مٹھی یا مٹی
غربت، بے کسی کی موت کا رقص جاری ہے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران داد وعیش حاصل کر رہے ہیں۔
سندھ کی بیشتر آبادی دریائے سندھ کی گزر گاہوں یا نہری نظام کے ارد گرد یا جھیلوں کے دامن میں آباد ہے، مگر تھرپارکر کی بعض آبادیاں صحرائے تھر کی گزرگاہوں یا چھوٹے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ زیادہ تر ہندو مت سے تعلق رکھنے والے اس علاقے کے باسی ہیں ۔
اس علاقے کی تقدیر بدلنے کے لیے ترقی پسندوں نے بڑا کام کیا خصوصاً جام ساقی نے لیکن انھوں نے خود کو ڈی کلاس کرکے علاقے کی قسمت بدلنے کا بیڑا اٹھایا تھا لیکن رانا چندر سنگھ نے ہاری رہنما کو شکست دے دی ۔ مگر جام ساقی نے 1970 کے عام انتخاب کے موقع پر جو کچھ پیش گوئیاں کی تھیں وہ 44 سال بعد پوری ہو رہی ہیں۔ علاقہ پست سے پست ہوتا جائے گا ۔ آبی وسائل بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔
غیر سرکاری تنظیمیں اور سرکاری تنظیمیں اپنا پیٹ بھریں گی اور تم لوگ افلاس، بھوک اور موت کو گلے لگاؤ گے۔ جام ساقی نے شدید افلاس کے دن گزارے اور بیگم نے بھی تنگ آکے موت کو گلے لگا لیا تھا ، جام ساقی پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑے تھے مگر شکست کے باوجود ان کی جدوجہد جاری تھی شہید بے نظیر بھٹو نے البتہ اپنی زندگی میں ان کو مقام دیا تھا وہ مردم شناس اور ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان افروز تھیں، مشاورت پر یقین رکھتی تھیں ۔
صوبہ سندھ میں بے نظیر شہید کے گزر جانے کے بعد پارٹی کا نظریاتی چراغ بجھ گیا کون کس کی باز پرس کرے جب کوئی بھی انصاف کا تیر چلانے والا نہ ہو بس اقتدار کی دوڑ لگی ہے ۔ افسوس کہ سندھ کے اس علاقے کے لیے کوئی بھی بازپرس کے لیے تیار نہیں تھر کی اموات اس دور میں ہونا کیا معنی جب کہ مرسوں مرسوں کے نعرے بلند ہو رہے ہیں گوکہ معاملہ الٹا ہے مارسوں مارسوں کی حقیقت نظر آرہی ہے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
کامریڈ جام ساقی سے ان دنوں میں نے تھر کی بربادی کا کچھ احوال پوچھا وہ تو خود وہاں کے سیاہ کاروں کے ڈسے ہوئے ہیں ، علیل ہیں ، تھر کو جام ساقی نے قیس بن کے چاہا کہ وہاں کے لوگوں کے حالات بدل جائیں کیونکہ تھر میں پانی نہیں کوئلہ ہے اس لیے عام آدمی کے لیے زمین مٹی ہے کوئی بھاؤ نہیں اور نہ کوئی نام نہاد خدا ترس بلڈر وہاں جانے کو تیار ہے جام ساقی سے حال ہی میں جب میں نے احوال تھر پوچھا تو تھر کی بتدریج زبوں حال تصویر جو انھوں نے کھینچی تو انھوں نے بتایا کہ تقسیم ہند سے قبل انگریز کے زمانے میں ایک نہر وہاں آتی تھی جس کا ناطہ غالباً خیرپور سے تھا پھر چند برسوں بعد وہ بھی جاتی رہی۔
1984 تک لوپ لائنیں بھی مختلف علاقوں میں آتی تھیں وہ بھی ختم ہوئیں، مٹھی جب صحرا کا ہیڈ کوارٹر بنا تو بی بی شہید کے دور تک وہاں کڑی دیکھ بھال تھی وہ ادارہ تھا (SAZDA) سندھ ایریڈ زون ڈیولپمنٹ اتھارٹی (SINDH ARID ZONE DEVELOPMENT AUTHORITY)جس پر کڑی نگاہ رکھی جاتی تھی، وہ بھی گزشتہ دس بارہ برسوں میں برباد ہوچکا۔ اب کون ہے جو اس علاقے کو نئی روح بخشے ۔ ظاہر ہے جب حکومتی ادارے اس قدر سیاہ کار ہوچکے ہوں کہ امدادی سامان گودام اور کھلے آسمانوں کے نیچے تباہ ہو رہے ہیں مٹی بوریوں میں بھر کر گنتی پوری کی جا رہی ہے لوگ مر رہے ہیں جب موت کی ہوا چلتی ہے تو گدھ منڈلانے لگتے ہیں۔
لہٰذا تھر میں مدد کے نام پر گدھ منڈلا رہے ہیں اور وہ انسانی خدمت کا نام دے رہے ہیں ، حکومتی سطح پر موت کے سوداگروں کی گردش جاری ہے کاغذ کا پیٹ میڈیا کا پیٹ خوب بھرا جا رہا ہے ملکی اور غیر ملکی امداد سے موت کے سوداگر بیوپار میں مصروف ہیں مٹھی کو مٹی کی سپلائی میں مصروف ہیں بچوں اور بڑوں میں خصوصاً ماؤں میں خوراک کی اتنی کمی ہے کہ وہ شیر خوار کو دودھ پلانے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
غربت، بے کسی کی موت کا رقص جاری ہے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران داد وعیش حاصل کر رہے ہیں گویا ضلع تھرپارکر ماسوائے میرپور خاص اور عمر کوٹ کے جیسے یہ پاکستان کا علاقہ ہی نہیں ہے اگر کوئی شور مچا بھی تو وہ ایم کیو ایم نے مچایا ۔ ڈپٹی اسپیکر سندھ محترمہ شہلا رضا نے سنجیدہ گفتگو کے مسئلے پر ڈانٹ کر یہ کہا کہ گفتگو کے اس انداز سے ایم کیو ایم ان کے دماغ کی دہی بنا رہی ہے ۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
ایک زمانہ طالب علمی تھا جب یہ مذاکروں میں گھنٹوں بیٹھا کرتی تھیں ۔ ایک متوسط گھرانے کی چشم و چراغ کو تو تھر کے خانماں بربادوں کا دکھ ہونا چاہیے تھا اور سندھ کی اس رنگین ثقافت کو در بدر ہونے سے بچانا چاہیے تھا، مگر ان کا بھی لب خموش ہے۔ ہر شخص خوش اور خوشحال ترکی کی طرف گامزن ہے ایسے عدم توجہ لوگ یا تو ملک سے فرار ہوتے ہیں یا کچھ ان میں غیر ممالک کے آلہ کار بن جاتے ہیں، پسماندگی، غربت، موت انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔
اب جب کہ پاکستان کے بیشتر سرحدی علاقے، دہشت گردی، شرپسندی کی لپیٹ میں ہیں ایسی صورت میں تھرپارکر کے صحرائی علاقوں کو آفت زدہ رکھنا ان کے لیے زندگی معطل کردینا کس قدر اخلاقی گراوٹ اور ساتھ ہی ساتھ شرپسندی کے بیج بونے کے مترادف ہے اور خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کو تو بالکل یہ زیب نہیں دیتا جن کی لیڈری کی بنیاد سندھ کی ثقافت ہے۔
مگر ایسا لگتا ہے کہ تھر کی ثقافت سندھی ٹوپی کے بجائے پگڑی، عورتوں کے ہاتھوں میں بازو سے کلائی تک چوڑیاں، چنری، چولی شیشے والی، بولی الگ گویا ان کو اپنا سندھی بھائی تصور نہیں کرتے سندھ شاہ عبداللطیف بھٹائی، لال شہباز قلندر اور صوفیوں کا گل دستہ ہے جہاں سے دریائے سندھ کی مٹی کی مہک آتی ہے ۔ یہ وہ مٹی ہے جو کئی ممالک سے سفر کرتی کیٹی بندر تک پہنچتی ہے ، لہٰذا مٹھی کو مٹی بنانے والوں اور زندہ انسانوں کو زندہ درگور کرنے والے انصاف کے کٹہرے کے مستحق ہیں ۔ محض 420 کا مقدمہ قائم کرکے برخاست کردینا انصاف سے مذاق کے مترادف ہے ۔
اس علاقے کی تقدیر بدلنے کے لیے ترقی پسندوں نے بڑا کام کیا خصوصاً جام ساقی نے لیکن انھوں نے خود کو ڈی کلاس کرکے علاقے کی قسمت بدلنے کا بیڑا اٹھایا تھا لیکن رانا چندر سنگھ نے ہاری رہنما کو شکست دے دی ۔ مگر جام ساقی نے 1970 کے عام انتخاب کے موقع پر جو کچھ پیش گوئیاں کی تھیں وہ 44 سال بعد پوری ہو رہی ہیں۔ علاقہ پست سے پست ہوتا جائے گا ۔ آبی وسائل بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔
غیر سرکاری تنظیمیں اور سرکاری تنظیمیں اپنا پیٹ بھریں گی اور تم لوگ افلاس، بھوک اور موت کو گلے لگاؤ گے۔ جام ساقی نے شدید افلاس کے دن گزارے اور بیگم نے بھی تنگ آکے موت کو گلے لگا لیا تھا ، جام ساقی پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑے تھے مگر شکست کے باوجود ان کی جدوجہد جاری تھی شہید بے نظیر بھٹو نے البتہ اپنی زندگی میں ان کو مقام دیا تھا وہ مردم شناس اور ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان افروز تھیں، مشاورت پر یقین رکھتی تھیں ۔
صوبہ سندھ میں بے نظیر شہید کے گزر جانے کے بعد پارٹی کا نظریاتی چراغ بجھ گیا کون کس کی باز پرس کرے جب کوئی بھی انصاف کا تیر چلانے والا نہ ہو بس اقتدار کی دوڑ لگی ہے ۔ افسوس کہ سندھ کے اس علاقے کے لیے کوئی بھی بازپرس کے لیے تیار نہیں تھر کی اموات اس دور میں ہونا کیا معنی جب کہ مرسوں مرسوں کے نعرے بلند ہو رہے ہیں گوکہ معاملہ الٹا ہے مارسوں مارسوں کی حقیقت نظر آرہی ہے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
کامریڈ جام ساقی سے ان دنوں میں نے تھر کی بربادی کا کچھ احوال پوچھا وہ تو خود وہاں کے سیاہ کاروں کے ڈسے ہوئے ہیں ، علیل ہیں ، تھر کو جام ساقی نے قیس بن کے چاہا کہ وہاں کے لوگوں کے حالات بدل جائیں کیونکہ تھر میں پانی نہیں کوئلہ ہے اس لیے عام آدمی کے لیے زمین مٹی ہے کوئی بھاؤ نہیں اور نہ کوئی نام نہاد خدا ترس بلڈر وہاں جانے کو تیار ہے جام ساقی سے حال ہی میں جب میں نے احوال تھر پوچھا تو تھر کی بتدریج زبوں حال تصویر جو انھوں نے کھینچی تو انھوں نے بتایا کہ تقسیم ہند سے قبل انگریز کے زمانے میں ایک نہر وہاں آتی تھی جس کا ناطہ غالباً خیرپور سے تھا پھر چند برسوں بعد وہ بھی جاتی رہی۔
1984 تک لوپ لائنیں بھی مختلف علاقوں میں آتی تھیں وہ بھی ختم ہوئیں، مٹھی جب صحرا کا ہیڈ کوارٹر بنا تو بی بی شہید کے دور تک وہاں کڑی دیکھ بھال تھی وہ ادارہ تھا (SAZDA) سندھ ایریڈ زون ڈیولپمنٹ اتھارٹی (SINDH ARID ZONE DEVELOPMENT AUTHORITY)جس پر کڑی نگاہ رکھی جاتی تھی، وہ بھی گزشتہ دس بارہ برسوں میں برباد ہوچکا۔ اب کون ہے جو اس علاقے کو نئی روح بخشے ۔ ظاہر ہے جب حکومتی ادارے اس قدر سیاہ کار ہوچکے ہوں کہ امدادی سامان گودام اور کھلے آسمانوں کے نیچے تباہ ہو رہے ہیں مٹی بوریوں میں بھر کر گنتی پوری کی جا رہی ہے لوگ مر رہے ہیں جب موت کی ہوا چلتی ہے تو گدھ منڈلانے لگتے ہیں۔
لہٰذا تھر میں مدد کے نام پر گدھ منڈلا رہے ہیں اور وہ انسانی خدمت کا نام دے رہے ہیں ، حکومتی سطح پر موت کے سوداگروں کی گردش جاری ہے کاغذ کا پیٹ میڈیا کا پیٹ خوب بھرا جا رہا ہے ملکی اور غیر ملکی امداد سے موت کے سوداگر بیوپار میں مصروف ہیں مٹھی کو مٹی کی سپلائی میں مصروف ہیں بچوں اور بڑوں میں خصوصاً ماؤں میں خوراک کی اتنی کمی ہے کہ وہ شیر خوار کو دودھ پلانے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
غربت، بے کسی کی موت کا رقص جاری ہے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران داد وعیش حاصل کر رہے ہیں گویا ضلع تھرپارکر ماسوائے میرپور خاص اور عمر کوٹ کے جیسے یہ پاکستان کا علاقہ ہی نہیں ہے اگر کوئی شور مچا بھی تو وہ ایم کیو ایم نے مچایا ۔ ڈپٹی اسپیکر سندھ محترمہ شہلا رضا نے سنجیدہ گفتگو کے مسئلے پر ڈانٹ کر یہ کہا کہ گفتگو کے اس انداز سے ایم کیو ایم ان کے دماغ کی دہی بنا رہی ہے ۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
ایک زمانہ طالب علمی تھا جب یہ مذاکروں میں گھنٹوں بیٹھا کرتی تھیں ۔ ایک متوسط گھرانے کی چشم و چراغ کو تو تھر کے خانماں بربادوں کا دکھ ہونا چاہیے تھا اور سندھ کی اس رنگین ثقافت کو در بدر ہونے سے بچانا چاہیے تھا، مگر ان کا بھی لب خموش ہے۔ ہر شخص خوش اور خوشحال ترکی کی طرف گامزن ہے ایسے عدم توجہ لوگ یا تو ملک سے فرار ہوتے ہیں یا کچھ ان میں غیر ممالک کے آلہ کار بن جاتے ہیں، پسماندگی، غربت، موت انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔
اب جب کہ پاکستان کے بیشتر سرحدی علاقے، دہشت گردی، شرپسندی کی لپیٹ میں ہیں ایسی صورت میں تھرپارکر کے صحرائی علاقوں کو آفت زدہ رکھنا ان کے لیے زندگی معطل کردینا کس قدر اخلاقی گراوٹ اور ساتھ ہی ساتھ شرپسندی کے بیج بونے کے مترادف ہے اور خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کو تو بالکل یہ زیب نہیں دیتا جن کی لیڈری کی بنیاد سندھ کی ثقافت ہے۔
مگر ایسا لگتا ہے کہ تھر کی ثقافت سندھی ٹوپی کے بجائے پگڑی، عورتوں کے ہاتھوں میں بازو سے کلائی تک چوڑیاں، چنری، چولی شیشے والی، بولی الگ گویا ان کو اپنا سندھی بھائی تصور نہیں کرتے سندھ شاہ عبداللطیف بھٹائی، لال شہباز قلندر اور صوفیوں کا گل دستہ ہے جہاں سے دریائے سندھ کی مٹی کی مہک آتی ہے ۔ یہ وہ مٹی ہے جو کئی ممالک سے سفر کرتی کیٹی بندر تک پہنچتی ہے ، لہٰذا مٹھی کو مٹی بنانے والوں اور زندہ انسانوں کو زندہ درگور کرنے والے انصاف کے کٹہرے کے مستحق ہیں ۔ محض 420 کا مقدمہ قائم کرکے برخاست کردینا انصاف سے مذاق کے مترادف ہے ۔