عدلیہ آئین سے ایک انچ بھی ہٹ کر فیصلہ نہیں کر سکتی چیف جسٹس
عدالت کی ہدایات پرعمل کریں توکراچی سے ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اوردیگرجرائم کاآسانی سے خاتمہ ہوسکتا ہے
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے کہا ہے کہ اگرقانون نافذکرنے والے ادارے سپریم کورٹ کے فیصلے میں دی گئی۔
گائیڈلائن پرسنجیدگی سے عمل کریں توکراچی سے ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اوراغوابرائے تاوان کے جرائم کاآسانی سے خاتمہ ہوسکتا ہے اورملک کے سب سے بڑے صنعتی وتجارتی شہرمیں امن بحال ہوسکتا ہے،ان خیالات کا اظہار انھوں نے ہفتے کی دوپہر کراچی بارایسوسی ایشن کے صدرمحمودالحسن، سیکریٹری خالد ممتاز اورسندھ بارکونسل کے متعدد ارکان پرمشتمل وفد سے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ملاقات کے دوران کیا،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ عدلیہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے فیصلے کررہی ہے اورایک انچ بھی آئین سے ہٹ کر فیصلہ نہیں کرسکتی،ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب آئین سے ہٹ کے فیصلے ہوتے تھے۔
اس وقت جمہوریت رہی نہ پارلیمنٹ،سندھ ہائیکورٹ اورکراچی بار ایسوسی ایشن نے ملک میں عدلیہ کی بحالی اور قانونی کی حکمرانی میں انتہائی اہم و فعال کردار ادا کیا ہے بلکہ یہ تحریک کے معماروں میں سے ہیں ، سندھ ہائیکورٹ بار کی آئینی درخواست پر سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا جس کے نتیجے میں پی سی او ججز کو فارغ کیا گیا اور ججوں نے خود پر قدغن عائد کرتے ہوئے اپنے لیے لائحہ عمل طے کیا، اب کوئی جج آئین کے علاوہ کسی قانون کے تحت فیصلہ نہیں دے سکتا، کراچی کے وکلا نے امن وامان کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں سرگرم معاونت فراہم کی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بلوچستان کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن یہ بات قابل ذکر ہے اس بارے میں بھی بلوچستان بار نے ہی عدالت سے رجوع کیا جو خوشگوار بھی ہے اور حیران کن بھی ، وکلا معاشرے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ، زندگی کا تحفظ ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس کے متاثر ہونے پر شہری آرٹیکل 9 کے تحت عدلیہ سے رجوع کرسکتا ہے،وفد کے سربراہ محمودا لحسن نے ملک سے کرپشن کے خاتمے اور امن وامان کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ کے کردارکوخراج تحسین پیش کیا۔
انھوں نے کہاکہ بلوچستان پاکستان کاسلگتاہوا مسئلہ ہے،سپریم کورٹ نے اس پر توجہ دے کراہم پیشرفت کی ہے،بلوچ قوم پرستوں کی وطن واپسی قوم کے لیے اچھی خبر ہے،عدلیہ بحالی تحریک میں ہم نے کہا تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی سے عدلیہ کا نیا رو پ سامنے آئے گا اور اب عوام دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ہی وہ ادارہ جو ملک میں قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کررہا ہے جبکہ حکمران ملک کودوسری جانب دھکیل رہے ہیں، اگرحکومت قانون کی بالادستی پریقین رکھتی توکراچی کوروزانہ 10/12لاشیں نہ اٹھانا پڑتیں،انھوں نے بار کی جانب سے مفادعامہ کے معاملات میں عدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
گائیڈلائن پرسنجیدگی سے عمل کریں توکراچی سے ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اوراغوابرائے تاوان کے جرائم کاآسانی سے خاتمہ ہوسکتا ہے اورملک کے سب سے بڑے صنعتی وتجارتی شہرمیں امن بحال ہوسکتا ہے،ان خیالات کا اظہار انھوں نے ہفتے کی دوپہر کراچی بارایسوسی ایشن کے صدرمحمودالحسن، سیکریٹری خالد ممتاز اورسندھ بارکونسل کے متعدد ارکان پرمشتمل وفد سے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ملاقات کے دوران کیا،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ عدلیہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے فیصلے کررہی ہے اورایک انچ بھی آئین سے ہٹ کر فیصلہ نہیں کرسکتی،ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب آئین سے ہٹ کے فیصلے ہوتے تھے۔
اس وقت جمہوریت رہی نہ پارلیمنٹ،سندھ ہائیکورٹ اورکراچی بار ایسوسی ایشن نے ملک میں عدلیہ کی بحالی اور قانونی کی حکمرانی میں انتہائی اہم و فعال کردار ادا کیا ہے بلکہ یہ تحریک کے معماروں میں سے ہیں ، سندھ ہائیکورٹ بار کی آئینی درخواست پر سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا جس کے نتیجے میں پی سی او ججز کو فارغ کیا گیا اور ججوں نے خود پر قدغن عائد کرتے ہوئے اپنے لیے لائحہ عمل طے کیا، اب کوئی جج آئین کے علاوہ کسی قانون کے تحت فیصلہ نہیں دے سکتا، کراچی کے وکلا نے امن وامان کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں سرگرم معاونت فراہم کی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بلوچستان کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن یہ بات قابل ذکر ہے اس بارے میں بھی بلوچستان بار نے ہی عدالت سے رجوع کیا جو خوشگوار بھی ہے اور حیران کن بھی ، وکلا معاشرے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ، زندگی کا تحفظ ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس کے متاثر ہونے پر شہری آرٹیکل 9 کے تحت عدلیہ سے رجوع کرسکتا ہے،وفد کے سربراہ محمودا لحسن نے ملک سے کرپشن کے خاتمے اور امن وامان کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ کے کردارکوخراج تحسین پیش کیا۔
انھوں نے کہاکہ بلوچستان پاکستان کاسلگتاہوا مسئلہ ہے،سپریم کورٹ نے اس پر توجہ دے کراہم پیشرفت کی ہے،بلوچ قوم پرستوں کی وطن واپسی قوم کے لیے اچھی خبر ہے،عدلیہ بحالی تحریک میں ہم نے کہا تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی سے عدلیہ کا نیا رو پ سامنے آئے گا اور اب عوام دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ہی وہ ادارہ جو ملک میں قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کررہا ہے جبکہ حکمران ملک کودوسری جانب دھکیل رہے ہیں، اگرحکومت قانون کی بالادستی پریقین رکھتی توکراچی کوروزانہ 10/12لاشیں نہ اٹھانا پڑتیں،انھوں نے بار کی جانب سے مفادعامہ کے معاملات میں عدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔