احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ زوروں پر

جماعتِ اسلامی کی قیادت عوام کے درمیان

جماعتِ اسلامی کی قیادت عوام کے درمیان۔ فوٹو: فائل

سندھ کی سیاست میں ان دنوں صوبائی حکومت کی کارکردگی زیرِ بحث ہے۔

کراچی میں بدامنی، ٹارگیٹ کلنگ، تھر میں بدحالی اور قحط، صوبے کے مختلف اضلاع میں اقلیتی برادری کی مشکلات، قبائلی جھگڑوں میں ہلاکتیں، عوام کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے علاوہ مختلف سرکاری اداروں میں کرپشن اور ترقیاتی فنڈز میں بڑے پیمانے پر خورد برد کے الزامات کے بعد صوبائی حکومت پر پی پی پی کے مخالفین کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت اور منتخب نمائندے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی حکومت کا دفاع کررہے ہیں، لیکن انہی معاملات پر وزیرِ اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی تبدیلی کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ تاہم پارٹی کے اندر ایسے کسی بھی فیصلے کی صورت میں ٹوٹ پھوٹ کا امکان ہے اور اسی لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ پی پی پی سید قائم علی شاہ کی تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

دوسری طرف چند ہفتے قبل متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے مابین اختلافات اور اس سے جنم لینے والے سیاسی طوفان کی شدت میں بڑی حد تک کمی آگئی ہے۔ پی پی پی کے راہ نما سید خورشید شاہ کے متنازع بیان پر تو ایم کیو ایم نے سخت احتجاج کے بعد خاموشی اختیار کر لی ہے، لیکن اس کی جانب سے صوبوں اور یونٹس کے قیام کا مطالبہ اندرونِ سندھ مختلف اضلاع میں قوم پرستوں کے احتجاج کی زد میں ہے۔

کراچی میں گذشتہ ہفتے سیاسی اور سماجی تنظیمیں واقعۂ کوٹ رادھا کشن کے خلاف اور اقلیتی برادری سے یک جہتی کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نظر آئیں۔ مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی مسیحی جوڑے کے سفاکانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جماعت اسلامی کی مقامی قیادت ان دنوں ''کُل پاکستان اجتماع'' کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ یہ تین روزہ اجتماع 21 نومبر سے لاہور میں شروع ہو گا۔ جماعتِ اسلامی کی قیادت اور کارکنان کی کوشش ہے کہ ملک بھر سے بڑی تعداد میں عوام اس اجتماع میں شرکت کریں۔ کراچی میں اس سلسلے میں مختلف مقامات پر رابطہ میٹنگز کا انعقاد کیا جارہا ہے، جس میں مرکزی قیادت کی ہدایت کے مطابق عوام کو اس اجتماع میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی( کراچی) حافظ نعیم الرحمن اور دیگر ذمہ داران بھی اس سلسلے میں خاصے متحرک ہیں اور مختلف شعبوں سے وابستہ افراد سے رابطہ کر رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں حافظ نعیم الرحمن، اسامہ رضی اور زاہد عسکری نے صحافیوں اور میڈیا اراکین سے ملاقات میں انہیں اس اجتماع میں شرکت کی دعوت دی۔ ایک تقریب میں حافظ نعیم الرحمن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام مایوسی، بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں اور حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں، جماعتِ اسلامی عوام کو مایوسی سے نکال کر ایک اسلامی اور خوش حال پاکستان بنانے کی جدوجہد کے لیے تیار کرے گی۔


اس سلسلے میں جماعتِ اسلامی نے کراچی میں مختلف کمیٹیاں قائم کرکے اراکین کو ذمہ داریاں تفویض کردی ہیں، جو اس سے متعلق انتظامات میں مصروف ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ ٹرینوں اور بسوں کے ذریعے جماعتِ اسلامی کے کارکنان اور عوام بڑی تعداد میں لاہور پہنچیں گے۔

تھر میں بیماریوں اور غذائی قلت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور اس کے ذیلی ادارے میدانِ عمل میں ہے۔ ایم کیو ایم خدمت خلق فائونڈیشن اور میڈیکل ایڈ کمیٹی کے تعاون سے تھر میں جلد فیلڈ اسپتال قائم کرے گی اور صحت کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ وہ سیاست نہیں بلکہ تھرکے بلکتے سسکتے عوام کی بے لوث خدمت کر رہی ہے۔ رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم نواز شریف سے تھرکی صورتِ حال کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے عوام خصوصاً مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ تھر میں قحط سالی کا شکار عوام کی مدد کریں اور اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا ساتھ دیں۔

گذشتہ ہفتے پاکستان تحریک انصاف (منارٹی ونگ) کی جانب سے کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے کے واقعے کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس مظاہرے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے علاوہ اقلیتی عوام شریک تھے۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر حکومت کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین کی قیادت پی ٹی آئی کے مرکزی راہ نما اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی، رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان اور دیگر نے کی۔

اس موقع پر ڈاکٹر عارف علوی اور خرم شیر زمان نے درندگی اور سفاک طرزِعمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکم راں عوام کے مسائل سے غافل ہیں، وفاقی خصوصاً پنجاب حکومت کی غفلت کے باعث اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ اس انسانیت سوز واقعے کے خلاف مختلف مسیحی تنظیموں نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

آل پاکستان مسیحی تحریک، مسیحانِ کراچی، پاکستان منارٹی لیگ، پاکستان کرسچن کیئر پارٹی اور دیگر کے تحت مظاہرے کے شرکا گو نواز گو، وفاقی اور پنجاب حکومت مردہ باد اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کی برطرفی کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مسیحی راہ نماؤں نے کہاکہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور کسی بھی مذہب کی مقدس کتاب کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ شہزاد اور شمع بی بی پر جھوٹا الزام لگا کر انہیں زندہ جلایا گیا۔ مظاہرین نے حکومت سے ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔

دوسری طرف پاکستان ہندو سیوا اور ہندو پنچایت نے بھی پریس کانفرنس کے ذریعے ملک بھر میں ہندوؤں کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امرناتھ مٹومل، سنجیش دھانجا اور چندر کوہلی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروا کے ان کی جبراً شادیاں کروائی جارہی ہیں، ان واقعات سے ہندو برادری خوف زدہ ہے اور ان کا احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو محب وطن ہیں اور پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، لیکن انہیں حقوق نہیں دیے جارہے، حکومت ہندو کمیونٹی کے مسائل حل کرے اور ان کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔
Load Next Story