مذہب کی بنیاد پر قتل بھی ناقابل برداشت ہے جسٹس مقبول باقر

دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنیوالوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، تقریب سے خطاب

ڈرون پر احتجاج کریں تو ہم بے غیرت قوم نہیں کہلائیں گے، جسٹس باجوہ

سندھ ہائیکورٹ کے سینئر موسٹ جج جسٹس مقبول باقر نے کہا ہے کہ مذہب، عقیدے اور کسی نظریے کی بنیاد پر قتل وغارت گری اور دہشت گردی ناقابل برداشت ہے ۔

جسکی اسلام سمیت کسی مہذب معاشرے میں گنجائش نہیں۔ وہ ہفتے کو سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام مقامی ہوٹل میں 'دہشت گردی کا قانون سے مقابلہ'کے عنوان سے منعقدہ تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے روز خطاب کررہے تھے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ دہشت گردی کا تصور واضح ہونا چاہیے،کسی عمل کے رد عمل میں بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائی ترجیح ہونی چاہیے تاہم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں بھی اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔

مقدمات کی درست تفتیش بھی ضروری ہے تاکہ اصل مجرم کو سزا ہو۔ انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیلیے بین الاقوامی سطح پر بھی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زوردیا اور کہا کہ خصوصی طور پر ایسے ہمسایہ ممالک جہاں دہشت گرد پناہ لیتے ہیں،ان سیتعلقات کو بہتر بنانا چاہیے۔ انھوں نے کہا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قوانین میںترمیم اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد انور باجوہ نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قراداد کے باوجود پاکستانی حدود میں ڈرون حملے جاری ہیں اور بے بسی یہ ہے کہ سپر پاور کے سامنے صدا ئے احتجاج بھی بلند نہیں کرسکتے۔


ملکی استحکام اور غیرت کا تقاضہ تھاکہ ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ میں بھرپور آواز بلند کی جاتی، ممکن ہے کہ متعلقہ فورم میں مطلوبہ اہمیت نہ دی جائے کیونکہ سلامتی کونسل میں معاملات ویٹو کردیے جاتے ہیں اور جنرل اسمبلی کے دانت نہیں ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں اس کے نتائج بھی بھگتناپڑیں مگر کم از کم ہم بے غیرت قوم نہیں کہلائیں گے۔ اگراس جارحیت کے خلاف بھرپور آواز بھی بلند نہیں کرسکتے تو بہت کمزور قوتوں کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کا موقع ملے گا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کا بیشتر حصہ قانون کی رٹ سے محروم ہے اور قبائلی علاقوں کا منظرپیش کرتا ہے۔گزشتہ 65برسوں میں ہم قبائلی علاقوں کی حیثیت نہیں بدل سکے ،بحیثیت معاشرہ ہم اب بھی پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔جسٹس شاہد انور باجوہ نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں مدارس کی تعداد انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ قیام پاکستان کے موقع پر 137 مدارس تھے جبکہ اب یہ تعداد ہزاروں میں ہوچکی ہے ، خاص طور پر دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس کی تعداد 7ہزار کے قریب ہے۔

اندازے کے مطابق ملک بھر میں مدارس کی تعداد کم و بیش 10ہزار اور طلباء کی تعداد 30 لاکھ سے50 لاکھ تک ہے۔ مدارس سے ہی طالبانائزیشن نے جنم لیا ہے، انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے مخالف نظریات کے حامیوں کوقتل کرنے کو بھی جہاد کہاجاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے دہشت گردی میں استعمال ہونے والا اسلحہ مقامی سطح پر بھی تیار کیا جارہا ہے اور بعض بااختیار افراد بھی اس کاروبار میں ملوث ہیں ، لیکن پولیس سمیت تفتیشی ادارے شفاف ، موثر اور صاف تفتیش کی قطعی صلاحیت نہیں رکھتے۔
Load Next Story