زندگی پر ایک اور راستہ بند
بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اگر اپنا ریسکیو منصوبہ ہم عوام کےعلم میں لائے بغیر ختم کردیا تو اس میں حیرت اورافسوس کی کیا بات۔
میرے ملک میں اور خاص طور پر میرے شہر میں اجل کے لیے ہزار راستے ہیں، وہ وارداتوں سے حادثات تک کسی بھی شکل میں آکر ہم شہریوں کو اپنا تر نوالہ بنا سکتی ہے، لیکن زندگی... اس پر سارے راستے بند ہیں اور کوئی راہ کھلنے بھی لگے تو اس پر کانٹے اور پتھر بچھا دیے جاتے ہیں۔ سو بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اگر اپنا ریسکیو منصوبہ ہم عوام کے علم میں لائے بغیر ختم کردیا تو اس میں حیرت اور افسوس کی کیا بات۔ ہم شہریوں کا یہی مقدر ہے۔
اب کراچی کے شہری بس یہ جان کر خوش ہوجائیں کہ ان کے لیے کتنا مفید اور ضروری منصوبہ بنایا گیا تھا، جس کا مقصد کراچی کے باسیوں کو کسی بھی ناگہانی آفت اور ہنگامی صورت حال میں محفوظ رکھنے اور ان کی زندگی بچانے کے لیے حفاظتی خدمات کی فوری فراہمی تھا۔ ریسکیو خدمات کی فراہمی کے اس منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر 10 کروڑ روپے کی 10 جدید مرسڈیز ایمبولینسیں بیرون ملک سے منگوائی گئی تھیں۔ بعد میں ان ایمبولینسوں اور ریسکیو رضاکاروں کی تعداد کو بڑھایا جانا تھا۔
اس کے ساتھ کراچی کے تمام اضلاع میں ریسکیو سینٹرز کا قیام بھی اس منصوبے کا حصہ تھا تاکہ کسی بھی نوعیت کی ایمرجنسی کی صورت میں ایک ٹیلیفون کال پر اطلاع ملتے ہی ریسکیو عملہ صرف 7 منٹ کے اندر متعلقہ مقام پر پہنچ سکے اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے تک بنیادی طبی امداد دے کر جان بچائی جا سکے۔
یاد رہے کہ یہ منصوبہ کس شہر کے لیے تھا۔ اس شہر کے لیے جہاں بم دھماکوں یا ہنگامی حالات میں رفاہی اداروں کے غیر تربیت یافتہ رضاکار ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی خاطر جائے وقوعہ پر لڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ایک زخمی یا میت کواٹھانے کے لیے چھینا جھپٹی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں ایمبولینسوں کا اتنا رش لگ جاتا ہے کہ رضاکاروں کو ریسکیو کے کام میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔
یہ منصوبہ اس شہر کے رہنے والوں کی سہولت کی خاطر بنایا گیا تھا جہاں ایک خبر کے مطابق سرکاری اسپتالوں کو فراہم کی گئی پچیس ایمبولینسوں میں سے اکثر جاں بہ لب اور شدید تکلیف میں مبتلا مریضوں کو لانے لے جانے کے بجائے ان اسپتالوں کی انتظامیہ کے لوگوں کے ذاتی استعمال میں ہیں۔
اس منصوبے کو کراچی کے شہریوں کے لیے زندگی کی نوید بننا تھا۔ کراچی جہاں ڈکیتی اور راہ زنی کی وارداتوں میں مال کے ساتھ جان لے لینا عام سی بات ہے، جہاں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں ہر ایک کو خوف زدہ کیے ہوئے ہیں، جہاں خوف ناک اور جان لیوا ٹریفک حادثات معمول ہیں، جس شہر میں آگ لگنے اور برسات کی صورت میں شعلے اور پانی جان کی بھینٹ لے کر ہی رہتے ہیں اور مصیبت زدہ افراد مدد کے لیے پکارتے پکارتے جان سے گزر جاتے ہیں۔ تو صاحب! موت کے اس پسندیدہ اور منتخب شہر سے زندگی کا تحفہ چھین لیا گیا۔
ریسکیو منصوبہ ختم کردیا گیا۔ اس حوالے سے دل کو رلاتی اور خون جلاتی خبر کے مطابق اس ریسکیو منصوبے کے لیے 5 سال قبل خریدی گئی کروڑوں روپے مالیت کی ایمبولینسیں کھڑے کھڑے خراب ہوگئی ہیں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس ایمبولینسوں کی مرمت کے لیے فنڈز موجود نہیں ہیں، چنانچہ ایمبولینسوں کو شہری حکومت کے مرکزی دفتر سوک سینٹر میں کھڑا کردیا گیا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سندھ کے 6 کروڑ عوام کے لیے سرکاری سطح پر ایمبولینس سروس سمیت کسی بھی قسم کی ریسکیو سروس موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے سندھ کے عوام فلاحی اداروں کی غیرمعیاری، ناقابل اعتبار ایمبولینسیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جن میں سے90 فیصد سے زائد ہائی روف کو تبدیل کر کے بنائی گئی ہیں۔
اس منصوبے کے خاتمے پر نوحہ کرتے ہوئے یہ حقائق جاننا بھی ضروری ہیں کہ کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل اور بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ شہر کے تین بڑے سرکاری اسپتالوں میں دہشت گردی اور ناگہانی آفات کے نتیجے میں شدید زخمی اور ہلاک ہوجانے والے افراد کی مناسب دیکھ بھال اور علاج کی سہولتیں تقریباً ناپید ہیں۔ شہر کی دو کروڑ آبادی کے لیے بنائے گئے صرف 3 بڑے سرکاری اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں 200 کے قریب بستر موجود ہیں، اسپتالوں کے پاس اپنی ایمبولینس سروس موجود نہیں ہے، صرف ایک سرکاری اسپتال کے پاس برنس وارڈ کے محض 60 بیڈ موجود ہیں۔
کراچی آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ بہت وسیع رقبے پر بے ہنگم انداز میں پھیلا شہر ہے جہاں مضافات میں رہنے والے مریضوں کو طویل فاصلہ طے کرکے سرکاری اسپتالوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ آلودہ پانی، فضائی آلودگی اور صحت کے دیگر مسائل تو اپنی جگہ دہشت گردی، حادثات اور قدرتی آفات بھی کراچی کے کتنے ہی خاندانوں کے اپنوں سے ہمیشہ کی جدائی کے غم سے دوچار کرجاتی ہیں۔ یہاں ریسکیو اور ایمرجنسی کے فرائض انجام دینے والے اداروں کا کیا حال ہے؟
اس کا اندازہ بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ میں پھنس کر درجنوں افراد کی ہلاکت اور گزشتہ دنوں جناح ایئرپورٹ پر ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں محصور ہوکر مدد کے انتظار میں کتنی ہی زندگیوں کے جل جانے کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔
ایسے واقعات اور روز کے حالات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کا یہ منصوبہ اس شہر کے رہنے والوں کی کتنی بڑی ضرورت تھا۔ پھر ایسے ناگزیر منصوبے کو یکایک کیوں ختم کردیا گیا؟ ہے کوئی پوچھنے والا؟ دے گا کوئی جواب؟ اگر یہ بلدیہ عظمیٰ کے مالی وسائل کی کمی کا شاخسانہ ہے تو سوال یہ ہے کہ دو کروڑ سے زائد آبادی والے میٹروپولیٹن سٹی کو جو ملک کا معاشی مرکز ہے، کی بلدیہ کے پاس اتنے مالی وسائل بھی نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکے؟
نہیں صاحب! نہ کوئی سوال اٹھے گا نہ کوئی جواب آئے گا کیوں کہ یہ معاملہ عام آدمی کی زندگی کا ہے، اور ہمارے ایوانوں سے اداروں تک اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ عام آدمی کو جینا ہے تو مکمل ''خودانحصاری'' کے ساتھ جیے، ایوان اور ادارے اس کے لیے نہیں بنے، وہ جن کے لیے بنے ہیں ان کے کام آرہے ہیں۔
اب کراچی کے شہری بس یہ جان کر خوش ہوجائیں کہ ان کے لیے کتنا مفید اور ضروری منصوبہ بنایا گیا تھا، جس کا مقصد کراچی کے باسیوں کو کسی بھی ناگہانی آفت اور ہنگامی صورت حال میں محفوظ رکھنے اور ان کی زندگی بچانے کے لیے حفاظتی خدمات کی فوری فراہمی تھا۔ ریسکیو خدمات کی فراہمی کے اس منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر 10 کروڑ روپے کی 10 جدید مرسڈیز ایمبولینسیں بیرون ملک سے منگوائی گئی تھیں۔ بعد میں ان ایمبولینسوں اور ریسکیو رضاکاروں کی تعداد کو بڑھایا جانا تھا۔
اس کے ساتھ کراچی کے تمام اضلاع میں ریسکیو سینٹرز کا قیام بھی اس منصوبے کا حصہ تھا تاکہ کسی بھی نوعیت کی ایمرجنسی کی صورت میں ایک ٹیلیفون کال پر اطلاع ملتے ہی ریسکیو عملہ صرف 7 منٹ کے اندر متعلقہ مقام پر پہنچ سکے اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے تک بنیادی طبی امداد دے کر جان بچائی جا سکے۔
یاد رہے کہ یہ منصوبہ کس شہر کے لیے تھا۔ اس شہر کے لیے جہاں بم دھماکوں یا ہنگامی حالات میں رفاہی اداروں کے غیر تربیت یافتہ رضاکار ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی خاطر جائے وقوعہ پر لڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ایک زخمی یا میت کواٹھانے کے لیے چھینا جھپٹی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں ایمبولینسوں کا اتنا رش لگ جاتا ہے کہ رضاکاروں کو ریسکیو کے کام میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔
یہ منصوبہ اس شہر کے رہنے والوں کی سہولت کی خاطر بنایا گیا تھا جہاں ایک خبر کے مطابق سرکاری اسپتالوں کو فراہم کی گئی پچیس ایمبولینسوں میں سے اکثر جاں بہ لب اور شدید تکلیف میں مبتلا مریضوں کو لانے لے جانے کے بجائے ان اسپتالوں کی انتظامیہ کے لوگوں کے ذاتی استعمال میں ہیں۔
اس منصوبے کو کراچی کے شہریوں کے لیے زندگی کی نوید بننا تھا۔ کراچی جہاں ڈکیتی اور راہ زنی کی وارداتوں میں مال کے ساتھ جان لے لینا عام سی بات ہے، جہاں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں ہر ایک کو خوف زدہ کیے ہوئے ہیں، جہاں خوف ناک اور جان لیوا ٹریفک حادثات معمول ہیں، جس شہر میں آگ لگنے اور برسات کی صورت میں شعلے اور پانی جان کی بھینٹ لے کر ہی رہتے ہیں اور مصیبت زدہ افراد مدد کے لیے پکارتے پکارتے جان سے گزر جاتے ہیں۔ تو صاحب! موت کے اس پسندیدہ اور منتخب شہر سے زندگی کا تحفہ چھین لیا گیا۔
ریسکیو منصوبہ ختم کردیا گیا۔ اس حوالے سے دل کو رلاتی اور خون جلاتی خبر کے مطابق اس ریسکیو منصوبے کے لیے 5 سال قبل خریدی گئی کروڑوں روپے مالیت کی ایمبولینسیں کھڑے کھڑے خراب ہوگئی ہیں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس ایمبولینسوں کی مرمت کے لیے فنڈز موجود نہیں ہیں، چنانچہ ایمبولینسوں کو شہری حکومت کے مرکزی دفتر سوک سینٹر میں کھڑا کردیا گیا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سندھ کے 6 کروڑ عوام کے لیے سرکاری سطح پر ایمبولینس سروس سمیت کسی بھی قسم کی ریسکیو سروس موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے سندھ کے عوام فلاحی اداروں کی غیرمعیاری، ناقابل اعتبار ایمبولینسیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جن میں سے90 فیصد سے زائد ہائی روف کو تبدیل کر کے بنائی گئی ہیں۔
اس منصوبے کے خاتمے پر نوحہ کرتے ہوئے یہ حقائق جاننا بھی ضروری ہیں کہ کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل اور بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ شہر کے تین بڑے سرکاری اسپتالوں میں دہشت گردی اور ناگہانی آفات کے نتیجے میں شدید زخمی اور ہلاک ہوجانے والے افراد کی مناسب دیکھ بھال اور علاج کی سہولتیں تقریباً ناپید ہیں۔ شہر کی دو کروڑ آبادی کے لیے بنائے گئے صرف 3 بڑے سرکاری اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں 200 کے قریب بستر موجود ہیں، اسپتالوں کے پاس اپنی ایمبولینس سروس موجود نہیں ہے، صرف ایک سرکاری اسپتال کے پاس برنس وارڈ کے محض 60 بیڈ موجود ہیں۔
کراچی آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ بہت وسیع رقبے پر بے ہنگم انداز میں پھیلا شہر ہے جہاں مضافات میں رہنے والے مریضوں کو طویل فاصلہ طے کرکے سرکاری اسپتالوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ آلودہ پانی، فضائی آلودگی اور صحت کے دیگر مسائل تو اپنی جگہ دہشت گردی، حادثات اور قدرتی آفات بھی کراچی کے کتنے ہی خاندانوں کے اپنوں سے ہمیشہ کی جدائی کے غم سے دوچار کرجاتی ہیں۔ یہاں ریسکیو اور ایمرجنسی کے فرائض انجام دینے والے اداروں کا کیا حال ہے؟
اس کا اندازہ بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ میں پھنس کر درجنوں افراد کی ہلاکت اور گزشتہ دنوں جناح ایئرپورٹ پر ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں محصور ہوکر مدد کے انتظار میں کتنی ہی زندگیوں کے جل جانے کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔
ایسے واقعات اور روز کے حالات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کا یہ منصوبہ اس شہر کے رہنے والوں کی کتنی بڑی ضرورت تھا۔ پھر ایسے ناگزیر منصوبے کو یکایک کیوں ختم کردیا گیا؟ ہے کوئی پوچھنے والا؟ دے گا کوئی جواب؟ اگر یہ بلدیہ عظمیٰ کے مالی وسائل کی کمی کا شاخسانہ ہے تو سوال یہ ہے کہ دو کروڑ سے زائد آبادی والے میٹروپولیٹن سٹی کو جو ملک کا معاشی مرکز ہے، کی بلدیہ کے پاس اتنے مالی وسائل بھی نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکے؟
نہیں صاحب! نہ کوئی سوال اٹھے گا نہ کوئی جواب آئے گا کیوں کہ یہ معاملہ عام آدمی کی زندگی کا ہے، اور ہمارے ایوانوں سے اداروں تک اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ عام آدمی کو جینا ہے تو مکمل ''خودانحصاری'' کے ساتھ جیے، ایوان اور ادارے اس کے لیے نہیں بنے، وہ جن کے لیے بنے ہیں ان کے کام آرہے ہیں۔