انتخابی اصلاحات کی اہم تجاویز
ابتری کا حال یہ ہے کہ ہر محکمہ تباہ ہوچکا، ہر محکمے کے کارندے اپنے کام میں غفلت برتنے کے مرتکب ہوئے۔
جن لوگوں نے پولیٹیکل سائنس پڑھی ہے وہ لفظ سیاست سے بخوبی واقف ہوں گے، سیاست کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی قبیلہ اور قوم کی رہنمائی اس طرح کی جائے کہ اس قوم کی زندگی کی مشکلات کوکم سے کم کیا جائے، وہ جدوجہد کرکے قوم کے رہنما بنتے ہیں، اس مقصد کے لیے وہ سیاسی جماعتیں بناتے ہیں اور جماعت کے ذریعے اپنا ایک منشور عوام میں پیش کرتے ہیں کہ اگر ہمیں رہنمائی کے لیے اختیار اور اقتدار ملا تو ہم ملک اور قوم کی خدمت اپنے منشور کے مطابق کریں گے۔
اسی مقصد کے لیے عام انتخابات ہوتے ہیں، جو جماعت ان انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لیتی ہے اس کو اقتدار ملتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے ہم ان معاملات میں صاف اور شفاف انداز اختیار نہیں کرتے، صرف اقتدار میں آنے کی خاطر ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جس سے زیادہ ووٹ ملیں۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ یہ حربہ جائز ہے یا ناجائز، اور اس میں قوم اور ملک کو کتنا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔
وہ لوگ اقتدار سے باہر رہتے ہیں جو واقعی ایمانداری سے خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اقتدار پر قابض ہوتے ہیں جو بے ایمان ہوتے ہیں، جن کا مقصد اقتدار اور اختیار سے مال و زر میں اضافہ کرنا، اقربا پروری اور رشوت کے ذریعے اپنی ذات کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے وطن عزیز کی ترقی کی رفتار دن بدن آہستہ ہوتی جارہی ہے، قرضے کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے، مہنگائی کا طوفان لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کررہا ہے، نہ ملک میں امن ہے، نہ سکون، نہ باقاعدہ تعلیم اور تربیت ہو رہی ہے۔
ابتری کا حال یہ ہے کہ ہر محکمہ تباہ ہوچکا، ہر محکمے کے کارندے اپنے کام میں غفلت برتنے کے مرتکب ہوئے۔ وزرا اور مشیروں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ماتحت محکمے کی جانچ کرتے ہیں اور نہ پڑتال، نہ کوئی ان سے حساب لیتا ہے۔ جو کوڑا کرکٹ فجر کی نماز سے پہلے اٹھا لیا جاتا تھا، وہ آج عصر کی نماز تک نہیں اٹھایا جاتا، جو سٹرکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، ان کی کوئی مرمت نہیں کرتا، فٹ پاتھ جس پر پیدل چلنے والوں کا حق ہے، اس پر تجاوزات اتنی ہیں کہ اب فٹ پاتھ کے بجائے سڑک پر چلنا پڑتا ہے، حد تو یہ ہے اب ان فٹ پاتھ پر موٹر سائیکلیں، کاریں بھی چلتی ہیں، پارک ہوتی ہیں، روڈ پر عموماً ٹریفک رانگ سائیڈ سے چلتا ہے۔
یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ اس لیے کہ اس ادارے کے کارندوں سے لے کر ان کے سربراہ تک، اسسٹنٹ کمشنروں سے لے کر وزیروں تک اور وزرائے اعلیٰ سے لے کر وزیراعظم تک کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ حکمران عوام کی خدمت کے لیے نہیں اپنے عیش و آرام اور اپنے اہل و عیال کو سکھ دینے کے لیے آئے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہمارے ملک میں عام انتخابات میں کبھی شفافیت اور قومی مفاد، ملکی مفاد اور عوامی مفاد کو اہمیت نہ دی گئی۔
ہمارا ادارہ جسے الیکشن کمشن کہتے ہیں وہ کبھی اختیارات میں آزاد نہیں رہا، نہ ہی اس نے عام انتخابات میں کوئی اصلاحی ضابطہ بنایا۔ جو چاہے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے، اچھے لوگوں اور متوسطہ طبقے کے لوگوں کو انتخابات میں آنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس لیے ضروری ہے پاکستان کی پارلیمنٹ کے تمام افراد خواہ کسی جماعت سے وابستہ ہوں وہ اس بات پر زور دیں کہ الیکشن کمیشن کا مستقل ادارہ بنایا جائے، اس کا سربراہ اپنے اختیارات میں آزاد ہو تاکہ وہ بلا خوف انصاف وعدل کے تقاضے پورے کرسکے۔ پاکستان میں 1970ء کے بعد سے جتنے عام انتخابات ہوئے سب پر دھاندلی کا الزام آیا اور 2013 ء کے انتخابات میں تو بہت زیادہ الزام ہے۔
اس لیے جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا، اب الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ تمام ضروری اقدامات کرلے، وہ نظام، وہ اصول، وہ قوانین مرتب کرلے جس کے نتیجے میں واقعی ایک ایسی حکومت وجود میں آئے جو ریاست کو مضبوط کرے اور فلاحی مملکت ہو۔ اس سلسلے میں میری کچھ تجاویز ہیں جو ریاستی، ملکی، عوامی مفاد کو سامنے رکھ کر کی گئی ہیں، جو قابل قبول بھی ہیں۔
اس طرح پاکستان کو فرقہ واریت، دہشت گردی اور تباہ کن مہنگائی سے بچایا جاسکتا ہے۔ پہلی شرط امیدوار کی یہ ہو کہ وہ تجارت یا کاروبار سے وابستہ نہ ہو، نہ ہی اس کے اہل و عیال۔ دوسری شرط اس کے پاس مملکت پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہ ہو۔ تیسری شرط یہ کہ اس پر کوئی واجبات نہ ہوں۔ چوتھی شرط یہ کہ اس نے کبھی فرقہ واریت، لسانیت اور عصبیت کا کام نہ کیا ہو۔ پانچویں شرط یہ کہ اس کا بیرون ملک کوئی اکاؤنٹ، کاروبار، سرمایہ نہ ہو، نہ ہی اس کے کسی اہل خانہ کا۔ چھٹی شرط یہ کہ اگر وہ پہلی مرتبہ انتخاب میں حصہ لے رہا ہو تو اسے پہلے کسی علاقے کے کونسلر کا انتخاب لڑا ہوا ہونا چاہیے، چاہے جیتا نہ ہو، وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا اہل ہوسکتا ہے۔
آٹھویں شرط یہ کہ قومی اسمبلی کے انتخاب میں وہ ہی حصہ لے سکتا ہے جس نے صوبائی انتخاب میں کبھی حصہ لیا ہو۔ نویں شرط یہ کہ جو بھی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے، اس کا تنظیمی ڈھانچہ مکمل ہو، جیسے چیئرمین، جنرل سیکریٹری وغیرہ۔ دسویں شرط یہ کہ کسی ایسی جماعت کو انتخاب میں نااہل قرار دیا جائے جو فرقہ واریت، مذہبیت، لسانیت کی بنیاد پر انتخاب لڑے۔ گیارہویں شرط یہ ہے اس پارٹی، اس فرد کو انتخاب کا اہل قرار دیا جائے جو پاکستانی ملت کو ایک قوم تصور کرتی ہو۔ بارہویں شرط انتخاب لڑنے والا شخص اپنے اہل و عیال کے اثاثوں، ان کے بیلنس کی صحیح معلومات دے۔
تیرہویں شرط عام انتخابات میں ووٹر کو پولنگ تک لانے اور لے جانے کی ذمے داری سرکاری ٹرانسپورٹ کی ہو، امیدوار یہ کام نہ کریں۔ چودہویں شرط تمام انتخابات مکمل طور پر پاکستان آرمی یا رینجرز کے ذریعے ہوں جو پولنگ اسٹیشن پر بھی موجود ہوں۔ پندرہویں شرط یہ کہ جو آدمی کسی جماعت سے انتخاب جیتے وہ اسمبلی میں اسی کا ممبر رہے، کسی اور جماعت کی شمولیت کے لیے اسے اپنی منتخب سیٹ کو خالی کرنا ہوگی۔میری تجاویز سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اس سے بہتر تجاویز ہوں۔ ایک بڑی اہم تجویز یہ ہے کہ وفاقی حکومت میں اکثریتی جماعت اس کو سمجھا جائے ۔
جس نے پاکستان کے تمام صوبوں میں زیادہ سیٹیں لی ہوں۔ اگر ایسا نہ کیا تو پنجاب جو پاکستان کی آبادی کا 65 فیصد حصہ ہے، جس کی قومی اسمبلی کی سیٹیں باقی تین صوبوں کی مجموعی سیٹوں سے زیادہ ہیں، جب کہ سندھ میں نئے صوبے کی ضرورت بھی محسوس ہورہی ہے، بلکہ اگر موجودہ حکومت خود پنجاب میں مزید صوبے بنا دے تو اس نتیجے میں عوام کی پذیرائی بھی حاصل ہوگی اور قومی اسمبلی میں تمام چھوٹے صوبوں کی سیٹوں کا تناسب بھی بہتر ہوجائے گا۔
اس کے نتیجے میں سینیٹ کی ضرورت نہ رہے گی اور ملکی خزانے میں سینیٹ کے اخراجات کی بچت بھی ہوگی۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ فاٹا، جنوبی اور شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں قبائلی نظام دوبارہ بحال کرلے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا اثر ختم ہوجا ئے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ صدر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، وزیراعظم پاکستان، صوبائی وزرائے اعلیٰ، قومی اسمبلی کے ممبران، وزارت داخلہ اور الیکشن کمیشن ان تجاویز پر ضرور غور کریں گے کیونکہ یہ صرف قومی اور ملکی مفاد کے لیے پیش کی گئی ہے۔
اسی مقصد کے لیے عام انتخابات ہوتے ہیں، جو جماعت ان انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لیتی ہے اس کو اقتدار ملتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے ہم ان معاملات میں صاف اور شفاف انداز اختیار نہیں کرتے، صرف اقتدار میں آنے کی خاطر ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جس سے زیادہ ووٹ ملیں۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ یہ حربہ جائز ہے یا ناجائز، اور اس میں قوم اور ملک کو کتنا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔
وہ لوگ اقتدار سے باہر رہتے ہیں جو واقعی ایمانداری سے خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اقتدار پر قابض ہوتے ہیں جو بے ایمان ہوتے ہیں، جن کا مقصد اقتدار اور اختیار سے مال و زر میں اضافہ کرنا، اقربا پروری اور رشوت کے ذریعے اپنی ذات کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے وطن عزیز کی ترقی کی رفتار دن بدن آہستہ ہوتی جارہی ہے، قرضے کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے، مہنگائی کا طوفان لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کررہا ہے، نہ ملک میں امن ہے، نہ سکون، نہ باقاعدہ تعلیم اور تربیت ہو رہی ہے۔
ابتری کا حال یہ ہے کہ ہر محکمہ تباہ ہوچکا، ہر محکمے کے کارندے اپنے کام میں غفلت برتنے کے مرتکب ہوئے۔ وزرا اور مشیروں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ماتحت محکمے کی جانچ کرتے ہیں اور نہ پڑتال، نہ کوئی ان سے حساب لیتا ہے۔ جو کوڑا کرکٹ فجر کی نماز سے پہلے اٹھا لیا جاتا تھا، وہ آج عصر کی نماز تک نہیں اٹھایا جاتا، جو سٹرکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، ان کی کوئی مرمت نہیں کرتا، فٹ پاتھ جس پر پیدل چلنے والوں کا حق ہے، اس پر تجاوزات اتنی ہیں کہ اب فٹ پاتھ کے بجائے سڑک پر چلنا پڑتا ہے، حد تو یہ ہے اب ان فٹ پاتھ پر موٹر سائیکلیں، کاریں بھی چلتی ہیں، پارک ہوتی ہیں، روڈ پر عموماً ٹریفک رانگ سائیڈ سے چلتا ہے۔
یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ اس لیے کہ اس ادارے کے کارندوں سے لے کر ان کے سربراہ تک، اسسٹنٹ کمشنروں سے لے کر وزیروں تک اور وزرائے اعلیٰ سے لے کر وزیراعظم تک کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ حکمران عوام کی خدمت کے لیے نہیں اپنے عیش و آرام اور اپنے اہل و عیال کو سکھ دینے کے لیے آئے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہمارے ملک میں عام انتخابات میں کبھی شفافیت اور قومی مفاد، ملکی مفاد اور عوامی مفاد کو اہمیت نہ دی گئی۔
ہمارا ادارہ جسے الیکشن کمشن کہتے ہیں وہ کبھی اختیارات میں آزاد نہیں رہا، نہ ہی اس نے عام انتخابات میں کوئی اصلاحی ضابطہ بنایا۔ جو چاہے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے، اچھے لوگوں اور متوسطہ طبقے کے لوگوں کو انتخابات میں آنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس لیے ضروری ہے پاکستان کی پارلیمنٹ کے تمام افراد خواہ کسی جماعت سے وابستہ ہوں وہ اس بات پر زور دیں کہ الیکشن کمیشن کا مستقل ادارہ بنایا جائے، اس کا سربراہ اپنے اختیارات میں آزاد ہو تاکہ وہ بلا خوف انصاف وعدل کے تقاضے پورے کرسکے۔ پاکستان میں 1970ء کے بعد سے جتنے عام انتخابات ہوئے سب پر دھاندلی کا الزام آیا اور 2013 ء کے انتخابات میں تو بہت زیادہ الزام ہے۔
اس لیے جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا، اب الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ تمام ضروری اقدامات کرلے، وہ نظام، وہ اصول، وہ قوانین مرتب کرلے جس کے نتیجے میں واقعی ایک ایسی حکومت وجود میں آئے جو ریاست کو مضبوط کرے اور فلاحی مملکت ہو۔ اس سلسلے میں میری کچھ تجاویز ہیں جو ریاستی، ملکی، عوامی مفاد کو سامنے رکھ کر کی گئی ہیں، جو قابل قبول بھی ہیں۔
اس طرح پاکستان کو فرقہ واریت، دہشت گردی اور تباہ کن مہنگائی سے بچایا جاسکتا ہے۔ پہلی شرط امیدوار کی یہ ہو کہ وہ تجارت یا کاروبار سے وابستہ نہ ہو، نہ ہی اس کے اہل و عیال۔ دوسری شرط اس کے پاس مملکت پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہ ہو۔ تیسری شرط یہ کہ اس پر کوئی واجبات نہ ہوں۔ چوتھی شرط یہ کہ اس نے کبھی فرقہ واریت، لسانیت اور عصبیت کا کام نہ کیا ہو۔ پانچویں شرط یہ کہ اس کا بیرون ملک کوئی اکاؤنٹ، کاروبار، سرمایہ نہ ہو، نہ ہی اس کے کسی اہل خانہ کا۔ چھٹی شرط یہ کہ اگر وہ پہلی مرتبہ انتخاب میں حصہ لے رہا ہو تو اسے پہلے کسی علاقے کے کونسلر کا انتخاب لڑا ہوا ہونا چاہیے، چاہے جیتا نہ ہو، وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا اہل ہوسکتا ہے۔
آٹھویں شرط یہ کہ قومی اسمبلی کے انتخاب میں وہ ہی حصہ لے سکتا ہے جس نے صوبائی انتخاب میں کبھی حصہ لیا ہو۔ نویں شرط یہ کہ جو بھی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے، اس کا تنظیمی ڈھانچہ مکمل ہو، جیسے چیئرمین، جنرل سیکریٹری وغیرہ۔ دسویں شرط یہ کہ کسی ایسی جماعت کو انتخاب میں نااہل قرار دیا جائے جو فرقہ واریت، مذہبیت، لسانیت کی بنیاد پر انتخاب لڑے۔ گیارہویں شرط یہ ہے اس پارٹی، اس فرد کو انتخاب کا اہل قرار دیا جائے جو پاکستانی ملت کو ایک قوم تصور کرتی ہو۔ بارہویں شرط انتخاب لڑنے والا شخص اپنے اہل و عیال کے اثاثوں، ان کے بیلنس کی صحیح معلومات دے۔
تیرہویں شرط عام انتخابات میں ووٹر کو پولنگ تک لانے اور لے جانے کی ذمے داری سرکاری ٹرانسپورٹ کی ہو، امیدوار یہ کام نہ کریں۔ چودہویں شرط تمام انتخابات مکمل طور پر پاکستان آرمی یا رینجرز کے ذریعے ہوں جو پولنگ اسٹیشن پر بھی موجود ہوں۔ پندرہویں شرط یہ کہ جو آدمی کسی جماعت سے انتخاب جیتے وہ اسمبلی میں اسی کا ممبر رہے، کسی اور جماعت کی شمولیت کے لیے اسے اپنی منتخب سیٹ کو خالی کرنا ہوگی۔میری تجاویز سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اس سے بہتر تجاویز ہوں۔ ایک بڑی اہم تجویز یہ ہے کہ وفاقی حکومت میں اکثریتی جماعت اس کو سمجھا جائے ۔
جس نے پاکستان کے تمام صوبوں میں زیادہ سیٹیں لی ہوں۔ اگر ایسا نہ کیا تو پنجاب جو پاکستان کی آبادی کا 65 فیصد حصہ ہے، جس کی قومی اسمبلی کی سیٹیں باقی تین صوبوں کی مجموعی سیٹوں سے زیادہ ہیں، جب کہ سندھ میں نئے صوبے کی ضرورت بھی محسوس ہورہی ہے، بلکہ اگر موجودہ حکومت خود پنجاب میں مزید صوبے بنا دے تو اس نتیجے میں عوام کی پذیرائی بھی حاصل ہوگی اور قومی اسمبلی میں تمام چھوٹے صوبوں کی سیٹوں کا تناسب بھی بہتر ہوجائے گا۔
اس کے نتیجے میں سینیٹ کی ضرورت نہ رہے گی اور ملکی خزانے میں سینیٹ کے اخراجات کی بچت بھی ہوگی۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ فاٹا، جنوبی اور شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں قبائلی نظام دوبارہ بحال کرلے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا اثر ختم ہوجا ئے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ صدر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، وزیراعظم پاکستان، صوبائی وزرائے اعلیٰ، قومی اسمبلی کے ممبران، وزارت داخلہ اور الیکشن کمیشن ان تجاویز پر ضرور غور کریں گے کیونکہ یہ صرف قومی اور ملکی مفاد کے لیے پیش کی گئی ہے۔