میرے اطمینان کو برقرار رہنے دیجیے
جب’’نیویارک ٹائمز‘‘شروع ہوا تو اس کےبانیوں نےطے کیا کہ’’خبر‘‘ وہ ہوتی ہےجسے اس معاشرے کےطاقتور طبقات چھپانا چاہتے ہیں۔
ای میلز کے ذریعے مجھے صرف گالیاں ہی سننے کو نہیں ملتیں (فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے اس ملک کو بے ایمانی سے پاک کرنے والی جنگ میں ہمہ تن مصروف انقلابی اس ضمن میں بازی لے جاتے ہیں)۔ ای میلز کے علاوہ کچھ لوگ کہیں سے میرا فون نمبر ڈھونڈ کر بھی اس تشویش کا اظہار کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ میں نے ملکی سیاست کے بارے میں لکھنا کیوں چھوڑ رکھا ہے۔
چند ایک نے تو بڑے خلوص سے یہ کہتے ہوئے حوصلہ بھی دینا چاہا کہ مجھے انٹرنیٹ جہادیوں کے ''ڈر'' سے خود کو چند موضوعات تک محدود نہیں کر لینا چاہیے۔ ملکی سیاست کے بارے میں اتنے برسوں سے رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ پر تبصرے کرتے رہنا میرا پیشہ وارانہ فرض ہے اور میرے خیالات کو ان سے اتفاق کیے بغیر بھی جاننا قارئین کا حق۔
مجھ سے رابطہ کرنے والوں کا میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں لیکن انھوں نے اپنے حق اور میرے فرض کو یاد دلا کر مجھے شرمسار بھی کر دیا۔ ایمانداری اور ٹھنڈے دل کے ساتھ مگر یہ بھی تو بتائیں کہ اس وقت کی ملکی سیاست کے بارے میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ آج سے دو صدی پہلے جب ''نیویارک ٹائمز'' شروع ہوا تو اس کے بانیوں نے طے کیا کہ ''خبر'' وہ ہوتی ہے جسے اس معاشرے کے طاقتور طبقات چھپانا چاہتے ہیں۔ صحافی کا فریضہ ان کی اس خواہش سے بغاوت کے مترادف ہونا چاہیے۔
اشرافیہ مگر اشرافیہ ہوتی ہے۔ اسی لیے تو صدیوں سے خلقِ خدا کو اپنی غلامی کا شکار بنائے ہوئے ہے۔ کئی برس تک نام نہاد آزاد میڈیا کی ''درازدستیاں'' برداشت کرنے کے بعد بالآخر اس نے اسے ''اوقات'' میں رکھنے کے مؤثر ہتھیار دریافت کر ہی لیے۔ نوم چومسکی نے ان ہتھکنڈوں کا بڑے غور سے مطالعہ کرنے کے بعد بالآخر دریافت کیا کہ دُنیا بھر کی جدید ترین ریاستوں میں میڈیا کے ذریعے اشرافیہ Consensus نام کی ایک شے Manufacture ہوا کرتی ہے۔ مقبول عام سچائی دکھنے والا یہ Consensus درحقیقت اس ریاست کی اشرافیہ کے حقیقی مفادات کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس طرح کے جعلی Consensus کی انتہاء ہمیں عراق جنگ کے دوران نظر آئی جب صدام حسین کے مبینہ طور پر بنائے اور چھپائے ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کو تلاش کر کے تباہ کرنے کے نام پر اس ملک پر ایک تباہ کن جنگ مسلط کر دی گئی۔ Weapons of Mass Destruction جنھیں WMD کا Sexy نام دیا گیا تھا بالآخر دستیاب کہیں سے نہ ہوئے مگر عراقی معاشرہ خوفناک حد تک تقسیم ہو کر رہ گیا۔
اب اس کے شمال میں شاندار انداز میں ''جدید'' بننے کی کوشش میں مبتلا ''خودمختار کردستان'' ہے اور جنوب میں شیعہ اکثریت والی وہ طویل پٹی جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور شط العرب کی بدولت عرب کو عجم کے ساتھ ملاتی ہے۔ عراق کے نام نہاد مرکز میں اب مکمل انتشار ہے اور ان دنوں داعش کے نام سے پھیلائی وحشت و بربریت بھی۔ عراق کے سیاستدان اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر سے بالاتر ہو کر سوچ ہی نہیں سکتے۔ عراق کے بارے میں فکر مندی سے سوچنے کا ٹھیکہ غیروں نے اٹھا رکھا ہے۔ تھینک ٹینکوں میں عراق پر سوچنے والوں کا ایک ہجوم موجود ہے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اس ملک کے لیے قابل عمل حل نہیں ڈھونڈ پا رہا۔
عراق کے اندرونی معاملات سے شاید ہمیں زیادہ دلچسپی نہ ہو مگر ہمارے ہمسائے میں ایک ملک بھارت بھی ہوا کرتا ہے۔ یہ ملک آبادی کے حوالے سے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مانا جاتا ہے۔ صرف اس سال بھارت کے میڈیا میں نئی سرمایہ کاری 5 فیصد سے زیادہ ہوئی۔ ہمارے ہاں ٹیلی وژن کے فروغ نے اخباری صنعت کو تقریباََ مفلوج کر رکھا ہے مگر وہاں پرنٹ میڈیا کے قارئین کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کا ایک قدیم ترین اخبار ''امرت بازار پتریکا'' روزانہ 13 لاکھ کی تعداد میں چھپ کر بکتا ہے اور ٹائمز آف انڈیا کی روزانہ اشاعت گیارہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایسی شاندار ترقی کے باوجود اس ملک کے حساس اور فکر مند دل رکھنے والے صحافی بہت اداس اور پریشان ہیں۔ کئی ایک نے ساری عمر صحافت میں گزارنے کے بعد اب اپنے آخری ایام میں روزگار کی خاطر دوسرے شعبوں سے وابستگی اختیار کر لی ہے۔ وجہ ان کی پریشانی کی بنیادی طور پر نوم چومسکی کا دریافت کردہ Manufactured Consensus ہے جس نے ایک ہندو انتہاء پسند کو تاریخی اکثریت دلوا کر ایک ''سیکولر'' ملک کا طاقتور ترین وزیر اعظم بنا دیا ہے۔
مجھے یہ بات کہنے کی اجازت دیجیے کہ پاکستان کے بارے میں جن بنیادی باتوں پر ازسر نو غور کر کے مسلسل سوالات اٹھانے کی شدید ضرورت ہے ان کے بارے میں Consensus کئی برس سے Manufacture ہو چکا ہے۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران اس ضمن میں کچھ ہلچل ہوئی تھی۔ بتدریج مگر ہم ''آنے والی تھاں'' پر واپس آ گئے۔ ہماری موجودہ سیاست کی Big Picture بنا کر دیکھنے کی کوشش کریں تو صرف اور صرف وہ تقسیم نظر آتی ہے جس کے مطابق ''جعلی انتخابات'' کے ذریعے نواز شریف اس ملک کے تیسر ی بار وزیر اعظم بنے۔
وہ مبینہ طور پر اپنے خاندان اور جماعت کو نواز رہے ہیں مگر ''جمہوریت بچانے کے نام پر'' ہمارے روایتی سیاستدان ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس تقسیم کی دوسری طرف سچا اور ایماندار عمران خان ہیں جن کے ساتھ جہانگیر ترین جیسے ایماندار سرمایہ کار، اسد عمر جیسے کارپوریٹ جینئس اور شیخ رشید جیسے غریب نواز انقلابی کھڑے ہیں۔ ان سب نے خورشید قصوری اور بریگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کے ساتھ مل کر ''نیا پاکستان'' بنانا ہے۔
30 نومبر اب ایک اور دن ٹھہرایا گیا ہے جب پاکستان بھر کے غریب اور بے سہارا عوام اسلام آباد آ کر بیٹھ جائیں گے اور ''گو نواز گو'' ہو جائے گا۔ ملکی سیاست پر لکھنے کا اس وقت صرف ایک مقصد دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے یہ فیصلہ کرنا کہ آپ ''گو نواز گو'' ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ میرا ذاتی مخمصہ یہ ہے کہ مجھے کسی کے آنے یا جانے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ منیر نیازی والی ''مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گا'' والی قنوطیت دل و دماغ پر طاری رہتی ہے۔ اس قنوطیت سے چھٹکارا پانے کے لیے عالمی اخبارات، تحقیقی کتابوں اور جدید ناولوں کا مطالعہ تقریباََ جنونی انداز میں شروع کر دیا ہے۔ خود کو اس جنون میں مبتلا پا کر بجائے پریشانی کے کچھ اطمینان سا محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ میرے اطمینان کو جب تک ممکن ہو براہِ کرم برقرار رہنے دیجیے۔
چند ایک نے تو بڑے خلوص سے یہ کہتے ہوئے حوصلہ بھی دینا چاہا کہ مجھے انٹرنیٹ جہادیوں کے ''ڈر'' سے خود کو چند موضوعات تک محدود نہیں کر لینا چاہیے۔ ملکی سیاست کے بارے میں اتنے برسوں سے رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ پر تبصرے کرتے رہنا میرا پیشہ وارانہ فرض ہے اور میرے خیالات کو ان سے اتفاق کیے بغیر بھی جاننا قارئین کا حق۔
مجھ سے رابطہ کرنے والوں کا میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں لیکن انھوں نے اپنے حق اور میرے فرض کو یاد دلا کر مجھے شرمسار بھی کر دیا۔ ایمانداری اور ٹھنڈے دل کے ساتھ مگر یہ بھی تو بتائیں کہ اس وقت کی ملکی سیاست کے بارے میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ آج سے دو صدی پہلے جب ''نیویارک ٹائمز'' شروع ہوا تو اس کے بانیوں نے طے کیا کہ ''خبر'' وہ ہوتی ہے جسے اس معاشرے کے طاقتور طبقات چھپانا چاہتے ہیں۔ صحافی کا فریضہ ان کی اس خواہش سے بغاوت کے مترادف ہونا چاہیے۔
اشرافیہ مگر اشرافیہ ہوتی ہے۔ اسی لیے تو صدیوں سے خلقِ خدا کو اپنی غلامی کا شکار بنائے ہوئے ہے۔ کئی برس تک نام نہاد آزاد میڈیا کی ''درازدستیاں'' برداشت کرنے کے بعد بالآخر اس نے اسے ''اوقات'' میں رکھنے کے مؤثر ہتھیار دریافت کر ہی لیے۔ نوم چومسکی نے ان ہتھکنڈوں کا بڑے غور سے مطالعہ کرنے کے بعد بالآخر دریافت کیا کہ دُنیا بھر کی جدید ترین ریاستوں میں میڈیا کے ذریعے اشرافیہ Consensus نام کی ایک شے Manufacture ہوا کرتی ہے۔ مقبول عام سچائی دکھنے والا یہ Consensus درحقیقت اس ریاست کی اشرافیہ کے حقیقی مفادات کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس طرح کے جعلی Consensus کی انتہاء ہمیں عراق جنگ کے دوران نظر آئی جب صدام حسین کے مبینہ طور پر بنائے اور چھپائے ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کو تلاش کر کے تباہ کرنے کے نام پر اس ملک پر ایک تباہ کن جنگ مسلط کر دی گئی۔ Weapons of Mass Destruction جنھیں WMD کا Sexy نام دیا گیا تھا بالآخر دستیاب کہیں سے نہ ہوئے مگر عراقی معاشرہ خوفناک حد تک تقسیم ہو کر رہ گیا۔
اب اس کے شمال میں شاندار انداز میں ''جدید'' بننے کی کوشش میں مبتلا ''خودمختار کردستان'' ہے اور جنوب میں شیعہ اکثریت والی وہ طویل پٹی جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور شط العرب کی بدولت عرب کو عجم کے ساتھ ملاتی ہے۔ عراق کے نام نہاد مرکز میں اب مکمل انتشار ہے اور ان دنوں داعش کے نام سے پھیلائی وحشت و بربریت بھی۔ عراق کے سیاستدان اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر سے بالاتر ہو کر سوچ ہی نہیں سکتے۔ عراق کے بارے میں فکر مندی سے سوچنے کا ٹھیکہ غیروں نے اٹھا رکھا ہے۔ تھینک ٹینکوں میں عراق پر سوچنے والوں کا ایک ہجوم موجود ہے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اس ملک کے لیے قابل عمل حل نہیں ڈھونڈ پا رہا۔
عراق کے اندرونی معاملات سے شاید ہمیں زیادہ دلچسپی نہ ہو مگر ہمارے ہمسائے میں ایک ملک بھارت بھی ہوا کرتا ہے۔ یہ ملک آبادی کے حوالے سے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مانا جاتا ہے۔ صرف اس سال بھارت کے میڈیا میں نئی سرمایہ کاری 5 فیصد سے زیادہ ہوئی۔ ہمارے ہاں ٹیلی وژن کے فروغ نے اخباری صنعت کو تقریباََ مفلوج کر رکھا ہے مگر وہاں پرنٹ میڈیا کے قارئین کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کا ایک قدیم ترین اخبار ''امرت بازار پتریکا'' روزانہ 13 لاکھ کی تعداد میں چھپ کر بکتا ہے اور ٹائمز آف انڈیا کی روزانہ اشاعت گیارہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایسی شاندار ترقی کے باوجود اس ملک کے حساس اور فکر مند دل رکھنے والے صحافی بہت اداس اور پریشان ہیں۔ کئی ایک نے ساری عمر صحافت میں گزارنے کے بعد اب اپنے آخری ایام میں روزگار کی خاطر دوسرے شعبوں سے وابستگی اختیار کر لی ہے۔ وجہ ان کی پریشانی کی بنیادی طور پر نوم چومسکی کا دریافت کردہ Manufactured Consensus ہے جس نے ایک ہندو انتہاء پسند کو تاریخی اکثریت دلوا کر ایک ''سیکولر'' ملک کا طاقتور ترین وزیر اعظم بنا دیا ہے۔
مجھے یہ بات کہنے کی اجازت دیجیے کہ پاکستان کے بارے میں جن بنیادی باتوں پر ازسر نو غور کر کے مسلسل سوالات اٹھانے کی شدید ضرورت ہے ان کے بارے میں Consensus کئی برس سے Manufacture ہو چکا ہے۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران اس ضمن میں کچھ ہلچل ہوئی تھی۔ بتدریج مگر ہم ''آنے والی تھاں'' پر واپس آ گئے۔ ہماری موجودہ سیاست کی Big Picture بنا کر دیکھنے کی کوشش کریں تو صرف اور صرف وہ تقسیم نظر آتی ہے جس کے مطابق ''جعلی انتخابات'' کے ذریعے نواز شریف اس ملک کے تیسر ی بار وزیر اعظم بنے۔
وہ مبینہ طور پر اپنے خاندان اور جماعت کو نواز رہے ہیں مگر ''جمہوریت بچانے کے نام پر'' ہمارے روایتی سیاستدان ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس تقسیم کی دوسری طرف سچا اور ایماندار عمران خان ہیں جن کے ساتھ جہانگیر ترین جیسے ایماندار سرمایہ کار، اسد عمر جیسے کارپوریٹ جینئس اور شیخ رشید جیسے غریب نواز انقلابی کھڑے ہیں۔ ان سب نے خورشید قصوری اور بریگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کے ساتھ مل کر ''نیا پاکستان'' بنانا ہے۔
30 نومبر اب ایک اور دن ٹھہرایا گیا ہے جب پاکستان بھر کے غریب اور بے سہارا عوام اسلام آباد آ کر بیٹھ جائیں گے اور ''گو نواز گو'' ہو جائے گا۔ ملکی سیاست پر لکھنے کا اس وقت صرف ایک مقصد دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے یہ فیصلہ کرنا کہ آپ ''گو نواز گو'' ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ میرا ذاتی مخمصہ یہ ہے کہ مجھے کسی کے آنے یا جانے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ منیر نیازی والی ''مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گا'' والی قنوطیت دل و دماغ پر طاری رہتی ہے۔ اس قنوطیت سے چھٹکارا پانے کے لیے عالمی اخبارات، تحقیقی کتابوں اور جدید ناولوں کا مطالعہ تقریباََ جنونی انداز میں شروع کر دیا ہے۔ خود کو اس جنون میں مبتلا پا کر بجائے پریشانی کے کچھ اطمینان سا محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ میرے اطمینان کو جب تک ممکن ہو براہِ کرم برقرار رہنے دیجیے۔