پاکستان اور افغانستان
افغانستان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات پر مجبور ہے ورنہ یہ بند ملک بالکل ہی بند ہو جائے اور اس کا دم گھٹنے لگے۔
افغانستان ایک بند ملک ہے اس کا گھر سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں اور دوسری دنیا کے ساتھ کسی رابطے کے لیے وہ کسی پڑوسی کی کرمفرمائی کا محتاج ہے اور یہ پڑوسی ہے پاکستان۔ پاکستان جو افغانستان کے لیے سمندر کے قریب ترین ہے اور یہ سمندر ہی افغانستان کو کسی دوسری دنیا میں لے جا سکتا ہے۔ افغانستان پر جب روس نے قبضہ کیا تو سوال پیدا ہوا کہ پھر کیا یعنی یہ قبضہ کس کام آئے گا۔
روس کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ افغانستان کے پڑوسی پاکستان کے راستے سمندر تک پہنچ جائے گا اور گرم پانی روس کے لیے ایک نعمت ہے جو پاکستان کے ساحلوں سے شروع ہو جاتا ہے لیکن پاکستان کے مقابلے میں روس کی جسمانی طاقت بھی اسے یہ جرأت نہ دے سکی کہ وہ افغانستان سے ملحق پاکستان میں سے راستہ بنا لیتا یعنی افغانستان کی طرح پاکستان پر قبضہ کر کے اس کے راستے سے جہاں چاہتا چلا جاتا۔
ان ھی دنوں جب روس میں افغانستان پاکستان اور گرم پانی کی بحث جاری تھی اور قیاس آرائیوں کے معرکے گرم تھے تو اس کے چند بظاہر حامی بلکہ ایجنٹ سمجھے جانے والے صحافیوں نے جو میرے سینئر تھے مجھ سے کہا کہ روس کے سفیر سرور عظیموف لاہور آ رہے ہیں تم ان کا انٹرویو کرو۔ اس طویل انٹرویو میں سے ایک بات جو یہاں نقل کر رہا ہوں کہ روسی سفیر نے کہا کہ ہم پر گرم پانی تک ہر صورت میں پہنچنے کا الزام ہے لیکن ہم کسی پاکستانی جرنیل کو کچھ دے دلا کر یہ راستہ لے سکتے ہیں۔ ان دنوں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی لیکن ہمیں اس طرح یہ راستہ درکار نہیں ہے اور نہ ہی ہم ایسا کچھ کریں گے۔
بات یہ ہے کہ پاکستان کی ایسی سیاسی جغرافیائی پوزیشن ہے کہ اس خطے میں اسے نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس پر بحث کی ضرورت ہی نہیں۔ بھارت اگر افغانستان کو آلو پیاز بھجوانا چاہے تو راستہ پاکستان ہے اور امریکا اگر افغانستان سے نکلنا چاہے تو ہم سے راستہ طلب کرتا ہے کہ اس کا پرانا جنگی سامان ہماری سڑک سے گزرنے کی اجازت دے دی جائے اور یہی پاکستان تھا جس نے افغانستان میں آئے ہوئے روس کو یہاں سے بے دخل کر دیا اور پھر سوویت یونین کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ پاکستان کے حکمران کتنے ہی کمزور اور بزدل لالچی کیوں نہ ہوں خود پاکستان کا وجود اور اس کا محل وقوع ایک بڑی طاقت ہے۔ جب وہ کسی کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ لیتا ہے تو وہ اس کی تاب نہیں لا سکتا۔ عالمی طاقتیں اس کی منت سماجت کرتے دنیا نے دیکھی ہیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد سے کچھ پہلے تک پاکستان اور افغانستان کے عوام کے تعلقات واقعی برادرانہ رہے اگر اختلاف رہے تو حکمرانوں کے درمیان اور یہ اختلافات جو بھارت پیدا کرتا رہا دونوں ملکوں کے عوام کو متاثر نہ کر سکے اور ان کے درمیان برادرانہ تعلقات قائم رہے۔ اگرچہ افغانستان کے حکمرانوں کے پاکستان سے قریبی رابطے رہے اور کئی ایک یہاں مقیم رہے بلکہ ان کا دوسرا گھر پاکستان رہا لیکن اسے ہمارے حکمرانوں کی کمزوری اور غلط پالیسیاں سمجھیں کہ افغانستان کے حکمران بھارت کی سیاست میں پھنسے رہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی اگرچہ کسی دوسرے حکمرانوں کی طرح پاکستان میں مقیم نہیں رہے لیکن یہ کس کو معلوم نہیں کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات پر مجبور ہے ورنہ یہ بند ملک بالکل ہی بند ہو جائے اور اس کا دم گھٹنے لگے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ اس کا مسلمان پڑوسی اس کا دوست رہے۔ افغان صدر کا یہ دورہ ہم پاکستانیوں کے لیے خوشی کا ایک موقع ہے ایک بھائی کی تشریف آوری ہے اور یہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ تعلقات کی اصلاح کر لیں اور ان تعلقات کو ماضی کی طرح مضبوط بنا لیں۔
افغانستان اب بھی ایک معاہدے کے تحت ہماری بندرگاہوں کو استعمال کرتا ہے ہم ایسے معاہدوں کو پھیلا کر دو ملکوں نے اچھے تعلقات تک لے جا سکتے ہیں اور اس میں بظاہر افغانستان کا زیادہ فائدہ ہے کہ اس طرح اسے باہر کا راستہ ملتا ہے لیکن ہمیں بھی کچھ کم فائدہ نہیں کہ ایک پڑوسی مسلمان ملک کے ساتھ اخوت اور دین و مذہب کے رشتوں زندہ کریں اور ان رشتوں کو نئے دور تک لے آئیں۔
میں لاہور میں دیکھتا ہوں کہ یہاں کے بازاروں میں افغان تجارت کرتے ہیں اور کئی ایک مارکیٹیں ان کے نام سے موسوم ہیں جن سے خرید و فروخت کسی پاکستانی پر بار نہیں گزرتی بلکہ وہ پاکستانی مارکیٹوں سے زیادہ مقبول ہیں۔ ہماری عام زندگی میں بھی افغانی دیکھے جاتے ہیں اور وہ پاکستانیوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں۔ کاروبار اور مزدوری کرتے ہیں اور اس طرح عملاً پاکستانی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے عوامی سطح پر رشتے پہلے سے مستحکم ہیں لیکن حکومتی سطح پر کمزور ہیں اور اس کی وجہ بھارت کی کامیاب ڈپلومیسی ہے۔ بھارت افغانستان کو قابو میں رکھ کر پاکستان پر دباو بڑھاتا رہتا ہے۔
لیکن آج ہم اس بھارت کے ساتھ غیر معمولی حد تک آگے بڑھ کر دوستی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت کو ہماری دوستی نہیں ہماری تابعداری درکار ہے کیونکہ وہ اب اس قابل نیں کہ پاکستان کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کر سکے کیونکہ اسے جوابی کارروائی کا مہلک خطرہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم ایٹم بم والے ملک ہیں اور ہم اس خطے میں ایک زبردست جغرافیائی قدرتی طاقت بھی ہیں۔ ہم سے بگاڑ کر نہیں بنا کر ہی رکھی جا سکتی ہے۔
بھارت بلاشبہ ایک بڑا ملک ہے لیکن اس کی بڑائی اتنی نہیں کہ ہمیں کھا جائے جو اس کی پرانی خواہش ہے۔ ہمیں افغانستان اور ایران جیسے پڑوسی مسلمان ملکوں سے تعلقات پر زور دینا ہو گا جو بھارت نہیں دے سکتا۔ صدر افغانستان ہمارے مہمان ہیں۔ ہمیں ان کی آمد کو محض ایک رسمی دورہ نہیں بننے دینا چاہیے اور ان پر واضح کر دینا چاہیے کہ ہم افغانستان کے لیے کس قدر ضروری ہیں بلکہ مجبوری ہیں۔
ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے جمہوریہ چین کو باہر کی دنیا سے متعارف کرایا اور چینی اس پاکستانی خدمت کو یاد رکھتے ہیں ہم افغانستان کو بھی اپنی اہمیت یاد دلائیں اور ان کو بتائیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ان کے لیے کس قدر مفید ہوں گے۔ انفرادی رابطے اپنی جگہ لیکن حکومتی رابطے ہوں تو افغانستان باہر کی دنیا میں اپنا مقام بنا سکتا ہے اور وہ سپرپاورز کا اڈہ بنے رہنے کے عذاب سے نکل سکتا ہے اور یہ سب پاکستانی مدد سے ہی ہو سکتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان اگر سچ پوچھیں تو جڑواں ملک ہیں۔
روس کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ افغانستان کے پڑوسی پاکستان کے راستے سمندر تک پہنچ جائے گا اور گرم پانی روس کے لیے ایک نعمت ہے جو پاکستان کے ساحلوں سے شروع ہو جاتا ہے لیکن پاکستان کے مقابلے میں روس کی جسمانی طاقت بھی اسے یہ جرأت نہ دے سکی کہ وہ افغانستان سے ملحق پاکستان میں سے راستہ بنا لیتا یعنی افغانستان کی طرح پاکستان پر قبضہ کر کے اس کے راستے سے جہاں چاہتا چلا جاتا۔
ان ھی دنوں جب روس میں افغانستان پاکستان اور گرم پانی کی بحث جاری تھی اور قیاس آرائیوں کے معرکے گرم تھے تو اس کے چند بظاہر حامی بلکہ ایجنٹ سمجھے جانے والے صحافیوں نے جو میرے سینئر تھے مجھ سے کہا کہ روس کے سفیر سرور عظیموف لاہور آ رہے ہیں تم ان کا انٹرویو کرو۔ اس طویل انٹرویو میں سے ایک بات جو یہاں نقل کر رہا ہوں کہ روسی سفیر نے کہا کہ ہم پر گرم پانی تک ہر صورت میں پہنچنے کا الزام ہے لیکن ہم کسی پاکستانی جرنیل کو کچھ دے دلا کر یہ راستہ لے سکتے ہیں۔ ان دنوں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی لیکن ہمیں اس طرح یہ راستہ درکار نہیں ہے اور نہ ہی ہم ایسا کچھ کریں گے۔
بات یہ ہے کہ پاکستان کی ایسی سیاسی جغرافیائی پوزیشن ہے کہ اس خطے میں اسے نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس پر بحث کی ضرورت ہی نہیں۔ بھارت اگر افغانستان کو آلو پیاز بھجوانا چاہے تو راستہ پاکستان ہے اور امریکا اگر افغانستان سے نکلنا چاہے تو ہم سے راستہ طلب کرتا ہے کہ اس کا پرانا جنگی سامان ہماری سڑک سے گزرنے کی اجازت دے دی جائے اور یہی پاکستان تھا جس نے افغانستان میں آئے ہوئے روس کو یہاں سے بے دخل کر دیا اور پھر سوویت یونین کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ پاکستان کے حکمران کتنے ہی کمزور اور بزدل لالچی کیوں نہ ہوں خود پاکستان کا وجود اور اس کا محل وقوع ایک بڑی طاقت ہے۔ جب وہ کسی کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ لیتا ہے تو وہ اس کی تاب نہیں لا سکتا۔ عالمی طاقتیں اس کی منت سماجت کرتے دنیا نے دیکھی ہیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد سے کچھ پہلے تک پاکستان اور افغانستان کے عوام کے تعلقات واقعی برادرانہ رہے اگر اختلاف رہے تو حکمرانوں کے درمیان اور یہ اختلافات جو بھارت پیدا کرتا رہا دونوں ملکوں کے عوام کو متاثر نہ کر سکے اور ان کے درمیان برادرانہ تعلقات قائم رہے۔ اگرچہ افغانستان کے حکمرانوں کے پاکستان سے قریبی رابطے رہے اور کئی ایک یہاں مقیم رہے بلکہ ان کا دوسرا گھر پاکستان رہا لیکن اسے ہمارے حکمرانوں کی کمزوری اور غلط پالیسیاں سمجھیں کہ افغانستان کے حکمران بھارت کی سیاست میں پھنسے رہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی اگرچہ کسی دوسرے حکمرانوں کی طرح پاکستان میں مقیم نہیں رہے لیکن یہ کس کو معلوم نہیں کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات پر مجبور ہے ورنہ یہ بند ملک بالکل ہی بند ہو جائے اور اس کا دم گھٹنے لگے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ اس کا مسلمان پڑوسی اس کا دوست رہے۔ افغان صدر کا یہ دورہ ہم پاکستانیوں کے لیے خوشی کا ایک موقع ہے ایک بھائی کی تشریف آوری ہے اور یہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ تعلقات کی اصلاح کر لیں اور ان تعلقات کو ماضی کی طرح مضبوط بنا لیں۔
افغانستان اب بھی ایک معاہدے کے تحت ہماری بندرگاہوں کو استعمال کرتا ہے ہم ایسے معاہدوں کو پھیلا کر دو ملکوں نے اچھے تعلقات تک لے جا سکتے ہیں اور اس میں بظاہر افغانستان کا زیادہ فائدہ ہے کہ اس طرح اسے باہر کا راستہ ملتا ہے لیکن ہمیں بھی کچھ کم فائدہ نہیں کہ ایک پڑوسی مسلمان ملک کے ساتھ اخوت اور دین و مذہب کے رشتوں زندہ کریں اور ان رشتوں کو نئے دور تک لے آئیں۔
میں لاہور میں دیکھتا ہوں کہ یہاں کے بازاروں میں افغان تجارت کرتے ہیں اور کئی ایک مارکیٹیں ان کے نام سے موسوم ہیں جن سے خرید و فروخت کسی پاکستانی پر بار نہیں گزرتی بلکہ وہ پاکستانی مارکیٹوں سے زیادہ مقبول ہیں۔ ہماری عام زندگی میں بھی افغانی دیکھے جاتے ہیں اور وہ پاکستانیوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں۔ کاروبار اور مزدوری کرتے ہیں اور اس طرح عملاً پاکستانی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے عوامی سطح پر رشتے پہلے سے مستحکم ہیں لیکن حکومتی سطح پر کمزور ہیں اور اس کی وجہ بھارت کی کامیاب ڈپلومیسی ہے۔ بھارت افغانستان کو قابو میں رکھ کر پاکستان پر دباو بڑھاتا رہتا ہے۔
لیکن آج ہم اس بھارت کے ساتھ غیر معمولی حد تک آگے بڑھ کر دوستی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت کو ہماری دوستی نہیں ہماری تابعداری درکار ہے کیونکہ وہ اب اس قابل نیں کہ پاکستان کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کر سکے کیونکہ اسے جوابی کارروائی کا مہلک خطرہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم ایٹم بم والے ملک ہیں اور ہم اس خطے میں ایک زبردست جغرافیائی قدرتی طاقت بھی ہیں۔ ہم سے بگاڑ کر نہیں بنا کر ہی رکھی جا سکتی ہے۔
بھارت بلاشبہ ایک بڑا ملک ہے لیکن اس کی بڑائی اتنی نہیں کہ ہمیں کھا جائے جو اس کی پرانی خواہش ہے۔ ہمیں افغانستان اور ایران جیسے پڑوسی مسلمان ملکوں سے تعلقات پر زور دینا ہو گا جو بھارت نہیں دے سکتا۔ صدر افغانستان ہمارے مہمان ہیں۔ ہمیں ان کی آمد کو محض ایک رسمی دورہ نہیں بننے دینا چاہیے اور ان پر واضح کر دینا چاہیے کہ ہم افغانستان کے لیے کس قدر ضروری ہیں بلکہ مجبوری ہیں۔
ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے جمہوریہ چین کو باہر کی دنیا سے متعارف کرایا اور چینی اس پاکستانی خدمت کو یاد رکھتے ہیں ہم افغانستان کو بھی اپنی اہمیت یاد دلائیں اور ان کو بتائیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ان کے لیے کس قدر مفید ہوں گے۔ انفرادی رابطے اپنی جگہ لیکن حکومتی رابطے ہوں تو افغانستان باہر کی دنیا میں اپنا مقام بنا سکتا ہے اور وہ سپرپاورز کا اڈہ بنے رہنے کے عذاب سے نکل سکتا ہے اور یہ سب پاکستانی مدد سے ہی ہو سکتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان اگر سچ پوچھیں تو جڑواں ملک ہیں۔