پاکستان ایک نظر میں بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
خان صاحب، آپ کو لوگوں اور پولیس کا تصادم کروا کر یہ سمجھ آیا کہ نوازشریف کے استعفی کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔
عمران خان صاحب ا س میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی نوجوان نسل آپکی دیوانی ہے وہ آپ کے ایک اشارے پر کسی بھی شہر میں چند گھنٹوں کے نوٹس پر جلسہ بھی کرسکتے ہیں۔ آپ کے تقریر کرنے کا انداز بھی اچھوتا ہے آپ جب بولتے ہیں تو ہر سننے والو کو لگتا ہے کہ عمران خان صرف براہ راست مجھ ہی سے مخاطب ہے ۔اور ہم یہ بھی مانتا ہوں کہ ورلڈکپ کی جیت سے لے کر شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی جیسے کارنامے آپکے کریڈٹ پہ ہیں۔
مگر خان صاحب ماضی میں آپ نے ہر کہے کو پورا کیا مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی میدان میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ آپ نے قوم سے تبدیلی لانے کا وعدہ کیا مگر ایسے لگ رہا ہے کہ اب تبدیلی لاتے لاتے آپ خود تبدیل ہو رہے ہیں ۔ خان صاحب آپ نے رحیم یار خان کے جلسے میں کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کے ماتحت جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں جو انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرے اور اگر تحقیقات میں دھاندلی ثابت ہوجائے تو پھر نواز شریف کو استعفیٰ دینا ہوگا وگرنہ آپ دھرنا ختم کردیں گے۔ کیا یہی تبدیلی ہے؟ یا اب بھی کچھ باقی ہے؟۔ کل تک تو آپ نوازشریف کے استعفی کے لیے اِس طرح بےقرار تھے جیسے کوئی مچھلی بغیر پانی کے ہوتی ہے۔ اور آپکا مطالبہ یہی تھا کہ نوازشریف کے نیچے کوئی انکوائری قبول نہیں کی جائے گی ۔
مگر اب کیا ہوا؟ آپ تھک گئے یا آپ کا اپنی عوام پر سے اعتماد اُٹھ گئے جو گزشتہ 88 دنوں سے آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے یا پھر آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا کہ جذبات میں آپ نے تلخ مطالبہ کردیا کہ اگر یہی موقف اپنانا تھا تو دھرنے دینے کی کیا ضرورت تھی؟ ۔یہی وہ بات نہیں جو آپ کے اتحادی اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب مسلسل آپ کو سمجھا رہے تھے کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ وزیراعظم کے استعفی کے مطالبہ سے دستبردار ہوجائیے پھر پوری قوم آپ کے ساتھ ہوگی کہ وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ مگرآپ تھے کہ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔
خان صاحب ، آپ کو ایک انتہائی جوشیلی تحریک کو پروان چڑھا کر، لوگوں اور پولیس کا تصادم کروا کر آپ کو یہ سمجھ آیا کہ نوازشریف کے استعفی کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ خان صاحب کوئی ترقی یافتہ ملک ہوتا تو وہاں آپ یہ اپنے سیاسی تجربے آرام سے کرسکتے تھے مگرجناب اسوقت ملک شدید بحرانوں کا شکار ہے اور قوم حالت نزع میں ہے ایسے حالات میں پاکستان کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو مستقبل کے جھرنکوں میں جھانک کر بہتر اور لاجواب فیصلے کر سکے ۔
عمران صاحب نوجوان نسل آپکو امید بھری نگاہ سے دیکھتی ہے انکو آپکی تقاریر سن کر لگتا ہے کہ ہمارے پیارے پاکستان میں بھی ایک دن خوشحالی کا سویرا طلوع ہوگا جہاں کوئی ماں اپنے بچوں کوبھوک کی وجہ سے قتل نہیں کرے گی، جہاں کوئی پڑھا لکھا نوجوان بیروزگار نہیں رہے گا، جہاں لوڈشیڈنگ کی راہوں میں رکاوٹیں ڈال دی جائینگی، جب ملک میں صنعتی انقلاب آئے گا جب پاکستان غریب ملکوں کو قرضے دیا کرے گا جب پاکستان کا اقوام متحدہ میں اتنا اثرورسوخ ہوگا کہ کوئی بھی فیصلہ پاکستان کی مرضی و منشا کے بغیر نہیں ہوسکے گا ۔جب پاکستان کی یونیورسٹیوں میں امریکہ اور یورپ کے طالب علم داخلہ ملنا اپنی خوش قسمتی سمجھیں گے ۔
خان صاحب یہ نوجوان جاگتی آنکھوں سےروز خواب دیکھتے ہیں اور وہ آپکے اندر ایک مسیحا دیکھ رہے ہیں لیکن آپ کے بدلتے ارادے کہیں انکے اندر کی امیدیں نہ توڑ دیں !۔
عمران خان صاحب آپ اپنی تقاریر میں قائداعظم محمد علی جناح کے بہت حوالے دیتے ہیں تو پھر آپکو قائداعظم محمد علی جناح کا وہ مشہور قول بھی یاد ہوگا جب انہوں نے فرمایا تھا کہ ''میں صحیح یا غلط فیصلہ نہیں کرتا ۔ میں فیصلہ کرتاہوں اور پھر اسے صحیح ثابت کرتا ہوں'' اور قائداعظم محمد علی جناح نے ایک اور جگہ فرمایا تھا کہ ''فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچو مگر جب ایک بار فیصلہ کرلو تو اس پہ ڈٹ جاو '' مگر عمران خان صاحب آپکی پالیسی دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں یا نہیں اسکا تو پتا نہیں البتہ فیصلہ کرنے کے بعد اسے سو بار بدل ضرور دیتے ہیں ۔ عمران خان صاحب ہمیں آپکی نیت پہ ہرگز شک نہیں مگر ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ کی کس بات پر یقین کریں کہ ناجانے آپ اپنی کس بات سے پھسل جائیں۔
خان صاحب ذرا سوچیئے کل کو آپ وزیراعظم بن گئے تو کیا ہوگا ؟ آپ نے قوم سے وعدہ کررکھا ہے آپ ڈرون حملے بند کروائیں گے، لوڈشیڈنگ ختم ہوگی ، تعلیمی ترقی ہوگی لیکن اگر وزیراعظم بننے کے بعد بھی آپ کے موقف میں ایسی کوئی تبدیلی آگئی تو پھر کیا ہوگا ؟ ایسی تبدیلی تو محترم شہباز شریف بھی لائے تھے جب انہوں نے کہا کہ چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بھی شہباز شریف نہیں ہے جبکہ اب حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ چھ ماہ کی بجائے چھ سال بھی گزر جائے تو شہباز شریف نہ تو لوڈ شیڈنگ ختم کرسکیں گے اور نہ اپنا نام بدلیں گے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کی جانب سے ایسے نعرے لگانا کہ آپ چاند بھی لائیں گے اور تارے بھی۔ مگر کہنے کو یہ بہت آسان ہے لیکن پلیزایسے نہ کریں ۔فیصلہ کرنے سے پہلے خوب غور کرلیں۔ مستقبل میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے دیگرقابل اعتماد لوگوں سے یا پھر جماعتوں سے مشاورت کرلیا کریں کہ یہ ایک اچھا فعل ہے اور جب فیصلہ کرلیں تو اسے پورا بھی کریں ورنہ وقت اور تاریخ بہت بے رحم ہے۔ چمکتی آنکھوں اور جگمگاتے چہروں والے نوجوانوں کی امیدیں ٹوٹیں تو پھر جو اس ملک میں ہوگا اسکا تصور ہی بدن پہ کپکپی طاری کرنے کے لیے کافی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مگر خان صاحب ماضی میں آپ نے ہر کہے کو پورا کیا مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی میدان میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ آپ نے قوم سے تبدیلی لانے کا وعدہ کیا مگر ایسے لگ رہا ہے کہ اب تبدیلی لاتے لاتے آپ خود تبدیل ہو رہے ہیں ۔ خان صاحب آپ نے رحیم یار خان کے جلسے میں کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کے ماتحت جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں جو انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرے اور اگر تحقیقات میں دھاندلی ثابت ہوجائے تو پھر نواز شریف کو استعفیٰ دینا ہوگا وگرنہ آپ دھرنا ختم کردیں گے۔ کیا یہی تبدیلی ہے؟ یا اب بھی کچھ باقی ہے؟۔ کل تک تو آپ نوازشریف کے استعفی کے لیے اِس طرح بےقرار تھے جیسے کوئی مچھلی بغیر پانی کے ہوتی ہے۔ اور آپکا مطالبہ یہی تھا کہ نوازشریف کے نیچے کوئی انکوائری قبول نہیں کی جائے گی ۔
مگر اب کیا ہوا؟ آپ تھک گئے یا آپ کا اپنی عوام پر سے اعتماد اُٹھ گئے جو گزشتہ 88 دنوں سے آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے یا پھر آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا کہ جذبات میں آپ نے تلخ مطالبہ کردیا کہ اگر یہی موقف اپنانا تھا تو دھرنے دینے کی کیا ضرورت تھی؟ ۔یہی وہ بات نہیں جو آپ کے اتحادی اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب مسلسل آپ کو سمجھا رہے تھے کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ وزیراعظم کے استعفی کے مطالبہ سے دستبردار ہوجائیے پھر پوری قوم آپ کے ساتھ ہوگی کہ وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ مگرآپ تھے کہ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔
خان صاحب ، آپ کو ایک انتہائی جوشیلی تحریک کو پروان چڑھا کر، لوگوں اور پولیس کا تصادم کروا کر آپ کو یہ سمجھ آیا کہ نوازشریف کے استعفی کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ خان صاحب کوئی ترقی یافتہ ملک ہوتا تو وہاں آپ یہ اپنے سیاسی تجربے آرام سے کرسکتے تھے مگرجناب اسوقت ملک شدید بحرانوں کا شکار ہے اور قوم حالت نزع میں ہے ایسے حالات میں پاکستان کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو مستقبل کے جھرنکوں میں جھانک کر بہتر اور لاجواب فیصلے کر سکے ۔
عمران صاحب نوجوان نسل آپکو امید بھری نگاہ سے دیکھتی ہے انکو آپکی تقاریر سن کر لگتا ہے کہ ہمارے پیارے پاکستان میں بھی ایک دن خوشحالی کا سویرا طلوع ہوگا جہاں کوئی ماں اپنے بچوں کوبھوک کی وجہ سے قتل نہیں کرے گی، جہاں کوئی پڑھا لکھا نوجوان بیروزگار نہیں رہے گا، جہاں لوڈشیڈنگ کی راہوں میں رکاوٹیں ڈال دی جائینگی، جب ملک میں صنعتی انقلاب آئے گا جب پاکستان غریب ملکوں کو قرضے دیا کرے گا جب پاکستان کا اقوام متحدہ میں اتنا اثرورسوخ ہوگا کہ کوئی بھی فیصلہ پاکستان کی مرضی و منشا کے بغیر نہیں ہوسکے گا ۔جب پاکستان کی یونیورسٹیوں میں امریکہ اور یورپ کے طالب علم داخلہ ملنا اپنی خوش قسمتی سمجھیں گے ۔
خان صاحب یہ نوجوان جاگتی آنکھوں سےروز خواب دیکھتے ہیں اور وہ آپکے اندر ایک مسیحا دیکھ رہے ہیں لیکن آپ کے بدلتے ارادے کہیں انکے اندر کی امیدیں نہ توڑ دیں !۔
عمران خان صاحب آپ اپنی تقاریر میں قائداعظم محمد علی جناح کے بہت حوالے دیتے ہیں تو پھر آپکو قائداعظم محمد علی جناح کا وہ مشہور قول بھی یاد ہوگا جب انہوں نے فرمایا تھا کہ ''میں صحیح یا غلط فیصلہ نہیں کرتا ۔ میں فیصلہ کرتاہوں اور پھر اسے صحیح ثابت کرتا ہوں'' اور قائداعظم محمد علی جناح نے ایک اور جگہ فرمایا تھا کہ ''فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچو مگر جب ایک بار فیصلہ کرلو تو اس پہ ڈٹ جاو '' مگر عمران خان صاحب آپکی پالیسی دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں یا نہیں اسکا تو پتا نہیں البتہ فیصلہ کرنے کے بعد اسے سو بار بدل ضرور دیتے ہیں ۔ عمران خان صاحب ہمیں آپکی نیت پہ ہرگز شک نہیں مگر ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ کی کس بات پر یقین کریں کہ ناجانے آپ اپنی کس بات سے پھسل جائیں۔
خان صاحب ذرا سوچیئے کل کو آپ وزیراعظم بن گئے تو کیا ہوگا ؟ آپ نے قوم سے وعدہ کررکھا ہے آپ ڈرون حملے بند کروائیں گے، لوڈشیڈنگ ختم ہوگی ، تعلیمی ترقی ہوگی لیکن اگر وزیراعظم بننے کے بعد بھی آپ کے موقف میں ایسی کوئی تبدیلی آگئی تو پھر کیا ہوگا ؟ ایسی تبدیلی تو محترم شہباز شریف بھی لائے تھے جب انہوں نے کہا کہ چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بھی شہباز شریف نہیں ہے جبکہ اب حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ چھ ماہ کی بجائے چھ سال بھی گزر جائے تو شہباز شریف نہ تو لوڈ شیڈنگ ختم کرسکیں گے اور نہ اپنا نام بدلیں گے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کی جانب سے ایسے نعرے لگانا کہ آپ چاند بھی لائیں گے اور تارے بھی۔ مگر کہنے کو یہ بہت آسان ہے لیکن پلیزایسے نہ کریں ۔فیصلہ کرنے سے پہلے خوب غور کرلیں۔ مستقبل میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے دیگرقابل اعتماد لوگوں سے یا پھر جماعتوں سے مشاورت کرلیا کریں کہ یہ ایک اچھا فعل ہے اور جب فیصلہ کرلیں تو اسے پورا بھی کریں ورنہ وقت اور تاریخ بہت بے رحم ہے۔ چمکتی آنکھوں اور جگمگاتے چہروں والے نوجوانوں کی امیدیں ٹوٹیں تو پھر جو اس ملک میں ہوگا اسکا تصور ہی بدن پہ کپکپی طاری کرنے کے لیے کافی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔