فطرت کا تعمیری رخ
یہ خزاں کا موسم ہے ، تمام دن درختوں سے پتے جھڑتے رہتے ہیں مگر ہم دن بہ دن موسموں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
موسم بدلتے ہی ماحول میں ایک منفرد مہک بسیرا کر لیتی ہے۔ یہ خوشبو اس موسم میں کھلنے والے پھولوں کی ہوتی ہے۔ درختوں کا مزاج بھی بدل جاتا ہے۔ وہ بھی ہوا کی لے پر اٹھلا کر اہل زمین پر اپنی سوندھی خوشبو نچھاور کرنے لگتے ہیں۔ یہ فطری عطر فقط وہ لوگ محسوس کر سکتے ہیں، جو کھل کر سانس لینا جانتے ہیں۔
حال کے لمحوں میں شعوری طور پر سانس لینے کا یہ عمل، انسان کی سوچ کا زاویہ بدل دیتا ہے۔ یہ لمحے تحرک عطا کرتے ہیں۔
نومبر کا آغاز ہو چکا ہے۔ موسم کی رنگینیاں اپنے عروج پر ہیں۔ شدید گرمی اور جھلستے سورج کی تپش کی جگہ ٹھنڈی معطر ہواؤں نے لے لی ہے۔ مگر پھر بھی کبھی ایک دم سے سورج کی تپش موقع پا کر حالات کے ستائے ہوئے انسانوں کو مزید تنگ کرنے لگتی ہے۔
نومبر کا اپنا الگ مزاج ہے۔ دن میں یہ خوش رنگ اور نکھرا رہتا ہے اور شام ہوتے ہی آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں اداسی کی ہلکی سی تہہ منعکس ہو جاتی ہے۔ یہ شامیں ایک دم گم صم، اکھڑی ہوئی اور تنہا ہو جاتی ہیں، چاہے اردگرد کتنا ہی ہنگامہ کیوں نہ ہو۔ یہ روٹھی ہوئی شامیں منائے نہیں مانتیں۔ اپنی دھن میں، کسی گہری سوچ میں دھیرے دھیرے سانس لیتی ہیں۔ ان شاموں کے رنگ گہرے اور بامعنی ہوتے ہیں۔ کبھی کسی جوگن کا روپ دھار لیتی ہیں، تو کبھی صوفی رنگ میں ڈوب جاتی ہیں۔ لمحے منکشف ہونے لگتے ہیں۔
یہ خزاں کا موسم ہے ، تمام دن درختوں سے پتے جھڑتے رہتے ہیں مگر ہم دن بہ دن موسموں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ موسم و ماحول سے قربت کا مطلب ہے کہ ہم حال میں موجود ہیں۔ حال کی آگہی سے وقت کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔ اور کام بھی ذہن کی ترتیب کے ساتھ سمٹتے چلے جاتے ہیں۔ ذہن کا جتنا رابطہ معلومات سے رہتا ہے، اتنا ہی وقت انسان کی گرفت میں آتا چلا جاتا ہے۔ آگہی وقت کی رفتار آہستہ کر دیتی ہے۔
جب ذہنوں میں خوف اور بے یقینی کا اندھیرا ہو تو وقت دسترس میں نہیں رہتا۔ وقت ذہن کے ابہام میں الجھ کے بکھر جاتا ہے۔ جب سچ کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو ذہن و دماغ میں واہمے و اندیشے بسیرا کر لیتے ہیں۔ پھر ہم مفروضوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ کئی واہموں میں مبتلا قوم محض راستوں پر بھٹکتی رہتی ہے۔ لہٰذا ہم پرفریب خیال کا ہاتھ تھامے سالہا سال سے زندگی کے سچ سے دور ہیں۔
فطرت کی زندگی سچ سے عبارت ہے۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے۔ عمل اور رد عمل اور ہم آہنگی کی قابل تقلید مثال ہے۔ جس میں اچھا عمل پھل دیتا ہے اور محنت سے خوشحالی مسکراتی ہے۔ زمین کو جس قدر ہموار کیا جاتا ہے وہ زرخیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ کبھی یہ نہیں ہوتا کہ وہ آپ کی محنت کو مایوسی میں بدل دے۔
فطرت کے دونوں رخ ہیں جو تخریبی بھی ہیں تو تعمیر کے جوہر سے آشنا بھی ہیں۔ انگریزی کے رومانوی شاعر شیلے نے اپنی نظم ode to the west wind میں خزاں کے موسم کی تصویر کشی کی ہے۔ کہ کس طرح پتے شاخوں سے جدا ہو جاتے ہیں اور تیز ہوائیں بیجوں کو اڑا کر زمین پر نچھاور کرتی ہیں۔ پھر یہ تمام تر بیج زمین کی گود میں بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں۔ جیسے ہی بہار کی ہوا نئے موسم کی نوید لے کر آتی ہے۔ تو ان کے بے جان جسموں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ زمین انھیں اپنے وجود میں سمیٹ لیتی ہے۔ پھر یکایک سوکھی، خشک و اداس ٹہنیاں سبز پتوں سے آباد ہوجاتی ہیں۔
پھر رنگ جاگتے اور منظر مہکنے لگتے ہیں۔ تیز ہوا فطرت کی ایسی قوت ہے جو تباہ کن بھی ہے۔ اور تعمیری بھی۔ اور خزاں امید کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ لیکن انسانی زندگی فطرت کے اثر سے بے خبر تخریبی راستوں پر رواں دواں رہتی ہے۔ یہ زندگی واہموں و اندیشوں سے باہر نہیں نکل پاتی۔ یہ اچھا عمل وصول کر کے اسے واپس نہیں لوٹاتی۔ یہ زرخیزی کے ہنر سے ناآشنا ہے۔ عمل کی تاثیر سے بے بہرا ہے۔ یہ عطا کرنے کا جوہر نہیں رکھتی۔ یہ فقط لینا جانتی ہے۔۔ وصول کرتے کرتے کبھی نہیں تھکتی۔ یہ احسان مندی کے احساس سے ناواقف ہے۔ یہاں خوشی مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی سچی خوشی سے محروم ہو چکی ہے۔
پھول کے کھلنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ خوشی اور وجد کے انوکھے احساس تلے اس کی بند کونپلیں کھلتی ہیں۔ خوشبو کے راز میں سمٹا ہوا پل لمحوں پر منکشف ہوتا ہے اور پوری کائنات مسکراتی ہے۔ شبنم کے آنسو اسے تازگی عطا کرتے ہیں اور دھوپ کا لمس زندگی۔
انسان مایوس ہو کے خاموش ہو جاتے ہیں، مگر پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں تھکتی۔ پرندے کبھی دعوے نہیں کرتے۔اگر ان کے پاس زبان ہوتی ہے تو دنیا کو واہموں و مفروضوں میں الجھا دیتے۔
پرندے چہچہاتے ہیں اور نومبر کی خوشگوار صبحیں مزید نکھر جاتی ہیں۔ فطرت کے تمام تر مناظر میں تازگی اور بے ساختہ خوشی کا احساس ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔
اگر فطرت کا مزاج تخریبی ہوتا بھی ہے تو مختصر وقت کے لیے۔ پھر سورج نکل آتا ہے، پرندے چہچہاتے ہیں اور ہوائیں درختوں کی شاخوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہیں۔ انگریزی کے شاعر کیٹس کے لیے بھی خزاں کا موسم خوبصورتی کا استعارہ ہے۔ یہ موسم بہار کی پیش گوئی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
خزاں دائمی کیفیت نہیں۔ یہ بہار کی تمثیل ہے۔
لیکن ہم اپنے ملک و اردگرد کے ماحول میں فقط خزاں کا تذکرہ سنتے چلے آئے ہیں۔
باتیں بھی ایسی کہ جن میں فقط مرجھائے ہوئے پھولوں کی باس ماحول میں یکسانیت پیدا کر دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے بعض اوقات کہ ہم کبھی بہار سے آشنا ہی نہ تھے۔ فقط ایک ہی موسم ہم نشیں ٹھہرا ہو جیسے۔ کئی بار بہار آ کے گزری ہے جسے ہم محسوس نہیں کر سکے۔ یہ الگ بات کہ انسانی زندگی کی بہار دعوؤں، مفروضوں اور پرفریب خیالات کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہ بہار مشروط سی ہے۔ پھر اس کے رنگ بھی ناپائیدار ہوتے ہیں۔
یہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہے۔ اس کی تازگی میں بے ساختہ خوشی نہیں ہوتی۔ یہ مختصر ہوتی ہے اور آنکھوں کو طویل انتظار دے کر بہت دور چلی جاتی ہے۔
مگر فطرت کی بہار غیر مشروط ہے۔ یہ خزاں کے دکھ کو جھیل کے اور بھی نکھر جاتی ہے۔ لہٰذا خزاں کے یہ دن جن سے ہم گزر رہے ہیں بہت ہی بامعنی ہیں۔ جس میں فطرت سوچتی، سانس لیتی اور منصوبہ بندی کرتی ہے۔ اس موسم کا ہر لمحہ جاگتا ہے۔ درخت میٹھا راز سمیٹ کر لہلہاتے ہیں۔ شہد کی مکھیاں متحرک ہوجاتی ہیں۔ رنگین پھولوں پر تتلیاں منڈلاتی ہیں اور یہ آگہی دھیرے دھیرے زرد پتوں کو سبزے میں بدل دیتی ہے۔ اور ہر سو یقین کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔
حال کے لمحوں میں شعوری طور پر سانس لینے کا یہ عمل، انسان کی سوچ کا زاویہ بدل دیتا ہے۔ یہ لمحے تحرک عطا کرتے ہیں۔
نومبر کا آغاز ہو چکا ہے۔ موسم کی رنگینیاں اپنے عروج پر ہیں۔ شدید گرمی اور جھلستے سورج کی تپش کی جگہ ٹھنڈی معطر ہواؤں نے لے لی ہے۔ مگر پھر بھی کبھی ایک دم سے سورج کی تپش موقع پا کر حالات کے ستائے ہوئے انسانوں کو مزید تنگ کرنے لگتی ہے۔
نومبر کا اپنا الگ مزاج ہے۔ دن میں یہ خوش رنگ اور نکھرا رہتا ہے اور شام ہوتے ہی آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں اداسی کی ہلکی سی تہہ منعکس ہو جاتی ہے۔ یہ شامیں ایک دم گم صم، اکھڑی ہوئی اور تنہا ہو جاتی ہیں، چاہے اردگرد کتنا ہی ہنگامہ کیوں نہ ہو۔ یہ روٹھی ہوئی شامیں منائے نہیں مانتیں۔ اپنی دھن میں، کسی گہری سوچ میں دھیرے دھیرے سانس لیتی ہیں۔ ان شاموں کے رنگ گہرے اور بامعنی ہوتے ہیں۔ کبھی کسی جوگن کا روپ دھار لیتی ہیں، تو کبھی صوفی رنگ میں ڈوب جاتی ہیں۔ لمحے منکشف ہونے لگتے ہیں۔
یہ خزاں کا موسم ہے ، تمام دن درختوں سے پتے جھڑتے رہتے ہیں مگر ہم دن بہ دن موسموں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ موسم و ماحول سے قربت کا مطلب ہے کہ ہم حال میں موجود ہیں۔ حال کی آگہی سے وقت کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔ اور کام بھی ذہن کی ترتیب کے ساتھ سمٹتے چلے جاتے ہیں۔ ذہن کا جتنا رابطہ معلومات سے رہتا ہے، اتنا ہی وقت انسان کی گرفت میں آتا چلا جاتا ہے۔ آگہی وقت کی رفتار آہستہ کر دیتی ہے۔
جب ذہنوں میں خوف اور بے یقینی کا اندھیرا ہو تو وقت دسترس میں نہیں رہتا۔ وقت ذہن کے ابہام میں الجھ کے بکھر جاتا ہے۔ جب سچ کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو ذہن و دماغ میں واہمے و اندیشے بسیرا کر لیتے ہیں۔ پھر ہم مفروضوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ کئی واہموں میں مبتلا قوم محض راستوں پر بھٹکتی رہتی ہے۔ لہٰذا ہم پرفریب خیال کا ہاتھ تھامے سالہا سال سے زندگی کے سچ سے دور ہیں۔
فطرت کی زندگی سچ سے عبارت ہے۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے۔ عمل اور رد عمل اور ہم آہنگی کی قابل تقلید مثال ہے۔ جس میں اچھا عمل پھل دیتا ہے اور محنت سے خوشحالی مسکراتی ہے۔ زمین کو جس قدر ہموار کیا جاتا ہے وہ زرخیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ کبھی یہ نہیں ہوتا کہ وہ آپ کی محنت کو مایوسی میں بدل دے۔
فطرت کے دونوں رخ ہیں جو تخریبی بھی ہیں تو تعمیر کے جوہر سے آشنا بھی ہیں۔ انگریزی کے رومانوی شاعر شیلے نے اپنی نظم ode to the west wind میں خزاں کے موسم کی تصویر کشی کی ہے۔ کہ کس طرح پتے شاخوں سے جدا ہو جاتے ہیں اور تیز ہوائیں بیجوں کو اڑا کر زمین پر نچھاور کرتی ہیں۔ پھر یہ تمام تر بیج زمین کی گود میں بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں۔ جیسے ہی بہار کی ہوا نئے موسم کی نوید لے کر آتی ہے۔ تو ان کے بے جان جسموں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ زمین انھیں اپنے وجود میں سمیٹ لیتی ہے۔ پھر یکایک سوکھی، خشک و اداس ٹہنیاں سبز پتوں سے آباد ہوجاتی ہیں۔
پھر رنگ جاگتے اور منظر مہکنے لگتے ہیں۔ تیز ہوا فطرت کی ایسی قوت ہے جو تباہ کن بھی ہے۔ اور تعمیری بھی۔ اور خزاں امید کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ لیکن انسانی زندگی فطرت کے اثر سے بے خبر تخریبی راستوں پر رواں دواں رہتی ہے۔ یہ زندگی واہموں و اندیشوں سے باہر نہیں نکل پاتی۔ یہ اچھا عمل وصول کر کے اسے واپس نہیں لوٹاتی۔ یہ زرخیزی کے ہنر سے ناآشنا ہے۔ عمل کی تاثیر سے بے بہرا ہے۔ یہ عطا کرنے کا جوہر نہیں رکھتی۔ یہ فقط لینا جانتی ہے۔۔ وصول کرتے کرتے کبھی نہیں تھکتی۔ یہ احسان مندی کے احساس سے ناواقف ہے۔ یہاں خوشی مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی سچی خوشی سے محروم ہو چکی ہے۔
پھول کے کھلنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ خوشی اور وجد کے انوکھے احساس تلے اس کی بند کونپلیں کھلتی ہیں۔ خوشبو کے راز میں سمٹا ہوا پل لمحوں پر منکشف ہوتا ہے اور پوری کائنات مسکراتی ہے۔ شبنم کے آنسو اسے تازگی عطا کرتے ہیں اور دھوپ کا لمس زندگی۔
انسان مایوس ہو کے خاموش ہو جاتے ہیں، مگر پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں تھکتی۔ پرندے کبھی دعوے نہیں کرتے۔اگر ان کے پاس زبان ہوتی ہے تو دنیا کو واہموں و مفروضوں میں الجھا دیتے۔
پرندے چہچہاتے ہیں اور نومبر کی خوشگوار صبحیں مزید نکھر جاتی ہیں۔ فطرت کے تمام تر مناظر میں تازگی اور بے ساختہ خوشی کا احساس ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔
اگر فطرت کا مزاج تخریبی ہوتا بھی ہے تو مختصر وقت کے لیے۔ پھر سورج نکل آتا ہے، پرندے چہچہاتے ہیں اور ہوائیں درختوں کی شاخوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہیں۔ انگریزی کے شاعر کیٹس کے لیے بھی خزاں کا موسم خوبصورتی کا استعارہ ہے۔ یہ موسم بہار کی پیش گوئی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
خزاں دائمی کیفیت نہیں۔ یہ بہار کی تمثیل ہے۔
لیکن ہم اپنے ملک و اردگرد کے ماحول میں فقط خزاں کا تذکرہ سنتے چلے آئے ہیں۔
باتیں بھی ایسی کہ جن میں فقط مرجھائے ہوئے پھولوں کی باس ماحول میں یکسانیت پیدا کر دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے بعض اوقات کہ ہم کبھی بہار سے آشنا ہی نہ تھے۔ فقط ایک ہی موسم ہم نشیں ٹھہرا ہو جیسے۔ کئی بار بہار آ کے گزری ہے جسے ہم محسوس نہیں کر سکے۔ یہ الگ بات کہ انسانی زندگی کی بہار دعوؤں، مفروضوں اور پرفریب خیالات کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہ بہار مشروط سی ہے۔ پھر اس کے رنگ بھی ناپائیدار ہوتے ہیں۔
یہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہے۔ اس کی تازگی میں بے ساختہ خوشی نہیں ہوتی۔ یہ مختصر ہوتی ہے اور آنکھوں کو طویل انتظار دے کر بہت دور چلی جاتی ہے۔
مگر فطرت کی بہار غیر مشروط ہے۔ یہ خزاں کے دکھ کو جھیل کے اور بھی نکھر جاتی ہے۔ لہٰذا خزاں کے یہ دن جن سے ہم گزر رہے ہیں بہت ہی بامعنی ہیں۔ جس میں فطرت سوچتی، سانس لیتی اور منصوبہ بندی کرتی ہے۔ اس موسم کا ہر لمحہ جاگتا ہے۔ درخت میٹھا راز سمیٹ کر لہلہاتے ہیں۔ شہد کی مکھیاں متحرک ہوجاتی ہیں۔ رنگین پھولوں پر تتلیاں منڈلاتی ہیں اور یہ آگہی دھیرے دھیرے زرد پتوں کو سبزے میں بدل دیتی ہے۔ اور ہر سو یقین کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔