جنگ جنون تہمت اور تصادم
سرد جنگ کے دنوں میں سوشلسٹ اور مغربی ممالک کے درمیان اپنی بالادستی ثابت کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔
چند دنوں پہلے پاکستان کے سابق آمر کا بیان نظر سے گزرا جس میں انھوں نے ہندوستان سے حالیہ کشیدہ تعلقات کے حوالے سے کہا تھا کہ ہم نے ایٹم بم اسلحہ خانے میں رکھنے کے لیے نہیں بنایا تھا۔ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے کہا کہ ہندوستان کا دماغ درست کرنے کے لیے اسے استعمال کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ پاکستان میں ان کے حامیوں اور فدائیوں نے اس بیان کا نہایت گرم جوشی سے خیر مقدم کیا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان اس وقت جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے، اس کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم 'بزدل' اور ہندوستان سے 'ذاتی تجارتی مفادات' عزیز رکھنے والے نام نہاد سیاستدانوں سے جان چھڑائیں۔
یہ بیانات پڑھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ ہمارے اکابرین، دانش کی جن بلندیوں پر فائز ہیں، وہاں سے ان کے لیے شاید یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ تاریخ کی کتابوں میں تحریر ان نتائج کو دیکھ سکیں جن پر دنیا دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر امریکا کے ایٹمی حملوں اور اس سے ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد پہنچی ہے۔ انھیں شاید اس کا بھی علم نہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس طاقتوں کے درمیان بھیانک تصادم کے کون کون سے مرحلے آئے ہیں اور اس تصادم کو روکنے کے لیے کن سیاستدانوں، مدبروں اور دانشوروں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
یہ محض ایک اتفاق ہے کہ جب ہمارے یہاں ایٹم بم مار دینے کی تجویز دی جا رہی تھی اور کچھ لوگ اس پر صاد کر رہے تھے، عین ان ہی دنوں دنیا میں اس بھیانک ایٹمی بحران کی 52 ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی جسے دنیا کیوبا میزائل بحران کے نام سے جانتی ہے۔ سرد جنگ کے زمانے کا یہ سب سے سنگین بحران تھا جو 1962ء میں 14 سے 28 اکتوبر کے دوران جاری رہا۔ ان 15دنوں کے دوران ساری دنیا بطور خاص امریکا اور کمیونسٹ بلاک میں رہنے والے سانس روکے بیٹھے رہے۔ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے مہیب نتائج سے آگاہ تھے۔ جانتے تھے کہ اگر یہ بحران ہنگامی بنیادوں پر حل نہیں کیا گیا تو یہ حسین اور پرُ ماجرا دنیا ایٹمی راکھ کا ڈھیر بن جائے گی۔
سرد جنگ کے دنوں میں سوشلسٹ اور مغربی ممالک کے درمیان اپنی بالادستی ثابت کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ یہی سبب تھا کہ 1960ء میں اس وقت کے امریکی صدر جنرل آئزن ہاور نے ایک کروڑ اکتالیس لاکھ ڈالر کی رقم مختص کرتے ہوئے سی آئی اے کے اعلیٰ عہدیداروں کو حکم دیا کہ وہ کیوبا کے حکمران فیڈل کاسٹرو سے نجات حاصل کریں کیونکہ کاسٹرو کے تعلقات امریکا سے کشیدہ تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان دوری مسلسل بڑھ رہی تھی جب کہ سویت یونین سے کیوبا کے تعلقات روز افزوں تھے۔ کاسٹرو کے خلاف بغاوت کرانے کے لیے وہ لوگ استعمال کیے گئے جو کیوبا کے باشندے تھے، کاسٹرو سے ناراض تھے کیونکہ اس نے ان کے ذاتی اور تجارتی مفادات کو زک پہنچائی تھی یہ لوگ ملک چھوڑ کر پڑوسی ملکوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ یہ بغاوت بری طرح ناکام ہوئی، امریکا کو شدید شرمساری کا سامنا کرنا پڑا۔
اس ناکامی کے بعد ہی اٹلی اور ترکی میں امریکا نے اپنے ایٹمی میزائل پہنچا دیے۔ اس کے ساتھ ہی سویت یونین نے خفیہ طور پر کیوبا میں اپنے ایٹمی میزائل نصب کرنا شروع کر دیے۔ یہ کام چھپتے چھپاتے ہو رہا تھا لیکن امریکی جاسوس طیاروں نے اس سرگرمی کی تصاویر اتار لیں، اس کے ساتھ ہی امریکا نے کیوبا کی بحری ناکہ بندی کر دی تا کہ میزائیلوں کی تنصیب میں رکاوٹ ڈالی جا سکے۔ سویت یونین نے اس ناکہ بندی کا سختی سے نوٹس لیا اور حالات اتنے نازک ہو گئے کہ امریکا نے اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخواست دے دی۔ اس اجلاس میں امریکا اور سویت یونین کے سفیروں کے درمیان زبردست جھڑپ ہوئی، امریکا کے طیارے کیوبا کی فضاؤں میں گشت کرنے لگے اور امریکی فضائیہ کو گھنٹے بھر کے نوٹس پر کیوبا کی فضائیہ کا سامنا کرنے کا حکم دے دیا گیا ۔
دنیا بھر میں خوف و ہراس کی فضا تھی۔ لوگوں کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس ایٹم بم کے سانس لینے کی آواز سن سکتے ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور نسل انسانی کو تہس نہس کر سکتا ہے، 6 ہزار برس قدیم انسانی تاریخ اور اس کے آثار آن کی آن میں خاک ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسے کئی مدبرین اور دانشور پس پردہ سرگرم تھے جو دونوں طرف کے مشتعل اور بعض حالات میں غیر متوازن اور جذباتی سوچ رکھنے والے سیاستدانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کی ایک غلطی کرئہ ارض کو برباد کر سکتی ہے۔ خروشچیف اور جان ایف کینیڈی کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ یہ عام ہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگ جیسی تباہی نہ ہو گی جن سے دنیا دونوں عظیم جنگوں کے دوران دوچار ہوئی ہے۔
ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانے کے لیے ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے شہروں کی تباہی کے اعداد و شمار پیش کیے جا رہے تھے اور یہ بھی بتایا جا رہا تھا کہ 1945ء کی نسبت 1962ء کے ایٹمی ہتھیار بہت زیادہ تباہ کن ہیں۔ اس موقعہ پر ویٹیکن میں بیٹھے ہوئے پوپ جون XXIII نے اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے کریملن کو پیغام بھیجا کہ ہم تمام حکومتوں سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ وہ انسانیت کی چیخوں پر کان دھریں اور دنیا کو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کریں۔ پوپ کا یہ پیغام کینیڈی اور خروشچیف کی اجازت سے 25 اکتوبر کو دنیا بھر کے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر کیا گیا۔ اس پیغام نے واشنگٹن اور کریملن کے درمیان ایک پل کا سا کام کیا اور دونوں عظیم طاقتوں میں سے کسی کی بھی شکست یا فتح کے بغیر ایک ایسی فضا بن گئی جس میں آخری فتح امن پسندوں کی ہوئی۔
ان پس پردہ کوششوں میں اس وقت کے اہم ترین برطانوی فلسفی اور امن دوست دانشور برٹرینڈ رسل نے بھی حصہ لیا۔ رسل کو 1950ء میں نوبیل ادبی انعام مل چکا تھا اور وہ دنیا کے بااثر ترین لوگوں میں سے ایک تھا۔ رسل کے ذاتی تعلقات مغربی دنیا کے حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کے ساتھ ہی سویت رہنما خروشچیف اور دوسرے کمیونسٹ رہنماؤں سے بھی تھے۔ رسل اور اس جیسے دوسرے دانش مند اکابرین کی کوششیں رنگ لائیں اور سویت یونین اور امریکا کے درمیان اس نوعیت کا سمجھوتہ طے پائے گیا کہ امریکا اٹلی اور ترکی سے اپنے ایٹمی میزائل ہٹا لے، دوسری طرف سوویت یونین کیوبا میں اپنی ایٹمی تنصیبات کا خاتمہ کر دے۔ اس کے بدلے میں امریکا، کیوبا کو یہ ضمانت دے کہ وہ اس پر کبھی حملہ نہیں کرے گا اور اسی طرح کیوبا کو یہ ضمانت دینی ہو گی کہ وہ مستقبل میں ایسے مہلک ہتھیاروں کو اپنی سر زمین پر لانے یا ان کی تنصیب کی اجازت نہیں دے گا۔
رسل کی کتاب 'ان آرمڈ وکٹری' اسی میزائل بحران پر لکھی گئی اور چند مہینوں بعد 1963ء میں شائع ہوئی۔ اشاعت کے ساتھ ہی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک گئی، خاص طور سے یہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی۔ ابتدا سے یہ تنازعہ رہا کہ وہ لوگ جو رسل کو کمیونسٹ خیال کرتے تھے ان کے خیال میں وہ مغرب کا غدار تھا اور وہ جو اسے ایک اہم امن پسند اور انسانیت پرست دانشور خیال کرتے تھے، انھوں نے کیوبا میزائل بحران کے حوالے سے اس کتاب کو ایک مثالی امن دوست کی عملی اور نظری کوششوں کے طور پر پیش کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کے شائع ہوتے ہی ہندوستان میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ سبب یہ تھا کہ رسل جو دنیا بھر کی طرح ہندوستان میں بھی مشہور تھے، انھوں نے چین اور ہندوستان کے سرحدی تنازعے پر جو موقف اختیار کیا وہ ہندوستانیوں کو پسند نہیں آیا تھا۔
ہندوستان میں اس کتاب پر پابندی عائد ہوئی لیکن پاکستان میں یہ بہت مقبول ہوئی۔ اس وقت پینگوئین کے اس پیپر بیک ایڈیشن کی قیمت جہاں تک یاد پڑ رہی ہے 3 روپے اور 12 آنے تھی۔ اس قیمت پر حیران نہ ہوں کیونکہ اس زمانے میں پاکستانی روپے کی قیمت اس طرح تباہ حال نہیں ہوئی تھی، جیسی آج ہے۔ اس وقت میری تنخواہ 110 روپے تھی جو میری گھریلو ذمے داریوں کے حوالے سے بہت کم تھی اس کے باوجود میں نے یہ کتاب خریدی تھی۔ آج بھی رسل کی کتاب کا یہ جملہ یاد آتا ہے کہ میں کمیونزم کو ناپسند کرتا ہوں کیونکہ وہ غیر جمہوری ہے اور سرمایہ داری مجھے اس لیے پسند نہیں کہ وہ استحصال کی طرف داری کرتی ہے۔ یہ اس شخص کا جملہ ہے جو کسی زمانے میں اپنے کمیونسٹ ہونے پر ناز کرتا تھا لیکن ایماندار اتنا کہ جب اس بارے میں رائے بدلی تو اسے آشکار کرنے سے گریز نہیں کیا۔
آج 52 برس بعد خوف و ہراس کی جب وہ عالمی فضا یاد آئی ہے تو جی چاہتا ہے کہ نیو کلیائی حملوں کی باتیں کرنے والوں سے پوچھوں کہ کیا وہ 1962ء کے ان 15دنوں کی آزمائش کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟ دکھ اس بات کا ہے کہ دنیا کی اقوام انتہا پسندی، محاذ آرائی اور تصادم ترک کر کے امن اور مفاہمت کی راہ پر چلنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ایک ہم ہیں جہاں جنون پھیلانے، جنگ و تصادم کی باتیں اور تہمت و دشنام طرازیاں کرنے والوں کو روکنے والے کم اور واہ واہ کرنے والے زیادہ ہیں ۔
یہ بیانات پڑھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ ہمارے اکابرین، دانش کی جن بلندیوں پر فائز ہیں، وہاں سے ان کے لیے شاید یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ تاریخ کی کتابوں میں تحریر ان نتائج کو دیکھ سکیں جن پر دنیا دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر امریکا کے ایٹمی حملوں اور اس سے ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد پہنچی ہے۔ انھیں شاید اس کا بھی علم نہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس طاقتوں کے درمیان بھیانک تصادم کے کون کون سے مرحلے آئے ہیں اور اس تصادم کو روکنے کے لیے کن سیاستدانوں، مدبروں اور دانشوروں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
یہ محض ایک اتفاق ہے کہ جب ہمارے یہاں ایٹم بم مار دینے کی تجویز دی جا رہی تھی اور کچھ لوگ اس پر صاد کر رہے تھے، عین ان ہی دنوں دنیا میں اس بھیانک ایٹمی بحران کی 52 ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی جسے دنیا کیوبا میزائل بحران کے نام سے جانتی ہے۔ سرد جنگ کے زمانے کا یہ سب سے سنگین بحران تھا جو 1962ء میں 14 سے 28 اکتوبر کے دوران جاری رہا۔ ان 15دنوں کے دوران ساری دنیا بطور خاص امریکا اور کمیونسٹ بلاک میں رہنے والے سانس روکے بیٹھے رہے۔ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے مہیب نتائج سے آگاہ تھے۔ جانتے تھے کہ اگر یہ بحران ہنگامی بنیادوں پر حل نہیں کیا گیا تو یہ حسین اور پرُ ماجرا دنیا ایٹمی راکھ کا ڈھیر بن جائے گی۔
سرد جنگ کے دنوں میں سوشلسٹ اور مغربی ممالک کے درمیان اپنی بالادستی ثابت کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ یہی سبب تھا کہ 1960ء میں اس وقت کے امریکی صدر جنرل آئزن ہاور نے ایک کروڑ اکتالیس لاکھ ڈالر کی رقم مختص کرتے ہوئے سی آئی اے کے اعلیٰ عہدیداروں کو حکم دیا کہ وہ کیوبا کے حکمران فیڈل کاسٹرو سے نجات حاصل کریں کیونکہ کاسٹرو کے تعلقات امریکا سے کشیدہ تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان دوری مسلسل بڑھ رہی تھی جب کہ سویت یونین سے کیوبا کے تعلقات روز افزوں تھے۔ کاسٹرو کے خلاف بغاوت کرانے کے لیے وہ لوگ استعمال کیے گئے جو کیوبا کے باشندے تھے، کاسٹرو سے ناراض تھے کیونکہ اس نے ان کے ذاتی اور تجارتی مفادات کو زک پہنچائی تھی یہ لوگ ملک چھوڑ کر پڑوسی ملکوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ یہ بغاوت بری طرح ناکام ہوئی، امریکا کو شدید شرمساری کا سامنا کرنا پڑا۔
اس ناکامی کے بعد ہی اٹلی اور ترکی میں امریکا نے اپنے ایٹمی میزائل پہنچا دیے۔ اس کے ساتھ ہی سویت یونین نے خفیہ طور پر کیوبا میں اپنے ایٹمی میزائل نصب کرنا شروع کر دیے۔ یہ کام چھپتے چھپاتے ہو رہا تھا لیکن امریکی جاسوس طیاروں نے اس سرگرمی کی تصاویر اتار لیں، اس کے ساتھ ہی امریکا نے کیوبا کی بحری ناکہ بندی کر دی تا کہ میزائیلوں کی تنصیب میں رکاوٹ ڈالی جا سکے۔ سویت یونین نے اس ناکہ بندی کا سختی سے نوٹس لیا اور حالات اتنے نازک ہو گئے کہ امریکا نے اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخواست دے دی۔ اس اجلاس میں امریکا اور سویت یونین کے سفیروں کے درمیان زبردست جھڑپ ہوئی، امریکا کے طیارے کیوبا کی فضاؤں میں گشت کرنے لگے اور امریکی فضائیہ کو گھنٹے بھر کے نوٹس پر کیوبا کی فضائیہ کا سامنا کرنے کا حکم دے دیا گیا ۔
دنیا بھر میں خوف و ہراس کی فضا تھی۔ لوگوں کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس ایٹم بم کے سانس لینے کی آواز سن سکتے ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور نسل انسانی کو تہس نہس کر سکتا ہے، 6 ہزار برس قدیم انسانی تاریخ اور اس کے آثار آن کی آن میں خاک ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسے کئی مدبرین اور دانشور پس پردہ سرگرم تھے جو دونوں طرف کے مشتعل اور بعض حالات میں غیر متوازن اور جذباتی سوچ رکھنے والے سیاستدانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کی ایک غلطی کرئہ ارض کو برباد کر سکتی ہے۔ خروشچیف اور جان ایف کینیڈی کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ یہ عام ہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگ جیسی تباہی نہ ہو گی جن سے دنیا دونوں عظیم جنگوں کے دوران دوچار ہوئی ہے۔
ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگانے کے لیے ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے شہروں کی تباہی کے اعداد و شمار پیش کیے جا رہے تھے اور یہ بھی بتایا جا رہا تھا کہ 1945ء کی نسبت 1962ء کے ایٹمی ہتھیار بہت زیادہ تباہ کن ہیں۔ اس موقعہ پر ویٹیکن میں بیٹھے ہوئے پوپ جون XXIII نے اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے کریملن کو پیغام بھیجا کہ ہم تمام حکومتوں سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ وہ انسانیت کی چیخوں پر کان دھریں اور دنیا کو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کریں۔ پوپ کا یہ پیغام کینیڈی اور خروشچیف کی اجازت سے 25 اکتوبر کو دنیا بھر کے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر کیا گیا۔ اس پیغام نے واشنگٹن اور کریملن کے درمیان ایک پل کا سا کام کیا اور دونوں عظیم طاقتوں میں سے کسی کی بھی شکست یا فتح کے بغیر ایک ایسی فضا بن گئی جس میں آخری فتح امن پسندوں کی ہوئی۔
ان پس پردہ کوششوں میں اس وقت کے اہم ترین برطانوی فلسفی اور امن دوست دانشور برٹرینڈ رسل نے بھی حصہ لیا۔ رسل کو 1950ء میں نوبیل ادبی انعام مل چکا تھا اور وہ دنیا کے بااثر ترین لوگوں میں سے ایک تھا۔ رسل کے ذاتی تعلقات مغربی دنیا کے حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کے ساتھ ہی سویت رہنما خروشچیف اور دوسرے کمیونسٹ رہنماؤں سے بھی تھے۔ رسل اور اس جیسے دوسرے دانش مند اکابرین کی کوششیں رنگ لائیں اور سویت یونین اور امریکا کے درمیان اس نوعیت کا سمجھوتہ طے پائے گیا کہ امریکا اٹلی اور ترکی سے اپنے ایٹمی میزائل ہٹا لے، دوسری طرف سوویت یونین کیوبا میں اپنی ایٹمی تنصیبات کا خاتمہ کر دے۔ اس کے بدلے میں امریکا، کیوبا کو یہ ضمانت دے کہ وہ اس پر کبھی حملہ نہیں کرے گا اور اسی طرح کیوبا کو یہ ضمانت دینی ہو گی کہ وہ مستقبل میں ایسے مہلک ہتھیاروں کو اپنی سر زمین پر لانے یا ان کی تنصیب کی اجازت نہیں دے گا۔
رسل کی کتاب 'ان آرمڈ وکٹری' اسی میزائل بحران پر لکھی گئی اور چند مہینوں بعد 1963ء میں شائع ہوئی۔ اشاعت کے ساتھ ہی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک گئی، خاص طور سے یہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی۔ ابتدا سے یہ تنازعہ رہا کہ وہ لوگ جو رسل کو کمیونسٹ خیال کرتے تھے ان کے خیال میں وہ مغرب کا غدار تھا اور وہ جو اسے ایک اہم امن پسند اور انسانیت پرست دانشور خیال کرتے تھے، انھوں نے کیوبا میزائل بحران کے حوالے سے اس کتاب کو ایک مثالی امن دوست کی عملی اور نظری کوششوں کے طور پر پیش کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کے شائع ہوتے ہی ہندوستان میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ سبب یہ تھا کہ رسل جو دنیا بھر کی طرح ہندوستان میں بھی مشہور تھے، انھوں نے چین اور ہندوستان کے سرحدی تنازعے پر جو موقف اختیار کیا وہ ہندوستانیوں کو پسند نہیں آیا تھا۔
ہندوستان میں اس کتاب پر پابندی عائد ہوئی لیکن پاکستان میں یہ بہت مقبول ہوئی۔ اس وقت پینگوئین کے اس پیپر بیک ایڈیشن کی قیمت جہاں تک یاد پڑ رہی ہے 3 روپے اور 12 آنے تھی۔ اس قیمت پر حیران نہ ہوں کیونکہ اس زمانے میں پاکستانی روپے کی قیمت اس طرح تباہ حال نہیں ہوئی تھی، جیسی آج ہے۔ اس وقت میری تنخواہ 110 روپے تھی جو میری گھریلو ذمے داریوں کے حوالے سے بہت کم تھی اس کے باوجود میں نے یہ کتاب خریدی تھی۔ آج بھی رسل کی کتاب کا یہ جملہ یاد آتا ہے کہ میں کمیونزم کو ناپسند کرتا ہوں کیونکہ وہ غیر جمہوری ہے اور سرمایہ داری مجھے اس لیے پسند نہیں کہ وہ استحصال کی طرف داری کرتی ہے۔ یہ اس شخص کا جملہ ہے جو کسی زمانے میں اپنے کمیونسٹ ہونے پر ناز کرتا تھا لیکن ایماندار اتنا کہ جب اس بارے میں رائے بدلی تو اسے آشکار کرنے سے گریز نہیں کیا۔
آج 52 برس بعد خوف و ہراس کی جب وہ عالمی فضا یاد آئی ہے تو جی چاہتا ہے کہ نیو کلیائی حملوں کی باتیں کرنے والوں سے پوچھوں کہ کیا وہ 1962ء کے ان 15دنوں کی آزمائش کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟ دکھ اس بات کا ہے کہ دنیا کی اقوام انتہا پسندی، محاذ آرائی اور تصادم ترک کر کے امن اور مفاہمت کی راہ پر چلنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ایک ہم ہیں جہاں جنون پھیلانے، جنگ و تصادم کی باتیں اور تہمت و دشنام طرازیاں کرنے والوں کو روکنے والے کم اور واہ واہ کرنے والے زیادہ ہیں ۔