دوسری قسم کی اشرافیہ

کچی اور پکی بستی کے نام سے یہ کراچی کے فیڈرل بی ایریا کی دو بستیوں کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی کہانی ہے۔

03332257239@hotmail.com

PESHAWAR:
پاکستان کی اشرافیہ پہلی مرتبہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ اس تقسیم کے ذمے دار عمران خان ہیں۔ نوجوان کہیں گے کہ ہم نے اشرف نامی شخص تو بہت دیکھے ہیں لیکن یہ اشرافیہ کیا ہوتی ہے؟ کچھ خواتین کہیں گی کہ ہم انسان کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں لیکن کالم نگار نے یہ اشرافیہ کا عنوان دے کر اس کی نہ جانے کون سی دو قسمیں بیان کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ایلیٹ کلاس یا خوشحال طبقے کو اشرافیہ کہا جاتا ہے۔ کچھ کالم نگار اسے ''بدمعاشیہ'' بھی کہتے ہیں۔ بائیں بازو کے سرخ انقلاب کا نعرہ لگانے والے اسے بورژوا طبقہ کہتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست میں آمد نے انقلاب کے لفظ کو بڑا مقبول بنادیا۔ لوگوں نے اسے تبدیلی کا نام دیا۔ سب کچھ بدل کر رکھ دینے کو انقلاب کہتے ہیں۔ کمزور اور غریب طبقہ اس کا حامی ہوتا ہے جب کہ طبقہ اشرافیہ اس کا مخالف ہوتا ہے۔ گاڑی، بنگلے، بینک بیلنس، کارخانے، فیکٹریاں اور دنیا بھر کے دورے کی مستی میں وہ نہیں چاہتا کہ کوئی تبدیلی آئے۔ وہ جوں کا توں یا ''اسٹیٹس کو'' کا حامی ہوتا ہے۔ جب یہ طبقہ دو حصوں میں بٹ گیا ہے اور اس کا کریڈٹ عمران خان کو دیا جا رہا ہے تو دل میں ایک کلی چٹختی ہے، ذہن میں یہ خیال انگڑائی لیتا ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا؟ تحریک انصاف کے جلسوں میں خوشحال گھرانوں کی بیگمات کیوں تبدیلی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں؟ آئیے ایلیٹ کلاس کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر جانتے ہیں کہ دوسری قسم کی اشرافیہ کون سی ہے۔

کچی اور پکی بستی کے نام سے یہ کراچی کے فیڈرل بی ایریا کی دو بستیوں کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی کہانی ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے بنگلے تھے تو دوسری طرف چھوٹے گھر اور جھونپڑے۔ دونوں آبادیوں کے چھ چھ ہزار ووٹ تھے۔ انتخابات میں پکی آبادی سے بمشکل پانچ سو ووٹ پڑتے اور کچی آبادی میں طویل قطاریں پولنگ اسٹیشن کے باہر دیکھی جاتیں۔ جب غریب غربا الیکشن والے دن ووٹ بھگتاتے اس وقت طبقہ امرا کے لوگ آرام کرتے، ٹی وی دیکھتے یا رشتے داروں کے ساتھ لنچ کرتے اور فیملی کے ساتھ ہوٹل میں ڈنر اڑانے کی پلاننگ کرتے۔ رات گئے انتخابی نتائج میں دلچسپی دونوں طبقوں میں برابر ہوتی۔ اشرافیہ کا طبقہ سمجھتا کہ انتخابات سے کچھ نہیں ہوگا۔ وہی چہرے دوبارہ آجائیں گے۔ ان کی زندگی خوب صورت گزر رہی ہے تو انھیں کیا فکر کہ کون آتا ہے اور کون جاتا ہے۔ اب اچانک یہ ایلیٹ کلاس کیوں تبدیلی کے لیے نکل کھڑی ہوئی ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔

امریکا میں ایک قدم تو یورپ میں دوسرا قدم۔ ناشتہ لاہور میں تو ڈنر واشنگٹن میں۔ لنچ کراچی میں تو شام کی چائے دبئی کے کسی ریسٹورنٹ میں۔ دنیا بھر کے دورے کرنے والے اس طبقے نے گزشتہ بیس برسوں میں اپنی توہین محسوس کی۔ دنیا بھر کے ایئرپورٹس پر پاکستانی ہونے کے سبب الگ قطار میں لگنا پڑا۔ ہرا پاسپورٹ دیکھنے پر امیگریشن والے مشکوک سمجھ کر تفتیشی دفتر میں لے گئے اور چھوڑ دیا۔ یہ اشرافیہ پچھلے کئی برسوں سے اس ذلت کو محسوس کر رہی ہے۔

وفاقی وزرا کی تلاشی اور معزز لوگوں کے جوتے اور بیلٹ اتارنے کی تصویریں میڈیا نے کئی مرتبہ عوام کو دکھائی ہیں۔ ایسیہی معاملات پر بھارت نے کئی مرتبہ سخت احتجاج کرکے گوروں کو اپنی اوقات میں رہنے پر مجبور کردیا۔ بھارتی سفارت خانے کی خاتون کا اپنی ہم وطن نوکرانی کو امریکی قانون کے مطابق تنخواہ نہ دینے کے معاملے نے ٹکراؤ پیدا کردیا۔ دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت امریکا اور سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں کشمکش پیدا ہوگئی۔ سپرپاور کو جھکنا پڑا۔ نریندرمودی کو ویزا نہ دینے کے اصولی موقف پر بھی امریکا پیچھے ہٹ گیا۔


''وکی لیکس'' نے جس طرح پاکستانی حکمرانوں کا چھوٹے موٹے امریکی افسران سے خوشامدانہ لہجہ بیان کیا اسے اہل وطن نے پسند نہیں کیا۔ طبقہ اشرافیہ کو محسوس ہوا کہ غیر ملکی ایئرپورٹس پر گوروں کا تحقیر آمیز سلوک حکمرانوں کے سبب ہے۔ یہ ہے پہلی وجہ جس نے خوشحال طبقے کو عمران کی جانب متوجہ کیا ہے۔ سبز پاسپورٹ کی عزت کروانے کے دعوے نے پاکستان کی ایلیٹ کلاس کو عمران کی جانب مائل کیا ہے۔ دوسری وجہ کیا ہے؟

کیمرے کی ایجاد کرنے والا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس کا استعمال یوں بھی ہوگا۔ امریکا کی ہر صبح سے شام تک پانچ سو مقامات پر تصویریں کھینچی جاتی ہیں۔ ہم اپنے بڑے شہروں میں سڑکوں، دفتروں اور بینکوں میں جائیں تو کم ازکم پچاس مرتبہ تو ہم بھی کیمروں کی زد میں آتے ہوں گے۔ اس کیمرے نے طبقہ اشرافیہ کے کام کو سہل کردیا۔ بنگلے کے باہر لگا کیمرہ پہلے ہی صاحب خانہ کو بتا دیتا ہے کہ کون آرہا ہے۔ گلی میں آنے والے اور گاڑی پارک کرنے والے مہمان کو پہلے ہی دیکھ لیا جاتا ہے۔

کیا یہ کیمرہ کسی خوشحال شخص کو اغوا ہونے سے بچا سکتا ہے؟ واکنگ، جاگنگ اور ہوٹلنگ کے دوران ڈر سے نجات نہیں ملتی۔ گھر سے دفتر یا کارخانے جاتے وقت خوف کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے۔ کیمرہ یہاں بھی کام آیا۔ بڑے بڑے صنعتکاروں نے اپنے بچوں کو مشرق وسطیٰ اور دبئی جیسے مقامات پر منتقل کردیا ہے۔ وہ کیمرے کی مدد سے اپنے دفتر کے اسٹاف کو ہدایات دے سکتے ہیں۔ وہ اس ایجاد کی بدولت اپنے کارخانے کی پیداواری صلاحیت کو دور ہی سے جانچ لیتے ہیں۔

سیکڑوں میل دور ہونے کے باوجود وہ یوں محسوس کرتے ہیں جیسے وہ اپنے پاکستان میں ہیں۔ پھر بھی دنیا کا کوئی خطہ کسی لاہوری کو مال روڈ پر شاپنگ کا مزہ دے سکتا ہے؟ کسی صنعتکار کی بیٹی کو دبئی کے سینٹرلی ایئرکنڈیشن سپر شاپنگ سینٹر میں خریداری کا وہ مزہ آسکتا ہے جو وہ کلفٹن کے عام سے سینٹر میں پاتی ہے؟ اپنا وطن اپنا وطن ہوتا ہے۔ کہیں بھی دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا اپنے وطن کے اول درجے کے شہری کی عزت نہیں دے سکتا۔ یہ ہیں دو وجوہات جس کے سبب پاکستان کی ایلیٹ کلاس عمران کی حامی ہوگئی ہے۔ طبقہ اشرافیہ کی دوسری قسم کون سی ہے جو کپتان کے خلاف ہے؟

نو دولتیے اور ایک آدھ عشرے میں خوشحال ہونے والا طبقہ عمران سے خوفزدہ ہے۔ خود غربت کے صحرا سے نکل کر خوشحالی کے جزیرے پر قدم رکھنے والا ڈرتا ہے کہ کہیں اس سے وہ کچھ نہ چھن جائے جو اسے دس بارہ سال قبل ہی ملا ہے۔ وہ اس خوشحالی کے بدلے وہ ذلت برداشت کرنے کو تیار ہے جو اسے بین الاقوامی ایئرپورٹس پر سہنی پڑتی ہے۔ وہ گوروں کے ہاتھوں توہین کا موازنہ اپنے ملک میں کالے انگریزوں سے کرتا ہے جو مفلسی کے سبب اس کی اہانت کرتے تھے۔

بنگلہ ابھی زیر تعمیر ہے، شاندار گاڑی لیے تین سال ہی ہوئے ہیں، غریب محلے دار ابھی تک ماضی کا تذکرہ کرتے ہیں، آداب شہنشاہی ابھی مکمل طور پر سیکھے ہی نہیں، بزرگ رشتے دار زمانہ محتاجی کی یاد دلاتے ذرا دیر نہیں لگاتے، ابھی تو مکمل خوشحالی کا مزہ ہی نہیں لیا کہ تبدیلی کے نعرے لگاتے عمران خان آگیا۔ نیا نیا امیر جو کلاس بدلنے اور طبقہ مالدار میں جانے کو بے تاب و بے چین ہے وہ انتہائی تلخی سے پوچھتا ہے کہ اس کی کنگالی کے زمانے میں آج کے انقلابی کہاں تھے؟ یہ ہے تبدیلی کے مخالف نو دولتیے یا دوسری قسم کی اشرافیہ۔
Load Next Story