عام عورت کو کیا ملے گا
۔سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جب گھر میں آرام کر کے تھک جاتی ہیں تو ان کا سیاست میں کودنے کا جی چاہتا ہے۔
LONDON:
آج کل ایک بار پھر منتخب ایوانوں میں خواتین کی نشستیں بڑھانے کی باتیں کی جا ر ہی ہیں۔ قومی اسمبلی پارلیمانی امورکی قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر سیاسی جماعتوں کے آرڈر میں ترمیم کرنے کا ایک بل منظور کر لیا ہے۔ یہ بل ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہوکی طرف سے پیش کیا گیا، جس کا مقصد خواتین کی بامعنی نمائندگی کو یقینی بنانا ہے۔ ارکان اسمبلی کا خیال ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھانے کے خیال کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایوانوں میں اگر خواتین کی نشستیں بڑھ بھی جائیں گی، تو اس کاکوئی فائدہ عام عورت کو بھی ہو گا؟ کچھ نہیں! اس کے حقوق پہلے بھی پامال کیے جاتے رہے اور اب بھی پامال کیے جا رہے ہیں۔سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جب گھر میں آرام کر کے تھک جاتی ہیں تو ان کا سیاست میں کودنے کا جی چاہتا ہے اور اس کے لیے تو بہرحال اسمبلیوں میں عورتوںکی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہونا ضروری ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی ارکان کی فہرست پر ایک نظر ڈالیے، آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ چند ایک مثالوں کو چھوڑکر تمام نشستوں پر سیاسی گھرانوں کی بیبیاں براجمان ہیں۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ اس بل کی محرک بھی آصف زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا افضل اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحب زادی ڈاکٹر نفیسہ شاہ ہیں۔ لیکن ایک عام پاکستانی عورت کہاں اور کیسے وہ مقام حاصل کر سکتی ہے، جو اس کا حق ہے۔ سادہ سی سمجھنے والی بات ہے خواتین کی یہ نشستیں خواتین کے حقوق کے عَلم بردار ہونے کی نشان دہی نہیں، بلکہ یہ فقط سیاسی مفاد حاصل کرنے کی غرض سے بڑھائی جاتی ہیں۔ بنت حوا ہمارے ملک میں ظلم کا نشان بنتی آئی ہے اور بن رہی ہے۔
خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل کے خاتمے کے لیے اگر قومی اسمبلی میں بیٹھی خواتین کچھ کرنا ہی چاہتی ہیں تو ترجیح بنیاد پر خواتین کی تعلیم پر خاص توجہ دینی ہو گی، تاکہ انھیں خود اپنے حقوق کا ادراک ہو سکے۔ حقوق کا شعور ہر عورت کے لیے ضروری ہے۔ چاہے وہ شہری خواتین ہوں یا دیہات میں رہنے والی عورتیں۔ ملک کو بنے ہوئے نصف صدی بیت گئی، ہم ملک کی اکیاون فی صد آبادی کو مناسب طبی اور تعلیمی سہولیات تو دے نہیں سکے۔
نہ ان کی ٹرانسپورٹ ہے اور نہ ہی انھیں مکمل طور پر اپنے حقوق حاصل ہیں، ہم ایوانوں میں بیٹھ کر کس حق کی بات کرتے ہیں۔ ایک مثال کے ذریعے ہی خواتین کے مسائل اور حقوق سے حکمرانوں اور منتخب ایوانوں کی چشم پوشی کا پتا چل سکتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ جس طرز پر قائم ہے، اس میں خواتین کا باہر نکلنا اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن ملک میں جاری معاشی بحران نے معاشرے کی اکائی خاندان کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اب اکثر خاندان معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے کفیل افراد کو دہری اور تہری ملازمتیں کرنا پڑ رہی ہیں، تب کہیں جا کر زندگی کی گاڑی آگے بڑھ رہی ہے۔
اس لیے متوسط اور غریب طبقے کے اکثر گھرانوں میں اب خواتین کا برسرروزگار ہونا ناگزیر ہوگیا ہے، چناں چہ مردوں کی طرح عورتوں کی بہت بڑی تعداد ہر روز فیکٹریوں اور دفاتر کا راستہ لیتی ہے، لیکن خواتین کے لیے آج تک ٹرانسپورٹ کا کوئی کام یاب منصوبہ نہیں بنایا جاسکا، محض کاغذی منصوبے اور تقاریر تک ہی بات آئی اور ختم ہوگئی۔ غیرسرکاری تنظیمیں خواتین کے حقوق کی دعوے دار ہیں، مگر افسوس ان کی جانب سے بھی کبھی خواتین کے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ ان تنظیموں نے خواتین کے دیگر بہت سے مسائل پر آواز اٹھائی ہے، مگر عورتوں کو درپیش ٹرانسپورٹ کے مسئلے پر انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ہماری این جی اوز جو پیسہ اپنی تشہیر اور سیمینارز وغیرہ پر لگاتی ہیں اگر یہی پیسہ خواتین کی تعلیم اور ان میں شعور اجاگر کرنے پر صرف کریں، تو دور رَس نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
آج ایک بار پھر منتخب ایوانوں میں خواتین کی نشستوں کی تعداد بڑھانے کی بات کی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ان نشستوں پر بھی گنے چنے سیاسی خاندانوں کے گھر کی خواتین مسلط ہوں گی اور ایک عام عورت کو ایوان میں آنے کا راستہ نہیں دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں وہ اپنے مسائل کیسے حل کرے گی، جو اس جیسی اور عام عورتوں کو درپیش ہیں۔
عام عورت کو بس ایک خاص انداز کے ٹی وی ڈراموں اور فیشن کے جھمیلوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اسے اس بات کا شعور ہی نہیں دیا جا رہا کہ وہ کس طرح ملک کی معیشت اور معاشرت میں اپنا بھر پور حصہ ڈال سکتی ہے اور اپنے آپ اور اپنے خاندان کو بہتر زندگی دے سکتی ہے ۔ اگرچہ ہمارے اردگرد ایسی مثالیں موجود ہیں، لیکن یہ مثالیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔جب عام عورت کو یہ معلوم ہے کہ وہ ایوان تک پہنچ ہی نہیں سکتی، تو وہ کیوں کر سیاسی جدوجہد کرے گی۔ لہٰذا اسے سیاست سے کوئی دل چسپی ہی نہیں اور جو ایوان میں خواتین کی نمائندگی کرنے والی خواتین ہیں، ان میں کسی کو دس فی صد بھی خواتین کے حقیقی مسائل کا ادراک نہیں۔
اگر خواتین کے مسائل حل کرنا ہی مقصود ہے، تو اب وقت آگیا ہے کہ فقط قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے سے ایک قدم آگے بڑھایا جائے اور جو رکن اپنی ذمے داری کو سمجھتے ہیں وہ عملی طور پر پوری سنجیدگی کے ساتھ خواتین اور بچیوں کی تعلیم و تربیت، خواتین میں شعور، خواتین کی صحت، ملازمت کے مواقع اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کریں۔ خواتین کو شعور دینا ہماری بنیادی قومی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں ہر شعبے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، جن میں ذرائع ابلاغ سرفہرست ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی اکثریت ٹی وی ڈرامے پوری دل چسپی سے دیکھتی ہے، جو اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ڈرامے عورت کو فقط مظلوم ظاہر کرتے ہیں، جس سے احساسِ کم تر ی اور کچھ نہ کرنے کا خوف خواتین کے ذہنوں میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔ فوری طور پر ایسے ڈرامے تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن میں خواتین کو حوصلہ اور ہمت کا درس دیا جائے۔ نجی چینلوں کے ساتھ حکومت بھی ایسے ڈرامے بنا کر چینلوں پر ابلاغی مہم کے طور چلوا سکتی ہے۔ یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں جو حکومت نہ کر سکے۔ فقط ہمت اور پلاننگ کی ضرورت ہے۔
آج کل ایک بار پھر منتخب ایوانوں میں خواتین کی نشستیں بڑھانے کی باتیں کی جا ر ہی ہیں۔ قومی اسمبلی پارلیمانی امورکی قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر سیاسی جماعتوں کے آرڈر میں ترمیم کرنے کا ایک بل منظور کر لیا ہے۔ یہ بل ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہوکی طرف سے پیش کیا گیا، جس کا مقصد خواتین کی بامعنی نمائندگی کو یقینی بنانا ہے۔ ارکان اسمبلی کا خیال ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھانے کے خیال کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایوانوں میں اگر خواتین کی نشستیں بڑھ بھی جائیں گی، تو اس کاکوئی فائدہ عام عورت کو بھی ہو گا؟ کچھ نہیں! اس کے حقوق پہلے بھی پامال کیے جاتے رہے اور اب بھی پامال کیے جا رہے ہیں۔سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جب گھر میں آرام کر کے تھک جاتی ہیں تو ان کا سیاست میں کودنے کا جی چاہتا ہے اور اس کے لیے تو بہرحال اسمبلیوں میں عورتوںکی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہونا ضروری ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی ارکان کی فہرست پر ایک نظر ڈالیے، آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ چند ایک مثالوں کو چھوڑکر تمام نشستوں پر سیاسی گھرانوں کی بیبیاں براجمان ہیں۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ اس بل کی محرک بھی آصف زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا افضل اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحب زادی ڈاکٹر نفیسہ شاہ ہیں۔ لیکن ایک عام پاکستانی عورت کہاں اور کیسے وہ مقام حاصل کر سکتی ہے، جو اس کا حق ہے۔ سادہ سی سمجھنے والی بات ہے خواتین کی یہ نشستیں خواتین کے حقوق کے عَلم بردار ہونے کی نشان دہی نہیں، بلکہ یہ فقط سیاسی مفاد حاصل کرنے کی غرض سے بڑھائی جاتی ہیں۔ بنت حوا ہمارے ملک میں ظلم کا نشان بنتی آئی ہے اور بن رہی ہے۔
خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل کے خاتمے کے لیے اگر قومی اسمبلی میں بیٹھی خواتین کچھ کرنا ہی چاہتی ہیں تو ترجیح بنیاد پر خواتین کی تعلیم پر خاص توجہ دینی ہو گی، تاکہ انھیں خود اپنے حقوق کا ادراک ہو سکے۔ حقوق کا شعور ہر عورت کے لیے ضروری ہے۔ چاہے وہ شہری خواتین ہوں یا دیہات میں رہنے والی عورتیں۔ ملک کو بنے ہوئے نصف صدی بیت گئی، ہم ملک کی اکیاون فی صد آبادی کو مناسب طبی اور تعلیمی سہولیات تو دے نہیں سکے۔
نہ ان کی ٹرانسپورٹ ہے اور نہ ہی انھیں مکمل طور پر اپنے حقوق حاصل ہیں، ہم ایوانوں میں بیٹھ کر کس حق کی بات کرتے ہیں۔ ایک مثال کے ذریعے ہی خواتین کے مسائل اور حقوق سے حکمرانوں اور منتخب ایوانوں کی چشم پوشی کا پتا چل سکتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ جس طرز پر قائم ہے، اس میں خواتین کا باہر نکلنا اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن ملک میں جاری معاشی بحران نے معاشرے کی اکائی خاندان کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اب اکثر خاندان معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے کفیل افراد کو دہری اور تہری ملازمتیں کرنا پڑ رہی ہیں، تب کہیں جا کر زندگی کی گاڑی آگے بڑھ رہی ہے۔
اس لیے متوسط اور غریب طبقے کے اکثر گھرانوں میں اب خواتین کا برسرروزگار ہونا ناگزیر ہوگیا ہے، چناں چہ مردوں کی طرح عورتوں کی بہت بڑی تعداد ہر روز فیکٹریوں اور دفاتر کا راستہ لیتی ہے، لیکن خواتین کے لیے آج تک ٹرانسپورٹ کا کوئی کام یاب منصوبہ نہیں بنایا جاسکا، محض کاغذی منصوبے اور تقاریر تک ہی بات آئی اور ختم ہوگئی۔ غیرسرکاری تنظیمیں خواتین کے حقوق کی دعوے دار ہیں، مگر افسوس ان کی جانب سے بھی کبھی خواتین کے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ ان تنظیموں نے خواتین کے دیگر بہت سے مسائل پر آواز اٹھائی ہے، مگر عورتوں کو درپیش ٹرانسپورٹ کے مسئلے پر انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ہماری این جی اوز جو پیسہ اپنی تشہیر اور سیمینارز وغیرہ پر لگاتی ہیں اگر یہی پیسہ خواتین کی تعلیم اور ان میں شعور اجاگر کرنے پر صرف کریں، تو دور رَس نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
آج ایک بار پھر منتخب ایوانوں میں خواتین کی نشستوں کی تعداد بڑھانے کی بات کی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ان نشستوں پر بھی گنے چنے سیاسی خاندانوں کے گھر کی خواتین مسلط ہوں گی اور ایک عام عورت کو ایوان میں آنے کا راستہ نہیں دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں وہ اپنے مسائل کیسے حل کرے گی، جو اس جیسی اور عام عورتوں کو درپیش ہیں۔
عام عورت کو بس ایک خاص انداز کے ٹی وی ڈراموں اور فیشن کے جھمیلوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اسے اس بات کا شعور ہی نہیں دیا جا رہا کہ وہ کس طرح ملک کی معیشت اور معاشرت میں اپنا بھر پور حصہ ڈال سکتی ہے اور اپنے آپ اور اپنے خاندان کو بہتر زندگی دے سکتی ہے ۔ اگرچہ ہمارے اردگرد ایسی مثالیں موجود ہیں، لیکن یہ مثالیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔جب عام عورت کو یہ معلوم ہے کہ وہ ایوان تک پہنچ ہی نہیں سکتی، تو وہ کیوں کر سیاسی جدوجہد کرے گی۔ لہٰذا اسے سیاست سے کوئی دل چسپی ہی نہیں اور جو ایوان میں خواتین کی نمائندگی کرنے والی خواتین ہیں، ان میں کسی کو دس فی صد بھی خواتین کے حقیقی مسائل کا ادراک نہیں۔
اگر خواتین کے مسائل حل کرنا ہی مقصود ہے، تو اب وقت آگیا ہے کہ فقط قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے سے ایک قدم آگے بڑھایا جائے اور جو رکن اپنی ذمے داری کو سمجھتے ہیں وہ عملی طور پر پوری سنجیدگی کے ساتھ خواتین اور بچیوں کی تعلیم و تربیت، خواتین میں شعور، خواتین کی صحت، ملازمت کے مواقع اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کریں۔ خواتین کو شعور دینا ہماری بنیادی قومی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں ہر شعبے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، جن میں ذرائع ابلاغ سرفہرست ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی اکثریت ٹی وی ڈرامے پوری دل چسپی سے دیکھتی ہے، جو اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ڈرامے عورت کو فقط مظلوم ظاہر کرتے ہیں، جس سے احساسِ کم تر ی اور کچھ نہ کرنے کا خوف خواتین کے ذہنوں میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔ فوری طور پر ایسے ڈرامے تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن میں خواتین کو حوصلہ اور ہمت کا درس دیا جائے۔ نجی چینلوں کے ساتھ حکومت بھی ایسے ڈرامے بنا کر چینلوں پر ابلاغی مہم کے طور چلوا سکتی ہے۔ یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں جو حکومت نہ کر سکے۔ فقط ہمت اور پلاننگ کی ضرورت ہے۔