آگے بڑھو
امریکا بہت کامیاب ہے، ہزار سے زیادہ تو یہاں بلینرز ہیں اور ان گنت ملینرز، لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔
ISLAMABAD:
کچھ دن پہلے ایک ای میل آئی، یہ ملتان میں رہنے والے ایک لڑکے نے لکھی تھی، اس کالم کے لیے اس لڑکے کا فرضی نام جاوید رکھ لیتے ہیں، جاوید نے اس ای میل میں پوچھا تھا کہ اگر وہ کوئی بزنس ایک اچھے آئیڈیے مگر بغیر پیسے کے کرنا چاہے تو کیا کرے؟
ای میل پڑھ کر اندازہ ہوا کہ جاوید محنتی ہے اور اس کا آئیڈیا بھی اچھا ہے، ای میل میں اس نے نہ صرف اپنا پورا پلان لکھا تھا بلکہ جن چیزوں کا وہ بزنس کرنا چاہتا تھا ان کی تصویریں بھی تیار کر کے اس ای میل میں شامل کی گئی تھیں۔
جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ کہ جاوید نے لکھا تھا کہ اس نے پاکستان بھر میں درجنوں کالم نگاروں کو ایسی ہی ای میلز پہلے کی ہیں لیکن کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔ جاوید پیسے نہیں مانگ رہا تھا صرف رہنمائی یعنی گائیڈینس چاہ رہا تھا۔ پھر بھی اسے کسی نے جواب نہیں دیا۔
آئیڈیا ہے، جوش ہے اور محنت سے ڈر بھی نہیں لیکن آگے کیسے بڑھا جائے؟ یہ مسئلہ صرف اس ایک لڑکے کا نہیں بلکہ پاکستان میں ہزاروں، لاکھوں نوجوانوں کا ہے، جاوید کی طرح ان کا آئیڈیا بھی کسی کے میل بکس میں جا کر دم توڑ دیتا ہے اور وہ لڑکا جو آنے والے وقت میں پاکستان کا ایک اور درخشاں نام بن سکتا تھا وہ کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرتے اپنی ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ جاوید اور اس جیسے سارے لڑکوں کو میں اپنی اور باقی تمام کالم نگاروں کی طرف سے جواب یہاں دے رہا ہوں تا کہ جاوید اور اس کے جیسے دوسرے لڑکے اپنی منزل کی طرف پہلا قدم اٹھا سکیں۔
امریکا بہت کامیاب ہے، ہزار سے زیادہ تو یہاں بلینرز ہیں اور ان گنت ملینرز، لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، امریکا میں بھی غربت کا یہ عالم تھا کہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے خودکشیاں تک کی ہیں۔۔ وہ زمانہ جب کسی کو پیسے بھی دو تو وہ امریکا نہیں آنا چاہتا تھا لیکن یہ سب بدلا، جب امریکا کے سامنے ایسی مثال آئی جس میں ایک عام لڑکے نے اپنے جذبے سے امریکا کی اکنامی بدل دی۔
ہنری فورڈ وہ پہلے انسان تھے جنھوں نے گیسولین سے گاڑی چلانے کا آئیڈیا نکالا، پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی ورکشاپ میں نہیں بلکہ اپنے کچن میں کام کرتے جہاں ان کی بیوی کھانا بھی پکا رہی ہوتیں، لیکن کئی سال کی محنت کے بعد انھوں نے پٹرول سے چلنے والی پہلی گاڑی تیار کر لی اور یہ اپنی گلی میں رہنے والے ایک ڈاکٹر کو بیچی، اس طرح شروع ہوا وہ سلسلہ جس سے پورا امریکا بدل گیا، نہ ہی صرف امریکا میں پٹرول سے گاڑیاں چلنے لگیں بلکہ یہاں شروع ہوا ''Entrepreneur'' کا رجحان، یعنی صرف ایک شخص آئیڈیے اور جذبے کے ساتھ اپنی قسمت آزماتا ہے اور محنت کر کے کامیابی کی امید کرتا ہے۔
ہنری فورڈ سے شروع ہونے والا سیلف میڈ بزنس مین بننے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، یہی وجہ بنی امریکا کی کامیابی کی۔ ہنری فورڈ، تھامس ایڈیسن سے لے کر آج ایپل بنانے والے اسٹیو جابس تک یہ سب مثالیں ہیں کہ جنھوں نے اپنے کام کا آغاز اپنے گیراج یا بیسمنٹ سے کیا اور ان کی کامیابی کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔
امریکن سسٹم نے جو اچھا کام کیا وہ یہ کہ اس Independent بزنس مین کے آئیڈیے کی حوصلہ افزائی کی، اچھے آئیڈیاز پر پرائیویٹ انویسٹرز، حکومت، بینکوں سب نے پیسے لگائے جس سے عام لوگ بلینرز تک بن گئے، امریکا میں رہنے والے امیر پاکستانیوں میں ایک شاہد خان امریکا 1977ء میں اسٹوڈنٹ ویزا پر پاکستان سے آئے تھے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معمولی سی نوکری کرتے تھے لیکن گورنمنٹ کے اسمال بزنس لون سے انھیں پچاس ہزار ڈالر کا لون ملا جس سے وہ آج تین بلین ڈالرز کے مالک بن گئے۔
دنیا میں لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکن اپنی ٹیکنالوجی کی وجہ سے آگے بڑھے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ یہ ملک ان بزنس مین کی وجہ سے آگے بڑھا ہے جنھوں نے امریکا میں بزنس شروع کیے اور اپنی اکنامی میں بے حساب پیسہ لائے۔
آج پاکستان میں لون صرف کسی گارنٹی پر ملتا ہے۔ اگر گھر یا اپنی کوئی پراپرٹی آپ نہیں رکھوا سکتے تو لون نہیں ملتا، ایسے میں جاوید جیسے لڑکے کیا کریں؟ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا میں انٹرنیٹ کی وجہ سے گلوبلائزیشن ہونے کی وجہ سے اب پاکستان میں رہ کر بھی ہم امریکن اکنامی کو کام میں لا سکتے ہیں۔
آج انٹرنیٹ پر درجنوں ایسی سائٹس ہیں جہاں امریکنز محض اچھے آئیڈیے پر آپ کو پیسے دینے پر تیار ہوتے ہیں۔ ''KICK STARTES.COM'' نے پچھلے چار سال میں چھ سو ملین ڈالرز سے زیادہ ان لوگوں کو دیے ہیں جن کے آئیڈیاز اچھے تھے مگر ان کے پاس فنڈنگ نہیں تھی۔
کک اسٹارٹر پر دنیا کا کوئی بھی شخص اپنے پروجیکٹ کا آئیڈیا ڈال سکتا ہے اور لوگوں کو اگر یہ کلک کرتا ہے تو اسے فنڈنگ مل سکتی ہے۔ ایسی بھی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی شخص نے ایک لاکھ ڈالر مانگے مگر اس کا آئیڈیا لوگوں کو اتنا اچھا لگا کہ اسے دس لاکھ ڈالر مل گئے۔
کک اسٹارٹر جیسی درجنوں سائٹس اس وقت موجود ہیں، انڈی گوگو، ٹی اسپرنگ، کازیز وغیرہ کچھ ایسی بھی سائٹس ہیں جہاں آپ مدد مانگ سکتے ہیں جیسے ''گو فنڈ می'' ایسی سائٹ ہے جہاں آپ اپنی اسٹوری لکھ دیں اور وہ لوگ جنھیں آپ سے ہمدردی ہے آپ کی مدد کریں گے جیسے کسی کو کالج کی فیس چاہیے یا بیٹی کی شادی کے لیے پیسے چاہیے۔
آج دنیا میں خرچ کیے جانے والے 80% پیسے امریکنز خرچ کرتے ہیں اور دنیا میں صرف 4% لوگ امریکنز ہیں یعنی امریکنز نہایت امیر ہیں اور یہ پیسہ آسمان سے نہیں اترا، وہ سسٹم جو ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے آگے بڑھنے میں وہ راز ہے ان کی کامیابی کا۔
آج ایک عام لڑکا جو کچھ کرنا چاہتاہے وہ اس طرح کی سائٹ سے مدد لے سکتا ہے، ان سائٹس پر کامیاب Campaigns سے ڈیٹا جمع کرے اور خود اس سے بہتر پریزنٹیشن بنا کر پیش کرے لیکن ہم کو یہیں نہیں رکنا چاہیے۔ کوئی بینک، کوئی پرائیویٹ انویسٹر بھی اس فنڈنگ کے آئیڈیے کو سمجھے اور دیکھیں کہ وہ اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جس سے ہم بھی اپنے جاوید کو کل کا ہنری فورڈ بنا سکتے ہیں۔
کچھ دن پہلے ایک ای میل آئی، یہ ملتان میں رہنے والے ایک لڑکے نے لکھی تھی، اس کالم کے لیے اس لڑکے کا فرضی نام جاوید رکھ لیتے ہیں، جاوید نے اس ای میل میں پوچھا تھا کہ اگر وہ کوئی بزنس ایک اچھے آئیڈیے مگر بغیر پیسے کے کرنا چاہے تو کیا کرے؟
ای میل پڑھ کر اندازہ ہوا کہ جاوید محنتی ہے اور اس کا آئیڈیا بھی اچھا ہے، ای میل میں اس نے نہ صرف اپنا پورا پلان لکھا تھا بلکہ جن چیزوں کا وہ بزنس کرنا چاہتا تھا ان کی تصویریں بھی تیار کر کے اس ای میل میں شامل کی گئی تھیں۔
جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ کہ جاوید نے لکھا تھا کہ اس نے پاکستان بھر میں درجنوں کالم نگاروں کو ایسی ہی ای میلز پہلے کی ہیں لیکن کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔ جاوید پیسے نہیں مانگ رہا تھا صرف رہنمائی یعنی گائیڈینس چاہ رہا تھا۔ پھر بھی اسے کسی نے جواب نہیں دیا۔
آئیڈیا ہے، جوش ہے اور محنت سے ڈر بھی نہیں لیکن آگے کیسے بڑھا جائے؟ یہ مسئلہ صرف اس ایک لڑکے کا نہیں بلکہ پاکستان میں ہزاروں، لاکھوں نوجوانوں کا ہے، جاوید کی طرح ان کا آئیڈیا بھی کسی کے میل بکس میں جا کر دم توڑ دیتا ہے اور وہ لڑکا جو آنے والے وقت میں پاکستان کا ایک اور درخشاں نام بن سکتا تھا وہ کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرتے اپنی ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ جاوید اور اس جیسے سارے لڑکوں کو میں اپنی اور باقی تمام کالم نگاروں کی طرف سے جواب یہاں دے رہا ہوں تا کہ جاوید اور اس کے جیسے دوسرے لڑکے اپنی منزل کی طرف پہلا قدم اٹھا سکیں۔
امریکا بہت کامیاب ہے، ہزار سے زیادہ تو یہاں بلینرز ہیں اور ان گنت ملینرز، لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، امریکا میں بھی غربت کا یہ عالم تھا کہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے خودکشیاں تک کی ہیں۔۔ وہ زمانہ جب کسی کو پیسے بھی دو تو وہ امریکا نہیں آنا چاہتا تھا لیکن یہ سب بدلا، جب امریکا کے سامنے ایسی مثال آئی جس میں ایک عام لڑکے نے اپنے جذبے سے امریکا کی اکنامی بدل دی۔
ہنری فورڈ وہ پہلے انسان تھے جنھوں نے گیسولین سے گاڑی چلانے کا آئیڈیا نکالا، پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی ورکشاپ میں نہیں بلکہ اپنے کچن میں کام کرتے جہاں ان کی بیوی کھانا بھی پکا رہی ہوتیں، لیکن کئی سال کی محنت کے بعد انھوں نے پٹرول سے چلنے والی پہلی گاڑی تیار کر لی اور یہ اپنی گلی میں رہنے والے ایک ڈاکٹر کو بیچی، اس طرح شروع ہوا وہ سلسلہ جس سے پورا امریکا بدل گیا، نہ ہی صرف امریکا میں پٹرول سے گاڑیاں چلنے لگیں بلکہ یہاں شروع ہوا ''Entrepreneur'' کا رجحان، یعنی صرف ایک شخص آئیڈیے اور جذبے کے ساتھ اپنی قسمت آزماتا ہے اور محنت کر کے کامیابی کی امید کرتا ہے۔
ہنری فورڈ سے شروع ہونے والا سیلف میڈ بزنس مین بننے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، یہی وجہ بنی امریکا کی کامیابی کی۔ ہنری فورڈ، تھامس ایڈیسن سے لے کر آج ایپل بنانے والے اسٹیو جابس تک یہ سب مثالیں ہیں کہ جنھوں نے اپنے کام کا آغاز اپنے گیراج یا بیسمنٹ سے کیا اور ان کی کامیابی کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔
امریکن سسٹم نے جو اچھا کام کیا وہ یہ کہ اس Independent بزنس مین کے آئیڈیے کی حوصلہ افزائی کی، اچھے آئیڈیاز پر پرائیویٹ انویسٹرز، حکومت، بینکوں سب نے پیسے لگائے جس سے عام لوگ بلینرز تک بن گئے، امریکا میں رہنے والے امیر پاکستانیوں میں ایک شاہد خان امریکا 1977ء میں اسٹوڈنٹ ویزا پر پاکستان سے آئے تھے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معمولی سی نوکری کرتے تھے لیکن گورنمنٹ کے اسمال بزنس لون سے انھیں پچاس ہزار ڈالر کا لون ملا جس سے وہ آج تین بلین ڈالرز کے مالک بن گئے۔
دنیا میں لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکن اپنی ٹیکنالوجی کی وجہ سے آگے بڑھے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ یہ ملک ان بزنس مین کی وجہ سے آگے بڑھا ہے جنھوں نے امریکا میں بزنس شروع کیے اور اپنی اکنامی میں بے حساب پیسہ لائے۔
آج پاکستان میں لون صرف کسی گارنٹی پر ملتا ہے۔ اگر گھر یا اپنی کوئی پراپرٹی آپ نہیں رکھوا سکتے تو لون نہیں ملتا، ایسے میں جاوید جیسے لڑکے کیا کریں؟ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا میں انٹرنیٹ کی وجہ سے گلوبلائزیشن ہونے کی وجہ سے اب پاکستان میں رہ کر بھی ہم امریکن اکنامی کو کام میں لا سکتے ہیں۔
آج انٹرنیٹ پر درجنوں ایسی سائٹس ہیں جہاں امریکنز محض اچھے آئیڈیے پر آپ کو پیسے دینے پر تیار ہوتے ہیں۔ ''KICK STARTES.COM'' نے پچھلے چار سال میں چھ سو ملین ڈالرز سے زیادہ ان لوگوں کو دیے ہیں جن کے آئیڈیاز اچھے تھے مگر ان کے پاس فنڈنگ نہیں تھی۔
کک اسٹارٹر پر دنیا کا کوئی بھی شخص اپنے پروجیکٹ کا آئیڈیا ڈال سکتا ہے اور لوگوں کو اگر یہ کلک کرتا ہے تو اسے فنڈنگ مل سکتی ہے۔ ایسی بھی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی شخص نے ایک لاکھ ڈالر مانگے مگر اس کا آئیڈیا لوگوں کو اتنا اچھا لگا کہ اسے دس لاکھ ڈالر مل گئے۔
کک اسٹارٹر جیسی درجنوں سائٹس اس وقت موجود ہیں، انڈی گوگو، ٹی اسپرنگ، کازیز وغیرہ کچھ ایسی بھی سائٹس ہیں جہاں آپ مدد مانگ سکتے ہیں جیسے ''گو فنڈ می'' ایسی سائٹ ہے جہاں آپ اپنی اسٹوری لکھ دیں اور وہ لوگ جنھیں آپ سے ہمدردی ہے آپ کی مدد کریں گے جیسے کسی کو کالج کی فیس چاہیے یا بیٹی کی شادی کے لیے پیسے چاہیے۔
آج دنیا میں خرچ کیے جانے والے 80% پیسے امریکنز خرچ کرتے ہیں اور دنیا میں صرف 4% لوگ امریکنز ہیں یعنی امریکنز نہایت امیر ہیں اور یہ پیسہ آسمان سے نہیں اترا، وہ سسٹم جو ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے آگے بڑھنے میں وہ راز ہے ان کی کامیابی کا۔
آج ایک عام لڑکا جو کچھ کرنا چاہتاہے وہ اس طرح کی سائٹ سے مدد لے سکتا ہے، ان سائٹس پر کامیاب Campaigns سے ڈیٹا جمع کرے اور خود اس سے بہتر پریزنٹیشن بنا کر پیش کرے لیکن ہم کو یہیں نہیں رکنا چاہیے۔ کوئی بینک، کوئی پرائیویٹ انویسٹر بھی اس فنڈنگ کے آئیڈیے کو سمجھے اور دیکھیں کہ وہ اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جس سے ہم بھی اپنے جاوید کو کل کا ہنری فورڈ بنا سکتے ہیں۔