لیاری کا آج اور کل
لیاری کو بھٹو دور حکومت میں ایک خاص اہمیت حاصل تھی، وہاں پر ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا تھا۔
شہر کر اچی کا نقشہ اگر ہم دیکھیں تو ہر پوش علاقے کے ساتھ ایک گندی، قبضہ مافیا کے زیر سایہ بستی ضرور نظر آتی ہے جہاں لاچار، مفلوک الحال انسان زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے ہر قسم کے کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں، ان میں کچھ ان پوش علاقوں میں گھروں کے کاموں کا ذمہ بھی اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔
ایک طرف اس قدر آرام و آسائش کی زندگی تو دوسری جانب اتنی غربت و جہالت، یہ کیسا انصاف ہے، یہ کیسی تقسیم ہے جو نسل در نسل چلتی چلی آرہی ہے؟ ایک جانب اتنا امن و سکون، اس قدر پہرے کہ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تو دوسری جانب پورا علاقہ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ہم دور کیوں جائیں لیاری سے تھوڑے فاصلے پر ڈیفنس کا علاقہ، ہوٹلز و سفارت خانے موجود ہیں، وہاں بدامنی کا ایک پتہ نہیں ہل سکتا، دوسری طرف لیاری اور اس سے ملحقہ اولڈ سٹی ایریاز ہیں، کہ جہاں بدامنی و دہشت گردی اپنے عروج پر ہے، دستی بم، کریکرز سے دوبدو لڑائی جاری ہے۔
گویا دشمن کی دو فوجیں آمنے سامنے صف آرا ہیں، قانون نافذ کرنے والے لیاری میں داخل ہونے سے گریزاں ہیں، لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں، مکین نقل مکانی پر مجبور ہیں، اخبار و میڈیا کوریج دکھا دکھا کر تھک گئے، مگر قانون کے محافظ امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ ایک دن کی بات نہیں، کئی سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ قبضے کی اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان انھی غریب مکینوں کو ہوتا ہے جو اپنے روزگار کے لیے ہی باہر نہیں نکل سکتے تو دیگر ضروریات زندگی کے کیا کہنے۔ حکومت ہے جس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اگر ہم چار دہائی قبل ماضی میں جائیں تو لیاری والے اس قدر بے بس و لاچار نہ تھے، ایک ترقی پذیر معاشرے کی بنیادیں استوار ہورہی تھیں، سیاسی لحاظ سے لیاری کو اگر پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ لیاری کو بھٹو دور حکومت میں ایک خاص اہمیت حاصل تھی، وہاں پر ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا تھا، اسکولوں اور کالجوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا، خاص کر این جی اوز کے توسط سے لڑکیوں کے لیے انڈسٹریل ہومز کا قیام عمل میں آیا تھا، اسی لیے اس دوران یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں اچھے اساتذہ، وکیل، بینکرز اور اچھے کھلاڑی سامنے آئے، جنھوں نے سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں اپنا نام پیدا کیا۔
لیاری میں کبھی ٹیلنٹ کی کمی نہیں تھی، ایسے بھی کھلاڑی سامنے آئے جو بنا کسی حکومتی سرپرستی کے اپنی مدد آپ کے تحت ملک کا نام روشن کرنے میں کامیاب ہوئے، ان میں باکسنگ کے شعبے میں مہراﷲ، حسین شاہ، عظیم بلوچ جیسے نامور کھلاڑی اور فٹ بال کے کھلاڑیوں میں کیپٹن محمد عمر، استاد داد محمد ددو ، علی نواز، حسین کلر، غفور مجنا، مولابخش گوٹائی، سرور، تاجی ، یوف سینئر، و جونیئر، جبار،غفار، استاد اقبال بلوچ، استاد اکبر استاد ستار جبل جیسے بے شمار مایہ ناز کھلاڑی شامل تھے۔ لیاری کے لوگوں کا سیاسی شعور دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو نے ساٹھ کی دہائی میں اسمبلی انتخابات میں مسلم لیگ کے امیدوار میر حبیب اﷲ پراچہ کو اسی حلقے سے شکست دی تھی ۔
باقی بلوچ نے یہاں سے انتخاب لڑا تھا، کئی سیاسی لیڈر انور بھائی جان، واجہ کریم داد ، امداد حسین شاہ، علی احمد سومرو، ستار گبول ، غلام محمد چشتی ، رحیم بلوچ ،اسی علاقے کی دین ہیں، جنھوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز لیاری سے کیا ۔ قائداعظم کے دست راست اور تحریک آزادی کے مشہور لیڈر محمود ہارون لیاری کے حلقے سے پارلیمنٹ کے رکن بنے تھے، ہارون خاندان کے سیاسی اثرات و خدمات ہیں۔
ایک اور شخصیت جس کا نام یہاں لینا ضروری ہے ملک کے سابق مایہ ناز چیف جسٹس سجاد حسین شاہ بھی لیاری سے تعلق رکھتے تھے۔ پروفیسر علی محمد شاہین کا پورا علمی دور لیاری مین نوجوان نسل کو بلا معاوضہ پڑھانے میں صرف ہوا۔یہیں 1970-71کے دورام فری اسٹریٹ اسکول کا کامیاب تجربہ کیا گیا ،جس کے نتیجہ میں لیاری میں آج بھی کچھ اسٹریٹ اسکول فری ٹیوشن سینٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔محمود عالم اور امین بلوچ اس مشن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، کلاکوٹ میں ایک طرف گینگ وار ہے تو دوسری طرف اسٹریٹ اسکول سمیت این جی اوز اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں،لیاری ریسورس سینٹر موجود ہے۔
بھٹو دور حکومت میں لیاری میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوئے، مکانات کی لیزنگ، پانی کی گھر گھر فراہمی، سیوریج لائنوں کی تنصیب، بلوچستان ہائی وے کی تعمیر آر سی ڈی کے تحت شروع کروائی گئی، لیاری میں تجارتی سرگرمیاں تیز ہونا شروع ہوئی تھیں، غربت اور بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے پاسپورٹ فیس میں کمی کی گئی،اور ہزاروں نوجوان مشرق وسطیٰ اور دیگر ملکوں میں مزدوری کرنے کے لیے نکل پڑے۔ معاشی تبدیلی آئی۔ لیکن مارشل لاء کے بعد لیاری مسائل کا گڑھ بنتا چلا گیا۔ بھٹو کا لیاری کو پیرس بنانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ لیاری کے نوجوانوں نے ضیاالحق مارشل لاء کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔
اس قدر سخت پابندیوں کے باوجود احتجاج بھی کیے، قیدوبند کی صعوبتیں اٹھائیں، کوڑے بھی کھائے، کئی نوجوان شہید ہوئے، جو رہ گئے ان کی کئی نسلوں کو بے روزگاری، منشیات اور اسلحے کا تحفہ ملا۔ نتیجتاً وہاں کے لوگ احساس محرومی اور مایوسی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ غربت، بے روزگاری، تعلیم کے مواقع نہ ہونے کے سبب نوجوانوں میں بے راہ روی، بے چینی ہے، جہاں بے روزگاری ہے، بھوک ہے، وہاں بھاری اسلحہ لیاری سمیت کراچی میں موجود ہے، گینگ وار جاری ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے ہم اپنے ہی لوگوں سے گوریلا جنگ میں مصروف ہیں۔ لیاری کے عوام اس جنگ سے تنگ آچکے ہیں، وہ سکون و امن چاہتے ہیں، انھیں زندگی گزارنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ووٹوں کے بل پر وہاں سے منتخب ہونے والے نمایندوں نے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹنے کے کچھ نہ کیا۔ اب یہ ان کی اخلاقی و قانونی ذمے داری ہے کہ وہ لیاری کے حال پر رحم کریں، امن و امان کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کریں۔
رحمان بلوچ قتل کے سانحے سے لے کر ثاقب باکسر تک جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے، ان کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے۔ ریاستی اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ ملزموں کو قانون کے مطابق سزائیں دیں۔ ذاتی مفاد و انا کو بالائے طاق رکھ کر لیاری میں امن کا قیام لانا ہوگا۔ لیاری میں سکون و ترقی کے بغیر کراچی میں امن قائم نہیں ہوسکتا، پھر ایک ہی شہر میں دو متضاد قانون آخر کب تک چل سکیں گے۔
ایک طرف اس قدر آرام و آسائش کی زندگی تو دوسری جانب اتنی غربت و جہالت، یہ کیسا انصاف ہے، یہ کیسی تقسیم ہے جو نسل در نسل چلتی چلی آرہی ہے؟ ایک جانب اتنا امن و سکون، اس قدر پہرے کہ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تو دوسری جانب پورا علاقہ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ہم دور کیوں جائیں لیاری سے تھوڑے فاصلے پر ڈیفنس کا علاقہ، ہوٹلز و سفارت خانے موجود ہیں، وہاں بدامنی کا ایک پتہ نہیں ہل سکتا، دوسری طرف لیاری اور اس سے ملحقہ اولڈ سٹی ایریاز ہیں، کہ جہاں بدامنی و دہشت گردی اپنے عروج پر ہے، دستی بم، کریکرز سے دوبدو لڑائی جاری ہے۔
گویا دشمن کی دو فوجیں آمنے سامنے صف آرا ہیں، قانون نافذ کرنے والے لیاری میں داخل ہونے سے گریزاں ہیں، لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں، مکین نقل مکانی پر مجبور ہیں، اخبار و میڈیا کوریج دکھا دکھا کر تھک گئے، مگر قانون کے محافظ امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ ایک دن کی بات نہیں، کئی سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ قبضے کی اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان انھی غریب مکینوں کو ہوتا ہے جو اپنے روزگار کے لیے ہی باہر نہیں نکل سکتے تو دیگر ضروریات زندگی کے کیا کہنے۔ حکومت ہے جس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اگر ہم چار دہائی قبل ماضی میں جائیں تو لیاری والے اس قدر بے بس و لاچار نہ تھے، ایک ترقی پذیر معاشرے کی بنیادیں استوار ہورہی تھیں، سیاسی لحاظ سے لیاری کو اگر پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ لیاری کو بھٹو دور حکومت میں ایک خاص اہمیت حاصل تھی، وہاں پر ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا تھا، اسکولوں اور کالجوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا، خاص کر این جی اوز کے توسط سے لڑکیوں کے لیے انڈسٹریل ہومز کا قیام عمل میں آیا تھا، اسی لیے اس دوران یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں اچھے اساتذہ، وکیل، بینکرز اور اچھے کھلاڑی سامنے آئے، جنھوں نے سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں اپنا نام پیدا کیا۔
لیاری میں کبھی ٹیلنٹ کی کمی نہیں تھی، ایسے بھی کھلاڑی سامنے آئے جو بنا کسی حکومتی سرپرستی کے اپنی مدد آپ کے تحت ملک کا نام روشن کرنے میں کامیاب ہوئے، ان میں باکسنگ کے شعبے میں مہراﷲ، حسین شاہ، عظیم بلوچ جیسے نامور کھلاڑی اور فٹ بال کے کھلاڑیوں میں کیپٹن محمد عمر، استاد داد محمد ددو ، علی نواز، حسین کلر، غفور مجنا، مولابخش گوٹائی، سرور، تاجی ، یوف سینئر، و جونیئر، جبار،غفار، استاد اقبال بلوچ، استاد اکبر استاد ستار جبل جیسے بے شمار مایہ ناز کھلاڑی شامل تھے۔ لیاری کے لوگوں کا سیاسی شعور دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو نے ساٹھ کی دہائی میں اسمبلی انتخابات میں مسلم لیگ کے امیدوار میر حبیب اﷲ پراچہ کو اسی حلقے سے شکست دی تھی ۔
باقی بلوچ نے یہاں سے انتخاب لڑا تھا، کئی سیاسی لیڈر انور بھائی جان، واجہ کریم داد ، امداد حسین شاہ، علی احمد سومرو، ستار گبول ، غلام محمد چشتی ، رحیم بلوچ ،اسی علاقے کی دین ہیں، جنھوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز لیاری سے کیا ۔ قائداعظم کے دست راست اور تحریک آزادی کے مشہور لیڈر محمود ہارون لیاری کے حلقے سے پارلیمنٹ کے رکن بنے تھے، ہارون خاندان کے سیاسی اثرات و خدمات ہیں۔
ایک اور شخصیت جس کا نام یہاں لینا ضروری ہے ملک کے سابق مایہ ناز چیف جسٹس سجاد حسین شاہ بھی لیاری سے تعلق رکھتے تھے۔ پروفیسر علی محمد شاہین کا پورا علمی دور لیاری مین نوجوان نسل کو بلا معاوضہ پڑھانے میں صرف ہوا۔یہیں 1970-71کے دورام فری اسٹریٹ اسکول کا کامیاب تجربہ کیا گیا ،جس کے نتیجہ میں لیاری میں آج بھی کچھ اسٹریٹ اسکول فری ٹیوشن سینٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔محمود عالم اور امین بلوچ اس مشن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، کلاکوٹ میں ایک طرف گینگ وار ہے تو دوسری طرف اسٹریٹ اسکول سمیت این جی اوز اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں،لیاری ریسورس سینٹر موجود ہے۔
بھٹو دور حکومت میں لیاری میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوئے، مکانات کی لیزنگ، پانی کی گھر گھر فراہمی، سیوریج لائنوں کی تنصیب، بلوچستان ہائی وے کی تعمیر آر سی ڈی کے تحت شروع کروائی گئی، لیاری میں تجارتی سرگرمیاں تیز ہونا شروع ہوئی تھیں، غربت اور بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے پاسپورٹ فیس میں کمی کی گئی،اور ہزاروں نوجوان مشرق وسطیٰ اور دیگر ملکوں میں مزدوری کرنے کے لیے نکل پڑے۔ معاشی تبدیلی آئی۔ لیکن مارشل لاء کے بعد لیاری مسائل کا گڑھ بنتا چلا گیا۔ بھٹو کا لیاری کو پیرس بنانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ لیاری کے نوجوانوں نے ضیاالحق مارشل لاء کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔
اس قدر سخت پابندیوں کے باوجود احتجاج بھی کیے، قیدوبند کی صعوبتیں اٹھائیں، کوڑے بھی کھائے، کئی نوجوان شہید ہوئے، جو رہ گئے ان کی کئی نسلوں کو بے روزگاری، منشیات اور اسلحے کا تحفہ ملا۔ نتیجتاً وہاں کے لوگ احساس محرومی اور مایوسی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ غربت، بے روزگاری، تعلیم کے مواقع نہ ہونے کے سبب نوجوانوں میں بے راہ روی، بے چینی ہے، جہاں بے روزگاری ہے، بھوک ہے، وہاں بھاری اسلحہ لیاری سمیت کراچی میں موجود ہے، گینگ وار جاری ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے ہم اپنے ہی لوگوں سے گوریلا جنگ میں مصروف ہیں۔ لیاری کے عوام اس جنگ سے تنگ آچکے ہیں، وہ سکون و امن چاہتے ہیں، انھیں زندگی گزارنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ووٹوں کے بل پر وہاں سے منتخب ہونے والے نمایندوں نے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹنے کے کچھ نہ کیا۔ اب یہ ان کی اخلاقی و قانونی ذمے داری ہے کہ وہ لیاری کے حال پر رحم کریں، امن و امان کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کریں۔
رحمان بلوچ قتل کے سانحے سے لے کر ثاقب باکسر تک جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے، ان کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے۔ ریاستی اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ ملزموں کو قانون کے مطابق سزائیں دیں۔ ذاتی مفاد و انا کو بالائے طاق رکھ کر لیاری میں امن کا قیام لانا ہوگا۔ لیاری میں سکون و ترقی کے بغیر کراچی میں امن قائم نہیں ہوسکتا، پھر ایک ہی شہر میں دو متضاد قانون آخر کب تک چل سکیں گے۔