شام شعرِ یاراں
خدائےبرترو پاک نےاس دنیا کی ہرچیزمیں حسن تناسب قائم رکھا ہےمگرسمجھ میں نہیں آتا کہ’’اونٹ‘‘کس کلیےکے تحت بنایا گیا ہے۔
FAISALABAD:
''شامِ شعرِ یاراں'' مشتاق احمد یوسفی صاحب کی کُل ملا کر پانچویں کتاب ہے جو تقریباً 25 برس کے وقفے سے شائع ہوئی ہے۔ اس سے قبل ''چراغ تلے'' ''خاکم بدہن'' ''زرگزشت'' اور ''آبِ گم'' کے نام سے ان کی نثری تحریروں کے چاروں مجموعے اب طنز و مزاح کے حوالے سے اردو ادب کے کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں وہ افتادِ طبع کے باعث ایک Perfectionist (جس کا نزدیک ترین اور رائج الوقت اردو ترجمہ ''تکمیل پسند'' ہے) واقع ہوئے ہیں سو وہ کسی تحریر کو چھپوانے سے پہلے اتنی بار اس پر ''نظرثانی'' کرتے ہیں کہ جس کا شمار ممکن نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آخر میں گھوڑا نہ صرف گھوڑا رہتا ہے بلکہ اس کا حسن اور ادائیں مزید دل کش اور نظر افروز ہو جاتی ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل کے پیچھے ایک لطیفہ پوشیدہ ہے جس کا ذکر ضروری ہے مگر واضح رہے کہ اس کا کوئی تعلق یوسفی صاحب یا ان کی اس زیر نظر کتاب سے نہیں ہے۔
''کہتے ہیں کسی نے سوال کیا کہ خدائے برتر و پاک نے اس دنیا کی ہر چیز میں حسن تناسب قائم رکھا ہے مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ ''اونٹ'' کس کلیے کے تحت بنایا گیا ہے کہ اس کی کوئی کَل بھی سیدھی نہیں، جواب ملا کہ اصل میں یہ اونٹ ایک گھوڑا تھا جس کی Fine Tuning کرنے کے لیے اسے فرشتوں کی ایک کمیٹی کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے نظرثانی اور Amendment کر کے اس کا یہ حال کر دیا ہے۔''
مجھے ذاتی طور پر جن تکمیل پسند سینیئرز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ان میں سے صرف مختار مسعود صاحب ہی ایسے ہیں جنھیں اس فہرست کے اہم ترین ناموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ یوسفی صاحب سے بالمشافہ تعارف اور ملاقاتوں کے دوران، جو کم و بیش چالیس برسوں پر پھیلی ہوئی ہیں دیگر بہت سے احباب سمیت میں نے بھی کئی بار ان سے درخواست کی کہ وہ نہ صرف لکھنے کے لیے زیادہ وقت نکالا کریں بلکہ ان کی بہت سی تحریریں جو نظرثانی کے سرد خانے میں پڑی شنوائی کی منتظر ہیں انھیں بھی شائع کروائیں کہ ان کے مدّاحین بہت بے چینی سے ان کے منتظر رہتے ہیں۔
کوئی بیس سال قبل لندن میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس تقریباً 1400 صفحات کا ذخیرہ موجود ہے لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے ان کی اشاعت کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر پائے۔ میں نے عرض کیا کہ جن مبینہ اعتراضات اور تحفظات کے باعث وہ متذبذب ہیں ان کے قارئین کے نزدیک وہ کوئی معنی نہیں رکھتے کہ ان کے لیے ان کی ہر تحریر ایک تحفے کا درجہ رکھتی ہے اور تحفے اپنی ''قیمت'' نہیں بلکہ ''قدر'' کی میزان پر تولے جاتے ہیں۔
ہر بار انھوں نے اپنی مخصوص شرمیلی اور خوب صورت مسکراہٹ کے ساتھ اس انداز میں درخواست پر غور کرنے کا وعدہ کیا جو اب تک صرف غزل کے روایتی محبوب کی جاگیر رہی ہے۔ یعنی ''اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا مطلب کچھ نہیں''
اب جو ''شامِ شعرِ یاراں'' کے نام سے اب جو یہ کتاب سامنے آئی ہے تو اسے ان ھی تحریروں کا ایک انتخاب سمجھنا چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی کم از کم ڈیڑھ دو ہزار کے قریب صفحات یوسفی صاحب کے ''نظرثانی'' والے درازوں میں موجود ہیں۔
اس کتاب کی افتتاحی تقریب کے دوران گزشتہ ماہ کراچی آرٹ کونسل کے صدر برادرم احمد شاہ نے حاضرین کو بتایا کہ اس کی طباعت کا عمل صرف تین ہفتوں میں مکمل ہوا ہے جس کے لیے وہ اپنے متعلقہ ساتھیوں سمیت لاہور کے اشاعتی ادارے جہانگیر بکس کے نواز نیاز کے بھی شکر گزار ہیں جنھوں نے اس بظاہر ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا اور یہ کہ یہ یوسفی صاحب کی پہلی کتاب ہے جس کی افتتاحی تقریب ہو رہی ہے کہ اس سے قبل انھوں نے کبھی نہ خود اس طرح کی تقریب کا اہتمام کیا ہے اور نہ کسی دوسرے کو ایسا کرنے کی اجازت دی ہے۔
اب آئیے اس کتاب کے مندرجات کی طرف۔ اس میں کل ملا کر 21 مضامین شامل کیے گئے ہیں جو مختلف تقاریب میں پڑھے گئے اور ان میں سے کئی ایک میں وقتاً فوقتاً اضافے اور تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔ یوسفی صاحب کے پڑھنے کا انداز ایسا دلکش اور پر لطف ہے کہ سامعین ان کے جملوں پر اچھے اشعار کی طرح بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ خوبی کم یا زیادہ مختلف نوع کے مقررین میں بھی پائی جاتی ہے لیکن کسی باقاعدہ نثرنگار کے حوالے سے میری یادداشت میں سوائے اشفاق احمد مرحوم کے کوئی دوسرا نام (پہلی صف کے ادیبوں کی حد تک) محفوظ نہیں اور میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے کئی بار اس تجربے سے محظوظ اور مشّرف ہونے کا موقع ملا ہے۔
یہ مضامین اس لحاظ سے بہت عجیب اور منفرد ہیں کہ قاری کا دھیان موضوع سے زیادہ نثر کی خوب صورتیوں کے حصار میں گردش کرتا رہتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یوسفی صاحب کی نثر کا سب سے مؤثر اور جان لیوا انداز ان کے اسلوب کی وہ خوبی ہے کہ جس میں وہ ''تحریف'' کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور چونکہ وہ اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہیں اس لیے ان کے قارئین کو سطر سطر میں اس حیرت آمیز اور خوشگوار مسرت کا سامنا ہوتا ہے جن سے ان کے دل اور دماغ ہمہ وقت روشنی کے جَلو میں رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مضامین یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی تقریبات سے متعلق ہیں۔ کچھ کا تعلق شخصیات اور کتابوں سے ہے۔ کچھ تعزیتی حوالے سے لکھی گئی ہیں اور باقی کا تعلق ''متفرقات'' سے ہے لیکن جیسا میں نے پہلے عرض کیا۔ ان سب کی مشترکہ اور منفرد خوبی یوسفی صاحب کی وہ نثر ہی ہے جس نے انھیں اپنے عہد سمیت پوری اردو نثر کے بہترین ادیبوں کی پہلی صف کا حصہ بنا دیا ہے۔
ان کے طنز اور مزاح دونوں میں معاشرتی تنقید اور ایک حساس اور باشعور انسان کے دکھ کی وہ لہر ہمہ وقت رواں دواں نظر آتی ہے جس میں تاریخ کا مطالعہ اور مستقبل کے خواب اور خدشے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں یہ کتاب بیک وقت قاری کے دل، دماغ اور ذوق تینوں کو چھوتی ہی نہیں بلکہ انھیں اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتی ہے۔
جہاں تک یوسفی صاحب کی نثر سے مثالیں درج کرنے کی بات ہے تو یہ وہ سمندر ہے جو سمندر سائز کے کوزے سے کم کسی شے میں بند نہیں ہو پاتا چونکہ ان مضامین کے بہت سے اقتباسات بیشتر قارئین کسی نہ کسی حوالے سے سن یا پڑھ چکے ہیں اس لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ تکرار سے بچے ہوئے مشتے از خروارے کے طور پر چند ایسے جملے آپ کی نذر کروں جو صرف یوسفی صاحب ہی لکھ سکتے ہیں۔
''اس نے اپنی خوب صورت آٹو گراف بک میں دستخط کرائے تو میرے دستخط پسرتے چلے گئے اور آٹو گراف بک کو اُلانگ گئے''
''دوسری تیسری پاپی نظر تو اناڑی ڈالتے ہیں۔ یا ناقابل اصلاح نظر باز۔ یا پھر نمبر سے اتری ہوئی عینک لگانے والے بڈھے ٹھرکی'
قائداعظم جب سیسل ہوٹل میں پہلی بار قیام پذیر ہوئے تو ہوٹل کے منیجر نے اپنی طرف سے بڑ مارتے ہوئے کہا کہ آپ سے پہلے اس کمرے میں نواب آف رامپور بھی ٹھہر چکے ہیں اس پر قائداعظم نے جواب دیا وہ سننے لائق ہے۔ آپ نے ایک لمحہ تامل کیے بغیر اپنے کرارے کڑکیلے لہجے میں فرمایا
''When the Nawab of Rampur comes again would you mind telling him that Mr Jinnah stayed in this room''
قائداعظم کی نظر ایک مقدمے کے دوران سرکاری وکیل خان بہادر اختر عادل پر پڑی جو اس وقت ہمارے آج کے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور سابق مرکزی وزیر نوید قمر کی طرح حالتِ نوم میں تھے۔ قائداعظم نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
''Khan Bahadur Akhtar Adil is having his siesta, court proceedings may disturb him''
''یہ وہی ماجد صاحب ہیں جن سے ایک مشہور لطیفہ منسوب ہے۔ ایک دفعہ ان کے پاس یعنی وزیر خارجہ کے دفتر کے سامنے کچھ دور لوگ عزت مآب کے خلاف ''ایوب خان کا چمچہ، ایوب خان کا چمچہ'' کے نعرے لگا رہے تھے۔ وزیر موصوف نے ماجد صاحب سے پوچھا ''یہ لوگ کیوں شور مچا رہے ہیں' انھوں نے جواب دیا ''سر، یونہی کچھ کٹلری کے بارے میں واویلا کر رہے ہیں۔''
''اردو شاعری میں ایک خرابی یہ ہے کہ گھٹیا آدمی بڑے بڑھیا شعر نکال سکتا ہے اس کا سبب ردیف قافیے کی بیساکھیاں ہیں۔ پر غزل سے بڑی ظالم صنف اپنے چاہنے والوں کو کہیں کا نہیں رکھتی؎
''غزل کھا گئی نوجواں کیسے کیسے''
''جب میں میٹرک پاس کر کے کالج پہنچ گیا تو مجھ سے دو برس جونیئر ایک طالب علم نے مطلع کیا کہ تمہارے کانچ کے اچھوت گلاس کو اب فورتھ کلاس میں بطور ماڈل سامنے رکھ کر لڑکوں کو ڈرائنگ سکھائی جاتی ہے۔
''رزقی صاحب نے اپنا سکیچ فوراً پھاڑ دیا اور بولے، آپ یوسفی صاحب کا مکان بنوانے آئے ہیں یا مقبرہ؟''
''پانچواں شعبہ عجائب گھر ہے جہاں میں اس لیے نہیں جاتا کہ کسی دانا نے نصیحت کی تھی کہ ایسی جگہ ہرگز نہ جاؤ جہاں لوگ تمہیں عجوبہ سمجھیں... اگر باہر والے عجائب کو اندر کر دیا جائے۔۔۔۔ میرا مطلب ہے میوزیم کے اندر۔۔۔ تو معاشرے کی بہت سی برائیوں کا آپی آپ خاتمہ ہو جائے گا۔''
''ہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس انگریز بینکر نے یہ بھی کہا کہ 3 پائی کی غلطی 3 ملین کی غلطی سے زیادہ ذلیل ہوتی ہے اس لیے کہ اس سے غلطی پن کے علاوہ غلطی کرنے والے کی کم ہمتی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ میں نے وعدہ کیا کہ آئندہ غلطی کرنے سے پہلے اس نکتے اور فرق کو ملحوظ رکھوں گا۔''
''شامِ شعرِ یاراں'' مشتاق احمد یوسفی صاحب کی کُل ملا کر پانچویں کتاب ہے جو تقریباً 25 برس کے وقفے سے شائع ہوئی ہے۔ اس سے قبل ''چراغ تلے'' ''خاکم بدہن'' ''زرگزشت'' اور ''آبِ گم'' کے نام سے ان کی نثری تحریروں کے چاروں مجموعے اب طنز و مزاح کے حوالے سے اردو ادب کے کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں وہ افتادِ طبع کے باعث ایک Perfectionist (جس کا نزدیک ترین اور رائج الوقت اردو ترجمہ ''تکمیل پسند'' ہے) واقع ہوئے ہیں سو وہ کسی تحریر کو چھپوانے سے پہلے اتنی بار اس پر ''نظرثانی'' کرتے ہیں کہ جس کا شمار ممکن نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آخر میں گھوڑا نہ صرف گھوڑا رہتا ہے بلکہ اس کا حسن اور ادائیں مزید دل کش اور نظر افروز ہو جاتی ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل کے پیچھے ایک لطیفہ پوشیدہ ہے جس کا ذکر ضروری ہے مگر واضح رہے کہ اس کا کوئی تعلق یوسفی صاحب یا ان کی اس زیر نظر کتاب سے نہیں ہے۔
''کہتے ہیں کسی نے سوال کیا کہ خدائے برتر و پاک نے اس دنیا کی ہر چیز میں حسن تناسب قائم رکھا ہے مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ ''اونٹ'' کس کلیے کے تحت بنایا گیا ہے کہ اس کی کوئی کَل بھی سیدھی نہیں، جواب ملا کہ اصل میں یہ اونٹ ایک گھوڑا تھا جس کی Fine Tuning کرنے کے لیے اسے فرشتوں کی ایک کمیٹی کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے نظرثانی اور Amendment کر کے اس کا یہ حال کر دیا ہے۔''
مجھے ذاتی طور پر جن تکمیل پسند سینیئرز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ان میں سے صرف مختار مسعود صاحب ہی ایسے ہیں جنھیں اس فہرست کے اہم ترین ناموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ یوسفی صاحب سے بالمشافہ تعارف اور ملاقاتوں کے دوران، جو کم و بیش چالیس برسوں پر پھیلی ہوئی ہیں دیگر بہت سے احباب سمیت میں نے بھی کئی بار ان سے درخواست کی کہ وہ نہ صرف لکھنے کے لیے زیادہ وقت نکالا کریں بلکہ ان کی بہت سی تحریریں جو نظرثانی کے سرد خانے میں پڑی شنوائی کی منتظر ہیں انھیں بھی شائع کروائیں کہ ان کے مدّاحین بہت بے چینی سے ان کے منتظر رہتے ہیں۔
کوئی بیس سال قبل لندن میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس تقریباً 1400 صفحات کا ذخیرہ موجود ہے لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے ان کی اشاعت کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر پائے۔ میں نے عرض کیا کہ جن مبینہ اعتراضات اور تحفظات کے باعث وہ متذبذب ہیں ان کے قارئین کے نزدیک وہ کوئی معنی نہیں رکھتے کہ ان کے لیے ان کی ہر تحریر ایک تحفے کا درجہ رکھتی ہے اور تحفے اپنی ''قیمت'' نہیں بلکہ ''قدر'' کی میزان پر تولے جاتے ہیں۔
ہر بار انھوں نے اپنی مخصوص شرمیلی اور خوب صورت مسکراہٹ کے ساتھ اس انداز میں درخواست پر غور کرنے کا وعدہ کیا جو اب تک صرف غزل کے روایتی محبوب کی جاگیر رہی ہے۔ یعنی ''اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا مطلب کچھ نہیں''
اب جو ''شامِ شعرِ یاراں'' کے نام سے اب جو یہ کتاب سامنے آئی ہے تو اسے ان ھی تحریروں کا ایک انتخاب سمجھنا چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی کم از کم ڈیڑھ دو ہزار کے قریب صفحات یوسفی صاحب کے ''نظرثانی'' والے درازوں میں موجود ہیں۔
اس کتاب کی افتتاحی تقریب کے دوران گزشتہ ماہ کراچی آرٹ کونسل کے صدر برادرم احمد شاہ نے حاضرین کو بتایا کہ اس کی طباعت کا عمل صرف تین ہفتوں میں مکمل ہوا ہے جس کے لیے وہ اپنے متعلقہ ساتھیوں سمیت لاہور کے اشاعتی ادارے جہانگیر بکس کے نواز نیاز کے بھی شکر گزار ہیں جنھوں نے اس بظاہر ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا اور یہ کہ یہ یوسفی صاحب کی پہلی کتاب ہے جس کی افتتاحی تقریب ہو رہی ہے کہ اس سے قبل انھوں نے کبھی نہ خود اس طرح کی تقریب کا اہتمام کیا ہے اور نہ کسی دوسرے کو ایسا کرنے کی اجازت دی ہے۔
اب آئیے اس کتاب کے مندرجات کی طرف۔ اس میں کل ملا کر 21 مضامین شامل کیے گئے ہیں جو مختلف تقاریب میں پڑھے گئے اور ان میں سے کئی ایک میں وقتاً فوقتاً اضافے اور تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔ یوسفی صاحب کے پڑھنے کا انداز ایسا دلکش اور پر لطف ہے کہ سامعین ان کے جملوں پر اچھے اشعار کی طرح بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ خوبی کم یا زیادہ مختلف نوع کے مقررین میں بھی پائی جاتی ہے لیکن کسی باقاعدہ نثرنگار کے حوالے سے میری یادداشت میں سوائے اشفاق احمد مرحوم کے کوئی دوسرا نام (پہلی صف کے ادیبوں کی حد تک) محفوظ نہیں اور میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے کئی بار اس تجربے سے محظوظ اور مشّرف ہونے کا موقع ملا ہے۔
یہ مضامین اس لحاظ سے بہت عجیب اور منفرد ہیں کہ قاری کا دھیان موضوع سے زیادہ نثر کی خوب صورتیوں کے حصار میں گردش کرتا رہتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یوسفی صاحب کی نثر کا سب سے مؤثر اور جان لیوا انداز ان کے اسلوب کی وہ خوبی ہے کہ جس میں وہ ''تحریف'' کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور چونکہ وہ اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہیں اس لیے ان کے قارئین کو سطر سطر میں اس حیرت آمیز اور خوشگوار مسرت کا سامنا ہوتا ہے جن سے ان کے دل اور دماغ ہمہ وقت روشنی کے جَلو میں رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مضامین یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی تقریبات سے متعلق ہیں۔ کچھ کا تعلق شخصیات اور کتابوں سے ہے۔ کچھ تعزیتی حوالے سے لکھی گئی ہیں اور باقی کا تعلق ''متفرقات'' سے ہے لیکن جیسا میں نے پہلے عرض کیا۔ ان سب کی مشترکہ اور منفرد خوبی یوسفی صاحب کی وہ نثر ہی ہے جس نے انھیں اپنے عہد سمیت پوری اردو نثر کے بہترین ادیبوں کی پہلی صف کا حصہ بنا دیا ہے۔
ان کے طنز اور مزاح دونوں میں معاشرتی تنقید اور ایک حساس اور باشعور انسان کے دکھ کی وہ لہر ہمہ وقت رواں دواں نظر آتی ہے جس میں تاریخ کا مطالعہ اور مستقبل کے خواب اور خدشے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں یہ کتاب بیک وقت قاری کے دل، دماغ اور ذوق تینوں کو چھوتی ہی نہیں بلکہ انھیں اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتی ہے۔
جہاں تک یوسفی صاحب کی نثر سے مثالیں درج کرنے کی بات ہے تو یہ وہ سمندر ہے جو سمندر سائز کے کوزے سے کم کسی شے میں بند نہیں ہو پاتا چونکہ ان مضامین کے بہت سے اقتباسات بیشتر قارئین کسی نہ کسی حوالے سے سن یا پڑھ چکے ہیں اس لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ تکرار سے بچے ہوئے مشتے از خروارے کے طور پر چند ایسے جملے آپ کی نذر کروں جو صرف یوسفی صاحب ہی لکھ سکتے ہیں۔
''اس نے اپنی خوب صورت آٹو گراف بک میں دستخط کرائے تو میرے دستخط پسرتے چلے گئے اور آٹو گراف بک کو اُلانگ گئے''
''دوسری تیسری پاپی نظر تو اناڑی ڈالتے ہیں۔ یا ناقابل اصلاح نظر باز۔ یا پھر نمبر سے اتری ہوئی عینک لگانے والے بڈھے ٹھرکی'
قائداعظم جب سیسل ہوٹل میں پہلی بار قیام پذیر ہوئے تو ہوٹل کے منیجر نے اپنی طرف سے بڑ مارتے ہوئے کہا کہ آپ سے پہلے اس کمرے میں نواب آف رامپور بھی ٹھہر چکے ہیں اس پر قائداعظم نے جواب دیا وہ سننے لائق ہے۔ آپ نے ایک لمحہ تامل کیے بغیر اپنے کرارے کڑکیلے لہجے میں فرمایا
''When the Nawab of Rampur comes again would you mind telling him that Mr Jinnah stayed in this room''
قائداعظم کی نظر ایک مقدمے کے دوران سرکاری وکیل خان بہادر اختر عادل پر پڑی جو اس وقت ہمارے آج کے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور سابق مرکزی وزیر نوید قمر کی طرح حالتِ نوم میں تھے۔ قائداعظم نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
''Khan Bahadur Akhtar Adil is having his siesta, court proceedings may disturb him''
''یہ وہی ماجد صاحب ہیں جن سے ایک مشہور لطیفہ منسوب ہے۔ ایک دفعہ ان کے پاس یعنی وزیر خارجہ کے دفتر کے سامنے کچھ دور لوگ عزت مآب کے خلاف ''ایوب خان کا چمچہ، ایوب خان کا چمچہ'' کے نعرے لگا رہے تھے۔ وزیر موصوف نے ماجد صاحب سے پوچھا ''یہ لوگ کیوں شور مچا رہے ہیں' انھوں نے جواب دیا ''سر، یونہی کچھ کٹلری کے بارے میں واویلا کر رہے ہیں۔''
''اردو شاعری میں ایک خرابی یہ ہے کہ گھٹیا آدمی بڑے بڑھیا شعر نکال سکتا ہے اس کا سبب ردیف قافیے کی بیساکھیاں ہیں۔ پر غزل سے بڑی ظالم صنف اپنے چاہنے والوں کو کہیں کا نہیں رکھتی؎
''غزل کھا گئی نوجواں کیسے کیسے''
''جب میں میٹرک پاس کر کے کالج پہنچ گیا تو مجھ سے دو برس جونیئر ایک طالب علم نے مطلع کیا کہ تمہارے کانچ کے اچھوت گلاس کو اب فورتھ کلاس میں بطور ماڈل سامنے رکھ کر لڑکوں کو ڈرائنگ سکھائی جاتی ہے۔
''رزقی صاحب نے اپنا سکیچ فوراً پھاڑ دیا اور بولے، آپ یوسفی صاحب کا مکان بنوانے آئے ہیں یا مقبرہ؟''
''پانچواں شعبہ عجائب گھر ہے جہاں میں اس لیے نہیں جاتا کہ کسی دانا نے نصیحت کی تھی کہ ایسی جگہ ہرگز نہ جاؤ جہاں لوگ تمہیں عجوبہ سمجھیں... اگر باہر والے عجائب کو اندر کر دیا جائے۔۔۔۔ میرا مطلب ہے میوزیم کے اندر۔۔۔ تو معاشرے کی بہت سی برائیوں کا آپی آپ خاتمہ ہو جائے گا۔''
''ہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس انگریز بینکر نے یہ بھی کہا کہ 3 پائی کی غلطی 3 ملین کی غلطی سے زیادہ ذلیل ہوتی ہے اس لیے کہ اس سے غلطی پن کے علاوہ غلطی کرنے والے کی کم ہمتی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ میں نے وعدہ کیا کہ آئندہ غلطی کرنے سے پہلے اس نکتے اور فرق کو ملحوظ رکھوں گا۔''