زبان کے محدود لامحدود ہونے کا قضیہ
ردو شاعروں کے تراشے ہوئے یہ اسالیب جو زبان ان کے پاس جو تجربہ ہے اس کے بیان کے لیے موزوں نہیں ہے۔
ISLAMABAD:
مستنصر حسین تارڑ کی کیا پوچھتے ہو۔ اب تو اس عزیز کے ہونٹوں سے نکلا فقرہ بھی بیسٹ سیلر بن جاتا ہے۔ ان کے ایک فقرے کی ان دنوں شہر میں بہت دھوم ہے۔ کتنے دوستوں نے ہمیں آ کر بتایا کہ تارڑ صاحب نے انگریزی میں انٹرویو دیتے ہوئے یہ بیان جاری کیا ہے کہ اردو بہت محدود زبان ہے۔
دوستوں کے کہے کو تو ہم نے ایک کان سنا' دوسرے کان اڑا دیا۔ مگر ایک بی بی نے بڑے غصے میں ہمیں فون کیا۔ کہا کہ میں نے تو اردو کے فروغ کے لیے تحریک چلا رکھی ہے مگر مستنصر تارڑ صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ اردو بہت محدود زبان ہے۔ آپ بتائیے۔ کیا یہ بات صحیح ہے۔ ہم نے تامل کیا۔ پھر کہا کہ بی بی ہم تارڑ صاحب کی تردید کیسے کریں۔ ان کی نگارشات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اردو بہت محدود زبان ہے۔
ایک دوست نے آ کر یہ بتایا کہ تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ اب وہ انگریزی میں لکھا کریں گے۔ اس پر ایک ستم ظریف نے ٹکڑا لگایا کہ یہ انگریزی کے لیے اچھا شگن نہیں ہے۔ وہ تو اچھی بھلی گلوبل زبان ہے۔ تارڑ کے قلم کی زد میں آ کر کہیں وہ بھی محدود زبان نہ بن جائے۔
خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ لیکن ہم اس پر حیران ہیں کہ اگر اردو زبان محدود زبان ہے تو یہ مسئلہ مستنصر تارڑ کو کس حساب سے پریشان کر رہا ہے۔ اس عزیز کو کونسی فلسفیانہ گتھیاں سلجھانی ہیں کہ اسے اس زبان کے ہی محدود ہونے کا احساس ہوا۔ انگریزی میں رواں حضرات جب اردو میں کسی عالمی مسئلہ پر قلم اٹھاتے ہیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی فلسفیانہ نکتہ ہے تو اسے اردو میں کیسے بیان کریں۔ ان کی طرف سے یہ اعتراض آتا ہے کہ اردو محدود زبان ہے۔ اس میں نئے علمی مسائل بیان نہیں کیا جاسکتے مگر اس پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے اور کہا گیا ہے کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔
زبان سے آپ کو واقفیت نہیں ہے۔ چلے ہیں اس میں فلسفہ بگھارنے اپنی نااہلیت کا احساس نہیں۔ زبان کو الزام دیتے ہیں۔ مگر مستنصر تارڑ کے متعلق ہم ناچ نہ جاننے کا الزام نہیں لگا سکتے۔ ان کا قلم تو اردو میں خوب ناچتا ہے۔ زبان کیسی بھی لکھیں مگر رواں لکھتے ہیں جب ہی تو بیسٹ سیلر والوں کی صف میں آ گئے ہیں۔ وہ آنگن کو ٹیڑھا کیوں بتا رہے ہیں۔ کیا سفر نامے لکھتے لکھتے ان کی مٹھی میں کوئی فلسفہ آگیا ہے جو انھیں اپنے اظہار کی کوتاہی کا احساس ہو رہا ہے۔ ارے بھئی ایسی بات ہے تو اپنی زبان کی چولیں درست کر لیں۔ اس پر بھی بات نہ بنے تو پھر بیشک آنگن کو ٹیڑھا بتائیں۔ اور پھر بیشک انگریزی میں رواں ہو جائیں۔
ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو بھی لکھنے والا ہوتا ہے وہ شاعر ہو' ناول نگار ہو' تاریخ داں ہو' اسکالر ہو' فلسفی ہو وہ اگر صاحب ہنر ہے تو مروجہ اظہار کی کوتاہیوں کو دیکھ کر خود اپنے لیے نیا اظہار تراشتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سب سے پہلے تو علامہ اقبال نے یہ شکایت کی ہوتی مگر انھوں نے اردو شاعری میں رائج اسالیب برتتے برتتے محسوس کیا کہ اردو شاعروں کے تراشے ہوئے یہ اسالیب جو زبان ان کے پاس جو تجربہ ہے اس کے بیان کے لیے موزوں نہیں ہے۔ تو دیکھ لیجیے 'بانگ درا' سے 'بال جبریل' تک پہنچتے پہنچتے لگتا ہے کہ اب ان کا شعری تجربہ ایک نئی زبان میں اظہار پا رہا ہے' بانگ درا' میں ان کی جو غزلیں ہیں وہ تو داغ کی غزل والی زبان میں ہیں۔ 'بال جبریل' کی غزلوں میں لگتا ہے کہ یہاں کوئی نیا تغزل جنم لے رہا ہے۔ نئے استعارے نئی تلمیحیں' نئی ترکیبیں۔
مطلب یہ ہے کہ تخلیقی ذہن آنگن کے ٹیڑھا ہونے کی شکایت نہیں کرتا۔ وہ اپنے تخلیقی زور پر جو بھی آنگن اسے میسر ہے اس میں وسعتیں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ باقی جو رواں لکھنے والے ہیں ان میں ہم نے یہ سمجھداری دیکھی ہے کہ وہ اونچا اڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ زبان جتنی بھی ان کی زد میں ہوتی ہے اسی سے کام چلاتے ہیں اور خوب چلاتے ہیں۔ باقی زبان کا معاملہ تو یہ ہے کہ ہر زبان اپنی جگہ علم دریائو ہوتی ہے۔ اپنی وسعتیں وہ ان پر آشکار کرتی ہے جو اس کے لیے کشٹ کھینچتے ہیں' لمبی شناوری کرتے ہیں۔ رواں لکھنے والا کسی چکر میں نہیں پڑتا۔ وہ اپنے محدود میدان ہی میں رواں رہتا ہے اور کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ پھر اونچا وہ کیوں اڑے۔
ایک دوست نے ذوالفقار بخاری کا ایک قصہ سنایا۔ وہ اپنی نئی کہی ہوئی ایک غزل کے سلسلہ میں بہت تردد میں تھے۔ کہہ رہے تھے کہ اس کے ایک شعر میں زبان کا ایک سقم ہے۔ بظاہر شعر ٹھیک ہے۔ مگر زباں داں اسے پکڑ لے گا۔ ایک دوست نے کہا کہ بخاری صاحب مشاعرے میں یہ شعر خوب چلے گا۔ زبان کے جس سقم پر آپ پریشان ہیں اس پر کس کی نظر جائے گی۔ سو میں سے کوئی ایک ہو گا جو اپنی باریک بینی سے اس عیب کو سمجھ پائے گا۔ بخاری صاحب بولے کہ اسی ایک سے تو میں ڈرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ شعر میں کوئی خامی نہ رہ جائے۔
رواں لکھنے والا ایسی باریک بینیوں میں نہیں پڑتا۔ رواں لکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ میرے قلم کی روانی میں زبان کے سارے عیب چھپ جائیں گے۔ یعنی اس مثل پر عمل کرتا ہے کہ آم کھانے سے مطلب رکھو۔ پیڑ گننے میں کیا رکھا ہے۔ اس کے اسی رویے میں اس کی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کی کیا پوچھتے ہو۔ اب تو اس عزیز کے ہونٹوں سے نکلا فقرہ بھی بیسٹ سیلر بن جاتا ہے۔ ان کے ایک فقرے کی ان دنوں شہر میں بہت دھوم ہے۔ کتنے دوستوں نے ہمیں آ کر بتایا کہ تارڑ صاحب نے انگریزی میں انٹرویو دیتے ہوئے یہ بیان جاری کیا ہے کہ اردو بہت محدود زبان ہے۔
دوستوں کے کہے کو تو ہم نے ایک کان سنا' دوسرے کان اڑا دیا۔ مگر ایک بی بی نے بڑے غصے میں ہمیں فون کیا۔ کہا کہ میں نے تو اردو کے فروغ کے لیے تحریک چلا رکھی ہے مگر مستنصر تارڑ صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ اردو بہت محدود زبان ہے۔ آپ بتائیے۔ کیا یہ بات صحیح ہے۔ ہم نے تامل کیا۔ پھر کہا کہ بی بی ہم تارڑ صاحب کی تردید کیسے کریں۔ ان کی نگارشات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اردو بہت محدود زبان ہے۔
ایک دوست نے آ کر یہ بتایا کہ تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ اب وہ انگریزی میں لکھا کریں گے۔ اس پر ایک ستم ظریف نے ٹکڑا لگایا کہ یہ انگریزی کے لیے اچھا شگن نہیں ہے۔ وہ تو اچھی بھلی گلوبل زبان ہے۔ تارڑ کے قلم کی زد میں آ کر کہیں وہ بھی محدود زبان نہ بن جائے۔
خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ لیکن ہم اس پر حیران ہیں کہ اگر اردو زبان محدود زبان ہے تو یہ مسئلہ مستنصر تارڑ کو کس حساب سے پریشان کر رہا ہے۔ اس عزیز کو کونسی فلسفیانہ گتھیاں سلجھانی ہیں کہ اسے اس زبان کے ہی محدود ہونے کا احساس ہوا۔ انگریزی میں رواں حضرات جب اردو میں کسی عالمی مسئلہ پر قلم اٹھاتے ہیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی فلسفیانہ نکتہ ہے تو اسے اردو میں کیسے بیان کریں۔ ان کی طرف سے یہ اعتراض آتا ہے کہ اردو محدود زبان ہے۔ اس میں نئے علمی مسائل بیان نہیں کیا جاسکتے مگر اس پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے اور کہا گیا ہے کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔
زبان سے آپ کو واقفیت نہیں ہے۔ چلے ہیں اس میں فلسفہ بگھارنے اپنی نااہلیت کا احساس نہیں۔ زبان کو الزام دیتے ہیں۔ مگر مستنصر تارڑ کے متعلق ہم ناچ نہ جاننے کا الزام نہیں لگا سکتے۔ ان کا قلم تو اردو میں خوب ناچتا ہے۔ زبان کیسی بھی لکھیں مگر رواں لکھتے ہیں جب ہی تو بیسٹ سیلر والوں کی صف میں آ گئے ہیں۔ وہ آنگن کو ٹیڑھا کیوں بتا رہے ہیں۔ کیا سفر نامے لکھتے لکھتے ان کی مٹھی میں کوئی فلسفہ آگیا ہے جو انھیں اپنے اظہار کی کوتاہی کا احساس ہو رہا ہے۔ ارے بھئی ایسی بات ہے تو اپنی زبان کی چولیں درست کر لیں۔ اس پر بھی بات نہ بنے تو پھر بیشک آنگن کو ٹیڑھا بتائیں۔ اور پھر بیشک انگریزی میں رواں ہو جائیں۔
ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو بھی لکھنے والا ہوتا ہے وہ شاعر ہو' ناول نگار ہو' تاریخ داں ہو' اسکالر ہو' فلسفی ہو وہ اگر صاحب ہنر ہے تو مروجہ اظہار کی کوتاہیوں کو دیکھ کر خود اپنے لیے نیا اظہار تراشتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سب سے پہلے تو علامہ اقبال نے یہ شکایت کی ہوتی مگر انھوں نے اردو شاعری میں رائج اسالیب برتتے برتتے محسوس کیا کہ اردو شاعروں کے تراشے ہوئے یہ اسالیب جو زبان ان کے پاس جو تجربہ ہے اس کے بیان کے لیے موزوں نہیں ہے۔ تو دیکھ لیجیے 'بانگ درا' سے 'بال جبریل' تک پہنچتے پہنچتے لگتا ہے کہ اب ان کا شعری تجربہ ایک نئی زبان میں اظہار پا رہا ہے' بانگ درا' میں ان کی جو غزلیں ہیں وہ تو داغ کی غزل والی زبان میں ہیں۔ 'بال جبریل' کی غزلوں میں لگتا ہے کہ یہاں کوئی نیا تغزل جنم لے رہا ہے۔ نئے استعارے نئی تلمیحیں' نئی ترکیبیں۔
مطلب یہ ہے کہ تخلیقی ذہن آنگن کے ٹیڑھا ہونے کی شکایت نہیں کرتا۔ وہ اپنے تخلیقی زور پر جو بھی آنگن اسے میسر ہے اس میں وسعتیں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ باقی جو رواں لکھنے والے ہیں ان میں ہم نے یہ سمجھداری دیکھی ہے کہ وہ اونچا اڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ زبان جتنی بھی ان کی زد میں ہوتی ہے اسی سے کام چلاتے ہیں اور خوب چلاتے ہیں۔ باقی زبان کا معاملہ تو یہ ہے کہ ہر زبان اپنی جگہ علم دریائو ہوتی ہے۔ اپنی وسعتیں وہ ان پر آشکار کرتی ہے جو اس کے لیے کشٹ کھینچتے ہیں' لمبی شناوری کرتے ہیں۔ رواں لکھنے والا کسی چکر میں نہیں پڑتا۔ وہ اپنے محدود میدان ہی میں رواں رہتا ہے اور کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ پھر اونچا وہ کیوں اڑے۔
ایک دوست نے ذوالفقار بخاری کا ایک قصہ سنایا۔ وہ اپنی نئی کہی ہوئی ایک غزل کے سلسلہ میں بہت تردد میں تھے۔ کہہ رہے تھے کہ اس کے ایک شعر میں زبان کا ایک سقم ہے۔ بظاہر شعر ٹھیک ہے۔ مگر زباں داں اسے پکڑ لے گا۔ ایک دوست نے کہا کہ بخاری صاحب مشاعرے میں یہ شعر خوب چلے گا۔ زبان کے جس سقم پر آپ پریشان ہیں اس پر کس کی نظر جائے گی۔ سو میں سے کوئی ایک ہو گا جو اپنی باریک بینی سے اس عیب کو سمجھ پائے گا۔ بخاری صاحب بولے کہ اسی ایک سے تو میں ڈرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ شعر میں کوئی خامی نہ رہ جائے۔
رواں لکھنے والا ایسی باریک بینیوں میں نہیں پڑتا۔ رواں لکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ میرے قلم کی روانی میں زبان کے سارے عیب چھپ جائیں گے۔ یعنی اس مثل پر عمل کرتا ہے کہ آم کھانے سے مطلب رکھو۔ پیڑ گننے میں کیا رکھا ہے۔ اس کے اسی رویے میں اس کی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔