صدر اوباما کا میانمار حکومت کو صائب مشورہ
صدر بارک اوباما نے میانمار حکومت سے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمان کہلوانے والوں کو ملک کی شہریت دیدی جائے۔
امریکا نے میانمار (سابقہ برما) میں اقلیتی مسلمانوں کے بودھ مت کو ماننے والوں کے ہاتھوں آئے دن کے قتل عام پر تشویش کا اظہار کیا ہے جب کہ صدر بارک اوباما نے میانمار حکومت سے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمان کہلوانے والوں کو ملک کی شہریت دیدی جائے تا کہ انھیں باہر والے کہہ کر مارنے کا جواز نہ رہے۔
واضح رہے صدر بارک اوباما مشرقی ایشیائی ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے میانمار کے دارالحکومت ینگون (رنگون) پہنچے ہوئے ہیں۔ امریکی ایوان صدر کے حکام نے کہا ہے کہ صدر اوباما میانمار حکومت پر زور دیں گے کہ وہ تمام باشندوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیں۔ یاد رہے 2012ء میں مسلمانوں اور بودھوں میں خونریز تصادم کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ مسلمان رکھین کے صوبے میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں جب کہ بلوائی وہاں بھی مسلمانوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام روہنگیا مسلمان اپنے آپ کو بنگالی کہہ کر رجسٹر کرائیں اور جو ایسا نہیں کریں گے انھیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔ بدھ مت کو ماننے والوں کا کہنا ہے کہ روہنگیا غیر قانونی تارکین وطن ہیں جن کی زیادہ تعداد پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے میانمار پہنچی ہے۔ صدر اوباما کا کہنا ہے کہ وہ میانمار کے حکمرانوں کے علاوہ آنگ سانگ سوچی سمیت تمام اپوزیشن لیڈروں سے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ پرامن طور پر حل کیا جائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اجازت نہ دی جائے۔
نیز اس امر کی یقین دہانی کرائی جائے کہ وہ لوگ غیر معینہ مدت کے لیے کیمپوں میں نہیں رہیں گے بلکہ انھیں باعزت طور پر گھروں میں رہنے کا موقع بھی ملے گا۔ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سے گھبرا کر ایک لاکھ سے زیادہ لوگ چھوٹی کشتیوں یا مال بردار بحری جہازوں میں بیٹھ کر ملک سے فرار ہو گئے ہیں تاہم اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا کہ کیا وہ کسی دوسری محفوظ جگہ پر پہنچ گئے ہیں یا سمندر کا رزق بن گئے ہیں۔ توقع ہے میانمار حکومت امریکی صدر کا مشورہ تسلیم کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دیدے گی جس سے ان کی جان محفوظ ہو جائے گی۔
واضح رہے صدر بارک اوباما مشرقی ایشیائی ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے میانمار کے دارالحکومت ینگون (رنگون) پہنچے ہوئے ہیں۔ امریکی ایوان صدر کے حکام نے کہا ہے کہ صدر اوباما میانمار حکومت پر زور دیں گے کہ وہ تمام باشندوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیں۔ یاد رہے 2012ء میں مسلمانوں اور بودھوں میں خونریز تصادم کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ مسلمان رکھین کے صوبے میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں جب کہ بلوائی وہاں بھی مسلمانوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام روہنگیا مسلمان اپنے آپ کو بنگالی کہہ کر رجسٹر کرائیں اور جو ایسا نہیں کریں گے انھیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔ بدھ مت کو ماننے والوں کا کہنا ہے کہ روہنگیا غیر قانونی تارکین وطن ہیں جن کی زیادہ تعداد پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے میانمار پہنچی ہے۔ صدر اوباما کا کہنا ہے کہ وہ میانمار کے حکمرانوں کے علاوہ آنگ سانگ سوچی سمیت تمام اپوزیشن لیڈروں سے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ پرامن طور پر حل کیا جائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اجازت نہ دی جائے۔
نیز اس امر کی یقین دہانی کرائی جائے کہ وہ لوگ غیر معینہ مدت کے لیے کیمپوں میں نہیں رہیں گے بلکہ انھیں باعزت طور پر گھروں میں رہنے کا موقع بھی ملے گا۔ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سے گھبرا کر ایک لاکھ سے زیادہ لوگ چھوٹی کشتیوں یا مال بردار بحری جہازوں میں بیٹھ کر ملک سے فرار ہو گئے ہیں تاہم اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا کہ کیا وہ کسی دوسری محفوظ جگہ پر پہنچ گئے ہیں یا سمندر کا رزق بن گئے ہیں۔ توقع ہے میانمار حکومت امریکی صدر کا مشورہ تسلیم کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دیدے گی جس سے ان کی جان محفوظ ہو جائے گی۔