیوں ہوا ؟ جس وقت ارتقائی عمل کے ذریعے بندر '' انسان'' بن رہے تھے اسوقت گدھے مچھلیاں اور ہاتھی وغیرہ کیا کررہے تھے ؟ انکو بھی تو تھوڑی بہت '' ترقی '' کرکے کچھ بن جانا چاہیئے تھا ۔ صدیوں پہلے کا ہاتھی آج بھی ہاتھی ہے جبکہ بندر بقول ڈارون ارتقائی ترقی کرکے انسان بن گیا ۔
حالیہ ایک امریکی اکیالوجسٹ ڈاکٹر ایلس سلور نے اپنی نئی تحقیقاتی کتاب میں زمین پر انسانی زندگی کی شروعات کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان سیارہ زمین سے تعلق نہیں رکھتا ۔ یہ حقیقت میں کسی اور دنیا یا سیارے سے تعلق رکھتا ہے جس کو اسکے اصل گھر سے نامعلوم وجوہات کی بنا پہ بے دخل ہونا پڑا اور سیارہ زمین پہ پھینک دیا گیا اس سلسلے میں اسکی کتاب سائنسی دلائل سے بھری ہوئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے ۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔ زمین کے درجہ حرارت سورج کی شعاعیں اور بے شمار عوامل ایسے ہیں جو کہ انسانی زندگی کے لیے اس سیارہ زمین پہ پائے جانے والے دوسرے جانداروں کے مقابلے میں بہت نامناسب ہیں۔
ایک لمحے کے لیے سوچیئے اگر انسان بڑے بڑے گھر کھیت اور ادویات اور دوائیں ایجاد نہ کرتا اور وہ صرف دوسرے جانداروں کی طرح ایک جاندار ہوتا تو کیا انسانی زندگی اس سیارہ زمین پہ ایسے ہی پنپتی جیسے اب ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ڈائنو سارز اس زمین پہ پائی جانے والی ایک بہت بڑی مخلوق تھے جو کہ ساڑھے چھ کڑور سال پہلے ختم ہو گئے ۔ کیا ڈائنوساز کا ختم ہو جانا ایک اتفاق تھا یا سیارہ زمین پہ انسانی زندگی کی شروعات کے لیے ماحول تیار کیا جارہا تھا ؟ یہ تمام چونکا دینے والے سوالات امریکی اکیالوجسٹ ڈاکٹر ایلس سلور اپنے پڑھنے والوں سے کرتا ہے ۔
انسانی زندگی کی کھوج ہمیشہ کے لیے سائنس کے لیے ایک معمہ رہی ہے سوال یہ ہے کہ کیا واقعی کوئی انسان اس کائنات کے دورافتادہ سیارے سے تعلق رکھتا تھا جسے اس سے زیادہ کسی طاقتور اور سائنسی لحاظ سے جدید مخلوق نے اسکو اسکے اصل گھر سے بے دخل کرکے زمین پہ پھینک دیا ۔ ڈاکٹر ایلس سلور کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے یہ زمین ایک جیل ہو جہاں مجرموں کو سزا کے طور پہ پھینکا جاتا ہو کیونکہ چاروں طرف سے زمین کا پانی سے ڈھکا ہونا اور صرف تیسرا حصہ خشکی پہ مشتمل ہونا بالکل کسی قید کی مانند نظر آتا ہے ۔
اس کائنات کے کسی اور سیارے پر زندگی کا وجود خارج ازمکان نہیں ہے کیونکہ تمام ترسائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک چاند کے علاوہ کسی اور سیارے پر کوئی انسانی مشن نہیں بھیجا جا سکا اور چاند پر بھی جو خلائی مشن بھیجا گیا وہ بھی متنازعہ ہے اور اس پر آج بھی خلائی ماہرین سوالات اٹھاتے ہیں کہ شاید یہ حقیقت میں ہوا بھی تھا یا نہیں ؟ زمین سے سب سے قریب ترین سیارہ مریخ ہے جس پہ ابھی تک کوئی انسانی مشن نہیں گیا مریخ کے علاوہ ہمارا یہ نظام شمسی نو سیاروں اور ایک سورج پہ مشتمل ہے ۔اس سے آگے کائنات اتنی زیادہ وسیع ہے کہ ہماری زمین ریگستان میں ریت کے ایک ذرے کی مانند ہے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ناسا سمیت اسوقت دنیا میں جتنے بھی خلائی تحقیقات کے ادارے انکا استعمال خلائی تحقیق سے زیادہ فوجی استعمال اور دوسرے ممالک کی جاسوسی کے لیے زیادہ کیا جارہا ہے ۔
ڈاکٹر ایلس کی تحقیق نے سائنس کی دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اگر مستقبل میں ڈاکٹر ایلس کی تحقیق کو مزید پذیرائی ملتی ہے اور مزید سائنسدان اور اکیالوجسٹ اسکو درست قرار دیتے ہیں تو مذہب کی یہ بات درست ثابت ہو جائے گی کہ انسان کسی ارتقائی عمل کے ذریعے انسان نہیں بنا بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پہ اتارا گیا تھا تو زمین پہ انسانی زندگی کی ابتدا ہوئی تھی اور جہاں تک ڈاکٹر ایلس کا یہ کہنا ہے کہ یہ زمین ایک جیل کی مانند ہے جس پہ سزا کے لیے مجرموں کو پھینکا جاتا تھا تو دیکھا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کو بھی ایک غلطی کی وجہ سے ہی زمین پہ منتقل کیا گیا تھا ۔ آج بے شک بہت سے لوگ مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن بہر حال سائنسی تحقیقات انسان کو آہستہ آہستہ اسکے خالق کی طرف لے جارہی ہیں اور قرآن پاک میں شاید اسی لیے بار بار انسان کو غور وفکر کرنے کا کہا گیا ہے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
زمین پر انسانی زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی ؟ یہ سوال ایسا ہے کہ سائنس اسکا درست جواب دینے میں آج بھی تذبذب کا شکار ہے ۔سائنس آنکھوں دیکھے اور انسانی حسیات سے محسوس کیے جانے والے تجرباتی حقائق پر یقین رکھتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی تمام تر احتیاط کے باوجود سائنس کو کچھ ہی عرصے بعد اپنے ہی بنائے ہوئے نظریات اور قوانین بدلنے پڑتے ہیں ۔
سائنس کے مطابق آج سے کئی ہزار صدیاں پہلے ساری کائنات ایک آگ کا گولا تھی پھر ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جسے ''بیگ بینگ'' کہا جاتا ہے اس دھماکے کے نتیجے میں بہت سے سیارے اور ستارے وجود میں آئے ۔ زمین بھی اسی دھماکے کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہے جس نے سورج کے گرد گردش شروع کردی وقت کے ساتھ ساتھ زمین ٹھنڈی ہوتی گئی اور اس پہ زندگی کا ظہور ہوا ۔ زمین پر انسانی زندگی کی ابتدا کے بارے میں سائنس کا ارتقائی نظریہ آج بھی بہت مقبول ہے ۔
ڈارون نے کہا تھا کہ انسان پہلے بندر تھا اور پھر بندر سے وہ صدیوں کے ارتقائی عمل کے بعد وہ انسان بن گیا ۔ حالانکہ یہ نظریہ کافی مضحکہ خیز بھی ہے کہ اگر انسان بندر سے انسان بنا تو جو آج کل بندر ہم دیکھتے ہیں وہ کیوں انسان نہیں بنے ؟ اور اگر صدیوں پہلے والے بندر ارتقائی عمل سے انسان بن گئے تو کیا خبر جو آجکل بندر ہم دیکھ رہے ہیں یہ بھی آنے والی صدیوں میں انسان بن جائیں ان میں سے کوئی بند ر جارج واشگٹن بنے کوئی جار ڈبلیو بش بنے اور سب سے اہم سوال وہ یہ کہ یہ ارتقائی عمل صرف بندروں میں ہی کیوں ہوا ؟ جس وقت ارتقائی عمل کے ذریعے بندر '' انسان'' بن رہے تھے اسوقت گدھے مچھلیاں اور ہاتھی وغیرہ کیا کررہے تھے ؟ انکو بھی تو تھوڑی بہت '' ترقی '' کرکے کچھ بن جانا چاہیئے تھا ۔ صدیوں پہلے کا ہاتھی آج بھی ہاتھی ہے جبکہ بندر بقول ڈارون ارتقائی ترقی کرکے انسان بن گیا ۔
حالیہ ایک امریکی اکیالوجسٹ ڈاکٹر ایلس سلور نے اپنی نئی تحقیقاتی کتاب میں زمین پر انسانی زندگی کی شروعات کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان سیارہ زمین سے تعلق نہیں رکھتا ۔ یہ حقیقت میں کسی اور دنیا یا سیارے سے تعلق رکھتا ہے جس کو اسکے اصل گھر سے نامعلوم وجوہات کی بنا پہ بے دخل ہونا پڑا اور سیارہ زمین پہ پھینک دیا گیا اس سلسلے میں اسکی کتاب سائنسی دلائل سے بھری ہوئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے ۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔ زمین کے درجہ حرارت سورج کی شعاعیں اور بے شمار عوامل ایسے ہیں جو کہ انسانی زندگی کے لیے اس سیارہ زمین پہ پائے جانے والے دوسرے جانداروں کے مقابلے میں بہت نامناسب ہیں۔
ایک لمحے کے لیے سوچیئے اگر انسان بڑے بڑے گھر کھیت اور ادویات اور دوائیں ایجاد نہ کرتا اور وہ صرف دوسرے جانداروں کی طرح ایک جاندار ہوتا تو کیا انسانی زندگی اس سیارہ زمین پہ ایسے ہی پنپتی جیسے اب ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ڈائنو سارز اس زمین پہ پائی جانے والی ایک بہت بڑی مخلوق تھے جو کہ ساڑھے چھ کڑور سال پہلے ختم ہو گئے ۔ کیا ڈائنوساز کا ختم ہو جانا ایک اتفاق تھا یا سیارہ زمین پہ انسانی زندگی کی شروعات کے لیے ماحول تیار کیا جارہا تھا ؟ یہ تمام چونکا دینے والے سوالات امریکی اکیالوجسٹ ڈاکٹر ایلس سلور اپنے پڑھنے والوں سے کرتا ہے ۔
انسانی زندگی کی کھوج ہمیشہ کے لیے سائنس کے لیے ایک معمہ رہی ہے سوال یہ ہے کہ کیا واقعی کوئی انسان اس کائنات کے دورافتادہ سیارے سے تعلق رکھتا تھا جسے اس سے زیادہ کسی طاقتور اور سائنسی لحاظ سے جدید مخلوق نے اسکو اسکے اصل گھر سے بے دخل کرکے زمین پہ پھینک دیا ۔ ڈاکٹر ایلس سلور کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے یہ زمین ایک جیل ہو جہاں مجرموں کو سزا کے طور پہ پھینکا جاتا ہو کیونکہ چاروں طرف سے زمین کا پانی سے ڈھکا ہونا اور صرف تیسرا حصہ خشکی پہ مشتمل ہونا بالکل کسی قید کی مانند نظر آتا ہے ۔
اس کائنات کے کسی اور سیارے پر زندگی کا وجود خارج ازمکان نہیں ہے کیونکہ تمام ترسائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک چاند کے علاوہ کسی اور سیارے پر کوئی انسانی مشن نہیں بھیجا جا سکا اور چاند پر بھی جو خلائی مشن بھیجا گیا وہ بھی متنازعہ ہے اور اس پر آج بھی خلائی ماہرین سوالات اٹھاتے ہیں کہ شاید یہ حقیقت میں ہوا بھی تھا یا نہیں ؟ زمین سے سب سے قریب ترین سیارہ مریخ ہے جس پہ ابھی تک کوئی انسانی مشن نہیں گیا مریخ کے علاوہ ہمارا یہ نظام شمسی نو سیاروں اور ایک سورج پہ مشتمل ہے ۔اس سے آگے کائنات اتنی زیادہ وسیع ہے کہ ہماری زمین ریگستان میں ریت کے ایک ذرے کی مانند ہے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ناسا سمیت اسوقت دنیا میں جتنے بھی خلائی تحقیقات کے ادارے انکا استعمال خلائی تحقیق سے زیادہ فوجی استعمال اور دوسرے ممالک کی جاسوسی کے لیے زیادہ کیا جارہا ہے ۔
ڈاکٹر ایلس کی تحقیق نے سائنس کی دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اگر مستقبل میں ڈاکٹر ایلس کی تحقیق کو مزید پذیرائی ملتی ہے اور مزید سائنسدان اور اکیالوجسٹ اسکو درست قرار دیتے ہیں تو مذہب کی یہ بات درست ثابت ہو جائے گی کہ انسان کسی ارتقائی عمل کے ذریعے انسان نہیں بنا بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پہ اتارا گیا تھا تو زمین پہ انسانی زندگی کی ابتدا ہوئی تھی اور جہاں تک ڈاکٹر ایلس کا یہ کہنا ہے کہ یہ زمین ایک جیل کی مانند ہے جس پہ سزا کے لیے مجرموں کو پھینکا جاتا تھا تو دیکھا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کو بھی ایک غلطی کی وجہ سے ہی زمین پہ منتقل کیا گیا تھا ۔ آج بے شک بہت سے لوگ مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن بہر حال سائنسی تحقیقات انسان کو آہستہ آہستہ اسکے خالق کی طرف لے جارہی ہیں اور قرآن پاک میں شاید اسی لیے بار بار انسان کو غور وفکر کرنے کا کہا گیا ہے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔