اندھیروں میں ڈوبا ہوا ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کراچی
بیشتر اسٹریٹ لائٹس خراب، حادثات میں اضافہ، حکام کی چشم پوشی
اندھیرا جسے ظلمت بھی کہتے ہیں اور ظلمت میں بس ظلم ہی ہوتا ہے۔ روشنی کی ضد ہے اندھیرا۔ اسی لیے کہا جایا ہے'' اندھیر نگری چوپٹ راج '' یوں تو پورا وطن عزیز اس کی زد میں ہے لیکن یہ شہر جسے شہر قائد کا اعزاز حاصل ہے، جسے کبھی روشنیوں کا شہر کہتے تھے اب مکمل اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔
کون سا ایسا گھاؤ ہے جو اس نے نہیں سہا اور اب تک سہہ رہا ہے اور نجانے کب تک سہتا رہے گا۔ یہ شہر جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اس کے ساتھ ایسا سلوک، کچھ سمجھ نہیں آتا اور جنہیں سمجھ میں آتا ہے ان کی زبان بند ہے یا بند کردی گئی ہے۔
اس شہر دل آویز کی جسے چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا تھا، جو ہم سب کے لیے ماں کی سمان تھا، اس کی مانگ آخر کس نے اجاڑی۔۔۔ کوئی ماں کی مانگ بھی اجاڑتا ہے کیا۔۔۔؟ ہم سب کوئی تخصیص نہیں ہے اس میں، ہاں ہم سب اس جرم عظیم میں حصہ بقدر جثہ شریک ہیں۔ ہم سب اس مرض میں مبتلا ہیں کہ اپنی ذمے داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنا کام نہیں کرتا اور دوسروں کو قصور وار سمجھتا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ انسان جو خطا کا پتلا ہے اس سے غلطیاں، کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن زندہ قومیں اور افراد ان کا برملا اعتراف کرتے ہیں بلکہ ان سے سبق سیکھتے ہیں۔ دانا کہتے ہیں اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور وہ اس سے سبق سیکھے تو اسے غلطی نہیں سمجھنا چاہیے۔ لیکن ہم سب کی حالت یہ ہے کہ غلطیوں پر غلطیاں کیے جاتے ہیں، ان سے نقصان اٹھاتے ہیں، عذاب جھیلتے ہیں اپنی زندگی اجیرن کرتے ہیں لیکن کوئی سبق نہیں سیکھتے۔
آخر کب تک ہم سب ریت میں اپنا منہ چھپائے رہیں گے۔۔۔؟ ہم میں سے کوئی بھی اس شہر عظیم جو اتنا مضروب ہونے کے باوجود ہماری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اپنانے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم سب اپنے فرائض سے غافل اور اپنے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں۔ جب کہ سیدھا سادہ سا اصول ہے کہ اگر ہم سب اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیں تو سب کے حقوق محفوظ رہیں گے۔ کوئی ایک ، دو عذاب ہوں تو بتائے جائیں، کوئی ایک دو مسائل ہوں تو گنوائے جائیں، یہاں تو سب کچھ برباد ہوگیا ہے لیکن ہم نہیں جاگتے کہ سونا ہمارا مرض بن گیا ہے۔
یہ شہر جو سب سے زیادہ محاصل ادا کرتا ہے لیکن اس میں سے اسے ملتا کیا ہے۔۔؟ یہ ایک الگ موضوع ہے، لیکن جو ملتا ہے کیا وہ اصل مد میں خرچ ہوتا ہے؟ اس شہر میں بے روزگاری ہے، اس کے امن و امان کی صورت حال ہر پل بگڑتی جا رہی ہے۔ یہ زندہ شہر مرتا جارہا ہے، اس کے باسی سسکتے ہوئے دم توڑ رہے اور یہ مدقوق لاشوں کا قبرستان بنتا جارہا ہے۔
ہمارے حکم راں روز ایک نیا ٹیکس اس کے شہریوں لگاتے اور اس میں اضافہ کرتے جاتے ہیں لیکن عوام سے لوٹا جانے والا ٹیکس جسے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے، جس سے عوام کو سہولتیں پہنچانی چاہییں وہ ٹیکس حکام کے اللتے تللتوں میں خرچ ہوجاتا ہے۔ ہم میں اتنی بھی جرأت اور سلیقہ بھی نہیں ہے کہ ہم ان حکام سے اس کا حساب کتاب پوچھ سکیں۔ شاید اس لیے کہ ہم نے اس موت سے بدتر زندگی کو قبول کرلیا ہے۔ اور شاید اس لیے بھی کہ اب ہم ایک قوم نہیں منتشر عوام ہیں جن کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
ہم بجائے اس کے کہ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اپنے حقوق قانونی دائرے میں رہتے ہوئے طلب کریں، حکام کی طفل تسلیوں میں آجاتے ہیں۔ اور حکام کسی بھی مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے وقتی طور پر اسے حل کرکے، جو چند دن بعد پھر کھڑا ہوجاتا ہے شہریوں کو مطمئن کردیتے اور شہری بھی مطمئن ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ذرائع ابلاغ ان مسائل کا تذکرہ نہیں کرتے، وہ تو عوامی مسائل کے تذکروں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن حکام سنی ان سنی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اس لیے ان مسائل میں ہر دن گزرتے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی محمد حسین سید نے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ '' کراچی کی اسٹریٹ لائٹس کو شمسی توانائی (سولرانرجی) سے چلانے کے لیے پانچ سالہ منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت شہر کی سڑکوں اور گلیوں کی اسٹریٹ لائٹس کو سولر انرجی پر تبدیل کردیا جائے جس سے نہ صرف بجلی کی بچت ہوگی بلکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پر ماہرین کام کررہے ہیں تاہم ملکی و بین الاقوامی کمپنیاں اس منصوبے سمیت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ماس ٹرانزٹ پروگرام سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور دیگر منصوبوں میں دل چسپی کا اظہار کریں تو ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمہوریہ کوریا کے سفیر اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا تھا۔ کوریا کے سفیر نے کراچی میں تعینات قونصل جنرل اور وفد کے دیگر افراد کے ہم راہ سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی سے ملاقات کی تھی اور باہمی امور خصوصاً کراچی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا ''
لیکن پھر اس منصوبے کا کیا بنا، اس پر کتنی پیش رفت ہوئی، نہیں معلوم ۔۔۔۔۔؟ کراچی کے ارباب اختیار کی نااہلی، مجرمانہ غفلت اور لاپروائی کے باعث '' روشنیوں کے شہر کراچی'' کی بیشتر سڑکیں، انڈر پاسز، فلائی اوورز، گلیاں حتیٰ کہ مرکزی شاہراہیں رات کے اوقات میں بھیانک تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ سڑکیں جنت بن گئی ہیں اور حادثات بھی معمول بن گئے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ محاصل ادا کرنے والا شہر انتظامی امور کے ذمے داروں کی بدترین کارکردگی کے باعث اندھیروں کا شہر بن گیا ہے۔
سر شام ہی یہ شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے جس کی وجہ ان سڑکوں اور فلائی اوورز کی خراب اسٹریٹ لائٹس ہیں۔ آئی آئی چندریگر روڈ، شاہراہ پاکستان، راشد منہاس روڈ، ابوالحسن اصفہانی روڈ، حکیم ابن سینا روڈ، غریب آباد، کارساز روڈ، اسٹیڈیم روڈ، سرشاہ سلیمان روڈ، حیدری روڈ، سخی حسن، ناگن چورنگی روڈ، لیاقت آباد، ناظم آباد، تین ہٹی، جہانگیر روڈ، پی آئی بی کالونی، جیل روڈ، گرومندر، ایم اے جناح روڈ ، یونیورسٹی روڈ، کشمیر روڈ، شاہراہ قائدین، مائی کلاچی، اولڈ کلفٹن روڈ، طارق روڈ، شارع فیصل، کورنگی روڈ، شہید ملت روڈ، شہید ملت ایکسپریس وے، کورنگی کاز وے، کورنگی تا شاہ فیصل ایکسپریس وے سمیت متعدد علاقوں کی اہم شاہراہیں اسٹریٹ لائٹس خراب ہونے کی وجہ سے تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں۔
اس کے علاوہ لیاقت آباد فلائی اوور، ناظم آباد فلائی اوور، غریب آباد، لیاقت آباد، ناظم آباد کے انڈرپاسز، حسن اسکوائر فلائی اوور، نیشنل اسٹیڈیم فلائی اوور، کارساز فلائی اوور، جناح ٹرمینل فلائی اوور، ملیر برج، قائد آباد برج، کے پی ٹی انٹرچینج، جام صادق پل، ایف ٹی سی فلائی اوور، نرسری فلائی اوور، پی آئی ڈی سی فلائی اوور، کلفٹن برج سمیت شہر کے اکثر پلوں اور فلائی اوورز پر نصب اسٹریٹ لائٹس خراب ہیں اور یہ سڑکیں، پل اور فلائی اوورز جرائم پیشہ عناصر کے لیے جنت اور ان پر جرائم پیشہ افراد کی کارروائیاں شہریوں کے لیے عذاب بن گئی ہیں۔ جب کہ تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹارگیٹ کلرز بھی بلاخوف و خطر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اندھیرے کے باعث ان راستوں پر حادثات کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔ کراچی میں اسٹریٹ لائٹ کی دیکھ بھال کے لیے ادارے تو موجود ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی بھی اپنی ذمے داری پوری کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ ناظم آباد سے سائٹ جانے والے فلائی اوور پر شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹ کا انتظام کیا گیا تھا لیکن دیکھ بھال نہ ہونے سے یہ مکمل طور پر ناکارہ ہوچکی ہیں۔
کیا اسٹریٹ لائٹ کا انتظام کرنا انتہائی مشکل کام ہے؟ جو کام ہم کر سکتے ہیں اور اس شہر ناپرساں کے شہریوں کو کچھ سہولتیں فراہم کرسکتے ہیں انہیں کر لینے میں آخر کیا امر مانع ہے۔ اسٹریٹ لائٹس کے ہونے سے جہاں شہریوں کو سہولت فراہم ہونے کے ساتھ ان کا اعتماد بحال ہوگا وہیں شہر قائد کی ساکھ بحال ہونے کے ساتھ جرائم اور حادثات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ کیا کراچی کے انتظامی امور سے متعلق ادارے اس بابت سوچیں گے اور اس پر عمل درآمد کر سکیں گے ۔ شہری اس کے منتظر ہیں۔
کون سا ایسا گھاؤ ہے جو اس نے نہیں سہا اور اب تک سہہ رہا ہے اور نجانے کب تک سہتا رہے گا۔ یہ شہر جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اس کے ساتھ ایسا سلوک، کچھ سمجھ نہیں آتا اور جنہیں سمجھ میں آتا ہے ان کی زبان بند ہے یا بند کردی گئی ہے۔
اس شہر دل آویز کی جسے چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا تھا، جو ہم سب کے لیے ماں کی سمان تھا، اس کی مانگ آخر کس نے اجاڑی۔۔۔ کوئی ماں کی مانگ بھی اجاڑتا ہے کیا۔۔۔؟ ہم سب کوئی تخصیص نہیں ہے اس میں، ہاں ہم سب اس جرم عظیم میں حصہ بقدر جثہ شریک ہیں۔ ہم سب اس مرض میں مبتلا ہیں کہ اپنی ذمے داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنا کام نہیں کرتا اور دوسروں کو قصور وار سمجھتا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ انسان جو خطا کا پتلا ہے اس سے غلطیاں، کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن زندہ قومیں اور افراد ان کا برملا اعتراف کرتے ہیں بلکہ ان سے سبق سیکھتے ہیں۔ دانا کہتے ہیں اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور وہ اس سے سبق سیکھے تو اسے غلطی نہیں سمجھنا چاہیے۔ لیکن ہم سب کی حالت یہ ہے کہ غلطیوں پر غلطیاں کیے جاتے ہیں، ان سے نقصان اٹھاتے ہیں، عذاب جھیلتے ہیں اپنی زندگی اجیرن کرتے ہیں لیکن کوئی سبق نہیں سیکھتے۔
آخر کب تک ہم سب ریت میں اپنا منہ چھپائے رہیں گے۔۔۔؟ ہم میں سے کوئی بھی اس شہر عظیم جو اتنا مضروب ہونے کے باوجود ہماری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اپنانے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم سب اپنے فرائض سے غافل اور اپنے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں۔ جب کہ سیدھا سادہ سا اصول ہے کہ اگر ہم سب اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیں تو سب کے حقوق محفوظ رہیں گے۔ کوئی ایک ، دو عذاب ہوں تو بتائے جائیں، کوئی ایک دو مسائل ہوں تو گنوائے جائیں، یہاں تو سب کچھ برباد ہوگیا ہے لیکن ہم نہیں جاگتے کہ سونا ہمارا مرض بن گیا ہے۔
یہ شہر جو سب سے زیادہ محاصل ادا کرتا ہے لیکن اس میں سے اسے ملتا کیا ہے۔۔؟ یہ ایک الگ موضوع ہے، لیکن جو ملتا ہے کیا وہ اصل مد میں خرچ ہوتا ہے؟ اس شہر میں بے روزگاری ہے، اس کے امن و امان کی صورت حال ہر پل بگڑتی جا رہی ہے۔ یہ زندہ شہر مرتا جارہا ہے، اس کے باسی سسکتے ہوئے دم توڑ رہے اور یہ مدقوق لاشوں کا قبرستان بنتا جارہا ہے۔
ہمارے حکم راں روز ایک نیا ٹیکس اس کے شہریوں لگاتے اور اس میں اضافہ کرتے جاتے ہیں لیکن عوام سے لوٹا جانے والا ٹیکس جسے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے، جس سے عوام کو سہولتیں پہنچانی چاہییں وہ ٹیکس حکام کے اللتے تللتوں میں خرچ ہوجاتا ہے۔ ہم میں اتنی بھی جرأت اور سلیقہ بھی نہیں ہے کہ ہم ان حکام سے اس کا حساب کتاب پوچھ سکیں۔ شاید اس لیے کہ ہم نے اس موت سے بدتر زندگی کو قبول کرلیا ہے۔ اور شاید اس لیے بھی کہ اب ہم ایک قوم نہیں منتشر عوام ہیں جن کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
ہم بجائے اس کے کہ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اپنے حقوق قانونی دائرے میں رہتے ہوئے طلب کریں، حکام کی طفل تسلیوں میں آجاتے ہیں۔ اور حکام کسی بھی مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے وقتی طور پر اسے حل کرکے، جو چند دن بعد پھر کھڑا ہوجاتا ہے شہریوں کو مطمئن کردیتے اور شہری بھی مطمئن ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ذرائع ابلاغ ان مسائل کا تذکرہ نہیں کرتے، وہ تو عوامی مسائل کے تذکروں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن حکام سنی ان سنی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اس لیے ان مسائل میں ہر دن گزرتے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی محمد حسین سید نے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ '' کراچی کی اسٹریٹ لائٹس کو شمسی توانائی (سولرانرجی) سے چلانے کے لیے پانچ سالہ منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت شہر کی سڑکوں اور گلیوں کی اسٹریٹ لائٹس کو سولر انرجی پر تبدیل کردیا جائے جس سے نہ صرف بجلی کی بچت ہوگی بلکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پر ماہرین کام کررہے ہیں تاہم ملکی و بین الاقوامی کمپنیاں اس منصوبے سمیت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ماس ٹرانزٹ پروگرام سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور دیگر منصوبوں میں دل چسپی کا اظہار کریں تو ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمہوریہ کوریا کے سفیر اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا تھا۔ کوریا کے سفیر نے کراچی میں تعینات قونصل جنرل اور وفد کے دیگر افراد کے ہم راہ سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی سے ملاقات کی تھی اور باہمی امور خصوصاً کراچی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا ''
لیکن پھر اس منصوبے کا کیا بنا، اس پر کتنی پیش رفت ہوئی، نہیں معلوم ۔۔۔۔۔؟ کراچی کے ارباب اختیار کی نااہلی، مجرمانہ غفلت اور لاپروائی کے باعث '' روشنیوں کے شہر کراچی'' کی بیشتر سڑکیں، انڈر پاسز، فلائی اوورز، گلیاں حتیٰ کہ مرکزی شاہراہیں رات کے اوقات میں بھیانک تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ سڑکیں جنت بن گئی ہیں اور حادثات بھی معمول بن گئے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ محاصل ادا کرنے والا شہر انتظامی امور کے ذمے داروں کی بدترین کارکردگی کے باعث اندھیروں کا شہر بن گیا ہے۔
سر شام ہی یہ شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے جس کی وجہ ان سڑکوں اور فلائی اوورز کی خراب اسٹریٹ لائٹس ہیں۔ آئی آئی چندریگر روڈ، شاہراہ پاکستان، راشد منہاس روڈ، ابوالحسن اصفہانی روڈ، حکیم ابن سینا روڈ، غریب آباد، کارساز روڈ، اسٹیڈیم روڈ، سرشاہ سلیمان روڈ، حیدری روڈ، سخی حسن، ناگن چورنگی روڈ، لیاقت آباد، ناظم آباد، تین ہٹی، جہانگیر روڈ، پی آئی بی کالونی، جیل روڈ، گرومندر، ایم اے جناح روڈ ، یونیورسٹی روڈ، کشمیر روڈ، شاہراہ قائدین، مائی کلاچی، اولڈ کلفٹن روڈ، طارق روڈ، شارع فیصل، کورنگی روڈ، شہید ملت روڈ، شہید ملت ایکسپریس وے، کورنگی کاز وے، کورنگی تا شاہ فیصل ایکسپریس وے سمیت متعدد علاقوں کی اہم شاہراہیں اسٹریٹ لائٹس خراب ہونے کی وجہ سے تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں۔
اس کے علاوہ لیاقت آباد فلائی اوور، ناظم آباد فلائی اوور، غریب آباد، لیاقت آباد، ناظم آباد کے انڈرپاسز، حسن اسکوائر فلائی اوور، نیشنل اسٹیڈیم فلائی اوور، کارساز فلائی اوور، جناح ٹرمینل فلائی اوور، ملیر برج، قائد آباد برج، کے پی ٹی انٹرچینج، جام صادق پل، ایف ٹی سی فلائی اوور، نرسری فلائی اوور، پی آئی ڈی سی فلائی اوور، کلفٹن برج سمیت شہر کے اکثر پلوں اور فلائی اوورز پر نصب اسٹریٹ لائٹس خراب ہیں اور یہ سڑکیں، پل اور فلائی اوورز جرائم پیشہ عناصر کے لیے جنت اور ان پر جرائم پیشہ افراد کی کارروائیاں شہریوں کے لیے عذاب بن گئی ہیں۔ جب کہ تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹارگیٹ کلرز بھی بلاخوف و خطر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اندھیرے کے باعث ان راستوں پر حادثات کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔ کراچی میں اسٹریٹ لائٹ کی دیکھ بھال کے لیے ادارے تو موجود ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی بھی اپنی ذمے داری پوری کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ ناظم آباد سے سائٹ جانے والے فلائی اوور پر شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹ کا انتظام کیا گیا تھا لیکن دیکھ بھال نہ ہونے سے یہ مکمل طور پر ناکارہ ہوچکی ہیں۔
کیا اسٹریٹ لائٹ کا انتظام کرنا انتہائی مشکل کام ہے؟ جو کام ہم کر سکتے ہیں اور اس شہر ناپرساں کے شہریوں کو کچھ سہولتیں فراہم کرسکتے ہیں انہیں کر لینے میں آخر کیا امر مانع ہے۔ اسٹریٹ لائٹس کے ہونے سے جہاں شہریوں کو سہولت فراہم ہونے کے ساتھ ان کا اعتماد بحال ہوگا وہیں شہر قائد کی ساکھ بحال ہونے کے ساتھ جرائم اور حادثات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ کیا کراچی کے انتظامی امور سے متعلق ادارے اس بابت سوچیں گے اور اس پر عمل درآمد کر سکیں گے ۔ شہری اس کے منتظر ہیں۔