اساں قیدی تخت لاہور دے
عوام کی شرح خواندگی انتہائی کم ہونے کے باعث ہمارے ہاں جمہوریت کے نقصانات مغرب سے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔
تحریک اسلامی پاکستان سے وابستہ عبداللطیف انصاری نے اپنے ایک مضمون میں پاکستان کی ایک اہم مذہبی سیاسی جماعت کے رہنما کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں سرزمین سندھ کو دھرتی کی ماں قرار دیتے ہوئے اس کی تقسیم سے انکار کردیا، فرمانے لگے کہ چار صوبے تو ہم سے سنبھالے نہیں جاتے، مزید صوبے کس طرح سنبھالیں گے؟ آگے مزید لکھتے ہیں کہ ''جناب والا دھرتی ماں والا ہندوانہ تصور آپ کی زبان پر کہاں سے آگیا۔ سوچنے کی بات کی جائے، اگر اس تصور کو آج سے 65 سال پہلے جناب محمد علی جناح تسلیم کرلیتے تو برصغیر کی سرزمین کے سینے پر مملکت خداداد کبھی وجود میں نہ آتی۔''
عبداللطیف انصاری صاحب نے اپنے مضمون میں نقطہ تو خوب اٹھایا مگر اس کا کیا کیا جائے کہ جمہوری نظام کی خوبی ہی یہی ہے کہ عوام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس میدان میں کام کرنے والی مذہبی اور سیاسی دونوں اقسام کی جماعتوں کو اپنے ضمیر کے خلاف بھی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
ہمارا یہ پڑھا لکھا لیڈر یہ جانتا ہے کہ کون سی بات غلط، جھوٹ اور مضحکہ خیز ہے کہ جس سے عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گے، مگر ان پڑھ اور سادہ لوح عوام کی اکثریت کو متاثر کرنے کے لیے اور اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہر دوسرا لیڈر دھڑلے سے جھوٹ، غلط اور مضحکہ خیز بات کرتا ہے بلکہ اس جوشیلے انداز میں کہ ان پڑھ عوام کی اکثریت کو اپنی کم علمی کے باعث اور بھی پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ صبح کا سورج ان کے لیے ایک اچھے انقلاب کی خبر کے ساتھ طلوع ہوگا۔ عوام کی شرح خواندگی انتہائی کم ہونے کے باعث ہمارے ہاں جمہوریت کے نقصانات مغرب سے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔
راقم کے سامنے اس وقت ایک اخبار پڑا ہے جس میں احتجاجی بینر کے ساتھ کچھ لوگوں کی تصویر ہے۔ اس بینر پر تحریر ہے ''اساں قیدی تخت لاہور دے، سرائیکستان چاہیے۔''
اس وقت ملک کے سیاسی منظرنامے میں ایک اہم مطالبہ مختلف ناموں سے نئے صوبوں کے قیام کا ہے۔ راقم کی نظر میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ کوئی جرم نہیں ہے لیکن کیا ہم نے اس سوال پر غور کیا کہ قیام پاکستان کے لیے علیحدہ ملک کا نعرہ لگانے والوں کو علیحدگی کے بعد مسائل سے چھٹکارا مل گیا؟ یا بنگلہ دیش کے قیام کے لیے نعرہ لگانے والوں کو بنگلہ دیش بننے کے بعد ان مسائل سے چھٹکارا مل گیا جو ان کے تصور میں تھے؟ یا کیا صوبہ سرحد کا نام بدلنے کے لیے نعرہ لگانے والوں کو صوبے کا نام بدلنے کے بعد مسائل کے بوجھ میں کچھ کمی واقع محسوس ہوئی؟
بات یہ ہے کہ کسی قطعہ زمین کا نام بدلنے سے یا جغرافیائی حدود تبدیل کرلینے سے وہاں کے عوام کے مسائل میں صد فی صد کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ مسائل کا انحصار وہاں کے ریاستی نظام کے ساتھ ان لوگوں کے کردار پر ہوتا ہے جو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، اگر یہ نظام اور اس کو چلانے والے لوگ (یعنی رہنما یا حکمران) ہی عوام کے مسائل حل کرنے میں مخلص نہ ہوں تو پھر نام کی تبدیلی تو نظر آتی ہے مگر مسائل کا حل نظر نہیں آتا۔
نئے صوبوں کے قیام کے حامی اس وقت دنیا بھر کے مختلف ممالک کی مثال پیش کر رہے ہیں خصوصاً اپنے پڑوسی ممالک کی مثلاً یہ کہ افغانستان کی آبادی تقریباً ساڑھے چار کروڑ ہے جب کہ وہاں 36 کے قریب صوبے ہیں، بھارت میں صوبوں کی تعداد 8 سے بڑھا کر 45 کردی گئی یا دیگر ممالک میں مثلاً سوئٹزرلینڈ کی آبادی 80 لاکھ کے قریب ہے مگر وہاں26 یونٹس/ صوبے ہیں، تھائی لینڈ میں آبادی سات کروڑ اور صوبے سات ہیں، فلپائن میں آبادی دس کروڑ اور صوبوں کی تعداد تقریباً 80 ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نظم و ضبط اور علاقے کی ترقی و تعمیر کے لیے فیصلے حقائق کی بنیاد پر کیے جانے چاہئیں، انگریزوں نے بھی متحدہ ہندوستان میں بنگال کو مشرق و مغرب کے اعتبار سے تقسیم کردیا تھا تاکہ انتظامی لحاظ سے آسان ہو یہ اور بات ہے کہ ہندوؤں کے احتجاج کے چند برسوں بعد یہ تقسیم واپس لے لی گئی تھی۔
سندھ میں بھی کسی نئے صوبے کے لیے آوازیں بلند ہو رہی ہیں لیکن یہاں ماضی کی تلخیوں اور غلط فیصلوں کے باعث سندھ کی تقسیم میں قیام پاکستان جیسے تقسیم کی خون خرابے والی کیفیت کا خدشہ بھی نظر آتا ہے لہٰذا اس اہم نقطے کو کسی طور نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اس پر بہت زیادہ غور وخوص کی ضرورت ہے۔ یہاں کی سیاسی صورت حال بھی سندھ میں ملازمتوں کے کوٹے کی طرح تقسیم ہے۔ مرحوم گورنر سندھ حکیم محمد سعید شہید نے بہت سرتوڑ کوششوں کے بعد سندھ کے شہری علاقوں کے لیے پانچ نجی جامعات کی منظوری حاصل کرلی تھی، تاہم ایم کیو ایم ایک طویل عرصے تک اقتدار میں ہونے کے باوجود حیدرآباد میں ایک یونیورسٹی کے قیام میں کامیاب نہ ہوسکی۔
راقم کا خیال ہے کہ ایسی گمبھیر صورتحال میں نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک میں نئے صوبوں کے خصوصاً قومیتوں کے حوالے سے قیام کے لیے نہ سوچا جائے بلکہ انتظامی اعتبار سے ضرور نظم و ضبط کے دائرے میں لایا جائے جس کو متحدہ کے قائد نے بھی قابل قبول ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ ملکی آبادی قیام پاکستان سے لے کر آج تک بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور شہری علاقوں میں تو اس کی رفتار دگنا ہے۔
اس عمل سے پاکستان کے تمام شہروں خصوصاً کراچی جیسے شہر میں نت نئے مسائل نے جنم لے لیا ہے اور یہ مسائل اس وقت ہی حل ہوسکتے ہیں کہ جب انتظامی لحاظ سے نیا نظم و ضبط کا دائرہ بنایا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے ماضی میں میئر کراچی کو جتنی آبادی کی دیکھ بھال کرنا ہوتی اور سہولیات پہنچانا ہوتی تھیں آج صرف کراچی شہر کے ایک ضلع وسطی کی آبادی اس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ماضی کی طرح کراچی کے شہریوں کو سہولیات بہم پہنچانے کے لیے کم از کم چار میئرز یا سٹی ناظم کی ضرورت ہے، اسی طرح وزیراعلیٰ اور گورنرز کی تعداد میں بھی اضافے کی ضرورت بنتی ہے۔ کچھ ایسی ہی ضرورت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہے۔
یہ بھی اصولی بات پورے ملک کے لیے ہونی چاہیے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی حد بندی کے لیے رقبے کی حدود کا تعین یکساں ہو، اسی طرح آبادی کے اعتبار سے بھی زیادہ سے زیادہ تعداد کا پورے ملک کے لیے یکساں تعین ہو۔ پھر ان قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی تعداد کی ازسرنو تشکیل ہو (جس سے حلقوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور بہتر حکمرانی کے نظم و ضبط میں مدد ملے گی)، اسی طرح کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ اور گورنر کے مقرر کرنے کے لیے بھی شہر کی آبادی کا تعین ہو اور جس شہر میں آبادی زیادہ ہو یا رقبہ بھی زیادہ ہو تو وہاں انتظامی امور کو بہتر بنانے کے لیے ''پرو وزیراعلیٰ'' اور ''پرو گورنر'' جیسے عہدے بھی تشکیل دیے جائیں۔
راقم کے خیال میں اس طرح نئے حلقوں کے اضافے، وزیراعلیٰ اور گورنر کے عہدوں میں اضافے سے سیاسی چوہدری بھی خوش رہیں گے یعنی مخالفت نہیں کریں گے کیونکہ ان کا اس میں فائدہ ہوگا۔
ہمارے ہاں نان ایشوز کو ایشوز بنانے کا عمل سیاسی رہنماؤں کی طرف سے عموماً اس لیے ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے کو ''کیش'' کرانا چاہتے ہیں، چنانچہ جب انھیں ( مذکورہ بالا تجویز کی روشنی میں) فوائد حاصل ہورہے ہوں تو توقع ہے کہ پھر اس قسم کے شدید مسائل سامنے نہ آئیں گے۔
یہ قابل غور بات ہے کہ کل ہم انگریزوں اور ہندوؤں کی قید سے نجات کے لیے نعرہ لگانے کے لیے متحد ہوئے، پھر متحدہ پاکستان سے نجات کا نعرہ لگانے لگے، آج بینر اٹھائے ہوئے ہیں کہ ''اساں قیدی تخت لاہور دے... سرائیکستان چاہیے'' ایسا نہ ہو کہ کل آنے والی نسل یہ بینر اٹھائے ہوئے ہوں ''اساں قیدی سرائیکستان دے''۔ آئیے غور کریں!
عبداللطیف انصاری صاحب نے اپنے مضمون میں نقطہ تو خوب اٹھایا مگر اس کا کیا کیا جائے کہ جمہوری نظام کی خوبی ہی یہی ہے کہ عوام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس میدان میں کام کرنے والی مذہبی اور سیاسی دونوں اقسام کی جماعتوں کو اپنے ضمیر کے خلاف بھی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
ہمارا یہ پڑھا لکھا لیڈر یہ جانتا ہے کہ کون سی بات غلط، جھوٹ اور مضحکہ خیز ہے کہ جس سے عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گے، مگر ان پڑھ اور سادہ لوح عوام کی اکثریت کو متاثر کرنے کے لیے اور اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہر دوسرا لیڈر دھڑلے سے جھوٹ، غلط اور مضحکہ خیز بات کرتا ہے بلکہ اس جوشیلے انداز میں کہ ان پڑھ عوام کی اکثریت کو اپنی کم علمی کے باعث اور بھی پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ صبح کا سورج ان کے لیے ایک اچھے انقلاب کی خبر کے ساتھ طلوع ہوگا۔ عوام کی شرح خواندگی انتہائی کم ہونے کے باعث ہمارے ہاں جمہوریت کے نقصانات مغرب سے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔
راقم کے سامنے اس وقت ایک اخبار پڑا ہے جس میں احتجاجی بینر کے ساتھ کچھ لوگوں کی تصویر ہے۔ اس بینر پر تحریر ہے ''اساں قیدی تخت لاہور دے، سرائیکستان چاہیے۔''
اس وقت ملک کے سیاسی منظرنامے میں ایک اہم مطالبہ مختلف ناموں سے نئے صوبوں کے قیام کا ہے۔ راقم کی نظر میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ کوئی جرم نہیں ہے لیکن کیا ہم نے اس سوال پر غور کیا کہ قیام پاکستان کے لیے علیحدہ ملک کا نعرہ لگانے والوں کو علیحدگی کے بعد مسائل سے چھٹکارا مل گیا؟ یا بنگلہ دیش کے قیام کے لیے نعرہ لگانے والوں کو بنگلہ دیش بننے کے بعد ان مسائل سے چھٹکارا مل گیا جو ان کے تصور میں تھے؟ یا کیا صوبہ سرحد کا نام بدلنے کے لیے نعرہ لگانے والوں کو صوبے کا نام بدلنے کے بعد مسائل کے بوجھ میں کچھ کمی واقع محسوس ہوئی؟
بات یہ ہے کہ کسی قطعہ زمین کا نام بدلنے سے یا جغرافیائی حدود تبدیل کرلینے سے وہاں کے عوام کے مسائل میں صد فی صد کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ مسائل کا انحصار وہاں کے ریاستی نظام کے ساتھ ان لوگوں کے کردار پر ہوتا ہے جو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، اگر یہ نظام اور اس کو چلانے والے لوگ (یعنی رہنما یا حکمران) ہی عوام کے مسائل حل کرنے میں مخلص نہ ہوں تو پھر نام کی تبدیلی تو نظر آتی ہے مگر مسائل کا حل نظر نہیں آتا۔
نئے صوبوں کے قیام کے حامی اس وقت دنیا بھر کے مختلف ممالک کی مثال پیش کر رہے ہیں خصوصاً اپنے پڑوسی ممالک کی مثلاً یہ کہ افغانستان کی آبادی تقریباً ساڑھے چار کروڑ ہے جب کہ وہاں 36 کے قریب صوبے ہیں، بھارت میں صوبوں کی تعداد 8 سے بڑھا کر 45 کردی گئی یا دیگر ممالک میں مثلاً سوئٹزرلینڈ کی آبادی 80 لاکھ کے قریب ہے مگر وہاں26 یونٹس/ صوبے ہیں، تھائی لینڈ میں آبادی سات کروڑ اور صوبے سات ہیں، فلپائن میں آبادی دس کروڑ اور صوبوں کی تعداد تقریباً 80 ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نظم و ضبط اور علاقے کی ترقی و تعمیر کے لیے فیصلے حقائق کی بنیاد پر کیے جانے چاہئیں، انگریزوں نے بھی متحدہ ہندوستان میں بنگال کو مشرق و مغرب کے اعتبار سے تقسیم کردیا تھا تاکہ انتظامی لحاظ سے آسان ہو یہ اور بات ہے کہ ہندوؤں کے احتجاج کے چند برسوں بعد یہ تقسیم واپس لے لی گئی تھی۔
سندھ میں بھی کسی نئے صوبے کے لیے آوازیں بلند ہو رہی ہیں لیکن یہاں ماضی کی تلخیوں اور غلط فیصلوں کے باعث سندھ کی تقسیم میں قیام پاکستان جیسے تقسیم کی خون خرابے والی کیفیت کا خدشہ بھی نظر آتا ہے لہٰذا اس اہم نقطے کو کسی طور نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اس پر بہت زیادہ غور وخوص کی ضرورت ہے۔ یہاں کی سیاسی صورت حال بھی سندھ میں ملازمتوں کے کوٹے کی طرح تقسیم ہے۔ مرحوم گورنر سندھ حکیم محمد سعید شہید نے بہت سرتوڑ کوششوں کے بعد سندھ کے شہری علاقوں کے لیے پانچ نجی جامعات کی منظوری حاصل کرلی تھی، تاہم ایم کیو ایم ایک طویل عرصے تک اقتدار میں ہونے کے باوجود حیدرآباد میں ایک یونیورسٹی کے قیام میں کامیاب نہ ہوسکی۔
راقم کا خیال ہے کہ ایسی گمبھیر صورتحال میں نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک میں نئے صوبوں کے خصوصاً قومیتوں کے حوالے سے قیام کے لیے نہ سوچا جائے بلکہ انتظامی اعتبار سے ضرور نظم و ضبط کے دائرے میں لایا جائے جس کو متحدہ کے قائد نے بھی قابل قبول ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ ملکی آبادی قیام پاکستان سے لے کر آج تک بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور شہری علاقوں میں تو اس کی رفتار دگنا ہے۔
اس عمل سے پاکستان کے تمام شہروں خصوصاً کراچی جیسے شہر میں نت نئے مسائل نے جنم لے لیا ہے اور یہ مسائل اس وقت ہی حل ہوسکتے ہیں کہ جب انتظامی لحاظ سے نیا نظم و ضبط کا دائرہ بنایا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے ماضی میں میئر کراچی کو جتنی آبادی کی دیکھ بھال کرنا ہوتی اور سہولیات پہنچانا ہوتی تھیں آج صرف کراچی شہر کے ایک ضلع وسطی کی آبادی اس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ماضی کی طرح کراچی کے شہریوں کو سہولیات بہم پہنچانے کے لیے کم از کم چار میئرز یا سٹی ناظم کی ضرورت ہے، اسی طرح وزیراعلیٰ اور گورنرز کی تعداد میں بھی اضافے کی ضرورت بنتی ہے۔ کچھ ایسی ہی ضرورت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہے۔
یہ بھی اصولی بات پورے ملک کے لیے ہونی چاہیے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی حد بندی کے لیے رقبے کی حدود کا تعین یکساں ہو، اسی طرح آبادی کے اعتبار سے بھی زیادہ سے زیادہ تعداد کا پورے ملک کے لیے یکساں تعین ہو۔ پھر ان قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی تعداد کی ازسرنو تشکیل ہو (جس سے حلقوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور بہتر حکمرانی کے نظم و ضبط میں مدد ملے گی)، اسی طرح کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ اور گورنر کے مقرر کرنے کے لیے بھی شہر کی آبادی کا تعین ہو اور جس شہر میں آبادی زیادہ ہو یا رقبہ بھی زیادہ ہو تو وہاں انتظامی امور کو بہتر بنانے کے لیے ''پرو وزیراعلیٰ'' اور ''پرو گورنر'' جیسے عہدے بھی تشکیل دیے جائیں۔
راقم کے خیال میں اس طرح نئے حلقوں کے اضافے، وزیراعلیٰ اور گورنر کے عہدوں میں اضافے سے سیاسی چوہدری بھی خوش رہیں گے یعنی مخالفت نہیں کریں گے کیونکہ ان کا اس میں فائدہ ہوگا۔
ہمارے ہاں نان ایشوز کو ایشوز بنانے کا عمل سیاسی رہنماؤں کی طرف سے عموماً اس لیے ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے کو ''کیش'' کرانا چاہتے ہیں، چنانچہ جب انھیں ( مذکورہ بالا تجویز کی روشنی میں) فوائد حاصل ہورہے ہوں تو توقع ہے کہ پھر اس قسم کے شدید مسائل سامنے نہ آئیں گے۔
یہ قابل غور بات ہے کہ کل ہم انگریزوں اور ہندوؤں کی قید سے نجات کے لیے نعرہ لگانے کے لیے متحد ہوئے، پھر متحدہ پاکستان سے نجات کا نعرہ لگانے لگے، آج بینر اٹھائے ہوئے ہیں کہ ''اساں قیدی تخت لاہور دے... سرائیکستان چاہیے'' ایسا نہ ہو کہ کل آنے والی نسل یہ بینر اٹھائے ہوئے ہوں ''اساں قیدی سرائیکستان دے''۔ آئیے غور کریں!