ایک مزدور رہنماء کی سادہ لوحیاں دوسرا اور آخری حصہ
ٹریڈ یونین مزدوروں کا ’’حق‘‘ ہوتا ہے لیکن عملاً مزدوروں کو یہ ’’حق‘‘ کتنا اور کتنے اداروں میں دیا جاتا ہے؟
پہلے لطیفہ سنئیے ایک شاعر نے ایک امیر کا قصیدہ پڑھا جس میں امیر کو بانس پر چڑھایا گیا تھا، امیر خوش ہو گیا اور بولا ۔۔۔ تم کل آ جائو میں تمہیں بہت بڑا انعام دوں گا، شاعر دوسرے دن پہنچا تو امیر نے پوچھا کیوں بھئی کس لیے آئے ہو، شاعر بولا ۔۔۔ وہ آپ نے کل انعام دینے کا وعدہ کیا تھا، اس پر امیر بولا ۔۔۔ کمال کرتے ہو کل تم نے بھی جھوٹ بولا اور میں نے بھی، حساب برابر ۔۔۔ اگر آپ کے خیال میں یہ لطیفہ ٹھیک نہیں بیٹھا تو حقیقہ سنیے، مرزا غالبؔ کی محفل میں ایک سید زادے نے ان کے پاؤں دبانا چاہیے، تو غالبؔ نے کہا نہیں تم سید زادے ہو تم سے پاؤں دبوانا گناہ ہے۔
سید زادے نے کہا تو پھر چلیے اگر آپ کو مفت پسند نہیں تو اجرت دے دیجیے اور مرزا کے پاؤں دبانا شروع کر دیے اچھی طرح دبانے کے بعد بولے ۔۔۔ چلیے اب معاوضہ دے دیجیے ۔۔۔ اب پر مرزا بولے ۔۔۔ کیسا معاوضہ تم نے میرے پاؤں دابے اور میں نے تمہارا معاوضہ دابا، حساب برابر ۔۔۔ خدا کے اس سادہ دل بندے فضل منان مزدور رہنماء کی سادہ لوحی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ یہ بے چارا ابھی تک اس غلط فہمی میں پڑا ہوا ہے کہ حکومت اور حکومت کی ساری چھوٹی بڑی ''سوئیاں'' یا توپیں، بندوقیں، طمنچے جو ''کہتے ہیں'' وہ کرتے بھی ہیں۔
سرکاری کتابوں میں جو ''کہا'' جاتا ہے وہ کیا نہیں جاتا اور جو ''کیا'' جاتا ہے وہ کہا نہیں جاتا، مطلب یہ کہ ''راو ڈی راٹھور'' جو کہتا ہے وہ نہیں کرتا اور نہیں کہتا وہ ہی کرتا ہے، یہ اعلانات بیانات وعدہ جات و عیدجات، بجٹ جات، منصوبہ جات تو صرف اس لیے کیے جاتے ہیں کہ عوام بے چارے ''زندہ'' ہیں، اور ہمیشہ شرمندہ بھی رہیں عوام بھی اب جان چکے ہیں کہ اس لیے ابھی تک ''بقید حیات'' ہیں ورنہ
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
اٹھاسٹھ سال میں جو وعدے وعید اعلانات بیانات خوش خبریاں اور مژدہ جات سنائے جا چکے ہیں وہ اگر پورے ہوتے تو پاکستان کا نام کبھی کا بدل کر جنت الفردوس رکھا جا چکا ہوتا
تیری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
تو کبھی نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا ہے
ہمارا یہ بھولا بادشاہ جس کا نام فضل منان ہے اور نہ جانے کس زمانے اور کس دنیا کا رہنے والا ہے کیوں کہ یہ ابھی تک مزدوروں کے حقوق مراعات اور وغیرہ جات کے مایا جال کو سینے سے لگائے ہوئے ہے کیوں کہ یہ بجٹ میں مزدوروں کی اعلان کردہ اجرت، ٹریڈ یونین کا حق اور لیبر ڈیپارٹمنٹ نامی کسی عنقا کا ذکر کر رہا ہے یعنی
اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
کہتا ہے کہ ٹریڈ یونین مزدوروں کا ''حق'' ہوتا ہے لیکن عملاً مزدوروں کو یہ ''حق'' کتنا اور کتنے اداروں میں دیا جاتا ہے؟ اس سے بھی زیادہ بڑا ''کھلا راز'' اور واشگاف انکشاف جناب نے یہ کیا ہے کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ مالکوں کی پشت پناہی کرتی ہے جب بھی مزدور اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں ان کو ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے یا ان کے خلاف جھوٹے کیس بنائے جاتے ہیں، یہ سب لکھنے کے بعد جناب مزدور یار نے ۔۔۔ بات کا رخ ہماری طرف موڑتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم ان کے ''مسائل و رسائل'' جن میں صحیح اجرت اور حقوق کی ادائیگی، اوور ٹائم، چھٹیاں اور دیگر مراعات شامل ہیں کے لیے آواز اٹھائیں اور اپنے قلم سے ان مسائل کی نشاندہی کر کے اور مزدوروں کے حق میں لکھ کر عنداللہ' ماجور ہوں، اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ہم دوسرے اہل قلم وغیرہ کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس دلائیں۔
اب آپ ہی بتائیں کہ ہم بتلائیں کیا ۔۔۔ ایسے بے خبر اور بھولے بادشاہ اور خدا کے سادہ دل بندے کو کون سمجھائے کہ ''ہماری کوئی آواز'' کبھی کسی نے سنی ہے جو اب سنے گا، وہ میڈیا وہ اہل قلم وہ صحافی وہ کالم نگار، پرانی کہانیوں کے کردار ہیں جن کی باتیں سنی بھی جاتی ہیں اب تو ہم بس چیونگم ہی چبا رہے ہیں ۔۔۔ ریل کے ڈبے میں ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ میں تھوڑا اونچا ضرور سنتا ہوں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب بالکل ہی بہرا ہو گیا ہوں کیوں کہ آپ مسلسل بولے جا رہے ہیں اور مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دیتا ۔۔۔ اس پر دوسرے نے کہا بھائی میں نے کب کچھ کہا ہے میں تو چیونگم چبا رہا ہوں ۔۔۔ اگر آپ اس سے خوش ہیں تو چلو ہم بھی چیونگم چباتے ہیں آخر میں ہم اپنا ہی ایک شعر آپ کی نذر کرتے ہیں کہ
برقہ تہ چہ شاعری کڑے پہ دے بے شعورہ وخت کے
لکہ دشتہ کے سوک آوری خپل آواز پہ واپسی کے
یعنی اے برقؔ تم یہ جو لکھتے ہو یہ ایسا ہے جیسے کوئی صحرا میں خود ہی بولے اور خود ہی سنے۔
سید زادے نے کہا تو پھر چلیے اگر آپ کو مفت پسند نہیں تو اجرت دے دیجیے اور مرزا کے پاؤں دبانا شروع کر دیے اچھی طرح دبانے کے بعد بولے ۔۔۔ چلیے اب معاوضہ دے دیجیے ۔۔۔ اب پر مرزا بولے ۔۔۔ کیسا معاوضہ تم نے میرے پاؤں دابے اور میں نے تمہارا معاوضہ دابا، حساب برابر ۔۔۔ خدا کے اس سادہ دل بندے فضل منان مزدور رہنماء کی سادہ لوحی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ یہ بے چارا ابھی تک اس غلط فہمی میں پڑا ہوا ہے کہ حکومت اور حکومت کی ساری چھوٹی بڑی ''سوئیاں'' یا توپیں، بندوقیں، طمنچے جو ''کہتے ہیں'' وہ کرتے بھی ہیں۔
سرکاری کتابوں میں جو ''کہا'' جاتا ہے وہ کیا نہیں جاتا اور جو ''کیا'' جاتا ہے وہ کہا نہیں جاتا، مطلب یہ کہ ''راو ڈی راٹھور'' جو کہتا ہے وہ نہیں کرتا اور نہیں کہتا وہ ہی کرتا ہے، یہ اعلانات بیانات وعدہ جات و عیدجات، بجٹ جات، منصوبہ جات تو صرف اس لیے کیے جاتے ہیں کہ عوام بے چارے ''زندہ'' ہیں، اور ہمیشہ شرمندہ بھی رہیں عوام بھی اب جان چکے ہیں کہ اس لیے ابھی تک ''بقید حیات'' ہیں ورنہ
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
اٹھاسٹھ سال میں جو وعدے وعید اعلانات بیانات خوش خبریاں اور مژدہ جات سنائے جا چکے ہیں وہ اگر پورے ہوتے تو پاکستان کا نام کبھی کا بدل کر جنت الفردوس رکھا جا چکا ہوتا
تیری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
تو کبھی نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا ہے
ہمارا یہ بھولا بادشاہ جس کا نام فضل منان ہے اور نہ جانے کس زمانے اور کس دنیا کا رہنے والا ہے کیوں کہ یہ ابھی تک مزدوروں کے حقوق مراعات اور وغیرہ جات کے مایا جال کو سینے سے لگائے ہوئے ہے کیوں کہ یہ بجٹ میں مزدوروں کی اعلان کردہ اجرت، ٹریڈ یونین کا حق اور لیبر ڈیپارٹمنٹ نامی کسی عنقا کا ذکر کر رہا ہے یعنی
اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
کہتا ہے کہ ٹریڈ یونین مزدوروں کا ''حق'' ہوتا ہے لیکن عملاً مزدوروں کو یہ ''حق'' کتنا اور کتنے اداروں میں دیا جاتا ہے؟ اس سے بھی زیادہ بڑا ''کھلا راز'' اور واشگاف انکشاف جناب نے یہ کیا ہے کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ مالکوں کی پشت پناہی کرتی ہے جب بھی مزدور اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں ان کو ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے یا ان کے خلاف جھوٹے کیس بنائے جاتے ہیں، یہ سب لکھنے کے بعد جناب مزدور یار نے ۔۔۔ بات کا رخ ہماری طرف موڑتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم ان کے ''مسائل و رسائل'' جن میں صحیح اجرت اور حقوق کی ادائیگی، اوور ٹائم، چھٹیاں اور دیگر مراعات شامل ہیں کے لیے آواز اٹھائیں اور اپنے قلم سے ان مسائل کی نشاندہی کر کے اور مزدوروں کے حق میں لکھ کر عنداللہ' ماجور ہوں، اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ہم دوسرے اہل قلم وغیرہ کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس دلائیں۔
اب آپ ہی بتائیں کہ ہم بتلائیں کیا ۔۔۔ ایسے بے خبر اور بھولے بادشاہ اور خدا کے سادہ دل بندے کو کون سمجھائے کہ ''ہماری کوئی آواز'' کبھی کسی نے سنی ہے جو اب سنے گا، وہ میڈیا وہ اہل قلم وہ صحافی وہ کالم نگار، پرانی کہانیوں کے کردار ہیں جن کی باتیں سنی بھی جاتی ہیں اب تو ہم بس چیونگم ہی چبا رہے ہیں ۔۔۔ ریل کے ڈبے میں ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ میں تھوڑا اونچا ضرور سنتا ہوں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب بالکل ہی بہرا ہو گیا ہوں کیوں کہ آپ مسلسل بولے جا رہے ہیں اور مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دیتا ۔۔۔ اس پر دوسرے نے کہا بھائی میں نے کب کچھ کہا ہے میں تو چیونگم چبا رہا ہوں ۔۔۔ اگر آپ اس سے خوش ہیں تو چلو ہم بھی چیونگم چباتے ہیں آخر میں ہم اپنا ہی ایک شعر آپ کی نذر کرتے ہیں کہ
برقہ تہ چہ شاعری کڑے پہ دے بے شعورہ وخت کے
لکہ دشتہ کے سوک آوری خپل آواز پہ واپسی کے
یعنی اے برقؔ تم یہ جو لکھتے ہو یہ ایسا ہے جیسے کوئی صحرا میں خود ہی بولے اور خود ہی سنے۔