حرکت میں برکت
پاکستان کی مختصر تاریخ میں دیکھا یہی گیا ہے کہ گرفتاریوں سے تحریکیں وجود میں آجاتی ہیں ۔
دانش مند حکمرانوں نے غالباً فیصلہ کرلیا ہے کہ اب پٹھوں (مسلز) کی نمائش کا وقت آگیا۔ دھرنوں اور جلسوں نے تو حکومت کا تماشا بنادیا ہے۔ عوام خوف زدہ رہنے کے بجائے حکومت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بالخصوص 'گو نواز گو' نے تولٹیا ہی ڈبودی ۔ اب سمجھ میں یہی آتا ہے کہ ایسا ماحول پیدا کرنے والوں پر سختی کی جائے۔ یہی کچھ مانتے ہوئے آخر کار ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے ساتھ چار اور سیاسی شخصیتوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے۔
وارنٹ جاری کرنے والی اتھارٹی انسداد دہشت گردی کا کورٹ ہے جو عدلیہ کے بجائے انتظامیہ کے تحت خدمات انجام دیتا ہے۔ کہا جارہاہے کہ یہ عمران خان کے تیس نومبر کے جلسے سے بوکھلاکر حکومت نے سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا ہے۔ حکومت کی اپنی کیا سوچ ہے وہ تو وزیروں کے بیانات سے سامنے آئے گی۔ لیکن تجزیہ نگار کی حیثیت سے اس بات کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ طاقت کی بنیاد پر مسئلے سے نمٹے جانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، طاقت کے استعمال پر آج تک کی انسانی تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ رد عمل ضرور ہوتا ہے جلد یا بدیر فیصلے گلے کا پھندا بن جاتے ہیں لیکن دہشت گردوں، ملک دشمنوں اور مجرموں سے نجات کا راستہ بھی یہی طاقت ہوتی ہے جسے ریاست استعمال کرکے اپنی بقا کو قائم رکھتی ہے۔
ایک طرف عمران خان سے حکومت کی سطح پر بات چیت ہو رہی تھی ، دوسری طرف یک بیک گرفتاریوں کا فیصلہ کرلیا گیا۔ حکومت اتنی بات یقیناً جانتی ہے کہ عمران خان اور ان کے دیگر ساتھی نہ میدان چھوڑیں گے نہ پیچھے ہٹیں گے۔ اگر واقعی گرفتاری ہوجاتی ہے تو عوام میں چھوٹا موٹا رد عمل ضرور آئے گا لیکن حکومت کے نقطہ نظر سے میاں نواز شریف کا چین اور پھر جرمنی کے دورے کے اثرات قوم پر اس قدر گہرے پڑے ہیں کہ وہ انتشار یا وسیع پیمانے پر ہڑتالیں اور دھرنوں سے دامن بچالیں گے۔ یہ مسلسل لپکتا ہوا خطرہ کم ہوجائے گا۔ جو گو نواز گو کے نعرے سے پیدا ہوگیا ہے۔
ان گرفتاریوں سے یہ بھی کھل کر آجائے گا کہ ان رہنماؤں کو کس قدر عوامی حمایت حاصل ہے اور اگر تھوڑی بہت ہے تو اسے پنپنے سے پہلے ہی سبوتاژ کردیاجائے گا۔ الزامات کی جو نوعیت ہے اس میں پارلیمنٹ کا تقدس اور پی ٹی وی جیسے قومی ادارے کے وقار کا مسئلہ بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ حکومت کے انداز فکر کی روشنی میں دیکھنا ہے کہ یہ مجھے کرنا، نعرے دینا، لمبی لمبی تقریریں کرنا اور متواتر جلسے کرتے ہوئے لوگوں کو حکومت سے برگشتہ کرنا کس حد تک ٹھوس ہے، یا محض یہ سب کچھ تفنن طبع کے لیے ہوتا رہتا ہے۔
دور نہ جائیں خود پاکستان کی مختصر تاریخ میں دیکھا یہی گیا ہے کہ گرفتاریوں سے تحریکیں وجود میں آجاتی ہیں ۔ فیلڈمارشل ایوب خان کے زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو کی ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت 13 نومبر 1968یعنی پورے چھیالیس سال قبل گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ اس میں الزام تھا کہ کنفیوژن پھیلانے اور لوگوں کو اکسانے کی وجہ سے ان کی گرفتاری ضروری ہوگئی ہے۔ جب کہ اب تو باقاعدہ جرم بیان کر کے گرفتاری کا آغاز ہونے والا ہے۔
اس میں تاریخ دہرانے والی بات نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے کہ وہ مبینہ مہینہ بھی نومبر کا تھا اور تاریخ بھی وہی ہے جب یہ قدم اٹھایا جارہا ہے اس وقت ہم نے دیکھا تھا کہ 13 نومبر 1968 کے بعد پی پی پی میں جان پڑ گئی، دیکھتے دیکھتے بھٹو کو رہا کرو ایک عوامی تحریک بن کر ابھری جس کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ بظاہر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری عوام میں ایسے اثرات نہیں رکھتے کہ ان کی حمایتی مرنے مارنے پر اتر آئیں ۔ لہٰذا کیوں نہ انھیں خوف زدہ کر کے پست ہمت کردیا جائے تاکہ اقتدار میں حائل یہ چھوٹی موٹی رکاوٹ سے جان چھوٹے ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی اس فہرست میں شامل ہیں تو ان کی گرفتاری کیسے اور کیوںکر ممکن ہوگی ۔
صورت حال یہ ہے کہ مستند سیاسی جماعتیں جو عرصے تک اقتدار میں یا شریک اقتدار بھی رہی ہیں ان میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، اے این پی، جمعیت علماء اسلام شامل ہیں۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک صف آراء ہیں جب کہ جماعت اسلامی نے امپائر کا کردار اختیار کرلیا ہے۔ آج بھی عوام کے بڑے حلقے میں سیاسی جد وجہد سے لا تعلقی کی کیفیت موجود ہے۔ حکومت بنام عمران خان معہ ساتھی کے مقدمے سے لا تعلقی میں کمی آئے گی۔ نہ صرف معاشرے اور ملک سے پیوستگی، اچھے برے میں شراکت کا احساس پیدا ہوگا بلکہ افراتفری، دھینگا مشتی، گروہی دھرپٹخ کے بعد توازن و اعتدال کی فضا پیدا ہونا ایک منطقی نتیجہ بن جائے گا۔ ممکن ہے (ن) لیگ نے سوچا ہے
وہی ہے خواب جسے سب نے مل کے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں
اور اسی قبیلہ سازی کا انجام آخر کار قومی احساس کے جذبے کو ابھارے گا۔ جو لوگ حکومت کے اس اقدام کو اگر ملک کے لیے زیاں کا سبب سمجھتے ہیں یا معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ کے امکان گردانتے ہیں تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مستحکم سیاسی سرگرمیوں کا تعلق ذمے داریوں کے احساس اور معاشرے سے مثبت تعلق کے بغیر پائیدار نتیجے حاصل نہیں ہوتے۔ اتفاقی امداد تو ضرور مل جاتی ہے لیکن ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے جاسکتے۔ حکومت کا یہ انتہائی قدم ہے مستقبل کی جانب ایسی پیش رفت سے جس سے نہ صرف اسٹیٹس کو پر اثر پڑے گا بلکہ سیاسی میدان میں نئے ٹیلینٹس بھی ابھر کر آئیں گے۔ وہ جو کہتے ہیں ''حرکت میں برکت ہے'' کہ حکومت نے اچھا ہی کیا کہ حرکت کی ہے، اس کے نتائج کیا نکلیں گے وہ بھی آخر کار سامنے آجائیں گے۔
وارنٹ جاری کرنے والی اتھارٹی انسداد دہشت گردی کا کورٹ ہے جو عدلیہ کے بجائے انتظامیہ کے تحت خدمات انجام دیتا ہے۔ کہا جارہاہے کہ یہ عمران خان کے تیس نومبر کے جلسے سے بوکھلاکر حکومت نے سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا ہے۔ حکومت کی اپنی کیا سوچ ہے وہ تو وزیروں کے بیانات سے سامنے آئے گی۔ لیکن تجزیہ نگار کی حیثیت سے اس بات کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ طاقت کی بنیاد پر مسئلے سے نمٹے جانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، طاقت کے استعمال پر آج تک کی انسانی تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ رد عمل ضرور ہوتا ہے جلد یا بدیر فیصلے گلے کا پھندا بن جاتے ہیں لیکن دہشت گردوں، ملک دشمنوں اور مجرموں سے نجات کا راستہ بھی یہی طاقت ہوتی ہے جسے ریاست استعمال کرکے اپنی بقا کو قائم رکھتی ہے۔
ایک طرف عمران خان سے حکومت کی سطح پر بات چیت ہو رہی تھی ، دوسری طرف یک بیک گرفتاریوں کا فیصلہ کرلیا گیا۔ حکومت اتنی بات یقیناً جانتی ہے کہ عمران خان اور ان کے دیگر ساتھی نہ میدان چھوڑیں گے نہ پیچھے ہٹیں گے۔ اگر واقعی گرفتاری ہوجاتی ہے تو عوام میں چھوٹا موٹا رد عمل ضرور آئے گا لیکن حکومت کے نقطہ نظر سے میاں نواز شریف کا چین اور پھر جرمنی کے دورے کے اثرات قوم پر اس قدر گہرے پڑے ہیں کہ وہ انتشار یا وسیع پیمانے پر ہڑتالیں اور دھرنوں سے دامن بچالیں گے۔ یہ مسلسل لپکتا ہوا خطرہ کم ہوجائے گا۔ جو گو نواز گو کے نعرے سے پیدا ہوگیا ہے۔
ان گرفتاریوں سے یہ بھی کھل کر آجائے گا کہ ان رہنماؤں کو کس قدر عوامی حمایت حاصل ہے اور اگر تھوڑی بہت ہے تو اسے پنپنے سے پہلے ہی سبوتاژ کردیاجائے گا۔ الزامات کی جو نوعیت ہے اس میں پارلیمنٹ کا تقدس اور پی ٹی وی جیسے قومی ادارے کے وقار کا مسئلہ بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ حکومت کے انداز فکر کی روشنی میں دیکھنا ہے کہ یہ مجھے کرنا، نعرے دینا، لمبی لمبی تقریریں کرنا اور متواتر جلسے کرتے ہوئے لوگوں کو حکومت سے برگشتہ کرنا کس حد تک ٹھوس ہے، یا محض یہ سب کچھ تفنن طبع کے لیے ہوتا رہتا ہے۔
دور نہ جائیں خود پاکستان کی مختصر تاریخ میں دیکھا یہی گیا ہے کہ گرفتاریوں سے تحریکیں وجود میں آجاتی ہیں ۔ فیلڈمارشل ایوب خان کے زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو کی ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت 13 نومبر 1968یعنی پورے چھیالیس سال قبل گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ اس میں الزام تھا کہ کنفیوژن پھیلانے اور لوگوں کو اکسانے کی وجہ سے ان کی گرفتاری ضروری ہوگئی ہے۔ جب کہ اب تو باقاعدہ جرم بیان کر کے گرفتاری کا آغاز ہونے والا ہے۔
اس میں تاریخ دہرانے والی بات نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے کہ وہ مبینہ مہینہ بھی نومبر کا تھا اور تاریخ بھی وہی ہے جب یہ قدم اٹھایا جارہا ہے اس وقت ہم نے دیکھا تھا کہ 13 نومبر 1968 کے بعد پی پی پی میں جان پڑ گئی، دیکھتے دیکھتے بھٹو کو رہا کرو ایک عوامی تحریک بن کر ابھری جس کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ بظاہر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری عوام میں ایسے اثرات نہیں رکھتے کہ ان کی حمایتی مرنے مارنے پر اتر آئیں ۔ لہٰذا کیوں نہ انھیں خوف زدہ کر کے پست ہمت کردیا جائے تاکہ اقتدار میں حائل یہ چھوٹی موٹی رکاوٹ سے جان چھوٹے ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی اس فہرست میں شامل ہیں تو ان کی گرفتاری کیسے اور کیوںکر ممکن ہوگی ۔
صورت حال یہ ہے کہ مستند سیاسی جماعتیں جو عرصے تک اقتدار میں یا شریک اقتدار بھی رہی ہیں ان میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، اے این پی، جمعیت علماء اسلام شامل ہیں۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک صف آراء ہیں جب کہ جماعت اسلامی نے امپائر کا کردار اختیار کرلیا ہے۔ آج بھی عوام کے بڑے حلقے میں سیاسی جد وجہد سے لا تعلقی کی کیفیت موجود ہے۔ حکومت بنام عمران خان معہ ساتھی کے مقدمے سے لا تعلقی میں کمی آئے گی۔ نہ صرف معاشرے اور ملک سے پیوستگی، اچھے برے میں شراکت کا احساس پیدا ہوگا بلکہ افراتفری، دھینگا مشتی، گروہی دھرپٹخ کے بعد توازن و اعتدال کی فضا پیدا ہونا ایک منطقی نتیجہ بن جائے گا۔ ممکن ہے (ن) لیگ نے سوچا ہے
وہی ہے خواب جسے سب نے مل کے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں
اور اسی قبیلہ سازی کا انجام آخر کار قومی احساس کے جذبے کو ابھارے گا۔ جو لوگ حکومت کے اس اقدام کو اگر ملک کے لیے زیاں کا سبب سمجھتے ہیں یا معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ کے امکان گردانتے ہیں تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مستحکم سیاسی سرگرمیوں کا تعلق ذمے داریوں کے احساس اور معاشرے سے مثبت تعلق کے بغیر پائیدار نتیجے حاصل نہیں ہوتے۔ اتفاقی امداد تو ضرور مل جاتی ہے لیکن ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے جاسکتے۔ حکومت کا یہ انتہائی قدم ہے مستقبل کی جانب ایسی پیش رفت سے جس سے نہ صرف اسٹیٹس کو پر اثر پڑے گا بلکہ سیاسی میدان میں نئے ٹیلینٹس بھی ابھر کر آئیں گے۔ وہ جو کہتے ہیں ''حرکت میں برکت ہے'' کہ حکومت نے اچھا ہی کیا کہ حرکت کی ہے، اس کے نتائج کیا نکلیں گے وہ بھی آخر کار سامنے آجائیں گے۔