وزیراعظم کا حکم… کیا نصاب میں ترامیم ہو سکیں گی
عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی نصاب میں ترامیم وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہیں
بلاشبہ پاکستان کی تعلیمی زبوں حالی حکومت اور معاشرے سے سنجیدگی کی متقاضی ہے، لیکن وزیراعظم پاکستان کا پرائمری سے یونیورسٹی تک کے لازمی مضامین میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترمیم کا حکم بہرحال موجودہ مایوس کن تعلیمی منظرنامے میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
میاں نواز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ مذکورہ کلاسوں کے اردو، مطالعہ پاکستان اور انگریزی کے نصاب میں ترامیم کریں اور صوبوں کی مشاورت سے ان مضامین میں آئین، جمہوریت کی ضرورت، جمہوری عمل کے تقاضے، میڈیا کی آزادی، عدالتی نگرانی اور آزاد عدلیہ کے حوالے سے مضامین شامل کیے جائیں۔
نواز شریف نے اس ضمن میں دو ماہ کا وقت دیتے ہوئے ایسا مواد شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، جس سے ملکی ترقی اور شناخت میں جمہوریت کا کلیدی کردار اجاگر ہو سکے اور طلبہ میں قومی و بین الاقوامی تناظر میں آئینی و جمہوری عمل، لسانیات، معاشرت، ثقافتی تفریق اور خصوصیات کے بارے میں سمجھ بوجھ پیدا کی جاسکے۔ مضامین کے ذریعے مذکورہ عنوانات کے حوالے سے طالب علموں کے ذہن میں موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے اور ان میں اس مناسبت سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ماہرین تعلیم اور پبلشنگ اداروں کے ساتھ رابطہ کرکے مضامین، تقاریر، اساتذہ کیلئے رہنما اصول اور ان کی تربیت کے اہتمام سمیت ہم نصابی سرگرمیوں اور امتحانات کیلئے متعلقہ مواد تیار کرے اور آئندہ سال کے نصاب میں اس کی شمولیت یقینی بنائے۔
اگرچہ یہ موضوعات موجودہ حالات کے تناظر میں حکومت کی سیاسی ترجیحات سے تعبیر ہوتے ہیں، لیکن نصاب میں بدلتی جہتوں کے مطابق تبدیلی وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔ نصاب تعلیم میں ترمیم اور اصلاحات کی ضرورت گذشتہ ایک عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی، یہی وجہ ہے کہ ماہرین تعلیم نے وزیراعظم کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اسے خوش آئند اور وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے مکمل حمایت کی ہے۔
لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ماضی سے اب تک تعلیمی معاملات پر کمیٹیاں تو بنائی جاتی رہی ہیں لیکن ان کمیٹیوں میں ایسے سنجیدہ اور منجھے ہوئے افراد کو شامل ہی نہیں کیا جاتا جو ہر سطح کے اساتذہ اور ہر عمر کے بچوں کی ضروریات کو سمجھ کر نصاب سازی کرسکیں۔ یعنی اگر پرائمری کلاسز کیلئے نصاب مرتب کیا جاتا ہے تو کمیٹی کا کوئی رکن اس سطح کے اساتذہ سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کرتا کہ ان کے مسائل اور ضروریات کیا ہیں؟ جو انہیں تدریس کے دوران کلاس روم میں درپیش آتی ہیں، نہ ہی کوئی ان بچوں کی ذہنی سطح اور استعداد کو پرکھنے کی کوشش کرتا ہے جو نصاب سے استفادہ کرتے ہیں۔
اگر کوئی فرد اتنا تجربہ کار ہوچکا ہے کہ وہ ان مسائل اور ضروریات کو سمجھتا اور انہی کے مطابق نصاب کی درستی اور ترامیم کرتا ہے تو اس کی تجاویز پر عمل کرنا گوارا نہیں کیا جاتا اور ذاتی مفادات کو آڑے رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن ہی کی مثال لے لیں جنہیں 1994ء میں اس وقت کی حکومت نے پہلی سے بارہویں جماعت کے لئے نصاب کی درستی اور ترمیم کیلئے قائم کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ ان کی دی گئی سفارشات قابل عمل تھیں لیکن چاروں صوبوں کے ٹیکسٹ بک بورڈ نے ان کی رپورٹ پر عمل نہیں کیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہر ادارے اور حکومت کی اپنی الگ ترجیحات، مفادات اور نظریات رہے ہیں جنہیں پسِ پشت ڈالنا ان کیلئے محال ہوتا ہے۔
یہ بے حسی کا عالم ہے کہ بیوروکریسی کے متضاد فیصلوں اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے وطن عزیز کا تعلیمی نصاب ایک عرصہ سے تبدیلی کے نام پر طالبعلموں کے ساتھ ان کے والدین کو بھی گومگوں کی کیفیت سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ کبھی ترمیم کی یہ چھری نظریات کے نام پر اسلامیات کے نصاب پر چلائی جاتی ہے تو کبھی تاریخ کی ''درستگی'' کے نام پر مطالعہ پاکستان، اردو اور سائنس مضامین پر۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہم 1947 ء سے اب تک 14 سے زائد تعلیمی پالیساں دیکھ چکے ہیں مگر آج تک یہاں کوئی مستقل اور مستند تعلیمی پالیسی نافذ نہیں ہو سکی نہ ہی نصاب میں کوئی تحقیق وترقی ہو پائی ہے۔
انٹرمیڈیٹ، بی اے کی انگلش اور اردو کی کتب ہی دیکھ لیں۔ پچھلے 30 برسوں میں ان میں کتنی ترمیم کی گئی؟ جو اسباق ہمارے والدین نے پڑھے، وہی ہمیں بھی رٹے لگانے کو ملے اور اب ہمارے بچے بھی انہی عنوانات کو پڑھ رہے ہیں۔ انٹرمیڈیٹ سال دوم کی اردو کی کتاب پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر ابواب ایسے ہیں جن میں ذکر کی گئی ٹیکنالوجی کئی برسوں سے ملک میں متعارف ہوچکی ہے، لیکن طلبہ کو ابھی تک انہی کی آگاہی دی جارہی ہے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات، دھرنوں اور احتجاجی سیاست نے بچے بچے کو ''جمہوری اور سیاسی'' بنا دیا ہے۔ آج ملک کا ہر بچہ سیاست سے نابلد سہی، لیکن دھرنیلی سیاستدانوں کی وجہ سے اس بارے میں جاننے کا تجسس ضرور رکھتا ہے۔ اس تناظر میں مذکورہ ترامیم بلاشبہ وقت کی اہم ضرورت تھیں۔ حکومت کے حالیہ فیصلے سے نصاب میں آئین، جمہوریت، مساوات، ملکی تعمیر و ترقی میں آئینی بالادستی کی ضرورت اور اہمیت جیسے موضوعات شامل ہونے کے بعد جہاں طلبہ کا فکری معیار تبدیل ہوگا وہیں طلبہ کو جمہوری عمل، عدالتی معاملات اور انتخابات کے امور کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
ان ترامیم سے جہاں جمہوری اقدر کو فروغ ملے گا وہیں نئی نسل جمہوریت کے اصل مفہوم، مقصد، طریقہ کار، کردار اور کارکردگی سے بھی آگاہ ہوگی ... عصری رجحانات کو مکمل بصیرت کے ساتھ سمجھ سکے گی، اور معاشرے کو درکار فکر و شعور کے ساتھ مستقبل کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے اور اپنا کردار بھی ادا کر سکے گی۔ یہ بچے جو اپنے روز مرہ معاملات، دوست احباب، اساتذہ اور والدین کی گفتگو میں جمہوریت، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی، دھرنوں اور احتجاج کا ذکر سنتے، لیکن درحقیقت ان بلاؤں سے نابلد ہیں۔ مذکورہ ابواب نصاب میں شامل ہونے کے بعد وہ بذات خود ان کے اثرات و مضمرات سے آگاہ ہوں گے اور بلاشبہ نئی نسل کے اذہان میں تبدیلی کا یہ اقدام ایک مثبت اور اچھی پیش رفت ہے۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ دیگر کلاسز کے نصاب کا بھی از سر نو جائزہ لیا جائے کیونکہ اس وقت ہمیں ایسا نصاب درکار ہے جس میں طالب علم کو ایک ذمہ دار، مہذب، صاحبِ کردار، شائستہ اور شعوری شہری بنانے کا مواد شامل ہو اور ان کے عقائد و نظریات انہیں اپنی اقدار، قومی مقاصد، رجحانات اور مذہب سے انحراف کرنے اور معاشرے کا عضوِ معطل بننے سے روکے رکھیں۔ لہٰذا نئی نسل کا ماضی سے رشتہ توڑنے کے بجائے انہیں اپنے بڑوں کی جدوجہد سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ قوم کی شناخت بن سکیں۔ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو شاید ہی کوئی فرد ملے جو مسلم عہد سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں کچھ جانتا ہو۔ لہٰذا ایسی اصلاحات درپیش ہیں جو نتیجہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ قومی مقاصد سے ہم آہنگ ہوں تاکہ مشترکہ سوچ و فکر اور یکساں رویوں کی تشکیل ہوسکے۔
میاں نواز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ مذکورہ کلاسوں کے اردو، مطالعہ پاکستان اور انگریزی کے نصاب میں ترامیم کریں اور صوبوں کی مشاورت سے ان مضامین میں آئین، جمہوریت کی ضرورت، جمہوری عمل کے تقاضے، میڈیا کی آزادی، عدالتی نگرانی اور آزاد عدلیہ کے حوالے سے مضامین شامل کیے جائیں۔
نواز شریف نے اس ضمن میں دو ماہ کا وقت دیتے ہوئے ایسا مواد شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، جس سے ملکی ترقی اور شناخت میں جمہوریت کا کلیدی کردار اجاگر ہو سکے اور طلبہ میں قومی و بین الاقوامی تناظر میں آئینی و جمہوری عمل، لسانیات، معاشرت، ثقافتی تفریق اور خصوصیات کے بارے میں سمجھ بوجھ پیدا کی جاسکے۔ مضامین کے ذریعے مذکورہ عنوانات کے حوالے سے طالب علموں کے ذہن میں موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے اور ان میں اس مناسبت سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ماہرین تعلیم اور پبلشنگ اداروں کے ساتھ رابطہ کرکے مضامین، تقاریر، اساتذہ کیلئے رہنما اصول اور ان کی تربیت کے اہتمام سمیت ہم نصابی سرگرمیوں اور امتحانات کیلئے متعلقہ مواد تیار کرے اور آئندہ سال کے نصاب میں اس کی شمولیت یقینی بنائے۔
اگرچہ یہ موضوعات موجودہ حالات کے تناظر میں حکومت کی سیاسی ترجیحات سے تعبیر ہوتے ہیں، لیکن نصاب میں بدلتی جہتوں کے مطابق تبدیلی وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔ نصاب تعلیم میں ترمیم اور اصلاحات کی ضرورت گذشتہ ایک عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی، یہی وجہ ہے کہ ماہرین تعلیم نے وزیراعظم کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اسے خوش آئند اور وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے مکمل حمایت کی ہے۔
لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ماضی سے اب تک تعلیمی معاملات پر کمیٹیاں تو بنائی جاتی رہی ہیں لیکن ان کمیٹیوں میں ایسے سنجیدہ اور منجھے ہوئے افراد کو شامل ہی نہیں کیا جاتا جو ہر سطح کے اساتذہ اور ہر عمر کے بچوں کی ضروریات کو سمجھ کر نصاب سازی کرسکیں۔ یعنی اگر پرائمری کلاسز کیلئے نصاب مرتب کیا جاتا ہے تو کمیٹی کا کوئی رکن اس سطح کے اساتذہ سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کرتا کہ ان کے مسائل اور ضروریات کیا ہیں؟ جو انہیں تدریس کے دوران کلاس روم میں درپیش آتی ہیں، نہ ہی کوئی ان بچوں کی ذہنی سطح اور استعداد کو پرکھنے کی کوشش کرتا ہے جو نصاب سے استفادہ کرتے ہیں۔
اگر کوئی فرد اتنا تجربہ کار ہوچکا ہے کہ وہ ان مسائل اور ضروریات کو سمجھتا اور انہی کے مطابق نصاب کی درستی اور ترامیم کرتا ہے تو اس کی تجاویز پر عمل کرنا گوارا نہیں کیا جاتا اور ذاتی مفادات کو آڑے رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن ہی کی مثال لے لیں جنہیں 1994ء میں اس وقت کی حکومت نے پہلی سے بارہویں جماعت کے لئے نصاب کی درستی اور ترمیم کیلئے قائم کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ ان کی دی گئی سفارشات قابل عمل تھیں لیکن چاروں صوبوں کے ٹیکسٹ بک بورڈ نے ان کی رپورٹ پر عمل نہیں کیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہر ادارے اور حکومت کی اپنی الگ ترجیحات، مفادات اور نظریات رہے ہیں جنہیں پسِ پشت ڈالنا ان کیلئے محال ہوتا ہے۔
یہ بے حسی کا عالم ہے کہ بیوروکریسی کے متضاد فیصلوں اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے وطن عزیز کا تعلیمی نصاب ایک عرصہ سے تبدیلی کے نام پر طالبعلموں کے ساتھ ان کے والدین کو بھی گومگوں کی کیفیت سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ کبھی ترمیم کی یہ چھری نظریات کے نام پر اسلامیات کے نصاب پر چلائی جاتی ہے تو کبھی تاریخ کی ''درستگی'' کے نام پر مطالعہ پاکستان، اردو اور سائنس مضامین پر۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہم 1947 ء سے اب تک 14 سے زائد تعلیمی پالیساں دیکھ چکے ہیں مگر آج تک یہاں کوئی مستقل اور مستند تعلیمی پالیسی نافذ نہیں ہو سکی نہ ہی نصاب میں کوئی تحقیق وترقی ہو پائی ہے۔
انٹرمیڈیٹ، بی اے کی انگلش اور اردو کی کتب ہی دیکھ لیں۔ پچھلے 30 برسوں میں ان میں کتنی ترمیم کی گئی؟ جو اسباق ہمارے والدین نے پڑھے، وہی ہمیں بھی رٹے لگانے کو ملے اور اب ہمارے بچے بھی انہی عنوانات کو پڑھ رہے ہیں۔ انٹرمیڈیٹ سال دوم کی اردو کی کتاب پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر ابواب ایسے ہیں جن میں ذکر کی گئی ٹیکنالوجی کئی برسوں سے ملک میں متعارف ہوچکی ہے، لیکن طلبہ کو ابھی تک انہی کی آگاہی دی جارہی ہے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات، دھرنوں اور احتجاجی سیاست نے بچے بچے کو ''جمہوری اور سیاسی'' بنا دیا ہے۔ آج ملک کا ہر بچہ سیاست سے نابلد سہی، لیکن دھرنیلی سیاستدانوں کی وجہ سے اس بارے میں جاننے کا تجسس ضرور رکھتا ہے۔ اس تناظر میں مذکورہ ترامیم بلاشبہ وقت کی اہم ضرورت تھیں۔ حکومت کے حالیہ فیصلے سے نصاب میں آئین، جمہوریت، مساوات، ملکی تعمیر و ترقی میں آئینی بالادستی کی ضرورت اور اہمیت جیسے موضوعات شامل ہونے کے بعد جہاں طلبہ کا فکری معیار تبدیل ہوگا وہیں طلبہ کو جمہوری عمل، عدالتی معاملات اور انتخابات کے امور کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
ان ترامیم سے جہاں جمہوری اقدر کو فروغ ملے گا وہیں نئی نسل جمہوریت کے اصل مفہوم، مقصد، طریقہ کار، کردار اور کارکردگی سے بھی آگاہ ہوگی ... عصری رجحانات کو مکمل بصیرت کے ساتھ سمجھ سکے گی، اور معاشرے کو درکار فکر و شعور کے ساتھ مستقبل کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے اور اپنا کردار بھی ادا کر سکے گی۔ یہ بچے جو اپنے روز مرہ معاملات، دوست احباب، اساتذہ اور والدین کی گفتگو میں جمہوریت، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی، دھرنوں اور احتجاج کا ذکر سنتے، لیکن درحقیقت ان بلاؤں سے نابلد ہیں۔ مذکورہ ابواب نصاب میں شامل ہونے کے بعد وہ بذات خود ان کے اثرات و مضمرات سے آگاہ ہوں گے اور بلاشبہ نئی نسل کے اذہان میں تبدیلی کا یہ اقدام ایک مثبت اور اچھی پیش رفت ہے۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ دیگر کلاسز کے نصاب کا بھی از سر نو جائزہ لیا جائے کیونکہ اس وقت ہمیں ایسا نصاب درکار ہے جس میں طالب علم کو ایک ذمہ دار، مہذب، صاحبِ کردار، شائستہ اور شعوری شہری بنانے کا مواد شامل ہو اور ان کے عقائد و نظریات انہیں اپنی اقدار، قومی مقاصد، رجحانات اور مذہب سے انحراف کرنے اور معاشرے کا عضوِ معطل بننے سے روکے رکھیں۔ لہٰذا نئی نسل کا ماضی سے رشتہ توڑنے کے بجائے انہیں اپنے بڑوں کی جدوجہد سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ قوم کی شناخت بن سکیں۔ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو شاید ہی کوئی فرد ملے جو مسلم عہد سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں کچھ جانتا ہو۔ لہٰذا ایسی اصلاحات درپیش ہیں جو نتیجہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ قومی مقاصد سے ہم آہنگ ہوں تاکہ مشترکہ سوچ و فکر اور یکساں رویوں کی تشکیل ہوسکے۔