نذیر بیگ اداکار ندیم کیسے بنے
نذیر بیگ مکیش کے گیت گاتا تھا اور پھر امیر احمد خان نیم کلاسیکل انداز میں غزلیں سنایا کرتا تھا۔
جب ایک بانکا سجیلا نوجوان نذیر بیگ اسلامیہ کالج کا طالبعلم تھا تو اس نے کبھی یہ خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ آسمان فلم کا جگمگاتا ستارہ بن کر چمکے گا یا وہ کبھی پاکستان فلم انڈسٹری کا صف اول کا اداکار اور سب سے مہنگا ہیرو ہوکر ابھرے گا۔ نذیر بیگ کو تو اس کے سارے دوست ایک شرمیلے نوجوان کے روپ میں دیکھا کرتے تھے اور اداکاری کے جراثیم تو اس کی شخصیت میں سرے سے نظر ہی نہیں آتے تھے۔
نذیر بیگ تو کالج کے ڈراموں میں بھی کبھی حصہ نہیں لیتا تھا ہاں البتہ اسے گلوکاری کا شوق تھا اور موسیقی کا یہ دیوانہ تھا۔ ہم کلاس فیلو تھے، ہمارا ایک اور کلاس فیلو امیر احمد خان (جو بعد میں استاد امیر احمد خان کلاسیکل بن کر مشہور ہوا) اس کا گھر کالج کے قریب تھا، ہفتے کو کالج کا ہاف ڈے ہوتا تھا، امیر احمد خان اپنے گھر سے ہارمونیم لے آتا تھا اور ہم اپنی کلاس کا دروازہ بند کر کے اپنی کلاس کو میوزک کلاس بنالیا کرتے تھے۔
نذیر بیگ مکیش کے گیت گاتا تھا اور پھر امیر احمد خان نیم کلاسیکل انداز میں غزلیں سنایا کرتا تھا۔ نذیر بیگ نے دھیمے سروں کے مکیش کے چند گیت یاد کرلیے تھے وہی گایا کرتا تھا، ہماری یہ کلاس فنکاروں کی کلاس کہلاتی تھی۔ اس کلاس میں طلعت حسین، آفتاب عظیم، ایم ظہیر خان، غزالہ یاسمین، کاشانی (ہاکی پلیئر)، غیاث وہاب خان (پروفیسر)، سلیم جعفری، کفیل احمد (موسیقار خلیل احمد کا بھائی) اور راقم جب بھی اس کلاس میں جمع ہوتے تھے تو پہلے شاعری کی محفل ہوتی تھی پھر موسیقی کی محفل جمتی تھی۔ اس طالب علمی کے زمانے کی یہ چند شخصیتیں بعد میں ملک کی نامور شخصیتوں میں شمار ہوئیں ۔
نذیر بیگ کالج کے زمانے ہی سے گلوکار مشہور ہوتا جا رہا تھا اور اسی دوران مشہور موسیقار نثار بزمی کے گھر کے چکر بھی لگایا کرتا تھا۔ انٹرکالجیٹ مقابلہ موسیقی میں، امیر احمد خان، نذیر بیگ اور کفیل احمد ایک ٹیم کی حیثیت سے حصہ لیتے تھے اور ہر سال میوزک ٹرافی جیت کر لاتے تھے۔ بحیثیت گلوکار نذیر بیگ اپنا کیریئر بنانا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے نذیر بیگ نے موسیقار بزمی صاحب کی کچھ دنوں شاگردی بھی اختیار تھی۔ کالج سے فارغ ہوکر نذیر بیگ مختلف فنکشنوں میں بھی جانے لگا تھا اور خاص طور پر اسلامیہ کلب سولجر بازار میں جب بھی موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں ان میں حصہ لیا کرتا تھا اور اپنے پسندیدہ گلوکار مکیش کے گیت گایا کرتا تھا۔
اسی دوران بمبینو سینما کے مظفر حسین نے ایسٹرن اسٹوڈیو کے مالک سعید ہارون کے اشتراک سے ایک فلم ''سہرا'' بنانے کا اعلان کیا۔ فلم کا افتتاح ایک گیت کی ریکارڈنگ سے بڑے شاندار انداز میں کیا۔ فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے۔ نثار بزمی نے فلم کا یہ گیت نذیر بیگ سے گوایا۔ اور اس طرح نذیر بیگ کی زندگی میں بحیثیت گلوکار ایک نیا موڑ آیا۔ نذیر بیگ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ مگر پھر فلم ''سہرا'' کسی تنازعے کا شکار ہوگئی اور یہ معاملہ ایک گیت کی ریکارڈنگ سے آگے نہ بڑھ سکا اور فلم شروع ہونے سے پہلے بند کردی گئی۔ نذیر بیگ نے اپنی توجہ کرکٹ کی طرف مبذول کردی اور ساتھ ہی ساتھ اسلامیہ کالج کے فنکشنوں میں حصہ لینے لگا۔
مجید صاحب ایک بار میوزیکل گروپ لے کر ڈھاکا گئے تو وہ اپنے ساتھ نذیر بیگ کو بھی بطور گلوکار لے گئے۔ ڈھاکا کے مختلف میوزک فنکشنوں میں نذیر بیگ کو بہت پسند کیا گیا۔ ڈھاکا کے مشہور موسیقار کریم شہاب الدین نے بھانپ لیا کہ نذیر بیگ مستقبل میں ایک اچھا گلوکار بن سکتا ہے، ان دنوں کریم شہاب الدین نے نذیر بیگ کو اپنی دو فلموں ''کیسے کہوں'' اور ''بیگانہ'' میں گانے گوائے۔ ان میں سولو بھی تھے اور ڈھاکا کی مشہور گلوکارہ فردوسی بیگم کے ساتھ ڈوئیٹ بھی تھے۔ وہ دونوں فلمیں ڈھاکا میں نمائش پذیر بھی ہوئیں اور اس طرح نذیر بیگ وہاں اچھا خاصا مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ مصروف بھی ہوگیا۔
اب یہاں سے نذیر بیگ کی زندگی میں ایک اور نیا ٹرن آتا ہے اس کی کہانی بڑی ہوش ربا اور نہایت دلچسپ ہوجاتی ہے۔ ڈھاکا کے ایک بڑے نامور فلمساز و ہدایت کار احتشام کی بیٹی فرزانہ کی سالگرہ ہر سال بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی اور احتشام کے نام کی وجہ سے ڈھاکا کی فلم انڈسٹری کے تمام بڑے بڑے اور مشہور آرٹسٹ سالگرہ کی تقریب میں مدعو ہوتے تھے اور بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے تھے۔ فرزانہ کی سالگرہ کی تقریب جب منعقد ہوئی تو گلوکار نذر بیگ کو بھی کسی طرح دعوت مل گئی ۔ اس تقریب میں رقص وموسیقی کی محفل بھی ہوتی تھی ۔ نذیر بیگ نے بھی بطور گلوکار حصہ لیا ۔ اتفاق سے اس تقریب میں ڈھاکا کا مشہور ہیرو عظیم وعدہ کر کے نہیں آسکا۔ اس بات پر احتشام اس سے کچھ ناراض ہوگئے تھے، کیونکہ احتشام کی ایک نئی فلم جس کا بعد میں نام ''چکوری'' تجویز ہوا، اس کے ہیرو عظیم ہی تھے۔
احتشام صاحب نے اپنی بیٹی فرزانہ کی سالگرہ کی تقریب کی جب فلم دیکھی تو انھیں نذیر بیگ کے کچھ کلوز اور اس کے گانے کا انداز اچھا لگا۔ ہدایتکار احتشام نے کیمرہ مین ممتاز سے کہا۔ ''ممتاز تم نے نذیر بیگ کے کلوز دیکھے، بالکل ہیرو جیسے لگتے ہیں۔ یار! یہ نیا لڑکا میرے دل کو بھا گیا ہے۔ اب تم ایسا کرو نذیر بیگ کا فوٹو شوٹ کرکے لاؤ اور مجھے دکھاؤ۔'' کیمرہ مین ممتاز نذیر بیگ کو کاکس بازار لے گیا، وہاں اس کا فوٹوشوٹ کیا اور ایک چھوٹی سی اس کی فلم بناکر لایا۔ احتشام صاحب کو نذیر بیگ کا فوٹو شوٹ بہت اچھا لگا۔ کیمرہ مین ممتاز نے اس کے چند کلوز اس طرح شوٹ کے تھے جن میں کہیں کہیں دلیپ کمار کی جھلک آتی تھی۔ احتشام نے اپنے بھائی کو یہ فوٹو شوٹ دکھایا، انھیں بھی بڑا پسند آیا۔ پھر احتشام نے فوراً ہی ایک فیصلہ کیا کہ اب ان کی نئی فلم میں عظیم کی جگہ یہ نیا لڑکا، نئی لڑکی شبانہ کے ساتھ ہیرو ہوگا۔
فلم کا نام ''چکوری'' تجویز ہوا اور نذیر بیگ کو بھی نیا نام ندیم دیا گیا۔ اسی ہفتے ہدایت کار احتشام نے نذیر بیگ کو اپنے گھر بلایا اور یہ خوشخبری سنائی کہ وہ ان کی نئی فلم ''چکوری'' میں ہیرو کا کردار کرے گا۔ نذیر بیگ یہ خبر سن کر گھبرا گیا اور کہنے لگا ''سر! میں اور ہیرو۔۔۔۔ میں تو صرف گلوکاری کرسکتا ہوں۔'' احتشام بولے ''ارے بابا! میری نظر میں تم گلوکار سے زیادہ اداکار لگتے ہو، ٹھیک ہے فلم میں تمہارا گانا بھی ہوگا بس یہ ہمارا فیصلہ ہوگیا۔ ارے بابا! یہ رسک تو ہمارا ہے تم کیوں پریشان ہوتا ہے۔ جاؤ آج سے ہیرو بننے کی تیاری کرلو۔ آیندہ ماہ سے فلم کی باقاعدہ شوٹنگ شروع ہوگی۔''
فلم ''چکوری'' کی لگاتار شوٹنگ کی گئی اور بہت کم مدت میں مکمل کر کے نمائش کے لیے پیش کردی گئی۔ ''چکوری'' کراچی کے پیراڈائز سینما میں لگائی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان سے لے کر مغربی پاکستان تک ''چکوری'' جس شہر میں بھی نمائش پذیر ہوئی سینماؤں کے بورڈز اور تمام ہورڈنگز پر ندیم کے کلوزز کچھ اس اینگل کے تھے کہ ان میں انڈیا کے عظیم ہیرو دلیپ کمار کی جھلک نظر آتی تھی ۔ پہلے دن ''چکوری'' کوئی خاص اثر نہ چھوڑ سکی مگر دوسرے تیسرے دن اسلامیہ کالج جس کے ہزاروں اسٹوڈنٹس تھے انھیں اس بات کا پتا چلا کہ فلم ''چکوری'' کا ہیرو ندیم اسلامیہ کالج کا نذیر بیگ ہے تو یہ خبر آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ پیراڈائز سینما کے باہر اتنی لمبی لمبی لائنیں لگیں کہ ناز سینما کی وہ بڑی بڑی لائنیں یاد آگئیں جب ناز سینما پر دلیپ کمار کی فلم ''آن'' لگی تھی۔
پھر تو ''چکوری'' ایسی چلی، ایسی ہٹ ہوئی کہ کروڑوں فلم بینوں نے ''چکوری'' میں ندیم کی لاجواب اداکاری دیکھ کر ندیم کو جونیئر دلیپ کمار کا خطاب دے دیا تھا۔ ''چکوری'' نے بے مثال کامیابی حاصل کی اور کراچی سے لے کر پشاور تک پاکستان کے ہر شہر میں ریکارڈ توڑ بزنس کیا اور کل کا گلوکار نذیر بیگ ہیرو ندیم بن کر اپنی پہلی ہی فلم کے بعد آسمان فلم کا جگمگاتا ستارہ بن گیا تھا۔ ڈھاکا کی فلمی دنیا میں ایک انقلاب آگیا تھا۔ اردو فلم ''چکوری'' کے بزنس نے ڈھاکا کی بے شمار فلموں کے بزنس ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
اب نذیر بیگ کی زندگی میں ایک اور انقلاب آتا ہے جس کا نذیر بیگ نے کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا۔ اس کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا فلم ساز و ہدایت کار احتشام کی بیٹی فرزانہ ندیم کو دل ہی دل میں چاہنے لگی ہے۔ اور وہ اپنی سالگرہ والے دن اس کو اپنا دل دے بیٹھی تھی۔
آخر کار یہ چاہت رنگ لائی اور فرزانہ کے ڈیڈی نے بھی اس رشتے کو اپنی پسند قرار دے دیا اور پھر قدرت نے ندیم کے لیے خوشیوں کا ایک نیا در کھول دیا، احتشام کی بیٹی فرزانہ ندیم کی دلہن بن گئی۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا ندیم ایک فاتح کے انداز میں لاہور آیا ۔ پاکستان کے مشہور فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے ندیم کو ڈھاکا سے بلوایا اور اپنی فلم ''سنگدل'' میں ہیرو کاسٹ کرنے کے لیے اسے منہ مانگا معاوضہ دیا، جو ایک لاکھ بتایا گیا، جب کہ اس وقت فلموں کے تمام بڑے بڑے ہیروز بیس ہزار یا زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار تک معاوضہ لیتے تھے اور شباب کیرانوی صاحب نے ندیم کو ون چیک پے منٹ کی تھی ۔
شباب کیرانوی کی فلم ''سنگدل'' کا سارے پاکستان میں بڑا چرچا تھا۔ اخبارات میں اس کے خوب تذکرے تھے۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو توقع سے بھی زیادہ سپرہٹ ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہیرو ندیم کا معاوضہ آسمان سے باتیں کرنے لگا، ندیم کو فلمسازوں نے آیندہ دس سال تک بک کرلیا، اور یہ پہلی بار کسی ہیرو کے ساتھ ہوا تھا۔ ندیم وہ اداکار ہے جس نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
نذیر بیگ تو کالج کے ڈراموں میں بھی کبھی حصہ نہیں لیتا تھا ہاں البتہ اسے گلوکاری کا شوق تھا اور موسیقی کا یہ دیوانہ تھا۔ ہم کلاس فیلو تھے، ہمارا ایک اور کلاس فیلو امیر احمد خان (جو بعد میں استاد امیر احمد خان کلاسیکل بن کر مشہور ہوا) اس کا گھر کالج کے قریب تھا، ہفتے کو کالج کا ہاف ڈے ہوتا تھا، امیر احمد خان اپنے گھر سے ہارمونیم لے آتا تھا اور ہم اپنی کلاس کا دروازہ بند کر کے اپنی کلاس کو میوزک کلاس بنالیا کرتے تھے۔
نذیر بیگ مکیش کے گیت گاتا تھا اور پھر امیر احمد خان نیم کلاسیکل انداز میں غزلیں سنایا کرتا تھا۔ نذیر بیگ نے دھیمے سروں کے مکیش کے چند گیت یاد کرلیے تھے وہی گایا کرتا تھا، ہماری یہ کلاس فنکاروں کی کلاس کہلاتی تھی۔ اس کلاس میں طلعت حسین، آفتاب عظیم، ایم ظہیر خان، غزالہ یاسمین، کاشانی (ہاکی پلیئر)، غیاث وہاب خان (پروفیسر)، سلیم جعفری، کفیل احمد (موسیقار خلیل احمد کا بھائی) اور راقم جب بھی اس کلاس میں جمع ہوتے تھے تو پہلے شاعری کی محفل ہوتی تھی پھر موسیقی کی محفل جمتی تھی۔ اس طالب علمی کے زمانے کی یہ چند شخصیتیں بعد میں ملک کی نامور شخصیتوں میں شمار ہوئیں ۔
نذیر بیگ کالج کے زمانے ہی سے گلوکار مشہور ہوتا جا رہا تھا اور اسی دوران مشہور موسیقار نثار بزمی کے گھر کے چکر بھی لگایا کرتا تھا۔ انٹرکالجیٹ مقابلہ موسیقی میں، امیر احمد خان، نذیر بیگ اور کفیل احمد ایک ٹیم کی حیثیت سے حصہ لیتے تھے اور ہر سال میوزک ٹرافی جیت کر لاتے تھے۔ بحیثیت گلوکار نذیر بیگ اپنا کیریئر بنانا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے نذیر بیگ نے موسیقار بزمی صاحب کی کچھ دنوں شاگردی بھی اختیار تھی۔ کالج سے فارغ ہوکر نذیر بیگ مختلف فنکشنوں میں بھی جانے لگا تھا اور خاص طور پر اسلامیہ کلب سولجر بازار میں جب بھی موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں ان میں حصہ لیا کرتا تھا اور اپنے پسندیدہ گلوکار مکیش کے گیت گایا کرتا تھا۔
اسی دوران بمبینو سینما کے مظفر حسین نے ایسٹرن اسٹوڈیو کے مالک سعید ہارون کے اشتراک سے ایک فلم ''سہرا'' بنانے کا اعلان کیا۔ فلم کا افتتاح ایک گیت کی ریکارڈنگ سے بڑے شاندار انداز میں کیا۔ فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے۔ نثار بزمی نے فلم کا یہ گیت نذیر بیگ سے گوایا۔ اور اس طرح نذیر بیگ کی زندگی میں بحیثیت گلوکار ایک نیا موڑ آیا۔ نذیر بیگ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ مگر پھر فلم ''سہرا'' کسی تنازعے کا شکار ہوگئی اور یہ معاملہ ایک گیت کی ریکارڈنگ سے آگے نہ بڑھ سکا اور فلم شروع ہونے سے پہلے بند کردی گئی۔ نذیر بیگ نے اپنی توجہ کرکٹ کی طرف مبذول کردی اور ساتھ ہی ساتھ اسلامیہ کالج کے فنکشنوں میں حصہ لینے لگا۔
مجید صاحب ایک بار میوزیکل گروپ لے کر ڈھاکا گئے تو وہ اپنے ساتھ نذیر بیگ کو بھی بطور گلوکار لے گئے۔ ڈھاکا کے مختلف میوزک فنکشنوں میں نذیر بیگ کو بہت پسند کیا گیا۔ ڈھاکا کے مشہور موسیقار کریم شہاب الدین نے بھانپ لیا کہ نذیر بیگ مستقبل میں ایک اچھا گلوکار بن سکتا ہے، ان دنوں کریم شہاب الدین نے نذیر بیگ کو اپنی دو فلموں ''کیسے کہوں'' اور ''بیگانہ'' میں گانے گوائے۔ ان میں سولو بھی تھے اور ڈھاکا کی مشہور گلوکارہ فردوسی بیگم کے ساتھ ڈوئیٹ بھی تھے۔ وہ دونوں فلمیں ڈھاکا میں نمائش پذیر بھی ہوئیں اور اس طرح نذیر بیگ وہاں اچھا خاصا مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ مصروف بھی ہوگیا۔
اب یہاں سے نذیر بیگ کی زندگی میں ایک اور نیا ٹرن آتا ہے اس کی کہانی بڑی ہوش ربا اور نہایت دلچسپ ہوجاتی ہے۔ ڈھاکا کے ایک بڑے نامور فلمساز و ہدایت کار احتشام کی بیٹی فرزانہ کی سالگرہ ہر سال بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی اور احتشام کے نام کی وجہ سے ڈھاکا کی فلم انڈسٹری کے تمام بڑے بڑے اور مشہور آرٹسٹ سالگرہ کی تقریب میں مدعو ہوتے تھے اور بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے تھے۔ فرزانہ کی سالگرہ کی تقریب جب منعقد ہوئی تو گلوکار نذر بیگ کو بھی کسی طرح دعوت مل گئی ۔ اس تقریب میں رقص وموسیقی کی محفل بھی ہوتی تھی ۔ نذیر بیگ نے بھی بطور گلوکار حصہ لیا ۔ اتفاق سے اس تقریب میں ڈھاکا کا مشہور ہیرو عظیم وعدہ کر کے نہیں آسکا۔ اس بات پر احتشام اس سے کچھ ناراض ہوگئے تھے، کیونکہ احتشام کی ایک نئی فلم جس کا بعد میں نام ''چکوری'' تجویز ہوا، اس کے ہیرو عظیم ہی تھے۔
احتشام صاحب نے اپنی بیٹی فرزانہ کی سالگرہ کی تقریب کی جب فلم دیکھی تو انھیں نذیر بیگ کے کچھ کلوز اور اس کے گانے کا انداز اچھا لگا۔ ہدایتکار احتشام نے کیمرہ مین ممتاز سے کہا۔ ''ممتاز تم نے نذیر بیگ کے کلوز دیکھے، بالکل ہیرو جیسے لگتے ہیں۔ یار! یہ نیا لڑکا میرے دل کو بھا گیا ہے۔ اب تم ایسا کرو نذیر بیگ کا فوٹو شوٹ کرکے لاؤ اور مجھے دکھاؤ۔'' کیمرہ مین ممتاز نذیر بیگ کو کاکس بازار لے گیا، وہاں اس کا فوٹوشوٹ کیا اور ایک چھوٹی سی اس کی فلم بناکر لایا۔ احتشام صاحب کو نذیر بیگ کا فوٹو شوٹ بہت اچھا لگا۔ کیمرہ مین ممتاز نے اس کے چند کلوز اس طرح شوٹ کے تھے جن میں کہیں کہیں دلیپ کمار کی جھلک آتی تھی۔ احتشام نے اپنے بھائی کو یہ فوٹو شوٹ دکھایا، انھیں بھی بڑا پسند آیا۔ پھر احتشام نے فوراً ہی ایک فیصلہ کیا کہ اب ان کی نئی فلم میں عظیم کی جگہ یہ نیا لڑکا، نئی لڑکی شبانہ کے ساتھ ہیرو ہوگا۔
فلم کا نام ''چکوری'' تجویز ہوا اور نذیر بیگ کو بھی نیا نام ندیم دیا گیا۔ اسی ہفتے ہدایت کار احتشام نے نذیر بیگ کو اپنے گھر بلایا اور یہ خوشخبری سنائی کہ وہ ان کی نئی فلم ''چکوری'' میں ہیرو کا کردار کرے گا۔ نذیر بیگ یہ خبر سن کر گھبرا گیا اور کہنے لگا ''سر! میں اور ہیرو۔۔۔۔ میں تو صرف گلوکاری کرسکتا ہوں۔'' احتشام بولے ''ارے بابا! میری نظر میں تم گلوکار سے زیادہ اداکار لگتے ہو، ٹھیک ہے فلم میں تمہارا گانا بھی ہوگا بس یہ ہمارا فیصلہ ہوگیا۔ ارے بابا! یہ رسک تو ہمارا ہے تم کیوں پریشان ہوتا ہے۔ جاؤ آج سے ہیرو بننے کی تیاری کرلو۔ آیندہ ماہ سے فلم کی باقاعدہ شوٹنگ شروع ہوگی۔''
فلم ''چکوری'' کی لگاتار شوٹنگ کی گئی اور بہت کم مدت میں مکمل کر کے نمائش کے لیے پیش کردی گئی۔ ''چکوری'' کراچی کے پیراڈائز سینما میں لگائی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان سے لے کر مغربی پاکستان تک ''چکوری'' جس شہر میں بھی نمائش پذیر ہوئی سینماؤں کے بورڈز اور تمام ہورڈنگز پر ندیم کے کلوزز کچھ اس اینگل کے تھے کہ ان میں انڈیا کے عظیم ہیرو دلیپ کمار کی جھلک نظر آتی تھی ۔ پہلے دن ''چکوری'' کوئی خاص اثر نہ چھوڑ سکی مگر دوسرے تیسرے دن اسلامیہ کالج جس کے ہزاروں اسٹوڈنٹس تھے انھیں اس بات کا پتا چلا کہ فلم ''چکوری'' کا ہیرو ندیم اسلامیہ کالج کا نذیر بیگ ہے تو یہ خبر آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ پیراڈائز سینما کے باہر اتنی لمبی لمبی لائنیں لگیں کہ ناز سینما کی وہ بڑی بڑی لائنیں یاد آگئیں جب ناز سینما پر دلیپ کمار کی فلم ''آن'' لگی تھی۔
پھر تو ''چکوری'' ایسی چلی، ایسی ہٹ ہوئی کہ کروڑوں فلم بینوں نے ''چکوری'' میں ندیم کی لاجواب اداکاری دیکھ کر ندیم کو جونیئر دلیپ کمار کا خطاب دے دیا تھا۔ ''چکوری'' نے بے مثال کامیابی حاصل کی اور کراچی سے لے کر پشاور تک پاکستان کے ہر شہر میں ریکارڈ توڑ بزنس کیا اور کل کا گلوکار نذیر بیگ ہیرو ندیم بن کر اپنی پہلی ہی فلم کے بعد آسمان فلم کا جگمگاتا ستارہ بن گیا تھا۔ ڈھاکا کی فلمی دنیا میں ایک انقلاب آگیا تھا۔ اردو فلم ''چکوری'' کے بزنس نے ڈھاکا کی بے شمار فلموں کے بزنس ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
اب نذیر بیگ کی زندگی میں ایک اور انقلاب آتا ہے جس کا نذیر بیگ نے کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا۔ اس کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا فلم ساز و ہدایت کار احتشام کی بیٹی فرزانہ ندیم کو دل ہی دل میں چاہنے لگی ہے۔ اور وہ اپنی سالگرہ والے دن اس کو اپنا دل دے بیٹھی تھی۔
آخر کار یہ چاہت رنگ لائی اور فرزانہ کے ڈیڈی نے بھی اس رشتے کو اپنی پسند قرار دے دیا اور پھر قدرت نے ندیم کے لیے خوشیوں کا ایک نیا در کھول دیا، احتشام کی بیٹی فرزانہ ندیم کی دلہن بن گئی۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا ندیم ایک فاتح کے انداز میں لاہور آیا ۔ پاکستان کے مشہور فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے ندیم کو ڈھاکا سے بلوایا اور اپنی فلم ''سنگدل'' میں ہیرو کاسٹ کرنے کے لیے اسے منہ مانگا معاوضہ دیا، جو ایک لاکھ بتایا گیا، جب کہ اس وقت فلموں کے تمام بڑے بڑے ہیروز بیس ہزار یا زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار تک معاوضہ لیتے تھے اور شباب کیرانوی صاحب نے ندیم کو ون چیک پے منٹ کی تھی ۔
شباب کیرانوی کی فلم ''سنگدل'' کا سارے پاکستان میں بڑا چرچا تھا۔ اخبارات میں اس کے خوب تذکرے تھے۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو توقع سے بھی زیادہ سپرہٹ ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہیرو ندیم کا معاوضہ آسمان سے باتیں کرنے لگا، ندیم کو فلمسازوں نے آیندہ دس سال تک بک کرلیا، اور یہ پہلی بار کسی ہیرو کے ساتھ ہوا تھا۔ ندیم وہ اداکار ہے جس نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔